ابومحمدعبدالاحدسلفی
Member




تحریر:



{مسلم فی صحیحہ:224/1ح535_بخاری:6251}

{صحیح البخاری:631}

{موسوعۃ الاجماع فی الفقۃ الاسلامی:جلد2صفحه704}
نوٹ:زبان سےنیت کرناثابت نہیں ہے_لہذا دل میں نیت ہونی چاہئے۔
{فقه الاسلام لشیخ ابومحمدعبدالاحدسلفی(قلمی نسخه),صفحه:54}

{عبدالرزاق:6428وسندہ صحیح}

{ابن ابی شیبه فی المصنف:11380وسندہ صحیح}

{بخاری:740_امام مالک فی المؤطا:377}
یا
*دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر,سینےپررکهیں_
{امام احمدفی المسندہ:22313وسندہ حسن}

{سنن ابی داود:775وسندہ حسن}

{سنن النَسائی:906_احمد:497/2واسنادہ صحیح}

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۲﴾مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۙ ۬ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ﴿۷}
{بخاری:1335_عبدالرزاق:6428_شرح صحیح بخاری(مولاناداؤدراز):329,332/2,اشاعت2016ء,مکتبہ اسلامیہ_ابوداود:3198_ترمذی:1027_نسائی:1986}

حضرت طلحہ بن عبداللّٰہ بن عوف بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما کے پیچھے ایک میت کا جَنازہ پڑھا ۔ انھوں نے سورۂ فاتحہ اور ایک اور سورت پڑھی اور ( دونوں ) بلند آواز سے پڑھیں حتی کہ ہمیں سنائی دیں ۔ جب وہ فارغ ہوئے تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور ان سے اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا : یہ سنت اور حق ہے ۔ "
{سنن النسائی:74,75/4ح1989وسندہ صحیح}

سیّدنا ابواُمامہ رضی اللّٰه عنه سےروایت ہےکہ انہوں نےکہا"نمازجَنازہ میں سنت یہ ہےکہ پہلی تکبیر کےبعدسورۃ فاتحہ آہستہ پڑهی جائے(جہراًپڑهنابهی ثابت ہے_بخاری:۱۳۳۵)_پهرتین تکبیریں کہےاور آخری تکبیرپرسلام پهیر دے_"
[نسائی کتاب الجنائز,باب الدعاء:۱۹۹۱,وقال الشیخ البانی رحمه اللّٰه:اسنادہ صحیح]

{غنیۃ الطالبین,صفحه:557,مترجم:حافظ مبشرحسین لاہوری,مطبوعہ:علی آصف پرنٹرزلاہور,ناشر:نعمانی کتب خانہ لاہور}

{سنن النسائی:906_ابن حبان,الاحسان:1805وسندہ صحیح}

{مسلم:400/54_شافعی فی الام:108/1}

أَخْبَرَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ وَهُوَ ابْنُ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ عَلَى جَنَازَةٍ، فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، وَسُورَةٍ وَجَهَرَ حَتَّى أَسْمَعَنَا، فَلَمَّا فَرَغَ أَخَذْتُ بِيَدِهِ، فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: «سُنَّةٌ وَحَقٌّ»
حضرت طلحہ بن عبداللّٰہ بن عوف بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما کے پیچھے ایک میت کا جنازہ پڑھا ۔ انھوں نے سورۂ فاتحہ اور ایک اور سورت پڑھی اور ( دونوں ) بلند آواز سے پڑھیں حتی کہ ہمیں سنائی دیں ۔ جب وہ فارغ ہوئے تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور ان سے اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا : یہ سنت اور حق ہے ۔
{سنن النسائی:74,75/4ح1989وسندہ صحیح}

{ماہنامہ الحدیث:3صفحہ20}

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ .
{مصنف عبدالرزاق:489/3ح6428 وسندہ صحیح۔صحیح البخاری:۳۳۷۰ وسندہ صحیح}

{بخاری:1334_مسلم:952}

{مصنف ابن ابی شیبہ:296/3ح11380_جزء رفع الیدین للبخاری(مترجم),صفحہ105حدیث:178 وسندہ صحیح}

{مصنف عبدالرزاق:6428}
چندمسنون دعائیں درج ذیل ہیں:

{سنن الترمِذی:۱۰۲۴ وسندہ صحیح۔السنن الکبری للبیھقی:۴۱/۴۔موطاامام مالک:۲۲۸/۱ وسندہ صحیح}

{صحیح المسلم:۲۲۳۲/۹۶۳}

{سنن ابن ماجہ:۱۴۹۹،سنن ابی داود:۳۲۰۲ وسندہ حسن}
*میت پرکوئی دعا موقت(خاص طور پرمقررشدہ)نہیں ہے_لہذا دُعائیں جمع کی جاسکتی ہیں_
{مصنف ابی ابی شیبه:295/3ح11370 وسندہ صحیح}

{بخاری:1334_مسلم:952}

{سنن الکبری للبیهقی:72/4ح6993_مصنف ابن ابی شیبه:499/2ح11491 وسندہ صحیح}

{مصنف عبدالرزاق:489/3ح6428وسندہ صحیح,وهومرفوع_مصنف ابن ابی شیبه:307/3ح11491,عن ابن عمرمن فعله وسندہ صحیح_فقه الاسلام از ابومحمدعبدالاحدسلفی,(قلمی نسخه),صفحه:232}

{غنیتہ الطالبین(مترجم),صفحہ:557,نعمانی کتب خانه لاہور}

شیخ ناصرالدین البانی رحمه اللّٰه نے(احکام الجنائز:صفحه۱۲۷میں بحوالہ بیهقی:۴۳/۴)نمازجنازہ میں دونوں طرف سلام والی روایت لکھ کراسےحسن قراردیاہے_لیکن اس کی سند دو وجہ سےضعیف ہے_


{طبقات المدلسین:۴۵/۲}


سیّدنا ابواُمامہ رضی اللّٰه عنه سےروایت ہےکہ انہوں نےکہا"نمازجَنازہ میں سنت یہ ہےکہ پہلی تکبیر کےبعدسورۃ فاتحہ آہستہ پڑهی جائے(جہراًپڑهنابهی ثابت ہے_بخاری:۱۳۳۵)_پهرتین تکبیریں کہےاور آخری تکبیرپرسلام پهیر دے_"
[نسائی کتاب الجنائز,باب الدعاء:۱۹۹۱,وقال الشیخ البانی رحمه اللّٰه:اسنادہ صحیح]

{المغنی لابن قدامه:۳۶۶/۲}

{احکام الجنائز,صفحه:۱۵۳۔فتاویٰ الدّعوة لمفتی عبدالرحمٰن عابد}



أَخْبَرَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ وَهُوَ ابْنُ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ عَلَى جَنَازَةٍ، فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، وَسُورَةٍ وَجَهَرَ حَتَّى أَسْمَعَنَا، فَلَمَّا فَرَغَ أَخَذْتُ بِيَدِهِ، فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: «سُنَّةٌ وَحَقٌّ»
حضرت طلحہ بن عبداللّٰہ بن عوف بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما کے پیچھے ایک میت کا جنازہ پڑھا ۔ انھوں نے سورۂ فاتحہ اور ایک اور سورت پڑھی اور ( دونوں ) بلند آواز سے پڑھیں حتی کہ ہمیں سنائی دیں ۔ جب وہ فارغ ہوئے تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور ان سے اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا : یہ سنت اور حق ہے۔ "
{سنن النَسائی,کتاب الجنائز,باب الدعاء:۱۹۸۹واسنادہ حسن صحیح_وصحیح مسلم,کتاب الجنائز,باب الدعاءللمیت...الخ:۹۶۳_وابوداؤد,کتاب الجنائز,باب الدعاء للمیت:۳۲۰۲واسنادہ حسن صحیح_وصحیح البخاری:۱۳۳۵}

أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ أَنَّهُ قَالَ: «السُّنَّةُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَازَةِ أَنْ يَقْرَأَ فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى بِأُمِّ الْقُرْآنِ مُخَافَتَةً، ثُمَّ يُكَبِّرَ ثَلَاثًا، وَالتَّسْلِيمُ عِنْدَ الْآخِرَةِ»
حضرت ابواُمامہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ نماز جَنازہ میں سنت یہ ہے کہ پہلی تکبیر کے بعد سورۂ فاتحہ آہستہ پڑھے ، پھر تین تکبیریں کہے اور آخری تکبیر کے بعد سلام پھیر دے ۔
{نسائی,کتاب الجنائز,باب الدعاء:۱۹۹۱}


"عبدالعزیز بن محمد نے عبدالواحد بن حمزہ سے اور انھوں نے عباد بن عبداللّٰہ بن زبیر سے روایت کی کہ حضرت عائشہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا نے حکم دیا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا جَنازہ مسجد میں سے گزارا جائے ( تاکہ )وہ بھی ان کا جَنازہ ادا کرسکیں ۔ آپ کی بات پر لوگوں نے اعتراض کیا تو حضرت عائشہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا : لوگ کس قدر جلد بھول گئے! رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے( بدری صحابی)سہیل بن بیضاء رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی نماز جنازہ مسجد ہی میں ادا کی تھی۔"
{مسلم,کتاب الجنائز,باب جنازہ فی المسجد:۲۲۵۲/۹۷۳}

موسیٰ بن عقبہ نے عبدالواحد سے اور انھوں نے عباد بن عبداللہ بن زبیر سے روایت کی ، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے پیغام بھیجا کہ ان کے جنازے کو مسجد میں سے گزار کرلے جائیں تا کہ وہ بھی ان کی نماز جنازہ ادا کرسکیں تو انھوں ( صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین ) نے ایسا ہی کیا ، اس جنازے کو ان کے حجروں کے سامنے روک ( کررکھ ) دیا گیا ( تاکہ ) وہ نماز جنازہ پڑھ لیں ۔ ( پھر ) اس ( جنازے ) کو باب الجنائز سے ، جو مقاعد کی طرف ( کھلتا ) تھا ، باہر نکالا گیا ۔ اس کے بعد ان ( ازواج ) کو یہ بات پہنچی کہ لوگوں نے معیوب سمجھا ہے اور کہا ہے : جنازوں کو مسجد میں نہیں لایا جاتا تھا ۔ یہ بات حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تک پہنچی تو انھوں نے فرمایا : لوگوں نےاس کام کو معیوب سمجھنے میں کتنی جلدی کی جس کا انھیں علم نہیں!انھوں نے ہماری اس بات پر اعتراض کیا ہے کہ جنازہ مسجد میں لایاجائے ، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جنازہ مسجد کے اندر ہی پڑھا تھا۔"
{مسلم,کتاب الجنائز,باب جنازہ فی المسجدا:۲۲۵۳/۹۷۳}
فقه الحدیث:

(فتاویٰ الدّعوۃ:جلد۱صفحه۳۰۲-۳۰۳)













و ما علینا الا البلاغ
Last edited: