ابومحمدعبدالاحدسلفی
Member








اگرپانچ ماہ یا زیادہ مدت والا بچہ مُردہ پیدا ہو جائےیا پیدا ہوتے ہی مرجائےتو اس کی نماز جنازہ پڑهنی چاہئے_
کیونکہ چارماہ کےبعدبچےمیں رُوح پهونک دی جاتی ہے_

ہم کو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بیان سنایا اور آپ سچوں کے سچے تھے اور آپ (ﷺ)کی سچائی کی زبردست گواہی دی گئی۔ فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص پہلے اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفہ ہی رکھا جاتا ہے۔ پھر اتنی ہی مدت میں «علقة» یعنی خون کی پھٹکی ( بستہ خون ) بنتا ہے پھر اتنے ہی عرصہ میں «مضغة» ( یعنی گوشت کا لوتھڑا ) پھر چار ماہ بعد اللّٰہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اس کے بارے میں ( ماں کے پیٹ ہی میں ) چار باتوں کے لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اس کی روزی کا، اس کی موت کا، اس کا کہ وہ بدبخت ہے یا نیک بخت۔ پس واللّٰہ، تم میں سے ایک شخص دوزخ والوں کے سے کام کرتا رہتا ہے اور جب اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک بالشت کا فاصلہ یا ایک ہاتھ کا فاصلہ باقی رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر اس پر غالب آتی ہے اور وہ جنت والوں کے سے کام کرنے لگتا ہے اور جنت میں جاتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص جنت والوں کے سے کام کرتا رہتا ہے اور جب اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ باقی رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر اس پر غالب آتی ہے اور وہ دوزخ والوں کے کام کرنے لگتا ہے اور دوزخ میں جاتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ آدم بن ابی ایاس نے اپنی روایت میں یوں کہا کہ جب ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے۔ "
{صحیح بخاری:6594_صحیح مسلم:6723/2643}

نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوار جنازے کے پیچھے چلے، اور پیدل چلنے والا جنازے کے پیچھے، آگے دائیں بائیں کسی بھی جانب جنازے کے قریب ہو کر چل سکتا ہے، اور کچے بچوں کی نماز جنازہ پڑھی جائے اور ان کے والدین کے لیے رحمت و مغفرت کی دُعا کی جائے ۔
تخریج و تحقیق الحدیث:
[سنن ابی داود:3180,وسندہ صحیح_سنن الترمذی:1031,وقال:حسن صحیح_وصححہ ابن حبان:769والحاکم علی شرط البخاری:363/1ووافقہ الذہبی]

1.(السقط (سین پر تینوں حرکات کے ساتھ)اس سے مُراد نا تمام بچہ ہے۔
2.نا تمام پیدا ہونے والے بچے کی نماز جنازہ ادا کرنے کی بابت اختلاف ہے۔





[اضواءالمصابیح فی تحقیق مشکوٰۃ المصابیح،جلد۱،صفحہ:۱۳۰،مکتبہ اسلامیہ]

[مصنف ابنِ ابی شیبہ،۳۱۷/۳،رقم الحدیث:۱۱۵۸۴،وسندہ صحیح]

[مصنف ابنِ ابی شیبہ:۱۱۵۸۸،اضواءالمصابیح:۱۳۱/۱وھو صحیح]

[مصنف ابنِ ابی شیبہ،۳۱۷/۳،رقم الحدیث:۱۱۵۹۰وسندہ صحیح]

[اضواءالمصابیح:۱۳۱/۱]


{مصنف ابن ابی شیبه:317/3ح11589,وقال الشیخ زبیرعلی زئی:وسندہ صحیح}

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسرائیل اور دیگر کئی لوگوں نے اسے سعید بن عبداللہ سے روایت کیا ہے، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ بچے کی نماز جنازہ یہ جان لینے کے بعد کہ اس میں جان ڈال دی گئی تھی پڑھی جائے گی گو( ولادت کے وقت )وہ رویا نہ ہو، احمد اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللّٰہ تعالیٰ اسی کے قائل ہیں."
{سنن الترمذی:1031}



جس روایت میں آیا ہےکہ
وَعَنْ جَابِرٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الطِّفْلُ لَا يُصَلَّى عَلَيْهِ وَلَا يَرِثُ وَلَا يُوَرَّثُ حَتَّى يَسْتَهِلَّ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ إِلَّا أَنَّهُ لَمْ يَذْكُرْ: «وَلَا يُورث»
حضرت جابر رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جب تک پیدا ہونے والا بچہ چیخے نہیں تب تک اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی نہ وہ وارث بنے گا اور نہ ہی اس کی میراث تقسیم ہو گی ۔‘‘ ترمذی ، ابن ماجہ ، لیکن انہوں نے یہ ذکرنہیں کیا کہ ’’ اس کی میراث تقسیم نہیں ہو گی ۔‘‘
{مشکوٰۃ المصابیح:۵۵۳/۱،رقم الحدیث:۱۶۹۱}


ابوالزبیرمدلّس وعنعن وللحدیث طرق ضعیفۃ عند ابنِ حبان(الموارد:۱۲۲۳)والحاکم:۳۴۸،۳۴۹/۴وغیرھما
لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔

نابالغ بچےکانمازِجنازہ نہ پڑھنا بھی جائز ہے
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ ابْنُ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ شَهْرًا، فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا اس وقت وہ اٹھارہ مہینے کے تھے تو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔
[سنن ابی داود،کتاب الجنائز:۳۱۸۷،وسندہ حسن]



