
صحیح بخاری کی ایک بہترین شرح۔علامہ زرکشی نے پہلے ”الفصیح فی شرح الجامع الصحیح“ کے نام سے ایک مفصل شرح لکھنی شروع کی تھی۔ لیکن شاید اسے ناقص ہی چھوڑ دئے تھے، حافظ ابن حجر کہتے ہیں: "شرع في شرح البخاري فتركه مسودة وقفت على بعضها ولخص منه التنقيح في مجلد". (الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامن، 5/134).
قسطلانی نے بھی ذکر کیا ہے کہ ”الفصیح“ کا ایک ٹکڑا انھوں نے زرکشی کے ہاتھ کا لکھا ہوا دیکھا ہے۔ «إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري، 1/43).
الحمد للہ ملخص ”التنقیح“ مطبوع ہے۔ اور بہت ہی مفید ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ زرکشی نے اس میں الفاظ کے ضبط کا حد درجہ اہتمام کیا ہے۔
اگر کسی لفظ کا صحیح ضبط معلوم کرنا ہو تو اس کتاب کی طرف رجوع کافی مفید ہوگا۔
اسی خوبی کی وجہ سے حافظ ابن حجر نے اپنی شرح فتح الباری میں اس سے کافی استفادہ کیا ہے۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے تو شاید بیجا نہ ہوگا کہ تقریبا ”التنقیح“ کا اکثر وبیشتر مادہ علمیہ فتح الباری کے اندر آگیا ہے۔ حافظ ابن حجر بسا اوقات ان کے نام کی صراحت کرتے ہیں، بسا اوقات نہیں۔