کلام الہی کو اپنے اوپر حاوی کرکے قرآن کی تلاوت کریں

نماز میں روحانیت کی شدید ضرورت ہے دوران تراویح نمازی کو ایک طرح کا سکون قلب اور ایک قسم کی طمانینت خاطر حاصل ہونا چاہیے جو صرف غالب محبت الہی کامل اخلاص اور ایک خوش وکن وروح پرور آواز کے مالک قاری کی قرات سے ہوتا ہے ...
*تلاوت قرآن کا اصول یہ ہے کہ کلام الٰہی کے معانی و مفاہیم کو اپنے اوپر حاوی کرکے ان میں مکمل گم ہو کر قرآن کی تلاوت کی جائے خود قرآن پر مسلط نہ ہوا جائے* لیکن آج کل کے بیشتر حفاظ کا المیہ یہ ہے کہ وہ چونکہ قرآن کو سمجھتے نہیں ہیں اس لئے ناحق قرآن پر مسلط ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور اس قوت وشدت کے ساتھ مخارج قلقلہ صفیر ادغام اور اخفاء کی ادائیگی کرتے ہیں کہ اس چکر میں روح قرآنی بالکل مجروح ہو جاتی ہے جس سے باذوق مصلیان کو بڑی کلفت محسوس ہوتی ہے...
ان حفاظ وقراء نے تجویدی قواعد کی رعایت کو وجوب کا درجہ دے دیا ہے اور اس سلسلے میں ادنی کمی برداشت کرنے کو روا نہیں سمجھتے ہیں بلکہ اسی کو معیار انتخاب ومیزان حسن وقبح بنائے بیٹھے ہیں کہ جو جس قدر تکلف کے ساتھ مخارج کی ادائیگی کر پائے وہ اتنا اچھا قاری ہے... حالانکہ یہ لحن جلی ولحن خفی اور تجویدی قواعد کوئی لزومی اشیاء نہیں ہیں اگر کوئی لحن جلی کا مرتکب ہو جاتا ہے لیکن وہ عمدا ایسا نہیں کرتا تو گرچہ معنی ہی کیوں نہ بدل جائے نماز پر کوئی اثر نہیں پڑتا...سلف صالحین امام مالک اور امام احمد وغیرہم رحمہ اللہ مد امالہ تشدید اور آواز میں اتار چڑھاؤ کے غالب اہتمام کو نا پسند کرتے تھے.
لہذا ہمیں چاہئے کہ ہم جزئیات اور لا یعنیات میں نہ الجھ کر اصل الاصول اور غرض منشود کے حصول کی کوشش کریں قرآن کو سمجھنے اور اد کی تاثیر کو قبول کرنے کی سعی کریں ان شاء اللہ اللہ جل شانہ ہمیں اجر عظیم سے نوازے گا...