ذیشان خان

Administrator
تراویح پڑھنے والے کے پیچھے عشاء کی نماز کا حکم

🖋 حافظ علیم الدین یوسف

مسئلہ ہذا میں علماء کرام کے دو اقوال ہیں:
پہلا قول: تراویح پڑھنے والے کے پیچھے عشاء کی نماز درست نہیں ہے.
دوسرا قول: اگر کسی کی نماز عشاء فوت ہو جائے اور وہ امام کو حالت تراویح میں پائے تو عشاء کی نیت سے امام کے ساتھ شامل ہو جائے پھر جب امام سلام پھیر دے تو اپنی بقیہ نماز مکمل کر لے.

پہلے قول کی دلیل:

قول اول کے قائلین نے چند ایک علتوں کو دلیل بنایا ہے، چنانچہ کہتے ہیں کہ:
1. چونکہ امام اور مقتدی کی نیت الگ ہو جاتی ہے اور باعتبار حکم جو شیء اعلی ہو وہ اپنے سے ادنیٰ کے تابع نہیں ہو سکتی. مسئلہ مذکورہ میں چونکہ عشاء کی نماز کا حکم تراویح کی نماز سے اعلیٰ ہے لہذا اعلیٰ کی نیت کر کے ادنیٰ میں شامل نہیں ہو سکتے.
2. دونوں نمازوں کے درمیان اقامت کا فرق ہونے کی وجہ عشاء کی نماز، تراویح پڑھنے والے کے پیچھے ادا نہیں کر سکتے.

دوسرے قول کی دلیل:
قول ثانی کے قائلین نے حدیث معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے استدلال کیا ہے:

معروف قصہ ہے کہ معاذ رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز عشاء ادا کرتے تھے پھر واپس آکر اپنی قوم کی امامت کرواتے تھے. (صحيح البخاري: 701)
مخالفین نے اس حدیث سے استدلال کے ابطال میں کہا کہ: حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی پہلی نماز نفل ہوتی تھی اور دوسری نماز (اپنی قوم کو امامت کرانے والی نماز) فرض ہوتی تھی.
قبل اس کے کہ ہم اس کا جواب دیں، یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر اس توجیہ کی وجہ کیا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ جمہور بلکہ بعض علماء کے مطابق بالإجماع فرض پڑھنے والوں کے پیچھے سنت اور نفل پڑھنی جائز ہے لہذا اس حدیث کی مذکورہ توجیہ حدیث میں مذکور صورت کو اتفاقی مسئلہ میں داخل کرنے کیلیے ہے.

اس اعتراض کا جواب:
1. حدیث معاذ کے بعض الفاظ میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ ان کی دوسری نماز بطور نفل ہوا کرتی تھی. چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: "كان معاذ يصلي مع النبي ﷺ العشاء ثم ينطلق إلى قومه فيصليها، هي له تطوع وهي لهم مكتوبة العشاء" (مسند الشافعي: 305،306- سنن الدار قطني: 1075،1076- معرفة السنن والآثار: 5729،5733)
امام شافعی (معرفة السنن والآثار: 5729) اور امام بیھقی (معرفة السنن والآثار: 5734) رحمہما اللہ نے اس حدیث کو ثابت کہا ہے، امام ابن الملقن رحمہ اللہ ابن شاھین کا قول نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ: حدیث بیان کرنے والوں کے درمیان اس حدیث کے صحیح الاسناد ہونے میں کوئی اختلاف نہیں. (البدر المنير: 4/478).
علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس لفظ سے استدلال کیا ہے. (الأجوبة النافعة: 82).
شعیب الانؤوط رحمہ اللہ نے بھی اس پر صحت کا حکم لگایا ہے. (صحيح ابن حبان: ج: 6، ص: 162، الحديث: 2401)

معاذ رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ عشاء کی نماز ادا کرتے تھے پھر اپنی قوم میں جا کر انہیں وہ نماز پڑھاتے تھے، یہ ان (معاذ رضی اللہ عنہ) کیلیے نفل ہوتی تھی اور ان کی قوم کیلیے عشاء کی فرض.
2. کوئی بھی شخص صحابی کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ فرض نماز کی ادائیگی کا موقع مسجد نبوی میں ملنے کے باوجود وہ اسے بطورِ نفل ادا کریں گے.
3. مذکورہ توجیہ اصولی قاعدہ "التمكن من الإمتثال" کے بھی مخالف ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ معاذ رضی اللہ عنہ فرض نماز کی ادائیگی پر قادر ہونے کے باوجود بھی دوسری غیر ضروری چیزوں میں لگے رہتے تھے.
4. اس یہ بھی لازم آتا ہے کہ معاذ رضی اللہ عنہ فرائض اور واجبات پر نفل کو مقدم کرتے تھے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کے ذمے فرض کی ادائیگی باقی ہے.

لہذا اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ معاذ رضی اللہ عنہ کی اپنی قوم کے ساتھ نماز بطور نفل ہوا کرتی تھی.
اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ باعتبار حکم جو شیء اعلی ہو وہ اپنے سے ادنیٰ کے تابع ہو سکتی ہے، لہذا سنت اور نفل ادا کرنے والوں کے پیچھے فرض کی ادائیگی درست ہے.
رہا اقامت کے فرق کا معاملہ تو یہ فرق مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر مسئلہ میں مؤثر نہیں ہے:
1. عشاء کی نماز بلا اقامت بھی پڑھی جائے تو درست ہو جائے گی لہذا کسی شخص کا بلا اقامت، تراویح پڑھنے والے کے پیچھے عشاء پڑھ لینے سے نماز کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا.
2. اگر معاملہ مذکورہ صورت کے بر عکس ہو یعنی کسی فرض پڑھنے والے کے پیچھے نفل پڑھی جائے تو بعض علماء کے مطابق بالإجماع نماز درست ہو جائے گی، جبکہ یہاں بھی ایک ایسی نماز جس میں اقامت کہنا جائز بھی نہیں اقامت کہی جانے والی نماز کے تابع ادا کی جا رہی ہے، واضح ہو کہ مذکورہ صورت کے تعلق سے کئی ایک احادیث وارد ہوئی ہیں.
لہذا ثابت یہ ہوا کہ امام کی اقتدا کرنے کے شرائط میں سے نہ ہی امام و مقتدی کی نیت کا متفق ہونا ضروری ہے اور نا ہی اقامت والی نماز مسئلہ میں مؤثر ہے.
بعض احباب نے تراویح پڑھنے والے کے پیچھے عشاء پڑھنے کے مسئلہ کو معاذ رضی اللہ عنہ کے واقعہ پر قیاس کرنے سے منع کی دلیل یہ دی ہے کہ واقعہ مذکورہ میں "فرض جنس نماز مراد ہے".
اس کے دو جوابات دیے جا سکتے ہیں:
1. ایسا کہنے سے یہ لازم آتا ہے کہ نماز عشاء کی دو قسم ہو: فرض عشاء اور نفل عشاء، اور یہ درست نہیں.
2. جس حدیث میں یہ لفظ وارد ہے کہ : "معاذ رضی اللہ عنہ کی یہ نفل نماز ہوتی تھی" اس میں لفظ نفل مطلق وارد ہوا ہے اور بلا دلیل مطلق کی تقیید درست نہیں.
لہذا مطلق لفظ "نفل" وارد ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس پر عام نفل کا حکم لگے گا اور جب اس پر عام نفل کا حکم لگے گا تو تمام نوافل کو اس پر قیاس کرنا درست ہوگا.

ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام عطاء رحمہ اللہ کی نماز عشاء فوت ہو جاتی تھی جب آتے تو لوگ تراویح پڑھ رہے ہوتے تو آپ ان کے (شامل ہو کر) دو رکعت پڑھتے پھر دو رکعت کا اضافہ کر لیتے، ابن جریج رحمہ اللہ انہیں ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے اور وہ (عطاء) اسے عشاء کی نماز شمار کرتے تھے. (السنن الكبرى للبيهقي: 5175). اس کی سند میں کلام ہے.
ایک شخص نے امام طاؤس رحمہ اللہ سے کہا کہ: "وجدت الناس في القيام فجعلتها العشاء الآخرة، قال: أصبت" (السنن الكبرى للبيهقي: 5177).
میں نے لوگوں کو قیام اللیل کی ادائیگی کرتے ہوئے پایا تو میں نے (ان کے ساتھ قیام اللیل میں شامل ہو کر) اسے نماز عشاء کی نیت سے ادا کیا، امام طاؤس رحمہ اللہ نے فرمایا کہ: تم نے درست اور صحیح کام کیا.

راجح:
اس مسئلے میں راجح یہی ہے کہ جس کی نماز عشاء فوت ہو جائے اور وہ امام کو تراویح کی حالت میں پائے تو عشاء کی نیت سے جماعت میں شامل ہو جائے جیسا کہ اس کی توضيح گذشتہ سطور میں بیان کی گئی.
واللہ اعلم
 
Top