إنما الأعمال بالنيات
---------------------------------------------
"سلسلہ شرح ریاض الصالحین قسط 2 "
ازقلم : حسان عبد الغفار
عن أميرِ المؤمنينَ أبي حفصٍ عمرَ بنِ الخطَّابِ بن نفيل بن عبد العزي بن رباح بن عبد الله بن قرط بن رزاح بن عدي بن كعب بن لؤس بن غالب القرشي العدوي رَضِي اللهُ عَنْهُ قالَ : سَمِعْتُ رسولَ ﷺ يقول ُ : " إِنَّمَا الأَعْمَالُ بالنِّيَّاتِ وإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ ما نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلى اللهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا أَو امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ ". (متفق على صحته؛ رواه إماما المحدثين : أبو عبد الله محمد بن إسماعيل بن إبراهيم ابن المغيرة بن بردزبة الجعفي البخاري، وأبو الحسين مسلم بن الحجاج ابن مسلم القشيري النيساوي - رحمهما الله - في صحيحيهما اللذين هما أصح الكتب المصنفة).
" حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : عمل کا دار و مدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہے ۔ پس جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی رضا کے لیے ہجرت کرے اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو گی اور جو کوئی دنیا کمانے کے لیے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہجرت کرے گا تو اس کی ہجرت ان ہی کاموں کے لیے ہو گی ".
شرح حدیث :
یہ حدیث ان احادیث میں سے ایک ہے جن پر پورے اسلام کا مدار ہے پھر بھی اسے بیان کرنے والے صرف ایک ہی ہیں اور وہ ہیں خلیفہ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ۔
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث جاننے والے کے لئے بیان کرنا فرض نہیں ہے کیونکہ اس عظیم الشان حدیث سے شاید ہی کوئی صحابی ناواقف رہے ہوں لیکن بیان کرنے والے صرف عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں ۔
*إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ* : عمل کا دار ومدار نیتوں پر منحصر ہے ۔
اس جملہ کے اندر "حصر "موجود ہے جس کا مطلب ہوتا ہے : " إثبات الحكم في المذكور ونفيه عما سواه " ۔
" مذکورہ بات کے اندر حکم کو ثابت کرنا اور اس کے علاوہ سے اس حکم کی نفی کرنا " ۔
کیونکہ " إِنَّمَا " حصر کا فائدہ دیتا ہے ۔
مثلا : آپ کہتے ہیں " زيد قائم " تو اس میں حصر نہیں ہے ۔
لیکن جب کہتے ہیں : " إنما زيد قائم " ۔ تو اس میں حصر کا معنی موجود ہوتا ہے یعنی : إنه ليس إلا قائماً. کہ وہ کھڑا ہی ہے ۔
اسی طرح : " وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى " ۔ ہے
*وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيْبُهَا أو امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيهِ:*
یہاں پر عورت یا دنیا کے لئے ھجرت کرنے والے کی نیت کو مخفی رکھا گیا ہے اور کیا گیا : " فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ " ۔
یہ نہیں کہا گیا : " إلى دنيا يصيبها " ۔
جب کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہجرت کرنے والے شخص کی نیت کو ظاہر کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے : " فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلى اللهِ وَرَسُولِهِ " ۔
اس میں بلاغت یہ ہے کہ عورت یا دنیا کی خاطر ہجرت کرنا نالائق بیان عمل ہے اور اس قدر حقیر ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قابل ذکر سمجھا ہی نہیں ۔
جبکہ اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہجرت اپنی عظمت اور اہمیت کی وجہ سے لائق ذکر عمل ہے ۔
*اس سے ہم یہ قاعدہ مستنبط کر سکتے ہیں کہ :
خیر و بھلائی کے کام کو صراحت کے ساتھ بیان کرنا چاہئے تاکہ لوگوں کے دل اس کی طرف مائل ہوں ۔
اور حقیر و کمتر اور بیہودہ چیزوں کو اشارے اور کنائے میں بیان کرنا چاہئے تاکہ لوگوں کے نفوس ان کی طرف مائل نہ ہوں
جیسا کہ اللہ نے پیشاب و پاخانہ اور بیوی سے جماع کرنے کے تعلق سے فرمایا : " أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوۡ لَـٰمَسۡتُمُ ٱلنِّسَاۤءَ ". ( النساء : 43).
" یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو ".
وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَى بَعْضُكُمْ إِلَى بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنْكُمْ مِيثَاقًا غَلِيظًا ". (النساء :21).
" اور تم اسے کیسے لے سکتے ہو حالانکہ تم ایک دوسرے کو مل چکے ہو اور ان عورتوں نے تم سے مضبوط عہد و پیمان لے رکھا ہے ".
ان دونوں آیت کریمہ میں پاخانہ و پیشاب کو " الْغَائِطِ" اور بیوی سے جماع کرنے کو "لَـٰمَسۡتُمُ ٱلنِّسَاۤءَ" اور "أَفْضَى بَعْضُكُمْ إِلَى بَعْضٍ" جیسے لطیف پیرائے میں بیان کیا گیا ہے تاکہ سننے والے کو شرم و حیا محسوس نہ ہو، کیونکہ ان چیزوں کھول کر بیان کرنے سے جو اثرات مرتب ہو سکتے ہیں وہ صاحب بصیرت پر سے مخفی نہیں ہیں ۔
*الأعمال جو عمل کی جمع ہے اس کی تین قسمیں ہیں :
- أعمال قلوب : وہ تمام اعمال جن کا تعلق انسان کے دل سے ہو، جیسے توکل علی اللہ، خوف و خشیت ، محبت، امید اور نیت وغیرہ ۔
- أعمال نطق، یعنی وہ تمام اعمال جنہیں انسان زبان سے ادا کرتا ہے ۔
- أعمال جوارح ، وہ تمام کام جسے انسان ہاتھ پیر اور آنکھ وغیرہ سے کرتا ہے ۔
النيات : نية کی جمع ہے جس کا لغوی مطلب " کسی چیز کا عزم کرنا " ہوتا ہے ۔ ( مختار الصحاح، ص : 590).
اصطلاحی تعریف میں علماء کرام کے کئی اقوال ہیں، دکتور صالح بن غانم السدلان نے اپنے پی ایچ ڈی کے رسالہ " النية وأثرها في الأحكام الشرعية " میں تمام تعریفات کو نقل کرنے اور ان کا مناقشہ کرنے کے بعد ان سب کا خلاصہ اور نچوڑ ان الفاظ میں بیان کیا ہے : " النية قصد كلي، نسبي شامل للعزم والقصد المتقدم على الفعل أو المقارن له في بعض أحواله ". ( 103-1/99، والقواعد الفقهية الكبرى له ، ص : 47).
" نیت اس کامل قصد وارادہ کو کہتے ہیں جس میں ایسا پختہ عزم اور قصد پایا جائے جو فعل سے پہلے ہو یا بسا اوقات فعل کے ساتھ ہو " ۔
نیت کے معانی میں " قصد، عزم، ارادہ ،اخلاص اور عمل قلب بھی داخل ہیں ". ( تفصیل کے لئے دیکھیں ، مقاصد المكلفين فيما يتعبد به لرب العالمين لسليمان الأشقر ، ص : 22-31).
نیت کا مقام ومرتبہ :
ہماری شریعت میں نیت کو انتہائی بلند اور منفرد مقام حاصل ہے ، اس کے بغیر کوئی شرعی عمل اللہ کے یہاں قبول ہی نہیں ہوتا ہے حتی کہ نیت کی ردستی کے بغیر بڑے سے بڑے خیر اور عمل کی وقعت ایک کوڑی کے برابر بھی نہیں رہ جاتی جبکہ نیت درست ہو تو بسا اوقات بغیر عمل کے بھی بہت سارا اجر اور ثواب مل جاتا ہے ۔
اسی اہمیت کے پیش نظر عبد الرحمان المهدي، علی بن مدینی، احمد بن حنبل، ابو داؤد، امام شافعی، دار قطنی اور حمزہ الکنانی جیسے کبار محدثین کرام نے اس حدیث کو ایک تہائی اسلام قرار دیا ہے ". ( فتح الباری : 1/11).
*سوال : جب نیت کی اہمیت اتنی زیادہ ہے تو پھر قرآن کریم میں نیت کا تذکرہ کیوں نہیں ہے؟؟ ۔*
جواب : قرآن کریم نے نہ صرف اس مسئلہ کو ذکر کیا ہے بلکہ اس کی تفصیل بھی بیان کی ہے کیونکہ یہ دین کی بنیاد اور ایمان وعقیدے کی اساس ہے، البتہ قرآن کریم کا ایک خاص اسلوب اور تعبیر ہے چنانچہ قرآن کہیں نیت اور قصد کو ارادے اور اخلاص سے تعبیر کرتا ہے تو کبھی لفظ " ابتغاء " کی صورت میں بیان کرتا ہے ۔
*نیت اور قصد کی تعبیر لفظ " إرادة " کے ذریعے ۔*
" مِنكُمْ مَن يُرِيدُ الدُنْيا، ومِنكم مَن يُرِيدُ الآخرة ". ( آل عمران : 52).
" تم میں سے کچھ تو وہ تھے جو دنیا چاہتے تھے اور کچھ آخرت چاہتے تھے " ۔
" وَاصۡبِرۡ نَـفۡسَكَ مَعَ الَّذِيۡنَ يَدۡعُوۡنَ رَبَّهُمۡ بِالۡغَدٰوةِ وَالۡعَشِىِّ يُرِيۡدُوۡنَ وَجۡهَه ". ( الكهف : 28).
" اور تو اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ ہی مطمئن رکھ جو صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اس کا چہرہ چاہتے ہیں " ۔
ان دونوں آیتوں میں جب آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ یہاں " إرادة " سے نیت اور قصد کے علاوہ کوئی اور چیز مراد نہیں ہے ۔
*نیت اور قصد کی تعبیر لفظ " اخلاص " کے ذریعے ۔*
" فاعْبُدِ الله مخلِصًا لَهُ الدِّينَ ". ( الزمر : 2).
" پس تو اللہ کی عبادت کر اس کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے " ۔
" وما أمِرُوا إلاّ لِيَعبدُوا الله مُخْلصِين لَهُ الدِّينَ ". (البينة : 5).
" اور انہیں نہیں حکم دیا گیا تھا مگر یہ کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اس کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے " ۔
ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادات میں نیت واجب ہے اس لئے کہ اخلاص دل کا عمل ہے جس کے ذریعہ ایک انسان اللہ کے چہرے کا طلبگار ہوتا ہے ۔
*نیت اور قصد کی تعبیر لفظ " ابتغاء " کے ذریعے ۔*
" وما لأحَدٍ عِنْدة مِن نِعمَةٍ تُجْزى . إلا ابْتِغاء وجْه ربَه اْلأعْلىِ ". ( اللیل : 19-20).
" اس پر کسی کا کوئی احسان نہ تھا جس کا وہ بدلہ چکاتا بلکہ اس نے تو محض اپنے رب برتر کے چہرے کے لئے ( مال خرچ کیا ) ۔
" ومثلُ الَّذِينَ يُنْفِقونَ أمْوالَهُمْ اِبْتِغاءَ مَرْضاةِ الله وتَثْبيتًا مِن أنْفُسِهِمْ …( البقرۃ : 265).
" اور جو لوگ اللہ کی رضا جوئی اور اپنی پوری دلجمعی کے ساتھ اپنے مال خرچ کرتے ہیں ... ". ( دیکھئے، جامع العلوم والحكم لابن رجب، ص : 10-11 ، ومقاصد المكلفين فيما يتعبد الناس به لرب العالمين لسليمان الأشقر ، ص : 61-63).
*یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ " وإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ ما نَوَى" ایک مستقل جملہ ہے یا پھر پہلے جملے " إِنَّمَا الأَعْمَالُ بالنِّيَّاتِ " کی تاکید کے لئے ہے؟؟*
جواب : سب سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ "أن الأصل في الكلام التأسيس دون التوكيد" کلام میں اصل تاسیس ہے نہ کہ" تاکید"
تاسیس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ "أن الثانية لها معنى مستقل" دوسرے جملہ کا کوئی الگ سے ایک مستقل معنی ہو ۔
جبکہ تاکید کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ "أن الثانية بمعنى الأولى" دوسرا جملہ پہلے ہی جملے کے معانی میں ہو ۔
یہاں پر علماء کے دو اقوال ہیں :
- دونوں جملے کا معنی ایک ہے کیونکہ "وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى" پہلے کی تاکید کے لئے ہے ۔
- دوسرے جملے کا ایک مستقل معنی ہے یعنی : کلام تاسیس کے باب سے ہے نہ کہ تاکید کے باب سے. اور یہی راجح ہے
چنانچہ پہلا جملہ "منوی " کے اعتبار سے ہے اور وہ عمل اور فعل ہے ۔
اور دوسرا " منوی لہ" کے اعتبار سے ہے اور وہ معمول لہ ہے يعني : کس کے لئے آپ نے عمل کیا ہے اللہ کے لئے یا دنیا کے لئے؟؟
*دونوں میں تفریق قدر تفصیل کے ساتھ*
اعمال کا دار ومدار نیتوں پر منحصر ہے ۔
یعنی : اعمال واقع ہوئے ہیں یا نہیں؟
صالح ہیں یا فاسد؟
مقبول ہیں یا مردود؟
ان پر ثواب ملے گا یا نہیں؟
ان سب کا دار مدار نیتوں پر منحصر ہے، اس لئے کہ اعمال قصد وارادے ہی سے واقع ہوتے ہیں، لہذا اعمال کی صلاح و فساد کا حکم نیت کے صلاح و فساد کے اعتبار سے لگایا جائے گا ۔
جبکہ "وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى " کا معنی یہ ہے کہ عامل کے عمل کا حصہ درحقیقت اس کی نیت ہی ہے، اگر نیت صالح ہے تو عمل بھی صالح ہوگا اور اجر بھی ملے گا اور اگر نیت فاسد ہے تو عمل بھی فاسد ہوگا اور اس پر گناہ بھی ملے گا ۔
*مشروعیتِ نیت کی حکمتیں*
*1 - التقرب إلى الله عزوجل* : یعنی نیت کو خالص کر کے اللہ رب العزت کا قرب حاصل کرنا۔
*2 - تمييز العادات من العبادات.* عبادات سے عادات کا الگ کرنا ۔
مثلا : ایک شخص ٹھنڈک حاصل کرنے کے لئے غسل کرتا ہے اور دوسرا غسل جنابت کرتا ہے ،عمل کے اعتبار سے دونوں یکساں ہیں مگر پہلا عادت ہے اور دوسرا عبادت ہے ۔
لہذا اگر کوئی شخص محتلم ہو جاتا ہے اور جاکر روز مرہ کی طرح غسل کر لیتا ہے پھر اس کے بعد نماز پڑھ لیتا ہے تو یہ اس کے لئے کافی نہیں ہوگا اس لئے کہ اس نے نہاتے وقت غسل جنابت کی نیت نہیں کی ہے بلکہ بطور عادت کے غسل کیا ہے ۔
بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ : "عبادات أهل الغفلة عادات، وعادات أهل اليقظة عبادات" مغفل لوگوں کی عبادتیں بھی عادات میں شمار ہو جاتی ہیں جبکہ بیدار مغز لوگوں کے عادات بھی عبادات میں تبدیل ہو جاتے ہیں ۔
اسے ایک مثال سے سمجھتے ہیں : جیسے کچھ لوگ مسجد آتے ہیں اور بغیر نیت کے وضو کرتے ہیں نماز پڑھتے ہیں اور چلتا بنتے ہیں ۔
لہذا یہ اہم عبادتیں ان کی غفلت کی وجہ سے عادات میں تبدیل ہو جاتی ہیں ۔
جبکہ کچھ لوگ مال بھی اس نیت سے کماتے ہیں تاکہ اللہ نے نان و نفقہ کی جو ذمہ داری ان کے سپرد کی ہے اس کو ادا کر سکیں تو یہ عادت بھی عبادت بن جاتی ہے ، اسی پر آپ دیگر چیزوں کو قیاس کر سکتے ہیں ۔
*3 - تمييز العبادات بعضها من بعض -*
عبادات میں سے بعض کو بعض سے الگ کرنا ۔
مثلا : ایک شخص دو رکعت نفلی نماز پڑھتا ہے جبکہ دوسرا شخص بھی دو ہی رکعت نماز پڑھتا ہے مگر فرض نماز ۔
یہ دونوں نمازیں عبادت ہیں اور ظاہری عمل کے اعتبار سے دونوں یکساں ہیں مگر نیت کی وجہ سے دونوں میں فرق ہے ایک نفل ہے اور دوسرا فرض ۔
اسی طرح مسافر حالت سفر میں ظہر و عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھتا ہے، دو رکعت ظہر کی اور دو ہی رکعت عصر کی، ساتھ ہی دونوں نمازیں سری ہے یعنی : دونوں کی ادائیگی میں کوئی فرق نہیں ہے مگر نیت کے ذریعے سے تفریق ہوتی ہے کہ پہلی دو رکعت ظہر کی ہے اور دوسری دو رکعت عصر کی ۔ وعلى هذا فَقِسْ
4 - تمييز معاني الأقوال ودلالاتها :
یعنی الفاظ و اقوال کے معانی اور مفاہیم کے درمیان تفریق کرنا ۔
مثلا : اگر کوئی اپنی بیوی سے کہے : اذهبي إلى أهلك، "اپنے میکے چلی جاؤ " اور اس سے طلاق مراد لے تو طلاق واقع ہو جائے گی اور اگر طلاق مراد نہ لے تو طلاق واقع نہیں ہوگی ۔ ( تفصيل کے لئے دیکھیں، شرح الأربعين النووية لابن العثيمين، ص : 8-9 ،جامع العلوم والحكم لابن رجب، ص : 17،وأرشيف ملتقى أهل الحديث - 3 : 95/109).
*نیت کی تقسیم تاکید اور عدم تاکید کے اعتبار سے*
اس کی دو قسمیں ہیں :
*1 - نيت مؤكِّدة .*
نیت مؤکدۃ اس نیت کو کہتے ہیں جو لغت کے اندر لفظ کے معانی کے موافق ہو ۔
مثلا : کسی نے قسم کھاتے ہوئے کہا : اللہ کی قسم ! " آج کے دن میں گاڑی پر سواری نہیں کروں گا " ۔
لہذا اگر اس نے ہر قسم کی گاڑیاں مراد لی ہے تو اس کی نیت مؤکد مانی جائیگی گی ،اس لئے کہ لغوی اعتبار سے لفظ " گاڑی " ہر قسم کی گاڑیوں کو شامل ہے اور اس کی نیت اس کے کہے ہوئے لفظ کے معنی کے موافق ہے ۔
اب اگر وہ کسی بھی قسم کی گاڑی پر سوار ہوتا ہے تو اس پر کفارہ لازم ہو جائے گا ۔
*2 - نيت مخصِّصة ۔*
نیت مخصصہ : اس نیت کو کہتے ہیں جو لغوی اعتبار سے لفظ کے معانی کے مخالف ہو ۔
مثلا : کسی نے قسم کھاتے ہوئے کہا : اللہ کی قسم ! " آج کے دن میں گاڑی پر سواری نہیں کروں گا"
اور لفظ "گاڑی" سے اس نے صرف "ماروتی گاڑی " یا " ھندوستانی ماڈل گاڑی " مراد لی ہے تو اس کی نیت مخصص مانی جائیگی گی ، اگر چہ لغوی اعتبار سے لفظ " گاڑی " ہر قسم کی گاڑیوں کو شامل ہے لیکن اس نے ایک خاص نوع کی گاڑی مراد لی ہے لہذا اگر وہ شخص اس خاص نوع کے علاوہ کسی بھی گاڑی پر سوار ہوتا ہے تو اس پر کفارہ نہیں ہوگا ۔( تفصيل کے لئے دیکھیں، أنواع البروق في أنواع الفروق للقذافي ،ص : 179-182، وأرشيف ملتقى أهل الحديث - 3 : 95/109).
*مقصود کے اعتبار سے نیت کی قسمیں*
مقصود کے اعتبار سے نیت کی دو قسمیں ہیں :
*1- نية إثبات حكم العمل : عمل کے حکم کو ثابت کرنے کی نیت کرنا*
یہ اس نیت کو کہتے ہیں جس کے پائے یا نہ پائے جانے سے حکم متاثر ہو۔
جیسے نماز کی نیت کرنا : لہذا اگر کسی نے بھول کر نماز پڑھ لی یا نیند کی حالت میں نماز پڑھ لی تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا ، کیونکہ اس نے نیت ہی نہیں کی ہے ۔
*2 - نية إثبات فضيلة العمل : عمل کی فضیلت کو ثابت کرنے کی نیت کرنا ۔*
اس نیت سے مقصود عمل کی فضیلت کو حاصل کرنا ہے ۔
اگر یہ نیت نہ پائی جائے تو عمل یا اس کے حکم میں کچھ فرق نہیں پڑے گا البتہ فضیلت حاصل نہیں ہو پائے گی ۔
جیسے کپڑے سے گندگی کو صاف کرنے کی نیت کرنا ۔
یا قرض کے ادائیگی کی نیت کرنا ۔
اب اگر ہم ان دونوں کاموں کو ثواب کی نیت سے کریں گے تو یقینا ثواب ملے گا کیونکہ ان دونوں کا حکم اللہ رب العزت نے دیا ہے اور اگر بغیر نیت کے یہ دونوں کام کریں گے تو ثواب نہیں ملے گا البتہ حکم میں کچھ فرق نہیں پڑے گا ۔ (دیکھیں، مقاصد المكلفين فيما يتعبد به لرب العالمين ،ص : 306، وأرشيف ملتقى أهل الحديث - 3 : 95/109).
*سوال : کیا ہر عمل کے لئے نیت شرط ہے؟*
جواب : تمام عبادات میں نیت کی مشروعیت پر کوئی اختلاف نہیں ہے اختلاف اس بات میں ہے کہ کیا ہر عبادت کے لئے نیت شرط ہے یا کچھ عبادات اس سے مستثنی ہیں ۔
چنانچہ متاخرین میں سے بہتوں کا خیال ہے کہ اس جملے ( إنما الأعمال بالنيات ) کی تقدیری عبارت اس طرح ہے : " الأعمال صحیحة أو معتبرۃ أو مقبولة بالنیات" .
" صحيح، معتبر یا مقبول اعمال نیتوں پر منحصر ہیں ۔
اس قول کے مطابق اس سے محض شرعی اعمال مراد ہیں کہ جن کے لیے نیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ البتہ جو کام نیت کے محتاج نہیں جیسے عام عادات، کھانا پینا، کپڑے پہننا وغیرہ یا جیسے امانتوں اور ضمانتوں کو لوٹانا، بیعانہ رکھوانا یا عدم ادائیگی کی صورت میں مال قبضے میں لینا، ان میں سے کسی کے لیے نیت کی ضرورت نہیں ۔
کیونکہ یہ سب عمومی اعمال ہیں شرعی اعمال نہیں ۔
دوسروں نے کہا یہاں اعمال سے عموم مراد ہے اس میں کوئی چیز خاص نہیں۔ اور بعض اس کو متقدمین جمہور کا قول کہتے ہیں۔ لہذا اس دوسرے والے قول کے مطابق کلام کی تقدیر یوں ہوگی : " الأعمال واقعة أو حاصلة بالنیات ".
" واقع یا حاصل ہونے والے اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے " . ( جامع العلوم والحكم لابن رحب، ص : 9).
اس صورت میں " واقعة يا حاصلة " اعمال کی خبر محض ہیں معنی یہ ہوگا کہ اختیاری اعمال عامل کی جانب سے قصدا ہی صادر ہوتے ہیں ، وہی قصد ونیت اس عمل کو کرنے اور وجود میں لانے کا سبب ہوتا ہے ۔
*البتہ کچھ عبادات اس سے مستثنی ہیں ۔*
جیسے گندگی اور نجاست کو دور کرنا ۔
وہ گندگی چاہے جسم اور کپڑے میں ہو یا پھر کسی جگہ میں ". ( مقاصد المكلفين فيما يتعبد به لرب العالمين، ص : 299).
اسے دور کرنے کے لئے نیت واجب نہیں ہے البتہ اس عمل سے ثواب حاصل کرنے کے لئے نیت ضروری ہے ۔
مثلا : کسی کپڑے میں گندگی اور نجاست لگی ہوئی ہے اور آدمی نے اسے باہر ٹانگ دیا ہے اور وہ نجاست اور گندگی بارش برستے سے ختم ہو جاتی ہے تو وہ کپڑا پاک ہو جائے گا حالانکہ آدمی نے اسے پاک کرنے کی نیت نہیں کی تھی، ساتھ ہی ثواب بھی نہیں ملے گا کیونکہ اس نے ثواب کی بھی نیت نہیں کی تھی ".
خلاصہ یہ کہ خالص عبادات کے صحیح ہونے کے لئے نیت شرط ہے ، جبکہ بقیہ اعمال میں صحت کے لئے نہیں بلکہ ثواب حاصل کرنے کے لئے شرط ہے کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : " اعمال کا دار ومدار نیتوں پر منحصر ہے اور ہر شخص کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ہے ".
*یاد رہے کہ حدث اکبر واصغر کو دور کرنے کے لئے نیت شرط ہے، دوسرے لفظوں میں وضو اور غسل جنابت یا غسل حیض کے لئے نیت شرط ہے ۔*
*سوال : کیا معاملات اور عادات کے لئے بھی شرط ہے؟*
جواب : معاملات اور عادات کے صحیح ہونے کے لئے نیت شرط نہیں ہے البتہ معاملات اور عادات کے ذریعے ثواب حاصل کرنے کے لئے نیت شرط ہے ۔
مثلا : کھانے، پینے، سونے، لین دین کرنے، خرید وفروخت کرنے، قرض لوٹانے، بیوی سے ہمبستری کرنے وغیرہ میں نیت ضروری نہیں ہے لیکن اگر کوئی ان عادات اور معاملات کے ذریعے ثواب حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے لئے ثواب کی نیت کرنی شرط ہے ". ( تفصیل کے لئے دیکھیں، الأعمال بالنيات لابن تيمية، ص : 21-23 ، مقاصد المكلفين فيما يتعبد به لرب العالمين، ص : 489-498).
*نیت کا وقت:*
کبھی نیت عمل پر مقدم ہوتی ہے ، کبھی عمل کے ساتھ ملی ہوتی ہے اور کبھی کبھار عمل کے درمیان ہوتی ہے ۔
اس کی تفصیل درج ذیل ہے : -
*- نیت کا عمل پر مقدم ہونا -*
اس کی تین شکلیں ہیں : ۔
پہلی شکل : نیت عمل سے بہت زیادہ مقدم ہو یا نیت اور منوی یعنی عمل کے درمیان دوسرے اعمال آ جائیں تو ایسی صورت میں نئے سرے سے اس عمل کی نیت کرنی پڑے گی ۔ ( المغني لابن قدامة : 2/136).
مثلا : ایک آدمی صبح کے وقت یا گیارہ بجے ہی نماز ظہر کی نیت کر لی ۔ یا ایک شخص نماز ظہر کی نیت سے مسجد میں داخل ہوا اور وضو کی نیت کرکے وضو کی تو ایسی صورت میں دونوں کو نئے سرے سے نماز ظہر کی نیت کرنی ہے ۔
دوسری شکل : ایک شخص کوئی کام کرنے کی نیت کی پھر اس نیت کو ختم کر دیا اس کے پھر وہی کام کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے نئے سرے سے نیت کرنی ضروری ہے ۔
تیسری شکل : عمل سے کچھ ہی دیر پہلے نیت کرے تو یہ جائز اور درست ہے البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ عمل سے کچھ دیر پہلے نیت واجب ہے یا جائز ہے؟؟
راجح قول کے مطابق جائز ہے واجب نہیں ہے ۔
*- نیت کا ابتدائی عمل کے ساتھ ملا ہونا -*
یہی بہتر اور افضل طریقہ ہے کہ نیت پہلے عمل کے ساتھ جڑی ہو ۔
مثلا : ایک آدمی نماز پڑھنا چاہتا ہے تو تکبیر تحریمہ کے وقت نماز پڑھے کی نیت کرے پھر تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے نماز شروع کرے اور اگر تکبیر تحریمہ سے کچھ دیر پہلے نیت کرتا ہے تو بھی جائز اور درست ہے ۔
*- عمل کے درمیان نیت کرنا : -*
یہ جائز اور درست نہیں ہے کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ عمل کا دار مدار نیت پر اور اس نے نیت کی ہی نہیں ہے لہذا درمیان میں نہ تو اس کی نیت درست ہوگی اور نہ ہی عمل درست ہوگا ۔ ( مقاصد المكلفين فيما يتعبد به لرب العالمين، ص : 159-167).
*سوال : کیا نیت کے کچھ شرائط بھی ہیں ۔*
جواب : نیت کے درج ذیل شرائط ہیں : -
1 - نیت کرنے والا مسلمان ہو، کافر کو نیکی کی نیت کرنے پر بھی ثواب نہیں مل سکتا ۔
2 - وہ شعور اور تمیز کی عمر کو پہونچ چکا ہو ، یعنی وہ صحیح غلط اور نفع و نقصان کے درمیان تمیز کر سکتا ہو ۔
3 - عاقل ہو یعنی وہ پاگل اور مجنون نہ ہو ۔
4 جس کی نیت کی ہے اس کے حکم اور کیفیت سے واقف ہو مثلا کوئی زکاة دینا چاہتا ہے تو اسے معلوم ہو کہ زکاة دینا واجب ہے اور اس کی کیفیت یہ یہ ہے ۔
5 - نیت میں تردد نہ ہو ۔
6 - نیت کا استصحاب ۔
اس کی دو حالتیں ہیں : -
1 - استصحاب ذكر النية ، مطلب یہ کہ ابتدائے عمل میں انسان جو نیت کرے وہ آخیر عمل تک باقی ہے یہ افضل ہے واجب نہیں ۔ کیونکہ دوران عبادات مختلف قسم کے خیالات اور شبہات آ سکتے ہیں بلکہ آتے ہی ہیں ۔
2 - استصحاب حكم النية، مطلب یہ کہ آدمی جب نیت کرلے تو اس کے منافی امور کا صدور قطعا نہ ہو ۔
*سوال : نیت کے منافی امور کیا ہیں؟*
جواب : نیت کے چند منافی امور درج ذیل ہیں : -
1 - دین اسلام سے مرتد ہو جانا ۔
چنانچہ اگر کوئی شخص دوران عمل مرتد ہو جاتا ہے تو اس کی نیت اور عمل دونوں فاسد قرار پائیں گے ۔
مثلا ایک شخص حج کرنے جاتا ہے اور دوران حج وہ دین اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہو جاتا ہے تو ایسی صورت میں اس کی نیت اور عمل یعنی حج دونوں بیکار ہو جائے گا ۔
2 - نیت توڑ دینا ۔
چنانچہ اگر کوئی شخص دوران عبادت نیت توڑ دیتا ہے تو اس کی وہ عبادت باطل قرار پائے گی سوائے حج اور عمرے کے ۔
سوال : ایک روزے دار انسان یہ عزم کر لے کہ اگر اسے پانی مل جائے تو وہ اسے پی لے گا یا کھانا مل جائے تو اسے کھا لے گا تو کیا اس طرح عزم کر لینے سے روزہ فاسد ہو جائے گا؟
جواب : ایسے شخص کا روزہ فاسد نہیں ہوگا، اس لئے جو چیزیں عبادات کے اندر ممنوع ہیں انہیں کر گزرنے کی نیت کر لینے سے عبادات فاسد نہیں ہوتے جب تک کہ انھیں انجام نہ دے دیا جائے ۔
لہذا اس سلسلے میں یہ قاعدہ ذہن نشین رہنا چاہئے کہ : من نوى الخروج من العبادة فسدت إلا في الحج والعمرة، ومن نوى فعل محظور في العبادة لم تفسد إلا بفعله. ( الشرح الممتع:6/364).
" جس نے عبادت سے نکلنے کی نیت کر لی تو اس کی عبادت فاسد ہو جائے گی سوائے حج اور عمرہ کے، اور جس نے عبادات میں ممنوع چیز کو کرنے کا ارادہ کر لیا تو اس سے اس کی عبادت فاسد نہیں ہوگی جب تک کہ وہ اسے انجام نہ دے دے ".
3 - ایک عبادت سے دوسری عبادت کی طرف نیت کو تبدیل کرنا ۔
اس کی تین شکلیں ہیں : -
پہلی شکل : فرض کو فرض سے بدلنا ۔
ایک آدمی نے عصر کی نماز شروع کی دوران نماز اسے یاد آیا کہ اس نے ظہر کی نماز نہیں پڑھی ہے تو ایسی صورت میں اس کی دونوں نمازیں بیکار ہو جائیں گی ۔ عصر کی نماز اس لئے کہ اس نے دوران نماز نیت توڑ دی اور ظہر کی نیت کرلی ۔ اور ظہر کی اس لئے کہ اس نے ظہر کی نیت نماز کے درمیان کی ، نماز کے شروع میں نہیں کی ۔
دوسری شکل : درست غرض کے لئے فرض کو نفل میں بدلنا ۔
مثلا ایک منفرد شخص نے مسجد میں آکر فرض نماز شروع کر دی ، اتنے میں کچھ لوگ آئے اور جماعت بنا کر نماز شروع کر دی تو اس منفرد شخص کے لئے جائز ہے کی اپنے فرض نماز کو نفل میں بدل لے اور دو رکعت مکمل کرکے سلام پھیر دے اور جماعت میں جاکر شریک ہو جائے ۔
یا کسی شخص نے لاعلمی میں وقت سے پہلے نماز پڑھنی شروع کر دی، دوران نماز اسے یاد آیا کہ ابھی وقت نہیں ہوا ہے تو ایسی صورت میں وہ اپنی نماز کو نفل میں تبدیل کر سکتا ہے ۔
تیسری شکل : نفل کو فرض میں بدلنا ۔
نماز اور زکاة کے اندر نفل کو فرض میں بدلنا جائز نہیں ہے ۔ ( مقاصد المكلفين فيما يتعبد به لرب العالمين، ص : 242-244).
چوتھی شکل : نفل کو نفل سے بدلنا : -
نفل کی دو قسمیں ہیں ۔
1 - نفل مطلق : ۔ اس میں مطلق نفل نماز کی نیت کافی ہوتی ہے ۔
2 - نفل معین : - جیسے صلاۃ کسوف وخسوف ، صلاۃ ضحی اور سنن رواتب وغیرہ ۔
اس میں نیت کی تعیین ضروری ہے ۔
*اس میں نیت بدلنے کی تین شکلیں ہو سکتی ہیں : -*
1 - معین کو معین سے بدلنا : ۔
یہ درست نہیں ہے ۔
مثلا کسی شخص نے صلاۃ ضحی پڑھنا شروع کیا پھر دوران صلاۃ اسے یاد آیا کہ اس نے فجر کی سنت نہیں پڑھی ہے لہذا اس نے فجر کے سنت کی نیت کر لی تو ایسی صورت میں اس کی نماز درست نہیں ہوگی ۔
2 - مطلق کو معین سے بدلنا : -
یہ بھی درست نہیں ہے ۔
مثلا ایک شخص نے نفل نماز پڑھنا شروع کیا پھر اسے یاد آیا کہ اس نے فجر کی سنت نہیں پڑھی ہے لہذا وہ اسی دوران فجر کے سنت کی نیت کر لیتا ہے تو اس کی نماز درست نہیں ہوگی ۔
3 - معین سے مطلق کی نیت کرنا ۔
یہ درست ہے ۔
مثلا کسی نے ظہر کی سنت پڑھنی شروع کی ، پھر اسے یاد آیا کہ اس تو پہلے ہی سنت پڑھ لی ہے تو ایسی صورت میں وہ اس معین سنت کو مطلق سنت میں بدل سکتا ہے ۔
اس سلسلے میں ضابطہ یہ ہے : " من معين لمعين : لا يصح . ومن مطلق لمعين : لا يصح . من معين لمطلق : يصح ". ( مجموع فتاوى ورسائل العثيمين : 12/448).
نیت کی جگہ :
نیت کی جگہ دل ہے جیسا کی پہلی قسط میں تفصیل گزر چکی ہے ۔
اشکال :
بعض حضرات کہتے ہیں کہ اگر نیت زبان سے نہیں کر سکتے ہیں تو پھر مُلَبِّي یعنی : تلبیہ پکارنے والا کیوں زبان سے نیت کرتا ہے کہ " لبّيك اللهم عمرة، ولبيك حجّاً، ولبّيك اللهم عمرة وحجّا. ؟؟؟
جواب : یہ زبان سے نیت کرنا ہر گز نہیں ہے بلکہ شعائر حج کا ظاہر کرنا ہے کیونکہ اس کا تعلق حج کے شعائر سے ہے اسی بنا پر بعض علماء کہتے ہیں کہ حج کے اندر تلبیہ نماز میں تکبیر احرام کی طرح ہے کیونکہ اگر اس نے تلبیہ نہیں پکارا تو احرام ناقص شمار ہوگا جیسے تکبیر تحریمہ کے بغیر نماز ناقص ہوجاتی ہے ۔
وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى : اس سلسلے میں لوگوں کے یہاں کافی تفاوت پایا جاتا ہے ۔
مثلا : دو لوگ نماز پڑھتے ہیں مگر دونوں کے درمیان ثواب میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے کیونکہ ان میں ایک مخلص ہوتا ہے جبکہ دوسرا غیر مخلص ۔
نیت کے اعتبار سے اعمال کی قسمیں :
نیت کے اعتبار سے اعمال کی دو قسمیں ہیں :
*1 - أعمال لا تفعل إلا علی جهة العبادة* : یعنی وہ اعمال جو صرف عبادت کے طور پر انجام دئے جاتے ہیں جیسے : ذکر، نماز اور دعا وغیرہ۔
ایسے اعمال کو انجام دینے میں لوگوں کی تین قسمیں ہیں :
1 - وہ لوگ جو ان اعمال کو محض اللہ کے لئے کرتے ہیں تاکہ آخرت میں اجر ملے.
ایسے لوگ ماجور ہوں گے
2 - وہ لوگ جو ان اعمال کو اللہ کے لئے کرتے ہیں تاکہ دنیا فائدہ حاصل ہو.
ایسے لوگوں کو ثواب نہیں ملے گا.
3 - وہ لوگ جو ان افعال کو غیر اللہ کے لئے کرتے ہیں لہذا اگر عبودیت کے طور پر کرتے ہیں تو شرک اکبر ہے اور اگر عبودیت کے طور پر نہیں بلکہ ریا و نمود کے لئے کرتے ہیں تو شرک اصغر ہوگا ۔
اسے ایک مثال سے سمجھتے ہیں :
جیسے دعا :
بعض لوگ دعا صرف الله سے کرتے ہیں ،مقصود اللہ کا تقرب، اس کی عبادت اور آخرت کا ثواب ہوتا ہے ۔ ایسے لوگ یقیناً ماجور ہوں گے ۔
دلیل : وَمِنۡهُم مَّن یَقُولُ رَبَّنَاۤ ءَاتِنَا فِی ٱلدُّنۡیَا حَسَنَةࣰ وَفِی ٱلۡـَٔاخِرَةِ حَسَنَةࣰ وَقِنَا عَذَابَ ٱلنَّارِ .أُو۟لَـٰۤىِٕكَ لَهُمۡ نَصِیبࣱ مِّمَّا كَسَبُوا۟ۚ وَٱللَّهُ سَرِیعُ ٱلۡحِسَابِ .(البقرة : 201-202).
بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دعا تو اللہ سے کرتے ہیں لیکن عبادت کی نیت سے نہیں بلکہ مقصود صرف دنیا ہوتی ہے جیسے : شیطان سے محفوظ رہنے کی دعا، جادو سے بچنے کی دعا، رزق میں فراوانی کی دعا ۔
ایسے لوگوں کو بروز قیامت کچھ بھی نہیں ملے گا ۔
دلیل : فَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن یَقُولُ رَبَّنَاۤ ءَاتِنَا فِی ٱلدُّنۡیَا وَمَا لَهُۥ فِی ٱلۡـَٔاخِرَةِ مِنۡ خَلَـٰقࣲ .( البقرة : 200).
جبکہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو غیر اللہ سے دعا کرتے ہیں ۔
ایسے لوگ مشرک اور کافر ہیں ۔
دلیل : وَمَنۡ أَضَلُّ مِمَّن یَدۡعُوا۟ مِن دُونِ ٱللَّهِ مَن لَّا یَسۡتَجِیبُ لَهُۥۤ إِلَىٰ یَوۡمِ ٱلۡقِیَـٰمَةِ وَهُمۡ عَن دُعَاۤىِٕهِمۡ غَـٰفِلُونَ. (الأحقاف : 5).
*2 - أعمال لا تتمحض أن تكون عبادة* : یعنی وہ اعمال جو صرف عبادت نہیں ہوتے بلکہ ان کا شمار عادات میں بھی ہوتا ہے ۔
اس سلسلے میں لوگوں کی دو قسمیں ہیں :
*1 - من يفعلها عادة أو بدون نية التقرب* : یعنی : وہ اعمال جنھیں بعض لوگ بطور عادت کے انجام دیتے ہیں تقرب الہی کی نیت سے نہیں ۔
*2 - من يفعلها طاعة لله لينال الآخرة* : یعنی بعض حضرات انھیں طاعت الہی کی غرض سے کرتے ہیں تاکہ آخرت کا حصول ہو سکے ۔
جیسے النوم. یعنی سونا ۔
بعض لوگ بطور عادت کے سوتے ہیں " ان کو ثواب نہیں ملے گا "
بعض لوگ اس نیت سے سوتے ہیں تاکہ جسم میں قوت پیدا ہو جس کی وجہ سے نماز ادا دیگر طاعات کے کام کرنے میں آسانی ہو " ایسے لوگ ماجور ہوں گے "
فَمَنْ كَانَتْ هِجرَتُهُ : ھجرت لغت میں الهجر سے ماخوذ ہے جس کے معنی ترک کے ہیں
جبکہ شرع میں کہتے ہیں : " الانتقال من بلد الكفر إلى بلد الإسلام "۔( شرح رياض الصالحين لابن عثيمين ، ص : 15).
" بلاد کفر سے بلاد اسلام کی طرف منتقل ہونا " ۔
*سوال : کیا ہجرت واجب ہے؟؟*
جواب : ہجرت ہر اس مومن پر واجب ہے جو بلاد کفر میں اپنے دین کو ظاہر نہ کر سکے ۔
ہجرت کی تین قسمیں :
1 - ہجرت مکانی : وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ملک میں اپنے دینی شعائر آزادانہ طور پر ادا نہ کرسکتا ہو تو اس کو چھوڑ کر ایسے ملک چلا جائے جہاں اسے اس کی آزادی حاصل ہو ۔
2 - ہجرت عمل : وہ یہ ہے کہ آدمی ﷲ کی منع کی ہوئی چیزوں کو چھوڑ دے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ ". (صحيح البخاري | كِتَابٌ : الْإِيمَانُ | بَابٌ : الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ : 10).
" مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع فرمایا " ۔
3 - ہجرت عامل : وہ یہ ہے کہ بدعتی اور فاسق کو چھوڑ دیا جائے، ان سے ترک تعلق کر لیا جائے حتی کہ وہ اپنی بدعت اور نافرمانی سے باز آجائیں ۔ البتہ اگر ان کو چھوڑنے میں مصلحت نہ ہو تو نہ چھوڑا جائے ۔
مثال : ایک آدمی لین دین میں دھوکہ کرتا ہے جس کی وجہ سے لوگ اسے چھوڑ دیتے ہیں ، لیکن جب وہ دیکھتا ہے کہ لوگوں نے اس سے تعلق ختم کر لیا ہے تو دھوکہ دہی سے توبہ کر کے اس سے رجوع کر لیتا ہے اور نادم ہوتا ہے ۔
اسی طرح ایک آدمی سودی کاروبار کرتا ہے جس کی وجہ سے لوگ اسے چھوڑ دیتے ہیں اس سے دعا سلام اور کلام بند کر دیتے ہیں یہ دیکھ کر وہ بے چین ہو جاتا ہے اور سودی لین دین سے توبہ کر لیتا ہے ۔
لیکن اگر ایسا لگے کہ فلاں فسق وفجور کرنے والے کو اگر چھوڑ دیا گیا تو وہ اور زیادہ بگڑ جائے گا تو ایسی صورت میں اس سے تعلق ختم نہ کیا جائے، بلکہ صرف نصیحت وموعظت پر اکتفا کیا جائے ۔ ( شرح ریاض الصالحین لابن عثيمين، ص : 16 تا 18 بتصرف).
إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ :
اس میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حرف عطف " واؤ" کے ذریعے سے جوڑ دیا گیا ہے جبکہ ایک شخص نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا : " مَا شَاءَ اللهُ وَشِئْتَ ". کہ اللہ چاہے اور آپ چاہیں ۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا : ایسا نہ کہو ! بَلْ مَا شَاءَ اللهُ وَحْدَه ۔بلکہ جو صرف اللہ چاہے ۔( مسند أحمد : 1839) .
تو اس کا جواب یہ ہے کہ : وہ تمام امور جن کا تعلق شریعت سے ہے اس میں اللہ اور اس کے رسول کو ایک ساتھ ملا سکتے ہیں کیونکہ رسول کی اطاعت در حقیقت اللہ کی اطاعت ہے : " مَنْ يُطِعِ الرسول فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ ". (النساء : 80) .
اور اگر ان کا تعلق" امور کونیۃ " سے ہے تو ایسی صورت میں اللہ کے ساتھ کسی کو بھی واو کے ذریعے نہیں ملا سکتے کیونکہ تمام چیزیں محض اللہ کی مشیت ہی سے ہوتی ہیں ۔
مثلا اگر کوئی کہے کہ : کیا کل بارش ہو گی؟؟
تو ایسی صورت میں "الله ورسوله أعلم" کہنا درست نہیں ہے کیونکہ اس کا علم رسول کو نہیں ہے ۔
لیکن اگر کوئی کہے کہ : یہ چیز حلال ہے یا حرام ؟؟
تو ایسی صورت میں "الله ورسوله أعلم " کہنا درست ہے کیونکہ شرعی امور میں رسول کا حکم درحقیقت اللہ کا حکم ہے ۔
*سوال : کیا منہیات سے بچنے کے لئے بھی نیت ضروری ہے؟؟*
جواب : اسے سمجھنے کے لئے ہم یہ جان لیں کہ : منہیات کی دو حالتیں ہو سکتی ہیں :
1 - وہ منہیات جن کا تصور اور خیال دل و دماغ میں موجود ہی نہ ہو ۔
تو ان سے بچنے کے لئے نیت کی ضرورت نہیں ہے ۔
2 - وہ منہیات جو ذہن میں موجود ہوں اور اسے کر گزرنے کا ارادہ بھی ہو مگر انسان اسے عذاب کے خوف اور ثواب کی امید سے ترک کرنا چاہے تو ایسی صورت میں نیت کرنا ضروری ہے ۔
خلاصہ یہ مجرد طور پر منہیات کو ترک کرنے کے لئے نیت کی ضرورت نہیں ہے
لیکن اگر انسان عذاب کے خوب، ثواب کی امید اور تقرب الی اللہ کے لئے منہیات کو چھوڑنا چاہتا ہے تو اس کے لئے نیت کرنی ہو گی ۔
جیسا اس سلسلے میں درج ذیل فقہی قواعد معروف ہیں ۔
*المنهيات إذا لم تخطر ببال المكلف لا تحتاج إلى نية.*
*والمنهيات إذا قصد الكف عنها قربة لله صارة عبادة وأثيب عليها.*
سوال : کیا مجرد بھلائی کا ارادہ اور نیت کر لینے سے ثواب مل سکتا ہے؟؟؟
جواب : اس کی درج ذیل شکلیں ہیں ۔
1 - انسان بھلائی اور نیکی کا کام کرنے کی کوشش کرے لیکن کسی عذر اور رکاوٹ کی وجہ سے کر نہ پائے تو اس کے لئے اس بھلائی اور نیکی کے کام کا مکمل اجر لکھ دیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : " وَمَنۡ يَّخۡرُجۡ مِنۡۢ بَيۡتِهٖ مُهَاجِرًا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ ثُمَّ يُدۡرِكۡهُ الۡمَوۡتُ فَقَدۡ وَقَعَ اَجۡرُهٗ عَلَى اللّٰهِ ". ( النساء : 100).
" اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی طرف آپ نے گھر سے ہجرت کرتے ہوئے نکلے پھر (راہ ہی میں) اسے موت آلے تو اللہ کے ہاں اس کا اجر ثابت ہو جاتا ہے ".
2 - کسی نیکی کا ارادہ کرے اور اس کو کرنے کا عزم بھی کر لے ، لیکن اس سے افضل اور بڑی نیکی کی وجہ سے اسے ترک کر دے تو ایسی صورت میں اسے بڑی اور افضل نیکی کا ثواب تو ملے گا ہی ، اس پہلی اور چھوٹی نیکی کے نیت کا بھی ثواب مل جائے گا ۔
جیسا کہ فتح مکہ کے دن ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! میں نے اللہ سے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ نے آپ کو مکہ پر فتح نصیب کیا تو میں بیت المقدس میں دو رکعت ادا کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم یہیں ( مسجد حرام) میں پڑھ لو ، اس نے پھر وہی بات دہرائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا : یہیں پڑھ لو پھر اس نے وہی بات پوچھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اب تمہاری مرضی ". ( سنن ابو داؤد : 3305).
3 - کسی نیکی اور بھلائی کا ارادہ کرے لیکن سستی کی وجہ سے چھوڑ دے ۔
مثلا کوئی شخص دو رکعت نماز پڑھنے کی نیت کرے، اتنے میں اس کا کوئی ساتھی آئے اور اسے اپنے ساتھ لے جائے اور وہ اس کے ساتھ جانے کی وجہ سے نماز چھوڑ دے تو ایسی صورت میں اسے نیت کا ثواب مل جائے گا مگر عمل کا ثواب نہیں ملے گا کیونکہ اس نے عمل کو بلا کسی عذر کے چھوڑا ہے ۔
جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : " فَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا كَتَبَهَا اللَّهُ لَهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً كَامِلَةً ". (صحيح البخاري | كِتَابٌ : الرِّقَاقُ | بَابُ مَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ أَوْ بِسَيِّئَةٍ : 6491).
" جس نے کسی نیکی کا ارادہ کیا لیکن اس پر عمل نہ کر سکا تو اللہ تعالی نے اس کے لیے ایک مکمل نیکی کا بدلہ لکھا ہے ". ( دیکھئے شرح الأربعين النووية لابن عثيمين بتصرف ، ص : 369-370).
سوال اگر کوئی شخص صرف برائی کا ارادہ کرے لیکن عمل نہ کرے تو کیا اسے بھی ثواب یا عقاب ملے گا؟
جواب : اس کی درج ذیل چار صورتیں ہیں : ۔
1 - کسی برائی کو کرنے کا مکمل عزم اور ارادہ کرلے پھر اس کے دل میں اللہ کا خوف پیدا ہو جائے اور اللہ کے لئے اس برائی کو چھوڑ دے تو اس کے لئے ایک مکمل نیکی لکھ دی جاتی ہے ۔
جیسا کہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے : " وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا كَتَبَهَا اللَّهُ لَهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً كَامِلَةً ". (صحيح البخاري | كِتَابٌ : الرِّقَاقُ | بَابُ مَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ أَوْ بِسَيِّئَةٍ : 6491).
" اور جس نے کسی برائی کا ارادہ کیا اور پھر اس پر عمل نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اپنے یہاں ایک نیکی لکھی ہے " ۔
بعض روایت میں صراحت بھی موجود ہے : " إِنَّمَا تَرَكَهَا مِنْ جَرَّايَ ". ( صحيح مسلم : 129).
" اس لئے کہ اس نے گناہ کو میری وجہ سے چھوڑا ہے " ۔
جبکہ مسلم ہی کی حدیث میں بھی ہے : " وَإِذَا هَمَّ بِسَيِّئَةٍ وَلَمْ يَعْمَلْهَا لَمْ أَكْتُبْهَا عَلَيْهِ ". (صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْإِيمَانُ | بَابٌ : إِذَا هَمَّ الْعَبْدُ بِحَسَنَةٍ : 128).
" اور جس نے کسی برائی کا ارادہ کیا اور پھر اس پر عمل نہیں کیا تو اس پر گناہ نہیں لکھا جاتا ہے ۔
دونوں روایت میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ انسان نے گناہ کا ارادہ کر لینے کے بعد اللہ کے لئے چھوڑ دیا تو اسے اجر ملے گا اور اگر اللہ کے علاوہ کسی اور چیز کی وجہ سے چھوڑ دیا تو نہ اسے نیکی ملے گی اور نہ ہی گناہ " ۔ ( مقاصد المكلفين فيما يتعبد به لرب العالمين لسليمان الأشقر، ص : 140).
2 - کسی برائی کو کرنے کا مکمل عزم اور ارادہ کر لے لیکن اسے کرنے سے عاجز رہے اور اس کو کرنے کا ذریعہ اور سبب بھی اختیار نہ کرے تو اسے بری نیت کا ایک گناہ مل جائے گا ۔
جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال و دولت سے نوازا لیکن اسی علم سے محروم رکھا وہ اپنے مال میں غلط روش اختیار کرتا ہے، اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا ہے، نہ ہی صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اس مال میں اللہ کے حق کا خیال رکھتا ہے تو ایسے شخص کا درجہ سب درجوں سے بدتر ہے، اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال و دولت اور علم دونوں سے محروم رکھا، وہ کہتا ہے کاش میرے پاس مال ہوتا تو فلاں کی طرح میں بھی عمل کرتا ( یعنی: برے کاموں میں مال خرچ کرتا ) تو اس کی نیت کا وبال اسے ملے گا اور دونوں کا عذاب اور بار گناہ برابر ہو گا ". ( سنن الترمذي : 2325).
3 - کسی برائی کو کرنے کا مکمل عزم اور ارادہ کر لے اور اسے کر گزرنے کی پوری کوشش بھی کرے لیکن اسے کرنے سے عاجز رہے تو ایسی صورت میں اسے اس برائی کا مکمل گناہ اسے ملے گا، مثلا ایک چور کسی مسلمان کے گھر چوری کرنے جائے اور چوری کرنے مکمل کوشش کرے لیکن چوری کر نہ پائے تو پختہ عزم کرنے اور کوشش کرنے کی وجہ سے اسے چوری کرنے کا پورا گناہ ملے گا ۔
جیسا کہ ابو بکرۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ ". فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا الْقَاتِلُ، فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ ؟ قَالَ : " إِنَّهُ كَانَ حَرِيصًا عَلَى قَتْلِ صَاحِبِهِ ".( صحيح البخاري | كِتَابٌ : الْإِيمَانُ | بَابٌ : وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا : 31).
" جب دو مسلمان تلوار کھینچ کر ایک دوسرے سے بھڑ جائیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جاتے ہیں ۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ایک تو قاتل تھا لیکن مقتول کو سزا کیوں ملے گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ بھی اپنے قاتل کے قتل پر آمادہ تھا " ۔
4 - کسی برائی کا صرف ارادہ کرے اور اسے کرنے کا عزم نہ کرے پھر اسے چھوڑ دے مگر نہ تو اللہ کے لئے چھوڑے اور نہ عاجزی کی وجہ سے چھوڑے بلکہ بھول کر چھوڑ دے یا ویسے غفلت کی وجہ سے چھوڑ دے تو نہ اسے ثواب ملے گا اور نہ ہی گناہ ملے گا ۔ ( دیکھئے، شرح الاربعین النوویۃ لابن عثيمين ، ص : 370-371).
*سوال : کیا دل میں وسوسے اور خیالات کے پیدا ہونے پر بھی ثواب یا عقاب مل سکتا ہے؟؟*
جواب : وسوسہ جسے عربی زبان میں بھی " وسوسة " کہتے ہیں اور خیالات جسے عربی زبان میں " حدیث النفس " کہتے ہیں ان دونوں کا درجہ " ھم " سے کم ہوتا ہے ۔ یہ دونوں ہوا کے جھونکے کی طرح آتے جاتے رہتے ہیں اور دل میں ثابت اور قائم نہیں رہتے ۔
لہذا وسوسے اور خیالات پر کوئی گناہ یا ثواب نہیں ہے ۔
جیسا کہ حدیث کے اندر صراحت موجود ہے : " إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ لِي عَنْ أُمَّتِي مَا وَسْوَسَتْ بِهِ صُدُورُهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَكَلَّمْ ".(صحيح البخاري | كِتَابٌ : الْعِتْقُ | بَابُ الْخَطَأِ وَالنِّسْيَانِ فِي الْعَتَاقَةِ : 2528).
" اللہ تعالی نے میری امت کے دلوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں کو معاف کر دیا ہے جب تک وہ انہیں عمل یا زبان پر نہ لائیں " ۔
*سوال : عمل کرنا زیادہ مشکل ہے یا عمل میں اخلاص پیدا کرنا اور نیت کی اصلاح کرنا مشکل ہے ؟؟*
جواب : عمل میں اخلاص پیدا کرنا یا نیت کی اصلاح کرنا عمل کرنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے ۔
چنانچہ سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : " ما عالجت شيئًا عليّ أشدّ من نيتي، إنّها تتقلب علي ". ( المجموع : 1/29 بحوالہ ، مقاصد المكلفين فيما يتعبد به لرب العالمين ، ص : 360).
" میں نیت سے زیادہ سخت کسی اور چیز کا علاج نہیں کیا ،کیونکہ یہ ادھر ادھر پلٹتی رہتی ہے " ۔
یہی وجہ ہے کہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کثرت کے ساتھ یہ دعا مانگا کرتے تھے : " يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ، ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ ". قَالَتْ : فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لأَكْثَرِ دُعَاءَكَ : " يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ، ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ ؟ ". قَالَ : يَا أُمَّ سَلَمَةَ، إِنَّهُ لَيْسَ آدَمِيٌّ إِلَّا وَقَلْبُهُ بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللَّهِ، فَمَنْ شَاءَ أَقَامَ، وَمَنْ شَاءَ أَزَاغَ ". (سنن الترمذي | أَبْوَابُ الدَّعَوَاتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ | بَابٌ : 3522).
" اے دلوں کے پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر جما دے ". میں (ام سلمہ رضی الله عنہا) نے آپ سے پوچھا : اے اللہ کے رسول! آپ اکثر یہ دعا کیوں پڑھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا : اے ام سلمہ! کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے جس کا دل اللہ کی انگلیوں میں سے اس کی دو انگلیوں کے درمیان نہ ہو، تو اللہ جسے چاہتا ہے (دین حق پر ) قائم و ثابت قدم رکھتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس کا دل ٹیڑھا کر دیتا ہے " .
پھر حدیث کے راوی معاذ نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی : " رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ هَدَيۡتَنَا ". ( آل عمران : 8 )
" اے ہمارے پروردگار! ہمیں ہدایت دے دینے کے بعد ہمارے دلوں میں کجی نہ پیدا کر ".
*سوال : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دل کی ثبات قدمی کے لئے اتنی کثرت سے دعائیں کیوں کرتے تھے؟؟*
جواب : وہ اس وجہ سے کہ دل پر گزرنے والی حالات اور کیفیات - جسے ہم " قلبی واردات " کہہ سکتے ہیں - یکساں نہیں ہوتی ہیں ۔
چنانچہ حارث المحاسبی نے قلبی واردات کی تین قسمیں بیان کی ہیں : -
1 - دل کی ایک حالت اور کیفیت اللہ کی طرف سے تنبیہ کے طور پر ہوتی ہے ۔
جیسا کہ حدیث میں ہے ". مَن يُرِدِ اللُه به خَيْرًا يَجْعَلْ لَهُ واعِظَا مِن قَلْبهِ ".
2 - دل کی ایک حالت اور کیفیت شیطان کی طرف سے ہوتی ہے جسے وہ مزین کرکے، بنا سنوار کر اور وسوسہ ڈال کر تیار کرتا ہے ۔ لیکن جب بندہ اس کے وسوسے کو ترک کے اللہ کی پناہ طلب کر لیتا ہے تو اللہ اس کے وسوسے کو دور کر دیتا ہے اس کی مزین کی ہوئی دلی حالت اور کیفیت کو بدل دیتا ہے ۔
جیسا کہ اللہ فرماتا ہے : " وَاِمَّا يَنۡزَغَـنَّكَ مِنَ الشَّيۡطٰنِ نَزۡغٌ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰهِ ". ( الأعراف : 200).
" اور اگر کبھی شیطان تجھے اکسائے تو اللہ سے پناہ مانگ لیا کر " ۔
دوسری جگہ فرماتا ہے : " اَلَمۡ تَرَ اَنَّاۤ اَرۡسَلۡنَا الشَّيٰـطِيۡنَ عَلَى الۡكٰفِرِيۡنَ تَؤُزُّهُمۡ اَزًّا ". ( مریم : 83).
" تو نے دیکھا نہیں کہ ہم نے کافروں پر شیطان چھوڑ رکھے ہیں جو انھیں ہر وقت اکساتے رہتے ہیں ".
تیسری جگہ فرماتا ہے : " وَقَيَّضۡنَا لَهُمۡ قُرَنَآءَ فَزَيَّنُوۡا لَهُمۡ مَّا بَيۡنَ اَيۡدِيۡهِمۡ وَمَا خَلۡفَهُمۡ ". ( فصلت : 25).
" اور ہم نے ان پر کچھ ایسے ہم نشین مسلط کردیئے جو آگے سے اور پیچھے سے ان کے سارے کام خوشنما کرکے دکھاتے تھے ۔
نیز اسی بات کی تفصیل - سورۃ الناس اور سورۃ النساء : 118-119 - کے اندر بھی موجود ہے ۔
3 - تیسری چیز یا جہت جو دل میں اثر پیدا کرتی ہے وہ " نفس امارہ " ہے ۔ اور نفس امارہ صرف برائی، سرکشی اور طغیانی ہی کا حکم دیتا ہے ۔
جیسا کہ اللہ فرماتا ہے : " اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوۡٓءِ ". ( یوسف : 53).
" یقینا نفس تو برائی پر اکساتا رہتا ہے ".
اسی طرح جب یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے کہا کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا ہے تو انہوں نے فرمایا تھا : " بَلۡ سَوَّلَتۡ لَـكُمۡ اَنۡفُسُكُمۡ اَمۡرًا ". ( یوسف : 18).
" بلکہ تم لوگوں نے اس بات کو بنا سنوار لیا ہے " ۔ ( تفصیل کے لئے دیکھیں، مقاصد المكلفين فيما يتعبد به لرب العالمين ، ص : 361-364).
*سوال : کیا عبادت میں ریاکاری پیدا ہونے سے عبادت باطل ہو جاتی ہے؟*
جواب : عبادت کے ساتھ ریا کاری کی تین قسمیں ہو سکتی ہیں ۔
پہلی قسم : عبادت سے صرف دکھاوا اور نمود ونمائش مقصود ہو، جیسے کوئی شخص لوگوں کو دکھانے کے لئے نماز پڑھے تاکہ نماز کی پابندی کرنے کی وجہ سے لوگ اس کی تعریف کریں، تو اس سے عبادت باطل ہوجاتی ہے ۔
دوسری قسم : عبادت کے درمیان ریا اور دکھاوا شروع کر دے ۔
یعنی : عبادت کو اس نے خالص اللہ کے لئے شروع کیا ہو ، پھر عبادت کے دوران ہی ریا کا عنصر پیدا ہوگیا تو ایسی عبادت کی دو حالتوں سے خالی نہیں ہوگی ۔
پہلی حالت : عبادت کے پہلے حصے کو اس کے آخری حصے کے ساتھ نہ ملائے ۔
تو ایسی صورت میں پہلا حصہ صحیح ہوگا مگر آخری حصہ باطل ہوگا ۔
مثال کے طور پر ایک شخص کے پاس سو ریال ہے جسے وہ صدقہ کرنا چاہتا ہے، چنانچہ پچاس ریال اخلاص کے ساتھ صدقہ کرتا ہے اور باقی پچاس جو رہ گئے ہیں ان کے بارے میں وہ ریا میں مبتلا ہو جاتا ہے ، تو پہلے پچاس کا صدقہ صحیح اور مقبول ہوگا اور باقی پچاس کا صدقہ اخلاص کے ساتھ ریا مل جانے کی وجہ سے باطل ہوگا ۔
دوسری حالت :
عبادت کے پہلے حصے کو آخری حصے کے ساتھ ملا دے تو اس صورت میں انسان دو باتوں سے خالی نہ ہوگا ۔
1 - ریا کو دور کرنے کی کوشش کرے، اس کی طرف مائل نہ ہو بلکہ اسے ناپسند کرتے ہوئے اس سے اعراض کرنے کی سعی کرے ، تو اس ریا کا کوئی اثر نہ ہوگا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : إِنَّ اللّٰهَ تَجَاوَزَ عَنْ اُمَّتِی مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسُهَا مَا لَمْ تَعْمَلِْ أَوْ تَتَکَلَّمْ ".(صحيح البخاري | كِتَابُ الطَّلَاقِ. | بَابُ الطَّلَاقِ فِي الْإِغْلَاقِ وَالْكُرْهِ، وَالسَّكْرَانِ وَالْمَجْنُونِ : 5259).
" بے شک اللہ تعالی نے میری امت کے دل میں آنے والی باتوں کو نظر انداز فرمایا ہے، جب تک کہ اس پر عمل نہ کرے یا اسے زبان سے ادا نہ کر دے ".
2 - ریا کاری سے مطمئن ہو اور اسے دور کرنے کی کوشش نہ کرے، تو اس سے ساری عبادت باطل ہو جاتی ہے کیونکہ اس کا ابتدائی حصہ آخری حصے کے ساتھ ملا ہوا ہے ۔
مثلا کوئی شخص اخلاص کے ساتھ نماز شروع کرے اور پھر دوسری رکعت میں ریا میں مبتلا ہو جائے تو ابتدائی حصے کے آخری حصے کے ساتھ ملے ہونے کی وجہ سے نماز باطل ہو جائے گی ۔
تیسری قسم :
عبادت کے ختم ہونے کے بعد ریا طاری ہو تو وہ ریا عبادت پر اثر انداز نہ ہوگی اور نہ ایسے ریا سے عبادت باطل ہوگی -
کیونکہ ریا یہ نہیں ہے کہ انسان اس بات سے خوش ہو کہ لوگوں کو اس کی عبادت کے بارے میں معلوم ہے کیونکہ اس صورت میں یہ بات عبادت سے فراغت کے بعد طاری ہوئی ہے اور یہ بھی ریا نہیں ہے کہ انسان اپنے نیک کام سے خوش ہو کیونکہ یہ تو اس کے ایمان کی دلیل ہے، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
" مَنْ سَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ وَسَاءَتْهُ سَيِّئَتُهُ فَذَلِكُمُ الْمُؤْمِنُ". (سنن الترمذي | أَبْوَابُ الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. | بَابٌ : مَا جَاءَ فِي لُزُومِ الْجَمَاعَةِ : 2165).
" جسے اپنی نیکی سے خوشی ملے اور گناہ سے غم لاحق ہو حقیقت میں وہی مومن ہے ".
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ : أَرَأَيْتَ الرَّجُلَ يَعْمَلُ الْعَمَلَ مِنَ الْخَيْرِ وَيَحْمَدُهُ النَّاسُ عَلَيْهِ ؟ قَالَ : " تِلْكَ عَاجِلُ بُشْرَى الْمُؤْمِنِ ".(صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْبِرُّ وَالصِّلَةُ وَالْآدَابُ | بَابٌ : إِذَا أُثْنِيَ عَلَى الصَّالِحِ فَهِيَ بُشْرَى وَلَا تَضُرُّهُ : 2642).
" آپ اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو نیک کام کرتا ہے اور اس کی وجہ سے لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " یہ مومن کو جلدی ملنے والی بشارت ہے ". (مجموع فتاوى ورسائل العثيمين : 208-2/207).
*سوال : کیا ریا کاری کے ڈر سے عمل کرنا ترک کر سکتے ہیں؟؟*
جواب : بعض لوگ ریاکاری کے ڈر سے عمل کرنا ہی ترک کر دیتے ہیں جو کی درست نہیں ہے ۔
قاضی عیاض فرماتے ہیں : " ترك العمل لأجل الناس رياء، والعمل لأجل الناس شرك ". (الفتوحات الربانية على الأذكار النواوية : 1/70)
لوگوں کی وجہ سے عمل ترک کر دینا ریا کاری ہے اور لوگوں کی خاطر عمل کرنا شرک ہے ".
امام نووی رحمہ اللہ اس کلام پر تعلیق لکھتے ہوئے فرماتے ہیں : " ومعنى كلامه رحمه تعالى : أن من عزم على عبادة، وتركها مخافة أن يراه الناس فهو مراء، لأنّه ترك العمل لأجل الناس، أما لو تركها ليصليها في الخلوة فهذا مستحب، إلاّ أن تكون فريضة أو زكاة واجبة … (الشرك في القديم والحديث : 2/1308، مقاصد المكلفين فيما يتعبد به لرب العالمين ، ص : 464).
" قاضی عیاض رحمہ اللہ کے کلام کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص کسی عبادت کو بجالانے کا عزم کرلے پھر اس خوف سے ترک کردے کہ لوگ اسے دیکھ لیں گے تو ایسا شخص ریاکار کار ہے ، ہاں اگر یہ سوچ کر ترک کر دے رہا ہے کہ خلوت اور تنہائی میں جاکر وہ نماز پڑھ لے گا تو یہ مستحب ہے الا یہ کہ وہ فرض نماز ہو یا واجبی زکاة ہو تو اسے ریاکاری کے خوف سے موخر کرنا قطعا درست نہیں ہے ۔
ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ریا کی مذمت میں بھی شیطان کی ایک چال ہوتی ہے اور وہ یہ کہ بہت سارے لوگ ریا کے ڈر سے خیر وبھلائی کے کام ترک کر دیتے ہیں ". ( رسائل ابن حزم : 3/181، ومقاصد المكلفين فيما يتعبد به لرب العالمين ، ص : 464).
خلاصہ یہ کہ یہ شیطان کی ایک چال ہوتی ہے اس کے ذریعے سے وہ لوگوں کو عبادت اور خیر وبھلائی سے دور رکھنا چاہتا ہے لہذا اس سے بچنا ضروری ہے ۔
*سوال : کیا بعض مامورات سے کراہت اور بعض منہیات سے محبت گناہ ہے؟؟*
جواب : بعض منہیات سے لگاؤ اور محبت نیز بعض مامورات سے کراہت معصیت اور گناہ نہیں ہے جب تک کہ انسان ان کرنے یا نہ کرنے کا عزم، ارادہ اور نیت نہ کرلے ۔
کیونکہ یہ چیز انسان کی قدرت سے باہر ہے وہ اپنے آپ کو بعض منہیات کی لگاؤ اور بعض مامورات کی کراہت سے نہیں روک سکتا ۔
چنانچہ اللہ رب العزت نے جہاد کے بارے میں فرمایا : " كُتِبَ عَلَيۡکُمُ الۡقِتَالُ وَهُوَ كُرۡهٌ لَّـكُمۡۚ وَعَسٰۤى اَنۡ تَكۡرَهُوۡا شَيۡــئًا وَّهُوَ خَيۡرٌ لَّـکُمۡۚ وَعَسٰۤى اَنۡ تُحِبُّوۡا شَيۡــئًا وَّهُوَ شَرٌّ لَّـكُمۡؕ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ وَاَنۡـتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ". ( البقرة : 216).
" تم پر جہاد فرض کیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے ۔ اور یہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناگوار سمجھو اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی چیز کو تم پسند کرو اور وہ تمہارے حق میں بری ہو۔ اور اللہ ہی خوب جانتا ہے، تم نہیں جانتے " ۔
جبکہ بعض منہیات کے بارے میں فرمایا : " زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالۡبَـنِيۡنَ وَالۡقَنَاطِيۡرِ الۡمُقَنۡطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالۡفِضَّةِ وَالۡخَـيۡلِ الۡمُسَوَّمَةِ وَالۡاَنۡعَامِ وَالۡحَـرۡثِ ". ( آل عمران : 14).
" لوگوں کے لیے خواہشات نفس سے محبت، جیسے عورتوں سے، بیٹوں سے، سونے اور چاندی کے جمع کردہ خزانوں سے، نشان زدہ گھوڑوں مویشیوں اور کھیتی سے محبت دلفریب بنادی گئی ہے " ۔
ان چیزوں کی محبت اس وقت ممنوع ہے جب ان سے حرام طریقے سے محبت کی جائے، پھر بھی یہ چیزیں انسان کو پسند ہوتی ہے ۔
مثلا : کسی غیر محرم عورت سے محبت وغیرہ ۔
لہذا ریاکاری اور دیگر بہت ساری معصیت سے محبت نیز بہت سارے خیر وبھلائی سے کراہت گناہ اور معصیت نہیں ہے ". ( تفصیل کے لئے دیکھ سکتے ہیں، قواعد الأحكام في مصالح الأنام لابن عبد السلام : 1/ 148).
سوال : بغیر نیت کے صادر ہونے والے اعمال کی کیا حیثیت ہے؟؟
جواب : ایسے افعال کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں جو بغیر قصد وارادے کے صادر ہو جاتے ہیں ۔
مثلا : ایک شخص کے کان میں قرآن پڑھنے کی آواز آتی ہے مگر وہ سننے کی نیت نہیں کرتا ہے تو اسے ثواب ملنے والا نہیں ہے کیونکہ اس نے سننے کی نیت نہیں کی ہے ۔
اسی طرح ایک شخص کے کان میں کسی حرام چیز کی آواز آتی ہے مگر اس نے سننے کی نیت نہیں کی ہوتی ہے تو اسے گناہ ملنے والا نہیں ہے ۔
اسی طرح اگر کسی نے روزے کی حالت میں بھول کر کھانا کھا لیا تو اس کا روزہ درست ہوگا ". ( أفعال المكلفين فيما يتعبد به لرب العالمين لسليمان الأشقر، ص : 66).
اسی طرح اگر انسان اپنی زبان سے کوئی بات کہے مگر دل میں نیت کچھ اور ہو تو اعتبار دل کی نیت کا کیا جائے گا زبان سے کہی ہوئی بات کا نہیں ۔
جیسے کسی نے حج کی نیت کی لیکن زبان عمرہ کا تلبیہ پکار دیا تو ایسی صورت میں دل کی نیت کا اعتبار کیا جائے گا زبان سے ادا کئے ہوئے تلفظ کا نہیں ۔
اسی طرح اگر کسی نے سبقت لسان کی وجہ سے یا عادت کے طور پر قسم کھا لیا اور دل میں قسم کھانے کی نیت نہیں کی تو اس پر کفارہ لازم نہیں ہوگا ، اللہ تعالی فرماتا ہے : " لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغۡوِ فِىۡۤ اَيۡمَانِكُمۡ وَلٰـكِنۡ يُّؤَاخِذُكُمۡ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الۡاَيۡمَانَ ". ( المائدة : 89).
" اللہ تمہاری لغو قسموں پر تو گرفت نہیں کرے گا لیکن جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ان پر ضرور مواخذہ کرے گا " ۔ ( دیکھئے ، أفعال المكلفين فيما يتعبد به لرب العالمين لسليمان الأشقر، ص : 122-123).