ابومحمدعبدالاحدسلفی
Member










أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ


توحیدِ باری تعالیٰ سے متعلقہ شکوک وشبہات کا ازالہ،اردو ترجمہ کتاب
کَشْفُ الشُّبُہَات

رسولوں کی پہلی دعوت
توحیدِالوہیّت وعبادت کی تعلیم
قارئینِ کرام!
اللّٰہ آپ پر رحم فرمائے۔یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ اللہ سبحانہ‘ وتعالیٰ کو ہر قسم کی عبادت کے لیے منفرد اور یکہ وتنہا تسلیم کرنے کا نام ’’توحید‘‘ ہے اور یہی اُن تمام رسولوں کا دین ہے جنہیں اللہ نے اس دعوت کے لیٔے اپنے بندوں کی طرف بھیجا۔ان میں سے پہلے رسول حضرت نوح علیہ السلام ہیں،جنہیں اللہ نے اس وقت مبعوث فرمایا جب ان کی قوم ودّ،سواع،یغوث،یعوق اور نسر جیسے صالحین کے احترام وعقیدت میں غلو کا شکار ہوگئی۔[1]
[وَ قَالُوۡا لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمۡ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا ۙ وَّ لَا يَغُوۡثَ وَيَعُوۡقَ وَنَسۡرًا ۞
{سورۃ نمبر,71 نوح,آیت نمبر 23}
اور کہا انہوں نے کہ ہرگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا اور نہ ودّ اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو (چھوڑنا)۔"
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا هِشَامٌ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ وَقَالَ عَطَاءٌ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا صَارَتْ الْأَوْثَانُ الَّتِي كَانَتْ فِي قَوْمِ نُوحٍ فِي الْعَرَبِ بَعْدُ أَمَّا وَدٌّ كَانَتْ لِكَلْبٍ بِدَوْمَةِ الْجَنْدَلِ وَأَمَّا سُوَاعٌ كَانَتْ لِهُذَيْلٍ وَأَمَّا يَغُوثُ فَكَانَتْ لِمُرَادٍ ثُمَّ لِبَنِي غُطَيْفٍ بِالْجَوْفِ عِنْدَ سَبَإٍ وَأَمَّا يَعُوقُ فَكَانَتْ لِهَمْدَانَ وَأَمَّا نَسْرٌ فَكَانَتْ لِحِمْيَرَ لِآلِ ذِي الْكَلَاعِ أَسْمَاءُ رِجَالٍ صَالِحِينَ مِنْ قَوْمِ نُوحٍ فَلَمَّا هَلَكُوا أَوْحَى الشَّيْطَانُ إِلَى قَوْمِهِمْ أَنْ انْصِبُوا إِلَى مَجَالِسِهِمْ الَّتِي كَانُوا يَجْلِسُونَ أَنْصَابًا وَسَمُّوهَا بِأَسْمَائِهِمْ فَفَعَلُوا فَلَمْ تُعْبَدْ حَتَّى إِذَا هَلَكَ أُولَئِكَ وَتَنَسَّخَ الْعِلْمُ عُبِدَتْ۔
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم کو ہشام نے خبر دی ، ان سے ابن جریج نے اور عطا ءنے بیان کیا اور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جو بت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں پوجے جاتے تھے بعد میں وہی عرب میں پوجے جانے لگے ۔ ود دومۃ الجندل میں بنی کلب کا بت تھا ۔ سواع بنی ہذیل کا ۔ یغوث بنی مراد کا اور مراد کی شاخ بنی غطیف کا جو وادی اجوف میںقوم سبا کے پاس رہتے تھے ” یعوق “ بنی ہمدان کا بت تھا ۔ نسر حمیر کا بت تھا جو ذوالکلاع کی آل میں سے تھے ۔ یہ پانچوں حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک لوگوں کے نام تھے جب ان کی موت ہو گئی تو شیطان نے ان کے دل میں ڈالا کہ اپنی مجلسوں میں جہاں وہ بیٹھے تھے ان کے بت قائم کر لیں اوران بتوں کے نام اپنے نیک لوگوں کے نام پر رکھ لیں چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اس وقت ان بتوں کی پوجا نہیں ہوتی تھی لیکن جب وہ لوگ بھی مر گئے جنہوں نے بت قائم کئے تھے اور علم لوگوں میں نہ رہا تو ان کی پوجا ہونے لگی ۔
{صحیح بخاری حدیث نمبر: 4920,کتاب: قرآن پاک کی,تفسیر کے بیان میں,باب: ودّ اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کی تفسیر}]
اور آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنھوں نے اُن صالحین کے بتوں کو توڑا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللّٰہ نے ایسے لوگوں کا رسول بنایا جو عبادت کرتے‘حج کرتے‘صدقہ وخیرات کرتے اور اللہ کا بہت ذکر کیا کرتے تھے،لیکن مخلوقات ِ الٰہیہ میں سے بعض کو مثلاً فرشتوں‘عیسیٰ علیہ السلام‘ مریم علیھا السلام اور دیگر نیک لوگوں کو وہ اپنے اور اللہ کے درمیان واسطہ مقرر کر لیتے اور کہتے تھے کہ ہم ان کے ذریعہ تقرّب ِ الٰہی چاہتے
________________________________________________
[1] تاریخ شاہد ہے کہ ان لوگوں نے صالحین کی قبروں پر گوناں گوں شرک ، قبروں طواف ، اہل قبول سے مرادیں مانگنا اور شیطان کی چالوں پر عمل کرنا شروع کر دیا تھا ۔ (قمر)
صفحہ نمبر: 15
ہیں۔اور اللہ کے ہاں ان کی سفارش کے خواہاں ہیں۔
تب اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کے لیے اُن کے جدِّامجد حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے دین کی تجدید کریں اور ان کو خبردار کریں کہ یہ تقرّب اور عقیدت تو صرف اور صرف اللہ کا حق ہے۔یہ کسی مقرّب فرشتے کے لیے رَوا ہے نہ کسی برگزیدہ نبی کے لیے زیبا،چہ جائیکہ کسی دوسرے کے لیے ہو۔ورنہ یہ تو پہلے مشرکین بھی مانتے تھے کہ اللہ جلَّ شانہ،بِلاشرکت ِ غیرے خالق ِ کائنات ہے،اُس کے سوا کوئی رازق نہیں،اس کے علاوہ کوئی پیدا کرنے والا نہیں اور نہ ہی کوئی مارنے والا ہے۔اُس کے سوا کوئی کارساز نہیں اور یہ ارض وسماء اور جو کچھ اِن میں ہے،سب اس کے غلام اور اس کے قبضہ قدرت میں ہیں۔

مشرکین کا ا قرارِ توحیدِ ربوبیّت
اگر آپ کو اس کا ثبوت درکار ہو کہ جن مشرکین کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قتال و جہاد کیا وہ توحید ِ ربوبیّت کے قائل تھے تو اللہ تعالیٰ کے اس ارشادِ مُبارک پر غور فرمائیں:
﴿قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ یُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَالْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَمَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَ فَسَیَقُوْلُوْنَ اللّٰہُ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَo﴾
(سورۃ یونس:۳۱)
’’ ان سے پوچھیں کہ ارض وسما ء سے پیدا کرکے رزق کون دیتاہے؟شنوائی اور بینائی کس کی ملکیت ہیں؟عدم سے ہستی اور ہستی سے عدم میں کون لاتا ہے؟(یعنی موت وحیات کون دیتا ہے؟)اور کارساز کون
صفحہ نمبر: 16
ہے؟ تو وہ سب یہی کہیں گے کہ اللہ ہے۔ان سے کہیں:کیا تم اُس سے نہیں ڈرتے؟‘‘
اور فرمان ِ الٰہی ہے:
﴿قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِیْھَآ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰہِ قُلْ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَo قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِo سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰہِ قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَoقُلْ مَنْ بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْیئٍ وَھُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْہِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰہِ قُلْ فَاَنّٰی تُسْحَرُوْنَ﴾
(سورۃ المؤمنوں:۸۴۔۸۹)
’’اُن سے پوچھیں کہ یہ زمین اور جو کچھ اس میں ہے کس کے ہیں؟ اگر آپ جانتے ہیں(توبتاؤ)۔وہ کہیں گے اللہ کے،انہیں کہیں:تو کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟ ان سے پوچھیں کہ ان ساتوں آسمانوں اور عرش ِ عظیم کا رب کون ہے؟ وہ کہیں گے:اللہ ہے،تو ان سے کہیں کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے؟ان سے پوچھیں کہ ہر چیز کی بادشاہی کس کے ہاتھ میں ہے،جو پناہ دیتا ہے مگر اسکے مقابل کوئی پناہ نہیں دے سکتا؟اگر تم جانتے ہوتو بتاؤ؟وہ کہیں گے کہ سب کچھ اللہ ہی کاہے۔اُنھیں کہیئے کہ پھر تم کدھر سے سحرزدہ کیئے جاتے ہو۔‘‘
اور ان کے علاوہ ایسی ہی دیگر آیات ان کو بطور ِثبوت سُنائیں۔
جب یہ بات پایہ تحقیق کو پہنچ گئی کہ مشرکین توحیدِ ربوبیّت کا اقرار کرتے تھے مگر ان کا اقرارِ ربوبیّت اُنہیں اس توحید میں داخل نہ کرسکا جِس کی دعوت رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی۔اور آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ وہ توحید جس کا انھوں نے انکار کیا’’توحید ِ عبادت‘‘ تھی،جسے ہمارے زمانہ کے مشرکین ’’عقیدت‘‘ کا نام دیتے ہیں۔گویا وہ بزرگ وبرتراللہ کو تو شب وروز پکارتے تھے مگر ان میں سے بعض لوگ فرشتوں کو ان کی صلاحیت و صالحیّت اور مقرّبینِ الٰہی ہونے
صفحہ نمبر: 17
کی وجہ سے پکارتے،تاکہ وہ ان کی شفاعت وسفارش کریں،یا کسی نیک آدمی جیسے لات یا کسی نبی مثلاً عیسیٰ علیہ السلام کو پکارتے تھے۔اور آپ یہ بات بھی سمجھ گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ اسی شرک کی وجہ سے جہاد کیا اور انہیں اللہ کی مخلصانہ عبادت کی دعوت دی۔جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
﴿وَاِنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰہِ قَلَا تَدْ عُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًاo﴾
(سورۃ الجنّ:۱۸)
’’اور بیشک مساجد اللہ کیلئے ہیں لہٰذااللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو مت پکارو۔‘‘
اور فرمان ِ الٰہی ہے:
﴿لَہ‘ دَعْوَۃُ الْحَقِّ وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ لَا یَسْتَجِیْبُوْنَ لَھُمْ بِشَیْئٍ﴾
(سورۃ الرعد:۱۴)
’’حقیقی دعوت وپکار اُسی کے لیے ہے اور جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ اُنہیں کوئی جواب نہیں دیتے۔‘‘
اس طرح یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ جہاد کیا تا کہ دُعاء وپکار‘نذر ونیاز‘ ذبح وقربانی‘ استغاثہ واستعانت اور عبادت کی دیگر تمام قسمیں محض اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہو جائیں۔
اور جب آپ کو اس بات کا علم بھی ہوگیا کہ ان کے صرف توحید ِ ربوبیّت کے اقرارنے انہیں اسلام میں داخل نہ کیا اور بلا شبہ ملائکہ،اَنبیاء و اولیاء کی شفاعت اور تقرّب الٰہی کی خاطر ان کی طرف قصد کرنا ہی وہ گناہ تھاکہ جس نے ان کے جان ومال(بطورِغنیمت مسلمانوں کیلئے)حلال کردیئے،تب آپ کو اُس توحید کا علم ہوگیا جس کی طرف رسولوں علیہم السلام نے دعوت دی اور جس کے ماننے سے مُشرکین نے انکار کردیا۔
صفحہ نمبر: 18

لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا مطلب
یہ تو حید ِ عبادت(یا توحید ِالوہیّت)ہی ہے جو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا معنیٰ مقصود اور مطلوب ہے۔مشرکین ِ مکّہ کی نظر میں بِلاتردّد’’الٰہ‘‘ وہی تھا جس کی طرف ان امور(دُعاء۔نذر۔ذبح۔استغاثہ)کے لیے قصد کیا جائے چاہے وہ فرشتہ ہو،نبی ہو یا ولی،درخت ہو،قبر ہو یا جن بھوت۔مشرک یہ تو نہ مانتے تھے کہ الٰہ وہ ہے جو پیدا کرتا ہے،رزق دیتا ہے اور کارساز ہے۔وہ سمجھتے تھے کہ یہ صفات تو صرف اللہ تعالیٰ کی ہیں جیسا کہ سابقہ سطور میں ان کا اقرار پیش کیا گیا ہے۔دراصل اِلٰہ سے ان کی یہی مراد ہوتی تھی جو کہ ہمارے زمانے کے مشرکین کی ’’پیر ومرشد‘‘ سے ہوتی ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھیں کلمۂ توحید:
((لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ))
’’ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔‘‘
کی طرف دعوت دینے کے لیے آئے اور اس کلمہ سے اس کا اصل معنیٰ مقصودو مطلوب تھا‘ نہ کہ صرف اس کی عبارت والفاظ۔اور وہ جاہل کفار جانتے تھے کہ اس کلمہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد صرف ایک اللہ سے تعلق پیدا کرنا،اللہ کے مقابل تمام معبودانِ باطلہ کا انکار کرنا اور ان کی عبادت سے بریٔ الذّمہ ہونا ہے۔
لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں فرمایا کہ کہو:
((لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ))
’’اللہ کے سِوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔‘‘
توانھوں نے جواب دیا:
﴿اَجَعَلَ الْاٰ لِھَۃَ اِلٰھًا وَّاحِدًا اِنَّ ھٰذَ الَشَیْئٌ عُجَابٌo﴾
(سورۃ صٓ:۵)
صفحہ نمبر: 19
’’کیا اس نے تمام بتوں کے بجائے ایک معبود مقرر کر دیا ہے؟یہ تو تعجّب انگیز بات ہے۔‘‘
جب آپ کو معلوم ہوگیا کہ وہ جاہل کفّار یہ سب باتیں صحیح طور پر جانتے تھے۔تو کس قدر تعجّب ہے اُس شخص پرجو اسلام کا دعویٰ کرتا ہے مگر اس کلمہ کا مفہوم ومطلب نہیں جانتا جسے گنوار کافربھی جانتے تھے۔یہ کلمہ کے مطلوب ومقصوداور معانی کے ساتھ دلی اعتقاد وعمل کی بجائے صرف اس کے الفاظ کی رٹ لگا تے جانے کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھا ہے،جبکہ ان کفار میں سے ہر صاحب ِ عقل اس کا مفہوم سمجھتا تھا کہ اللہ کے سوا نہ کوئی پیدا کرتا ہے،نہ رزق دیتا ہے اور نہ ہی کوئی کارساز ہے۔ایسے آدمی میں خیروبھلائی کا شائبہ تک نہیں جس سے ناخواندہ کفار بھی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا معنیٰ بہتر طور پر سمجھتے تھے۔

نعمتِ توحید پرخوشی اوراس کے سلب ہوجانے کاخوف
جس وقت آپ کو میری ذکر کردہ بات کا قلبی عرفان حاصل ہوگیا،اور اُس شرک باللہ کا پتہ چل گیا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَادُوْنَ ذَالِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدِ افْتَرَیٰ اِثْماًعَظِیْماًo﴾
(سورۃ النساء:۴۸)
’’بیشک اللہ یہ معاف نہ کرے گا کہ اُس کے ساتھ کسی کو شریک کیاجائے اوراُس کے علاوہ وہ جسے چاہے بخش دے گا۔‘‘
اور آپ اللہ کے اُس دین کو پہچان گئے جو اول تا آخر تمام رسولوں کا دین رہا اور جس کے ماسوا کو اللہ قبول نہیں کرے گا،اور جب اس دین سے جہالت
صفحہ نمبر: 20
کے سبب اکثر لوگوں کی ابتر حالت آپ نے دیکھ لی تو اس سے آپ کو دو فائدے حاصل ہوں گے:
پہلا فائدہ:
اس کا پہلا فائدہ یہ ہوگا کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت(عقیدۂ توحیدکے اپنانے)پر خوشی حاصل ہوگی،جیسا کہ ارشادِ باری ہے:
﴿قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَلْیَفْرَا حُوْاھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَo﴾(سورۃ یونس:۵۷)
’’کہہ دیجیئے کہ اللہ کے فضل اور رحمت پر خوش ہوجائیں۔یہ ان کی جمع پونجی سے بدرجہا بہتر ہے۔‘‘
دوسرا فائدہ:
اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ کفر وشرک کے ارتکاب کابہت زیادہ خوف دل میں بیٹھ جائے گا۔بلاشبہ جب آپ کو علم ہوگیا کہ انسان اپنی زبان سے نکلی ہوئی کسی بات سے کافر ہوجاتا ہے،اگرچہ وہ نا دانستہ طور پروہ بات کرتا ہے۔لیکن اس کا عذرِنادانستگی رائیگاں جائےگا۔ایسی بات کرتے ہوئے وہ اس خام خیالی میں مبتلا ہوتاہے کہ یہ اُسے اللہ کا مقرّب بنادے گی جیسا کہ کفار کرتے تھے۔بالخصوص اگر اللہ آپ کووہ واقعہ ذہن نشین کرادے جو قوم ِ موسیٰ علیہ السلام کے علم وصلاحیت اور نیکی کے باوجود ان کے متعلق بیان کیا گیاہے کہ وہ یہ کہتے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے:
﴿اِجْعَلْ لَّنَآ اِلٰھاً کَمَا لَھُمْ آلِھَۃٌ﴾(سورۃ الاعراف:۱۳۸)
’’ہمارے لیے بھی ان مشرکین کے بتوں کی طرح ایک مجسّم معبودمقرر کردیں۔‘‘
انکا یہ واقعہ آپ میں ایسے انجام تک پہنچانے والے کفر وشرک کے ارتکاب کے خوف اور اس انجام سے بچانے والی توحید کی حفاظت کے جذبے کو بہت زیادہ کردے گا۔
صفحہ نمبر: 21

حکمتِ الٰہی
یہاں اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ بلاشُبہ یہ بھی حکمت ِ الٰہی ہے کہ اس نے اِس تو حید ِ الوہیّت کا داعی کوئی ایسا نبی نہیں بھیجا جس کے بہت سے دشمن نہ بنائے ہوں،جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿وَکَذَالِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّاشَیَاطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًo﴾(سورۃ الانعام:۱۱۲)
’’اور اسی طرح ہم نے،نبی کے لیے جنّوں اور انسانوں سے شیطان صفت دشمن بنائے جو ایک دوسرے کے دل میں،دھوکہ و فریب کاری کے لیے،ملمّع کی ہوئی باتیں ڈالتے رہتے تھے۔‘‘
اور توحید کے دشمنوں کے پاس بہت زیادہ علوم ‘کتابیں اور دلائل و براہین بھی ہوسکتے ہیں جیسا کہ ارشاد ِ ربّانی ہے:
﴿فَلَمَّا جَآئَ تْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَرِحُوْابِمَا عِنْدَھُمْ مِنَ الْعِلْمِo﴾
(سورۃ الغافر:۸۲)
’’غرض جب اُن کے پیغمبران کے پاس کھلی دلیلیں لے کر آئے تو وہ لوگ اپنے اُس علم پر بڑے نازاں ہوئے جو اُن کو حاصل تھا۔‘‘
صفحہ نمبر: 22

فریضہ تعلیم ِکتا ب و سنّت
جب آپ کو یہ معلوم ہوگیا بلکہ یقین آگیا کہ اللہ کے دین(صراط مستقیم)پر چلنے کے لیے،اس راہ پر بیٹھے ہوئے فصیح الّلسان اور اہلِ علم ودلائل،دشمنانِ دین سے سامناحتمی وناگزیر ہے،تو آپ کا فرض ہے کہ تعلیمات ِ دینیّہ سے مسلح ہوجائیں تاکہ اُن شیاطین کا دنداں شکن مقابلہ کرسکیں جن کے قائد اور سرغنے ابلیس ِلعین نے ربِّ ذوالجلال سے کہاتھا:
﴿لَاَقْعُدَنَّ لَھُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَoثُمَّ لَاٰ تِیَنَّھُمْ مِنْم بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَمِنْ خَلْفِھِمْ وَعَنْ اَیْمَانِھِمْ وَعَنْ شَمَآئِلِھِمْ وَلَا تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شَاکِرِیْنَo﴾
(سورۃ الاعراف:۱۶۔۱۷)
’’میں(انھیں گمراہ کرنے کے لیے)تیری سیدھی راہ پر بیٹھوں گا،پھر اُن کے پاس ان کے آگے سے،پیچھے سے،دائیں طرف سے اور بائیں جانب سے آؤں گا اور تو ان میں سے اکثریت کو شکر کرنے والے نہیں پائے گا۔‘‘
لیکن جب آپ نے اللہ کی طرف رجوع کرلیا‘اس کے دلائل و براہین کی طرف متوجہ ہوگئے تو پھر کوئی خوف وخطرہ اور فکر وغم نہ کریں کیونکہ قرآن وحدیث کے سامنے حسب ِ ارشادِ الٰہی:
﴿اِنَّ کَیْدَ الشَّیْطٰنِ کَانَ ضَعِیْفًاo﴾
(سورۃ النساء:۷۶)
’’شیطان کی چالیں بڑی کمزور وبے بُنیاد ہوتی ہیں۔‘‘
صفحہ نمبر: 23
اہلِ توحید میں سے صرف ایک آدمی بھی ان مشرکین کے ہزاروں اہل ِ علم پر غالب آجائے گا۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:
﴿اَوِنَّ جُنْدَ نَا لَھُمْ الْغَالِبُوْنَ﴾
(سورۃ الصّٰٓفّٰت:۱۷۳)
’’یقیناًہمارے(مخلص بندوں کے)لشکرہی اُن پر غالب ہیں۔‘‘
بلاشبہ اللہ کے بندے جس طرح دلیل وزباں سے ان پر فائق ہوتے ہیں اُسی طرح ہی شمشیروسناں سے بھی غالب رہتے ہیں۔اور خطرہ صرف اس موحّد کے لیے ہے جو راہ ِ توحید پر تو چلے مگر علم کے اسلحہ سے نہتّہ اورتہی دامن ہو۔ہم پر تو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب نازل فرماکر بہت بڑا احسان کیا ہے جس کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿تِبْیَانًالِّکُلِّ شَیْ ٍٔوَّھُدًی وَّرَحْمَۃً وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَo﴾
(سورۃ النحل:۸۹)
’’اِس میں ہر بات کی وضاحت ہے۔اور مسلمانوں کے لیے ذریعہ ہدایت اورباعث ِ رحمت وبشارت ہے۔‘‘
اہل ِ باطل کوئی بھی دلیل وحجّت پیش کریں۔قرآن ِ پاک میں اس کے توڑ اور بُطلان کا سامان موجود ہے۔چنانچہ ارشاد ِ الٰہی ہے:
﴿وَلَا یَاْ تُوْ نَکَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنَاکَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًاo﴾
(سورۃ الفرقان:۳۳)
’’وہ کوئی بات بھی لائیں ہم آپ کو حق بات پہنچادیتے ہیں اور بہت اچھا کھول کر بیان کردیتے ہیں۔‘‘
صفحہ نمبر: 24
قسط#2 کالنک
قسط#3 آخری قسط کالنک