صفی الرحمن ابن مسلم فیضی
Member
لوگو یاد رکھو!
توحید عظمت و فضیلت لے لحاظ سے بہت عظیم ہے، یہ گناہوں کا کفارہ ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
اَلَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَلَمْ يَلْبِـسُوٓا اِيْمَانَـهُـمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِكَ لَـهُـمُ الْاَمْنُ وَهُـمْ مُّهْتَدُوْنَ (انعام۔ 82)
جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں شرک نہیں ملایا انہیں کے لئے امن ہے اور وہی راہ راست پر ہیں۔
عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَأَنَّ عِيسَى عَبْدُ اللَّهِ وَابْنُ أَمَتِهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ، وَأَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَأَنَّ النَّارَ حَقٌّ أَدْخَلَهُ اللَّهُ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ الثَّمَانِيَةِ شَاءَ.
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا جوشخص یہ کہے کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ،اور محمد ﷺاس کے بندے اور رسول ہیں۔اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور اس کی باندی (مریم علیہ السلام )کے بیٹے ہیں اور اس کے کلمہ (بات) سے پیدا ہوئے جواس نے مریم علیہ السلام کی طرف القا کیا۔ اور اس کی طرف سے (عطا کی گئی) روح ہیں۔اور(اس بات کی بھی گواہی دے کہ) بے شک جنت اور جہنم حق ہے ،تواللہ تعالیٰ اس کو جنت کے آٹھ دروازوں میں سے جس دروازے سے داخل ہونا چاہتا ہے داخل کردے گا۔
اس حدیث سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ صاف طور پر الله کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس نے صدق دل سے الله کی رضا کیلئے لا الہ الا الله پڑھا تو اس پر جہنھم حرام ہوگئی ۔
دوسری بات یہ کہ شرک کو ترک چھوڑنا صرف زبانی طور سے نہیں ۔
اسی طرح اس حدیث میں الله رب العلمین کی صفت وجھ یعنی اللہ کے لئے چہرے کا بیان ہے۔
اور بدعتی لوگ اس کا انکار کرتے ہیں۔
اور ہم اہل سنت و الجماعت اس کا اثبات کرتے ہیں اور مانتے ہیں کہ الله نے جو صفات قرآن میں خود اور نبی ﷺ نے حدیث میں بیان کئے ہیں وہ حقیقی ہیں ۔ نہ اس میں تحریف کرتے ہیں، نہ ہی تاویل کرتے ہیں، نہ ہی اس کی مثال بیان کرتے ہیں
۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
قال موسى عليه السلام : يا رب علمني شيئا أذكرك به وأدعوك به قال : يا موسى قل : لا إله إلا الله قال : يا رب كل عبادك ، يقول هذا قال : قل : لا إله إلا الله قال : لا إله إلا أنت يا رب ، إنما أريد شيئا تخصني به قال : يا موسى لو كان السماوات السبع ، وعامرهن غيري ، والأرضين السبع في كفة ، ولا إله إلا الله في كفة مالت بهن لا إله إلا الله
حضرت موسٰی علیہ السلام نے جناب باری تعالیٰ میں عرض کیا کہ الٰہی! مجھے وہ طریقہ بتادے کہ جس سے میں تجھے یاد کروں اور تجھے پکاروں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اے موسٰی لا الٰہ الا اللہ پڑھا کرو۔ موسٰی علیہ السلام نے عرض کیا اے پروردگار! کلمہ طیبہ تو تیرے سب بندے پڑتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسٰی اگر میرے سوا ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں اور ان کی آبادی ایک پلڑے میں رکھ دی جائے اور دوسرے پلڑے میں لا اله الا اللہ ہو تو کلمہ طیبہ والا پلڑا بھاری ہوگا۔
(المستدرك على الصحيحين، ١٩٧٩)
غور کیجئے الله آپ کی حفاظت کرے، کتنا عظیم کلمہ ہے یہ کہ ساری مخلوقات اس کلمہ سے وزن میں ہلکے ہیں۔
عن أنس بن مالك – رضي الله عنه – قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: ))قَالَ اللهُ تَعَالَى: يَا ابْنَ آَدَمَ إِنَّكَ مَا دَعَوتَنِيْ وَرَجَوتَنِيْ غَفَرْتُ لَكَ عَلَى مَا كَانَ مِنْكَ وَلا أُبَالِيْ، يَا ابْنَ آَدَمَ لَو بَلَغَتْ ذُنُوبُكَ عَنَانَ السَّمَاءِ ثُمَّ استَغْفَرْتَنِيْ غَفَرْتُ لَكَ، يَا ابْنَ آَدَمَ إِنَّكَ لَو أَتَيْتَنِيْ بِقِرَابِ الأَرْضِ خَطَايَا ثُمَّ لقِيْتَنِيْ لاَتُشْرِك بِيْ شَيْئَاً لأَتَيْتُكَ بِقِرَابِهَا مَغفِرَةً((
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: حَدِيْثٌ حَسَنٌ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ابن آدم! جب تک تو مجھے پکارتا اور مجھ سے پر امید رہے گا، میں تجھے بخشتا رہوں گا، جو بھی گناہ ہوں گے اور کوئی پروا نہیں کروں گا۔ اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں تک پہنچ جائیں، پھر تو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں پرواہ کئے بغیر تجھے بخش دوں گا۔ اے ابن آدم! اگر تو زمین کے لگ بھگ گناہ لے کر میرے پاس آئے اور اس حال میں مجھے ملے کہ میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو تو میں تجھے (ان گناہوں کے) بقدر بخشش عطا کروں گا۔“
اللہ کے بندو! آپ کو حقیقت توحید سمجھ میں آگئی ہوگی کہ اس کا بدلہ صرف جنت ہے۔
الله تعالی کا ارشاد ہے:
اِنَّ اِبْـرَاهِيْـمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّـٰهِ حَنِيْفًا ۖ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ (النحل۔ 120)
بے شک ابراہیم ایک پوری امت تھا اللہ کا فرمانبردار تمام غلط راہوں سے ہٹا ہوا، اور مشرکوں میں سے نہ تھا۔
عن حُصين بن عبد الرحمن قال: كنتُ عند سعيد بن جُبير فقال: أيكم رأى الكوكب الذي انقَضَّ البارحة؟ فقلتُ: أنا، ثم قلتُ: أما إني لم أكن في صلاة، ولكني لُدغْتُ، قال: فما صنعتَ؟ قلت: ارتقيتُ، قال: فما حَمَلك على ذلك؟ قلت: حديث حدَّثَناه الشعبي، قال: وما حدَّثَكم؟ قلتُ حدثنا عن بريدة بن الحُصيب أنه قال: "لا رُقْية إلا مِن عَيْن أو حُمَة"، قال: قد أحسَن مَن انتهى إلى ما سمع، ولكن حدثنا ابن عباس عن النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه قال: "عُرضت عليّ الأُمم، فرأيتُ النبي ومعه الرَّهط والنبي ومعه الرجل والرجلان، والنبي وليس معه أحد، إذ رُفع لي سواد عظيم فظننتُ أنهم أمَّتي، فقيل لي: هذا موسى وقومه، فنظرتُ فإذا سواد عظيم، فقيل لي: هذه أمَّتك، ومعهم سبعون ألفا يدخلون الجنة بغير حساب ولا عذاب، ثم نهض فدخل منْزله، فخاض الناس في أولئك؛ فقال بعضهم: فلعلهم الذين صحِبوا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وقال بعضهم: فلعلهم الذين وُلِدُوا في الإسلام فلم يشركوا بالله شيئا، وذكروا أشياء، فخرج عليهم رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فأخبروه، فقال: هم الذين لا يَسْتَرقون، ولا يَكْتَوُون، ولا يَتَطَيَّرون، وعلى ربهم يتوكلون، فقام عُكاشة بن مِحصَن فقال: ادع الله أن يجعلني منهم، قال: أنت منهم، ثم قام جل آخر فقال: ادع الله أن يجعلني منهم، فقال: سَبَقَك بها عكاشة".
حصین بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ: میں سعید بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا تو انہوں نے پوچھا: تم میں سے کس نے اس تارے کو دیکھا جو کل رات ٹوٹا؟ میں نے کہا: میں نے دیکھا، پھر میں نے کہا: میں اس وقت صلاة میں نہیں تھا کیونکہ میں (کسی زہریلے بچھو کے ذریعہ) ڈس لیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا: تم نے کیا کیا؟ میں نے کہا: جھاڑ پھونک کیا۔ انہوں نے کہا: تمہیں کس چیز نے اس بات پر ابھارا؟ میں نے کہا: شعبی کی بیان کردہ ایک حدیث نے۔ انہوں نے کہا: شعبی نے کیا بیان کیا؟ میں نے کہا: ہم سے انہوں نے بریدہ بن حُصیب سے بیان کیا کہ انہوں نے کہا: ”نظر بد اور زہریلے جانور کے کاٹ کھانے کے سوا اور کسی چیز پر جھاڑ پھونک صحیح نہیں“۔ انہوں نے کہا: جو کچھ تم نے سنا ٹھیک سنا۔ لیکن مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کردہ حدیث بیان کی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”میرے سامنے تمام امتیں پیش کی گئیں میں نے ایک نبی کو دیکھا، ان کے ساتھ ایک چھوٹا سا (دس سے کم کا) گروہ تھا، کسی (اور) نبی کو دیکھا کہ اس کے ساتھ ایک یا دو امتی تھے، کوئی نبی ایسا بھی تھا کہ اس کے ساتھ کوئی امتی نہ تھا، آخر میرے سامنے ایک بڑی بھاری جماعت آئی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں، کیا یہ میری امت کے لوگ ہیں؟ مجھ سے کہا گیا کہ: یہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم ہے، میں نے دیکھا کہ ایک بہت ہی عظیم جماعت ہے، پھر مجھ سے کہا گیا : یہ آپ کی امت ہے اور اس میں سے ستر ہزار حساب اور عذاب کے بغیر جنت میں داخل کر دیئے جائیں گے۔ پھر آپ اٹھے اور اپنے حجرہ میں تشریف لے گئے، لوگ ان جنتیوں کے بارے میں بحث کرنے لگے، اور کچھ لوگ کہنے لگے: شاید کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت پائی ہے۔ اور کچھ لوگوں نے کہا: شاید یہ وہ لوگ ہیں جن کی ولادت اسلام میں ہوئی اور انہوں نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا۔ اور بہت سی باتیں لوگوں نے کہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم باہر تشریف لائے اور آپ کو اس بات کی خبر دی گئی تو آپ نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کراتے، داغ کر علاج نہیں کرتے اور بد شگونی و فال نہیں لیتے بلکہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس پر عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا :آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ اللہ مجھے انہیں میں کردے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم انہیں میں سے ہو۔ پھر ایک دوسرے صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا : آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ اللہ مجھے انہیں میں کردے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم سے بازی لے گئے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توحید پر قائم رکھے اور اسی موت دے، اور کتاب و سنت پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین
توحید عظمت و فضیلت لے لحاظ سے بہت عظیم ہے، یہ گناہوں کا کفارہ ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
اَلَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَلَمْ يَلْبِـسُوٓا اِيْمَانَـهُـمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِكَ لَـهُـمُ الْاَمْنُ وَهُـمْ مُّهْتَدُوْنَ (انعام۔ 82)
جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں شرک نہیں ملایا انہیں کے لئے امن ہے اور وہی راہ راست پر ہیں۔
عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَأَنَّ عِيسَى عَبْدُ اللَّهِ وَابْنُ أَمَتِهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ، وَأَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَأَنَّ النَّارَ حَقٌّ أَدْخَلَهُ اللَّهُ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ الثَّمَانِيَةِ شَاءَ.
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا جوشخص یہ کہے کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ،اور محمد ﷺاس کے بندے اور رسول ہیں۔اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور اس کی باندی (مریم علیہ السلام )کے بیٹے ہیں اور اس کے کلمہ (بات) سے پیدا ہوئے جواس نے مریم علیہ السلام کی طرف القا کیا۔ اور اس کی طرف سے (عطا کی گئی) روح ہیں۔اور(اس بات کی بھی گواہی دے کہ) بے شک جنت اور جہنم حق ہے ،تواللہ تعالیٰ اس کو جنت کے آٹھ دروازوں میں سے جس دروازے سے داخل ہونا چاہتا ہے داخل کردے گا۔
اس حدیث سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ صاف طور پر الله کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس نے صدق دل سے الله کی رضا کیلئے لا الہ الا الله پڑھا تو اس پر جہنھم حرام ہوگئی ۔
دوسری بات یہ کہ شرک کو ترک چھوڑنا صرف زبانی طور سے نہیں ۔
اسی طرح اس حدیث میں الله رب العلمین کی صفت وجھ یعنی اللہ کے لئے چہرے کا بیان ہے۔
اور بدعتی لوگ اس کا انکار کرتے ہیں۔
اور ہم اہل سنت و الجماعت اس کا اثبات کرتے ہیں اور مانتے ہیں کہ الله نے جو صفات قرآن میں خود اور نبی ﷺ نے حدیث میں بیان کئے ہیں وہ حقیقی ہیں ۔ نہ اس میں تحریف کرتے ہیں، نہ ہی تاویل کرتے ہیں، نہ ہی اس کی مثال بیان کرتے ہیں
۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
قال موسى عليه السلام : يا رب علمني شيئا أذكرك به وأدعوك به قال : يا موسى قل : لا إله إلا الله قال : يا رب كل عبادك ، يقول هذا قال : قل : لا إله إلا الله قال : لا إله إلا أنت يا رب ، إنما أريد شيئا تخصني به قال : يا موسى لو كان السماوات السبع ، وعامرهن غيري ، والأرضين السبع في كفة ، ولا إله إلا الله في كفة مالت بهن لا إله إلا الله
حضرت موسٰی علیہ السلام نے جناب باری تعالیٰ میں عرض کیا کہ الٰہی! مجھے وہ طریقہ بتادے کہ جس سے میں تجھے یاد کروں اور تجھے پکاروں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اے موسٰی لا الٰہ الا اللہ پڑھا کرو۔ موسٰی علیہ السلام نے عرض کیا اے پروردگار! کلمہ طیبہ تو تیرے سب بندے پڑتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسٰی اگر میرے سوا ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں اور ان کی آبادی ایک پلڑے میں رکھ دی جائے اور دوسرے پلڑے میں لا اله الا اللہ ہو تو کلمہ طیبہ والا پلڑا بھاری ہوگا۔
(المستدرك على الصحيحين، ١٩٧٩)
غور کیجئے الله آپ کی حفاظت کرے، کتنا عظیم کلمہ ہے یہ کہ ساری مخلوقات اس کلمہ سے وزن میں ہلکے ہیں۔
عن أنس بن مالك – رضي الله عنه – قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: ))قَالَ اللهُ تَعَالَى: يَا ابْنَ آَدَمَ إِنَّكَ مَا دَعَوتَنِيْ وَرَجَوتَنِيْ غَفَرْتُ لَكَ عَلَى مَا كَانَ مِنْكَ وَلا أُبَالِيْ، يَا ابْنَ آَدَمَ لَو بَلَغَتْ ذُنُوبُكَ عَنَانَ السَّمَاءِ ثُمَّ استَغْفَرْتَنِيْ غَفَرْتُ لَكَ، يَا ابْنَ آَدَمَ إِنَّكَ لَو أَتَيْتَنِيْ بِقِرَابِ الأَرْضِ خَطَايَا ثُمَّ لقِيْتَنِيْ لاَتُشْرِك بِيْ شَيْئَاً لأَتَيْتُكَ بِقِرَابِهَا مَغفِرَةً((
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: حَدِيْثٌ حَسَنٌ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ابن آدم! جب تک تو مجھے پکارتا اور مجھ سے پر امید رہے گا، میں تجھے بخشتا رہوں گا، جو بھی گناہ ہوں گے اور کوئی پروا نہیں کروں گا۔ اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں تک پہنچ جائیں، پھر تو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں پرواہ کئے بغیر تجھے بخش دوں گا۔ اے ابن آدم! اگر تو زمین کے لگ بھگ گناہ لے کر میرے پاس آئے اور اس حال میں مجھے ملے کہ میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو تو میں تجھے (ان گناہوں کے) بقدر بخشش عطا کروں گا۔“
اللہ کے بندو! آپ کو حقیقت توحید سمجھ میں آگئی ہوگی کہ اس کا بدلہ صرف جنت ہے۔
الله تعالی کا ارشاد ہے:
اِنَّ اِبْـرَاهِيْـمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّـٰهِ حَنِيْفًا ۖ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ (النحل۔ 120)
بے شک ابراہیم ایک پوری امت تھا اللہ کا فرمانبردار تمام غلط راہوں سے ہٹا ہوا، اور مشرکوں میں سے نہ تھا۔
عن حُصين بن عبد الرحمن قال: كنتُ عند سعيد بن جُبير فقال: أيكم رأى الكوكب الذي انقَضَّ البارحة؟ فقلتُ: أنا، ثم قلتُ: أما إني لم أكن في صلاة، ولكني لُدغْتُ، قال: فما صنعتَ؟ قلت: ارتقيتُ، قال: فما حَمَلك على ذلك؟ قلت: حديث حدَّثَناه الشعبي، قال: وما حدَّثَكم؟ قلتُ حدثنا عن بريدة بن الحُصيب أنه قال: "لا رُقْية إلا مِن عَيْن أو حُمَة"، قال: قد أحسَن مَن انتهى إلى ما سمع، ولكن حدثنا ابن عباس عن النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه قال: "عُرضت عليّ الأُمم، فرأيتُ النبي ومعه الرَّهط والنبي ومعه الرجل والرجلان، والنبي وليس معه أحد، إذ رُفع لي سواد عظيم فظننتُ أنهم أمَّتي، فقيل لي: هذا موسى وقومه، فنظرتُ فإذا سواد عظيم، فقيل لي: هذه أمَّتك، ومعهم سبعون ألفا يدخلون الجنة بغير حساب ولا عذاب، ثم نهض فدخل منْزله، فخاض الناس في أولئك؛ فقال بعضهم: فلعلهم الذين صحِبوا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وقال بعضهم: فلعلهم الذين وُلِدُوا في الإسلام فلم يشركوا بالله شيئا، وذكروا أشياء، فخرج عليهم رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فأخبروه، فقال: هم الذين لا يَسْتَرقون، ولا يَكْتَوُون، ولا يَتَطَيَّرون، وعلى ربهم يتوكلون، فقام عُكاشة بن مِحصَن فقال: ادع الله أن يجعلني منهم، قال: أنت منهم، ثم قام جل آخر فقال: ادع الله أن يجعلني منهم، فقال: سَبَقَك بها عكاشة".
حصین بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ: میں سعید بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا تو انہوں نے پوچھا: تم میں سے کس نے اس تارے کو دیکھا جو کل رات ٹوٹا؟ میں نے کہا: میں نے دیکھا، پھر میں نے کہا: میں اس وقت صلاة میں نہیں تھا کیونکہ میں (کسی زہریلے بچھو کے ذریعہ) ڈس لیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا: تم نے کیا کیا؟ میں نے کہا: جھاڑ پھونک کیا۔ انہوں نے کہا: تمہیں کس چیز نے اس بات پر ابھارا؟ میں نے کہا: شعبی کی بیان کردہ ایک حدیث نے۔ انہوں نے کہا: شعبی نے کیا بیان کیا؟ میں نے کہا: ہم سے انہوں نے بریدہ بن حُصیب سے بیان کیا کہ انہوں نے کہا: ”نظر بد اور زہریلے جانور کے کاٹ کھانے کے سوا اور کسی چیز پر جھاڑ پھونک صحیح نہیں“۔ انہوں نے کہا: جو کچھ تم نے سنا ٹھیک سنا۔ لیکن مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کردہ حدیث بیان کی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”میرے سامنے تمام امتیں پیش کی گئیں میں نے ایک نبی کو دیکھا، ان کے ساتھ ایک چھوٹا سا (دس سے کم کا) گروہ تھا، کسی (اور) نبی کو دیکھا کہ اس کے ساتھ ایک یا دو امتی تھے، کوئی نبی ایسا بھی تھا کہ اس کے ساتھ کوئی امتی نہ تھا، آخر میرے سامنے ایک بڑی بھاری جماعت آئی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں، کیا یہ میری امت کے لوگ ہیں؟ مجھ سے کہا گیا کہ: یہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم ہے، میں نے دیکھا کہ ایک بہت ہی عظیم جماعت ہے، پھر مجھ سے کہا گیا : یہ آپ کی امت ہے اور اس میں سے ستر ہزار حساب اور عذاب کے بغیر جنت میں داخل کر دیئے جائیں گے۔ پھر آپ اٹھے اور اپنے حجرہ میں تشریف لے گئے، لوگ ان جنتیوں کے بارے میں بحث کرنے لگے، اور کچھ لوگ کہنے لگے: شاید کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت پائی ہے۔ اور کچھ لوگوں نے کہا: شاید یہ وہ لوگ ہیں جن کی ولادت اسلام میں ہوئی اور انہوں نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا۔ اور بہت سی باتیں لوگوں نے کہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم باہر تشریف لائے اور آپ کو اس بات کی خبر دی گئی تو آپ نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کراتے، داغ کر علاج نہیں کرتے اور بد شگونی و فال نہیں لیتے بلکہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس پر عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا :آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ اللہ مجھے انہیں میں کردے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم انہیں میں سے ہو۔ پھر ایک دوسرے صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا : آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ اللہ مجھے انہیں میں کردے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم سے بازی لے گئے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توحید پر قائم رکھے اور اسی موت دے، اور کتاب و سنت پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین