صفی الرحمن ابن مسلم فیضی
Member
اسلامی بھائیو!
دنیاوی زندگی مشکلات سے بھری پڑی ہے، ہر شخص کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے، کوئی کسی سے بے نیاز نہیں ہے، اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم ایک دوسرے کے قوت بازو بنیں، اپنی مدد کے ذریعہ، اپنی ہمدردی اور دلاسے کے ذریعہ سے ایک دوسرے کی مشکلات کو حتی المقدور حل کرنے کی کوشش کریں، ایک دوسرے کے رنج و الم کو بانٹنا سیکھیں۔
اسی لئے اسلام میں نظام بنایا گیا اور زکوۃ کو فرض قرار دیا گیا ہے، تاکہ اس کے ذریعہ سے اپنے غریب و مسکین اور دیگر مستحقین بھائیوں کے مدد گار ثابت ہوں۔
فرض صدقہ کے ساتھ ساتھ نفلی صدقات ایک سچے مومن کی دلیل ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّ الْمُصَّدِّقِينَ وَالْمُصَّدِّقَاتِ وَأَقْرَضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعَفُ لَهُمْ وَلَهُمْ أَجْرٌ كَرِيمٌ( الحدید۔ ١٨)
مردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ صدقات دینے والے ہیں اور جنہوں نے اللہ کو قرض حسن دیا ہے( خیر کے کاموں میں خرچ کرکے نیکیاں جمع کی ہیں) اُن کو یقیناً کئی گنا بڑھا کر دیا جائے گا اور ان کے لیے بہترین اجر ہے۔
اور الله نے فرمایا:
وَمَآ اَنْفَقْتُـمْ مِّنْ شَىْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهٝ ۖ وَهُوَ خَيْـرُ الرَّازِقِيْنَ (39)
اور جو کوئی چیز بھی تم خرچ کرتے ہو سو وہی اس کا بدلہ دیتا ہے، اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔
حدیث شریف میں ہے:
عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «ما مِنْ يومٍ يُصْبِحُ العِبادُ فيهِ إلا مَلَكَانِ يَنْزِلَانِ، فيقولُ أَحَدُهُمَا: اللهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، ويقولُ الآخَرُ: اللهُمَّ أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا» ( متفق علیہ)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ ہر صبح جب بندے اٹھتے ہیں تو دو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں ۔ ایک فرشتہ تو یہ کہتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدلہ دے۔ اور دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ! روک کر رکھنے والے کے مال کو ہلاک فرما۔
اسی طرح سے سب سے اچھا اور زیادہ ثواب والا صدقہ وہ ہے جو برابر اور ہمیشہ دیا جاتا رہے گرچہ تھوڑا ہی ہو ۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
((أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی أَدْوَمُہَا وَإِنْ قَلَّ۔))1
’’ اللہ تعالیٰ کی طرف سب سے محبوب عمل وہ ہے جو ہمیشہ ہو اگرچہ تھوڑا ہو ( رواہ مسلم)
اللہ کے بندو!
اللہ کریم ہے، کرم کو پسند کرتا ہے، اللہ جواد ہے جود و سخا کو پسند کرتا ہے، اللہ تعالی معاف کرنے والا اور مغفرت کرنے والا ہے، معافی اوربخشش کو پسند کرتا ہے ۔
لہذا آپ کثرت کے ساتھ اس ماہ مبارک میں تمام عبادات کو بجا لائیں، اور صدقہ و خیرات اس ماہ مبارک میں بڑا شرف اور عظمت والا اور اجر و ثواب کے لحاظ سے بڑا عظیم الشان عمل ہے۔
جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ۔
کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ جواد (سخی) تھے اور رمضان میں (دوسرے اوقات کے مقابلہ میں جب) جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے تو بہت ہی زیادہ جود و کرم فرماتے۔ جبرائیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے، غرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بھلائی پہنچانے میں بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ جود و کرم فرمایا کرتے تھے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس حدیث میں بہت سارے فوائد ہیں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان میں ہر عبادات کو بڑھا دیا کرتے تھے ۔
خاص کر کے صدقہ و خیرات میں آپ کی جود و سخا بہت زیادہ بڑھ جایا کرتی تھی ۔
جبریل امیں کے ساتھ قرآن کریم کا دور اور اعتکاف یہ ماہ رمضان کے مخصوص اعمال میں سے تھا ۔
اللہ کے بندو! صدقہ گناہوں اور خطاؤں کے کفارہ کا ذریعہ ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَوَلَدِهِ وَجَارِهِ ، تُكَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصَّوْمُ وَالصَّدَقَةُ و المعروف۔ ( رواہ البخاری)
انسان کے گھر والے، مال اولاد اور پڑوسی سب فتنہ (کی چیز) ہیں۔ اور صوم و صلاة و صدقہ اور اچھی بات کے لئے لوگوں کو حکم دینا۔ یہ ان فتنوں کا کفارہ ہے۔ (رواہ البخاری)
اسی طرح سے حشر کے دن جب سورج بالکل لوگوں کے سروں پر ہوگا، تو یہ صدقہ کرنے والے رب کے عرش کے سائے میں ہوں گے۔
جیسا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اللہ کے عرش کے سائے میں رہنے والے سات لوگوں کا ذکر کیا تو ان میں ایک صدقہ کرنے والے کا بھی ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔
ورجل تصدق بصدقة فاخفاها حتى لا تعلم شماله ما صنعت يمينه"( رواہ البخاری)
ایک ایسا شخص جو صدقہ کرے تو اس طرح چھپا کر کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا کیا ہے۔
اسی طرح سے صدقہ خطاؤں کو مٹا دیتا ہے اور رب کے غضب کو کم کرتا ہے ۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الصدقةُ تُطفِئُ الخطيئةَ كما يُطفئُ الماءُ النارَ ۔ (صححہ الالبانی)
صدقہ گناہوں کو اس طرح مٹا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے ۔
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا
اتقوا النار ولو بشق تمرة
(رواہ البخاری)
جہنم کی آگ سے بچو گرچہ ایک کھجور کا ٹکڑا ہی صدقہ کر کے۔
عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «ما نقصت صدقة من مال، وما زاد الله عبدا بعفو إلا عزا، وما تواضع أحد لله إلا رفعه الله -عز وجل-»
(رواہ مسلم)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ”صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور بندے کے معاف کردینے سے اللہ تعالیٰ اس کی عزت مزید بڑھا دیتا ہے اور جو آدمی اللہ کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے بلندیوں سے نوازتا ہے۔
اسی طرح سے صدقہ عمر میں زیادتی کا باعث ہے
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”إنَّ صَدَقَةَ الْمُسْلِمِ تَزِیْدُ فِی الْعُمُرِ، وَتَمْنَعُ مِیْتَةَ السَّوْءِ ۔( رواہ طبرانی)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بے شک صدقہ مسلمان کی عمر کو بڑھاتا ہے، اور بری موت کو روکتا ہے ۔
اللہ تعالی مومنوں کو خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ ﴿سورہ بقرہ ٢٦٧﴾
اے ایمان والو جو کچھ تم نے کمایا ہے ان میں سے پاکیزہ چیزوں کو اللہ کے راستے میں خرچ کرو ۔
اللہ تعالی ہمیں صدقہ و خیرات اور بھلائی کے کاموں میں خوب زیادہ جود و سخا کی توفیق بخشے۔ آمین
دنیاوی زندگی مشکلات سے بھری پڑی ہے، ہر شخص کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے، کوئی کسی سے بے نیاز نہیں ہے، اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم ایک دوسرے کے قوت بازو بنیں، اپنی مدد کے ذریعہ، اپنی ہمدردی اور دلاسے کے ذریعہ سے ایک دوسرے کی مشکلات کو حتی المقدور حل کرنے کی کوشش کریں، ایک دوسرے کے رنج و الم کو بانٹنا سیکھیں۔
اسی لئے اسلام میں نظام بنایا گیا اور زکوۃ کو فرض قرار دیا گیا ہے، تاکہ اس کے ذریعہ سے اپنے غریب و مسکین اور دیگر مستحقین بھائیوں کے مدد گار ثابت ہوں۔
فرض صدقہ کے ساتھ ساتھ نفلی صدقات ایک سچے مومن کی دلیل ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّ الْمُصَّدِّقِينَ وَالْمُصَّدِّقَاتِ وَأَقْرَضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعَفُ لَهُمْ وَلَهُمْ أَجْرٌ كَرِيمٌ( الحدید۔ ١٨)
مردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ صدقات دینے والے ہیں اور جنہوں نے اللہ کو قرض حسن دیا ہے( خیر کے کاموں میں خرچ کرکے نیکیاں جمع کی ہیں) اُن کو یقیناً کئی گنا بڑھا کر دیا جائے گا اور ان کے لیے بہترین اجر ہے۔
اور الله نے فرمایا:
وَمَآ اَنْفَقْتُـمْ مِّنْ شَىْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهٝ ۖ وَهُوَ خَيْـرُ الرَّازِقِيْنَ (39)
اور جو کوئی چیز بھی تم خرچ کرتے ہو سو وہی اس کا بدلہ دیتا ہے، اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔
حدیث شریف میں ہے:
عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: «ما مِنْ يومٍ يُصْبِحُ العِبادُ فيهِ إلا مَلَكَانِ يَنْزِلَانِ، فيقولُ أَحَدُهُمَا: اللهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، ويقولُ الآخَرُ: اللهُمَّ أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا» ( متفق علیہ)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ ہر صبح جب بندے اٹھتے ہیں تو دو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں ۔ ایک فرشتہ تو یہ کہتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدلہ دے۔ اور دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ! روک کر رکھنے والے کے مال کو ہلاک فرما۔
اسی طرح سے سب سے اچھا اور زیادہ ثواب والا صدقہ وہ ہے جو برابر اور ہمیشہ دیا جاتا رہے گرچہ تھوڑا ہی ہو ۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
((أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی أَدْوَمُہَا وَإِنْ قَلَّ۔))1
’’ اللہ تعالیٰ کی طرف سب سے محبوب عمل وہ ہے جو ہمیشہ ہو اگرچہ تھوڑا ہو ( رواہ مسلم)
اللہ کے بندو!
اللہ کریم ہے، کرم کو پسند کرتا ہے، اللہ جواد ہے جود و سخا کو پسند کرتا ہے، اللہ تعالی معاف کرنے والا اور مغفرت کرنے والا ہے، معافی اوربخشش کو پسند کرتا ہے ۔
لہذا آپ کثرت کے ساتھ اس ماہ مبارک میں تمام عبادات کو بجا لائیں، اور صدقہ و خیرات اس ماہ مبارک میں بڑا شرف اور عظمت والا اور اجر و ثواب کے لحاظ سے بڑا عظیم الشان عمل ہے۔
جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ۔
کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ جواد (سخی) تھے اور رمضان میں (دوسرے اوقات کے مقابلہ میں جب) جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے تو بہت ہی زیادہ جود و کرم فرماتے۔ جبرائیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے، غرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بھلائی پہنچانے میں بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ جود و کرم فرمایا کرتے تھے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس حدیث میں بہت سارے فوائد ہیں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان میں ہر عبادات کو بڑھا دیا کرتے تھے ۔
خاص کر کے صدقہ و خیرات میں آپ کی جود و سخا بہت زیادہ بڑھ جایا کرتی تھی ۔
جبریل امیں کے ساتھ قرآن کریم کا دور اور اعتکاف یہ ماہ رمضان کے مخصوص اعمال میں سے تھا ۔
اللہ کے بندو! صدقہ گناہوں اور خطاؤں کے کفارہ کا ذریعہ ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَوَلَدِهِ وَجَارِهِ ، تُكَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصَّوْمُ وَالصَّدَقَةُ و المعروف۔ ( رواہ البخاری)
انسان کے گھر والے، مال اولاد اور پڑوسی سب فتنہ (کی چیز) ہیں۔ اور صوم و صلاة و صدقہ اور اچھی بات کے لئے لوگوں کو حکم دینا۔ یہ ان فتنوں کا کفارہ ہے۔ (رواہ البخاری)
اسی طرح سے حشر کے دن جب سورج بالکل لوگوں کے سروں پر ہوگا، تو یہ صدقہ کرنے والے رب کے عرش کے سائے میں ہوں گے۔
جیسا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اللہ کے عرش کے سائے میں رہنے والے سات لوگوں کا ذکر کیا تو ان میں ایک صدقہ کرنے والے کا بھی ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔
ورجل تصدق بصدقة فاخفاها حتى لا تعلم شماله ما صنعت يمينه"( رواہ البخاری)
ایک ایسا شخص جو صدقہ کرے تو اس طرح چھپا کر کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا کیا ہے۔
اسی طرح سے صدقہ خطاؤں کو مٹا دیتا ہے اور رب کے غضب کو کم کرتا ہے ۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الصدقةُ تُطفِئُ الخطيئةَ كما يُطفئُ الماءُ النارَ ۔ (صححہ الالبانی)
صدقہ گناہوں کو اس طرح مٹا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے ۔
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا
اتقوا النار ولو بشق تمرة
(رواہ البخاری)
جہنم کی آگ سے بچو گرچہ ایک کھجور کا ٹکڑا ہی صدقہ کر کے۔
عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «ما نقصت صدقة من مال، وما زاد الله عبدا بعفو إلا عزا، وما تواضع أحد لله إلا رفعه الله -عز وجل-»
(رواہ مسلم)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ”صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور بندے کے معاف کردینے سے اللہ تعالیٰ اس کی عزت مزید بڑھا دیتا ہے اور جو آدمی اللہ کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے بلندیوں سے نوازتا ہے۔
اسی طرح سے صدقہ عمر میں زیادتی کا باعث ہے
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”إنَّ صَدَقَةَ الْمُسْلِمِ تَزِیْدُ فِی الْعُمُرِ، وَتَمْنَعُ مِیْتَةَ السَّوْءِ ۔( رواہ طبرانی)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بے شک صدقہ مسلمان کی عمر کو بڑھاتا ہے، اور بری موت کو روکتا ہے ۔
اللہ تعالی مومنوں کو خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ ﴿سورہ بقرہ ٢٦٧﴾
اے ایمان والو جو کچھ تم نے کمایا ہے ان میں سے پاکیزہ چیزوں کو اللہ کے راستے میں خرچ کرو ۔
اللہ تعالی ہمیں صدقہ و خیرات اور بھلائی کے کاموں میں خوب زیادہ جود و سخا کی توفیق بخشے۔ آمین