ذیشان خان

Administrator
خطبہ جمعہ مسجد نبوی شریف
بتاریخ: 30 ؍ذی الحجہ؍ 1443 ھ مطابق29,جولائی؍2022 عیسوی
خطیب: فضیلۃ الشیخ ڈاکٹرعبدالمحسن القاسم حفظہ اللہ
موضوع: عمر کے گزرنے میں پنہاں عبرت ونصیحت

پہلا خطبہ:

بے شک تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس کی حمد بجالاتے ہیں ، اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اسی سے بخشش طلب کرتے ہیں، ہم اپنے نفس کی برائی اور اپنے برےاعمال سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ ہدات دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں، اور جسے وہ گمراہ کر دے، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سواکوئی (سچا) معبود نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد صلى الله عليه وسلم اس کے بندے اوررسول ہیں۔ بہت زیادہ درودو سلام نازل ہوں آپ صلى الله عليه وسلم پر، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر ۔
حمد وصلاۃ کے بعد!
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے، اور خلوت وسرگوشی ہرحال میں اُس کی نگرانی کا احساس اپنےدل میں قائم رکھو۔
مسلمانو!
اللہ تعالی نے دنیاوی زندگی کو بندوں کی ابتلا وآزمائش کا مسکن بنایا ہے، وہ دائمی ٹھکانے تک پہنچنے کے لیےزندگی کے مراحل طے کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ دنیا مطیع وفرمانبردار بندوں کے لیے کھیتی اور عابدوں کے لیے تجارتی منڈی ہے، ارشاد باری ہے:”جس نے موت اور حیات کو اس لئے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں اچھے کام کون کرتا ہے، اور وہ غالب اور بخشنے والاہے ۔“(الملک:٢)۔پس جو اچھے کام کرے گا، کامیاب ہوکر ثواب کامستحق ہوگا، اور جو برے کام کرے گا، اور کوتاہی سےکام لے گا، وہ ناکام ہوکرعذاب کا مستحق ہوگا، اور اللہ تعالی نے انسان وجنات کو صرف اپنی عبادت کی غرض سے پیدا کیا ہے،اس نے خود بندوں کے اندر اور ان کے ارد گرد اپنی عبادت وبندگی کے بے شمار دلائل رکھ دئیے، انبیاء کی بعثت فرمائی، آسمانی کتابوں کو نازل فرمایا، اور اس طور پر ان پر اپنی حجت قائم کر دی، اور ان کے لیے حق کے دلائل واضح کردیے ۔اورہر بندہ کے لیے موت کا وقت مقرر کر دیا ہے، ہر مخلوق کی مدت طے کر دی ہے، اور اپنے علم کے مطابق اس کی عمر لکھ دی ہے، پس بندے کو اس دنیا میں جو عمر دی گئی ہے، وہی اس کی کدو کاوش اورعمل کی مدت ہے ، پھر اس کے بعد اپنے رب سے جاملےگا،ارشاد باری تعالی ہے:”اے انسان تو تکلیف سہہ سہہ کر کشاں کشاں اپنے پروردگار کی طرف جارہا ہے پھر تو اس سے ملنے والاہے“۔(انشقاق : 6 )۔اور دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں بہت مختصر ہے، چاہے انسان کو کتنی لمبی عمر ملے، ایک دن تو اس کو موت آنی ہی ہے،اور ہر سانس جو انسان کے سینے میں آتی جاتی ہے وہ اس کی زندگی کےمراحل میں سے ایک مرحلہ ہے جو گزر جانے کے بعدواپس نہیں ہوتا ہے، اور عمر کا زیادہ ہونا در حقیقت اس کا کم ہونا اور موت سے قریب ہونا ہے، مگر اکثر لوگ اپنی تخلیق کی حکمت سے غافل ہیں، اس لیے دنیا کی چکا چوند اور فتنہ سامانیوں میں گرفتار ہو جاتے ہیں، اور اپنے وجود کے مقصد حقیقی کوفراموش کر بیٹھتے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے: ”تمہیں کثرت(کی ہوس)نے غافل کر رکھا ہے٭یہاں تک کہ تم قبرستان جاپہنچے۔“(اتکاثر: 1 - 2)۔
دن ورات اورسورج وچاند کی گردش، مختلف موسموں اور زمانوں کے آنے جانے، حالات کے بدلنے، سالوں کے گزرنے،اور دنوں کے پلٹنے میں بہت ساری عبرتیں ہیں جو بندے کو یہ یقین دلاتی ہیں کہ دنیا کی زندگی فانی، غیر مستقر اور گزر جانے والی ہے اور اس کا انجام آخر کار فنا اور ہلاکت ہے۔
ایک عظیم امر کی وجہ سے اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں زمانے ، اس کے اجزاء اور مراحل کا کثرت سے ذکر کیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ بندہ کو یہ یاد دلائے کہ زندگی بہت زیادہ پلٹنے والی اور بہت جلد ختم ہوجانے والی ہے، چنانچہ اللہ نے رات ودن، سورج وچاند، چاشت، فجر، اور عصر کی قسم کھائی ہے، اور بندوں کو اس بات کی دعوت دی ہے کہ وہ چاند وسورج کی گردش کی وجہ سےاوقات کے گزرنے اور حالات کے اتار چڑھاؤ سے عبرت حاصل کریں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
”اور چاند کی ہم نے منزلیں مقرر کردی ہیں تاآنکہ وہ کھجور کی پرانی ٹہنی کی طرح رہ جاتا ہے٭نہ تو سورج سے یہ ہوسکتا ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ ہی رات دن پر سبقت لے جاسکتی ہے۔ سب اپنے اپنے مدار پر تیزی سے رواں دواں ہیں۔“ (یس: 39 - 40 )۔
ہر سال بلکہ ہر دن جو انسان کی عمر میں سے کم ہوتا ہے، اُُس میں اس بات کی یاد دہانی ہے کہ ہر ابتدا کی انتہا ہے، ہر چیز کی عمرلکھی ہوئی ہے، ہر آغاز کو اختتام تک پہنچنا ہے اور ہر عمارت کو پائے تکمیل تک پہنچنے کے بعد بوسیدہ ہونا ہے۔ نئے سال کےسورج کا طلوع ہونا انسان کو اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ اب بھی موقع میسر ہےاور امید ورجا کا دروازہ کھلا ہواہے۔ داناوکامیاب وہ ہے جو اپنے عمل اور اپنی عمر کے نتائج وثمرات کو اسی طرح شمار کرتا رہتا ہے، جس طرح اپنی تجارت میں نفع ونقصان کو شمار کرتا رہتاہے۔ کیوں کہ عمر ہی ہر مخلوق کا اصل سرمایہ ہے اور اس کا سامان صحت وتندرستی ہے، مگر اکثر لوگ اس میں گھاٹے کا سودا کرتے ہیں۔ نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”دونعمتیں ہیں جن میں اکثر لوگ خسارے اور گھاٹے میں رہیں گے:صحت اور فرصت۔ “(بخاری)۔دنیا میں منافع کا حصول؛ نیک اعمال کی انجام دہی اور موت کی مسلسل تیاری پر موقوف ہے۔انسان لمبی عمر کا متمنی ہوتا ہے، دنیا اور اس کے مال ومتاع کا حریص ہوا کرتاہے، نعمتیں اسے آخری انجام اور عنقریب آنےوالی موت سے غافل کردیتی ہیں۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”آدم کا بیٹا بوڑھا ہوجاتا ہے، لیکن اس میں دو چیز یں جوان رہتی ہیں: مال اور عمر کی حرص وطمع۔“(بخاری ومسلم)۔
دنیا کی حقیقت اور اس کی سرعتِ زوال سے واقف کار انسان کی سب سےبڑی دانش مندی یہ ہے کہ وہ ہر معاملہ میں نفع بخش اور اکمل ترین چیز کو اختیار کرے، چنانچہ وہ اپنا وقت ا نہیں چیزوں میں
صرف کرتا ہے جن کے فوائد کامل اور نتائج خوش کن ہوں، وہ فضیلت والے اعمال میں سب سے اعلی، نیک اعمال میں سب سے بلند اور عبادتوں میں سب سے اہم کو اختیار کرتا ہے۔ دانا انسان اپنے لیے جنت سے کم پر راضی ہو ہی نہیں سکتا، وہ ان عبادتوں کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتا ہے جو ان کی نیکیوں میں اضافے اور اس کے گناہوں کی معافی کا سبب ہوں۔ جو اطاعتوں اور نیکیوں پر دوام نہ برت سکے، اسے چاہیے کہ وہ گناہوں اور برائیوں سے کنارہ کش ہوجائے، لیکن یاد رہے کہ جو احسان پراحسان نہیں کرسکتا، وہ کمی کی طرف جاتا رہےگا اور جو نیکیاں کر کے آگے نہیں بڑھ پائےگا ،وہ گناہ پر گناہ کرکے پیچھے رہ جائےگا۔
طاقت وقوت کے بعد کمزوری کا آنا زندگی کی ایک لازمی شیءہے، جوانی کے بعد بڑھاپے کا آنا یقینی امر ہے اور تندرستی کے بعدبیماری کا لاحق ہونا ایک ایسی راہ ہے جس پر چلے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:”اللہ وہ ہے جس نے تمہیں کمزور سی حالت سے پیدا کیا۔ پھر اس کمزوری کے بعد تمہیں قوت بخشی پھر اس قوت کے بعد تمہیں کمزور اور بوڑھا بنا دیا۔ “(الروم: 54)۔ اول سے آخر تک دنیا کی مثال اس کھیتی کی سی ہے جو موسلادھار بارش کے بعد اگتی ہے، جس کی ہریالی اورخوب صورتی سے اس کے مالک خوش ہوتے ہوں، پھر وہ کچھ ہی مدت میں سوکھ کر بھس بن جاتی ہے ۔ارشاد باری تعالی ہے:”خوب جان رکھو کہ دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشہ زینت اور آپس میں فخر(وغرور)اور مال اولاد میں ایک دوسرے سےاپنے آپ کو زیادہ بتلانا ہے، جیسے بارش اور اس کی پیداوار کسانوں کو اچھی معلوم ہوتی ہے پھر جب وہ خشک ہوجاتی ہے تو زردرنگ میں اس کو تم دیکھتے ہو پھر وہ بالکل چورا چورا ہوجاتی ہے۔“ (الحدید: 20)۔
اور جسے اتنی لمبی عمر مل جائے کہ اس کے چہرے پر سفیدی ظاہر ہونے لگے تو گویا یہ اس کےقُرب موت کی وارننگ ہے،ارشاد باری تعالی ہے: ”کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی، جس کو سمجھنا ہوتا وہ سمجھ سکتا اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی پہنچاتھا “۔(فاطر: 37)۔ بخاری -رحمہ اللہ -نے فرمایا: ” آیت میں نذیر یعنی ڈرانے والے سے مراد بڑھاپا ہے، اور اس امت کےلوگوں کی عمر یں اوسطا ساٹھ اور ستر کے درمیان ہوں گی اور جو ساٹھ سال کی عمر پالے اس کا عذر لمبی مہلت کی وجہ سے ختم ہوگیا۔اور نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی اس شخص کا عذر باقی نہیں رکھتا ہے جس کو ساٹھ سال کی عمر تک مہلت دیتا ہے“۔(بخاری)۔
اسی لیے نبی صلى الله عليه وسلم نے زندگی اور قوت وشباب کوضعیفی وپیری سے پہلے، اور مالداری کو فقر وفاقہ سے پہلے غنیمت جاننے کی ترغیب دی ہے اور فرصت کے لمحات کو کام میں لانے کا حکم دیا ہے۔ نبی صلى الله عليه وسلم نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:”پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جانو! بڑھاپے سے پہلے جوانی کو، بیماری سے پہلے تندرستی کو، فقر وفاقہ سے پہلے بےنیازی اور خوشحالی کو، اور مصروفیت سے پہلے فرصت کو، اور موت سے پہلے زندگی کو“۔(حاکم)۔ اور ان چیزوں کو غنیمت سمجھنے کامطلب یہ ہےکہ بکثرت نیک عمل کریں ، وقت کی حفاظت کریں، فضائل ومحاسن کو اپنائیں، گھٹیا کاموں سے دور رہیں،اور نیک کاموں کی طرف سبقت کریں۔ چنانچہ ایک بندے کی حالت یہ ہونی چاہیے کہ اس کا آج کا دن گزشتہ کل سے بہتر ہو ،اور آئندہ کل آج سے بہتر ہو، اور جس کے دونوں دن کے عمل برابر ہوں وہ در اصل دھوکے میں ہے، اور جو استقامت کےبعد الٹے پاؤوں لوٹ جائے وہ فتنے میں مبتلا ہے۔
چند روزہ زندگی کا سب سے بڑا ضیاع یہ ہے کہ ان اوقات کو آخرت سنوارے بغیر یونہی ضائع کیا جائے۔ ابن القیم- رحمہ اللہ-فرماتے ہیں: ”اللہ کے نزدیک سب سے نا پسندیدہ وہ سست آدمی ہے جو اپنے وقت کو نہ ہی دنیا کے کاموں میں لگاتا ہے اور نہ ہی آخرت کو حاصل کرنے میں“۔ اور جو شخص اپنے وقت کی حفاظت نہیں کرتا ہے، ا س کے ہاتھ سے اس سے فائدہ اٹھانےکا موقع نکل جاتا ہے، اور وقت کا سب سے بہتر مصرف یہ ہے کہ اسے دین ودنیا کے لیے نفع بخش علم کے حصول، تلاوت قرآن، صبح وشام کے ذکر واذکار، حلال روزی کےلیے کدو کاوش، مخلوق کے ساتھ احسان، اور ان کی ضرورتوں کو پوراکرنےمیں لگایا جائے۔
دنیا میں ایک طرح کے حالات نہیں رہتے، دن بدلتے رہتے ہیں، اور ایک انسان خوشی وغمی ،امیری و غریبی اور امن و خوف کے مختلف حالات سے لا محالہ گزرتاہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ”اور یقینا ہم تمھیں خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اورپھلوں کی کمی میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائیں گے “۔(البقرة: 155 )۔اس میں اللہ تعالی کی حکمت یہ ہے کہ ایک بندہ بہر صورت اپنی حالت کے مطابق اسی کی عبودیت میں رہے، چنانچہ شکر کے بغیر صبر مکمل نہیں ہوسکتا، اور نعمت کی قدر وہی جانتا ہے جسے نعمت چھن جانے کی تکلیف کا احساس ہے، اللہ تعالی سے کما حقہ وہی ڈرتا ہے جس کی تمام امیدیں اسی سے وابستہ ہیں، اور جو احسانات کے رک جانے کی شدت کو نہ جھیلا ہو،وہ انعامات کی لذت کو نہیں جان سکتا۔جو اس راز کوجان جائےگا،وہ اللہ کی تقدیر،اور بندوں کے متعلق اللہ کے افعال کوصحیح نظر سے دیکھےگا، چنانچہ جو بھی اونچ نیچ ، تنگی وکشادگی ، کمی و بیشی، اور ا چھائی اور برائی ہم دیکھتے ہیں؛ اس میں اللہ کی حد درجہ حکمت پنہاں ہے۔اور ہر صورت میں بندوں کاکسی خاص عبادت میں ہونا ضروری ہوتا ہے۔تقدیر کو تقدیر ہی سے دورکیا جاتاہے، اور دائمی شکر ہی خیر کےنزول کا سبب ہے،تقدیر کے سامنے سر تسلیم خم کرنا شریعت پر عمل کرنے کے منافی نہیں ہے، اور بندے کی توحید کی درستی اور ایمان کی سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ تقدیر پرا یمان اور شریعت پر عمل دونوں کو جمع کیا جائے۔
اس دنیا میں بندہ مختلف آزمائشوں میں گھرا ہواہے، چنانچہ شیطان اسےوسوسے میں ڈالتا ہے، نفس امارہ برائی کا حکم دیتاہے،اور خواہشات اس کی راہِ میں رکاوٹ ڈالتی رہتی ہیں، لہذا توبہ واستغفار کو لازم پکڑےبغیر بندہ کے لیے کوئی چارہ کار نہیں،یہ زندگی بھر اور ہمیشہ ہمیش کا عمل ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:”اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کروتاکہ نجات پاؤ “۔ (النور: 31)۔
توبہ عظیم عبادت ہے جسے اللہ اپنے بندوں سے اور اپنے بندوں کے لیےپسند فرماتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ’’اللہ توبہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے“۔ (البقرہ: 222)۔
بندہ معصیت اور غفلت سے قریب ہوتا ہے، غلطی کرنا بشری تقاضوں میں سے ہے،بلکہ نوشتہ تقدیرہے ۔ البتہ اس میں معیوب وقابل ملامت امر یہ ہے کہ انسان توبہ سے اعراض کرے اور گناہوں پر اصرار کرتا رہے۔ نبی صلى الله عليه وسلم نے ارشادفرمایا:’’تمام بنی آدم خطا کار ہیں اور بہترین خطا کار وہ ہیں، جو کثرت سے توبہ کرتے ہیں“۔ ( امام احمد نے اسے روایت کیا ہے)۔جو کسی برائی کا ارتکاب کرلے تو اسےچاہیے کہ بکثرت استغفار اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرکے اس برائی کو مٹادے؛ ارشادباری تعالی ہے:’’یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں“ (ھود: 114) اور نبی صلى الله عليه وسلم نے معاذ- رضی اللہ عنہ- کو وصیت کرتےہوئے فرمایا: ” گناہ کے بعد نیکی کرلو، یہ اسےمٹادےگی“(احمد)۔
سچی توبہ پر زندگی کا خاتمہ توفیق الہی ہے، اور باذنہ تعالی ذریعۂ نجات بھی ہے؛ کیوں کہ جو شخص توبہ کرتا ہے اللہ اس کی توبہ کوقبول کرلیتا ہے، اور جس شخص کی توبہ اللہ تعالی قبول کرلے ،گذرے گناہوں پر اس کامواخذہ نہیں کرے گا۔ اور جوگناہوں کے بعد توبہ کولازم پکڑتا ہے اللہ تعالی اسے قُرْب موت بھی توبہ کی توفیق عطا کرتا ہے ، اس کے برخلاف جو ٹال مٹول کرتا ہےممکن ہےکہ توبہ کرنے سے پہلے ہی اچانک موت اسے آدبوچے۔ ارشاد باری تعالی ہے:’’اللہ تعالیٰ صرف انہی لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو بوجہ نادانی کوئی برائی کر گزریں پھر جلد اس سے باز آ جائیں اور توبہ کریں تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی توبہ قبول کرتا ہے اللہ تعالیٰ بڑے علم والا حکمت والا ہے“۔(النساء: 17)۔ اور نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے، جب تک کہ اس پر غرغرہ کی کیفیت طاری نہ ہوجائے“۔ (احمد)۔
بڑی وقابل ذکر چیزیں جو ہمیں غور فکر اور نصیحت پکڑنے کی دعوت دیتی ہیں ان میں: موت کو یاد کرنا اور اپنے اور پرایوں کی بکثرت موت سے نصیحت حاصل کرنا ہے، خصوصا آج کے زمانے میں جب نئی نئی بیماریاں ظاہر ہورہی ہیں، اوریکے بعددیگرے وبا کے ظہورنے لوگوں کو خوفزدہ کررکھا ہے۔اور بہت سے لو گ ناگہانی موت کا شکار ہو رہے ہیں اور اچانک دنیا سےکوچ کر رہے ہیں۔ لہذا انسان کو چاہیے کہ وہ وہاں کے لیے تیار رہیں اور ہلاکت سے نجات پانے کے اسباب پر ہمیشہ غور وفکرکرتے رہے۔
أعوذ باللہ من الشیطان الرّجیم
”اللہ تعالیٰ ہی دن اور رات کو ردو بدل کرتا رہتا ہے ، آنکھوں والوں کے لئے تو اس میں یقیناً بڑی بڑی عبرتیں ہیں۔“(النور: 44)۔
اللہ تعالی قرآن کریم کو میرے اور آپ سب کے لیے بابرکت بنائے۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اس کے احسان پر، اور تمام شکر اسی کے لیے ہے اس کی توفیق اور نوازشات پر، اور میں اس کی عظمت شان بیان کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں ،وہ تنہا ہے،اس کا کوئی شریک نہیں ، اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، بہت زیادہ درود و سلام نازل ہوں ان پر، ان کی آل ، اور ان کے اصحاب پر۔
مسلمانو!
تم پر اللہ کا مہینہ ”محرم“ سایہ فگن ہونے والا ہے، اس مہینے کی نسبت اللہ تعالی نے اپنی طرف کی ہے،کیونکہ اس کو اللہ کےعلاوہ کسی نے حرمت والا قرار نہیں دیا، یہ حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جن کی اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں حرمت بیان کی ہے، جن میں گناہ اور نافرمانی کے ذریعے اپنے اوپر ظلم کرنے سے منع کیا ہے، ارشاد باری تعالی ہے: ”مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے ان میں سے چار حرمت و ادب کے ہیں، یہی درست دین ہے، تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو “۔ (سورہ توبہ: 36 )۔ ابن عباس- رضی اللہ عنہما -نے فرمایا : ’’ان مہینوں میں گناہ کرنا سنگین جرم ہے ، اوران میں کیے گئےنیک اعمال کا اجرو ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے“۔
اس مہینے میں بکثرت نفلی روزے رکھنا مستحب عمل ہے۔ نبی صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:’’رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں اور فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل رات کی نماز(تہجد) ہے‘‘۔(مسلم)۔اوراس کے دنوں میں سب سے افضل دن جس میں روزہ رکھنے کی جستجو ہونی چاہیے وہ عاشورہ کا دن ہے؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس دن روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ ’’یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اوران کی قوم کو نجات دی، اور فرعون اور اس کی قوم کو غرقاب کیا، تو اپنے رب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے موسیٰ علیہ السلام نےاس دن روزہ رکھا“۔ (بخاری ومسلم)۔ اور بہتر یہ ہے کہ عاشورہ کے ساتھ اس سے ایک دن پہلے کا بھی روزہ رکھا جائے، اس طرح نو اور دس دودن روزہ رکھا جائے؛ کیوں کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:’’اگر آئندہ سال تک میں زندہ رہا تو ضرور نو کا روزہ رکھوں گا“۔ (مسلم)۔
شریعت میں نئے سال کے آغاز کی نہ کوئی خوبی ہےاور نہ اس کی کوئی خاص فضیلت یا خصوصیت وارد ہوئی ہے۔ اس لیےجسمانی، مالی یا دیگر عبادات کو اس دن کے ساتھ خاص کرنا دین میں نئی ایجا دہے، اور عظیم شریعت سے تجاوز کرنے کےمترادف ہے۔
اخیر میں یہ یاد رہے کہ آپ سب کو اللہ تعالی نے اپنے نبی صلى الله عليه وسلم پر درود وسلام بھیجنے کا حکم دیا ہے۔
 
Top