شیخ ابو حمدان اشرف فیضی
Member
ماہ رمضان۔ خصائص وامتیازات
ابوحمدان اشرف فیضی
ناظم جامعہ محمدیہ عربیہ رائیدرگ،آندھرا پردیش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ۔
تخريج: صحيح البخاري: كِتَابٌ: بَدْءُ الْخَلْقِ : بَابُ صِفَةِ إِبْلِيسَ وَجُنُودِهِ: ۳۲۷۷، صحيح مسلم: كِتَابٌ: الصِّيَامُ، بَابٌ: فَضْلُ شَهْرِ رَمَضَانَ: ۱۰۷۹، سنن النسائي: كِتَابُ الصِّيَامِ: بَابٌ: فَضْلُ شَهْرِ رَمَضَانَ: ۲۰۹۷، مسند أحمد: مُسْنَدُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: ۸۶۸۴
ترجمہ: جب رمضان (کا مہینہ) داخل ہوتا ہے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو (زنجیروں میں) جکڑ دیا جاتا ہے۔
شرح وفوائد: یہ تینوں امور رمضان میں پیش آتے ہیں:
۱۔ جنت کے دروازے عمل گزاروں کے لیے بطور ترغیب کھول دیے جاتے ہیں تاکہ وہ کثرت کے ساتھ نیکیاں یعنی نماز، صدقہ، ذکر، اور قرآن پاک کی تلاوت وغیرہ کریں۔
۲۔ جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں کیوں کہ اس مہینے میں مومنوں سے بہت کم گناہ سرزد ہوتے ہیں۔
۳۔ شیطانوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں یعنی سرکش شیطانوں کو جیسا کہ دوسری روایت میں آیا ہے: أتاكُم رَمضانُ شَهرٌ مبارَك، فرَضَ اللَّهُ عزَّ وجَلَّ عليكُم صيامَه، تُفَتَّحُ فيهِ أبوابُ السَّماءِ، وتغَلَّقُ فيهِ أبوابُ الجحيمِ، وتُغَلُّ فيهِ مَرَدَةُ الشَّياطينِ، للَّهِ فيهِ ليلةٌ خيرٌ من ألفِ شَهرٍ، مَن حُرِمَ خيرَها فقد حُرِمَ [صحيح النسائي: ۲۱۰۵، صحيح الترغيب: ۹۹۹] رمضان کا مبارک مہینہ تمہارے پاس آ چکا ہے، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کر دیئے ہیں، اس میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اور اس میں اللہ تعالیٰ کے لیے ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس کے خیر سے محروم رہا تو وہ بس محروم ہی رہا، یہ سب کچھ جس کی نبی ﷺ نے خبر دی ہے برحق ہے اور آپ ﷺ نے یہ اپنی امت کے لیے بطورِ نصیحت، انہیں نیکی کی رغبت دلانے اور برائی سے ڈرانے کے لیے بیان کیا ہے [بحوالہ: موسوعة الأحاديث النبوية: HadeethEnc.Com]
بعض اہل علم نے صرف رمضان کہنے کو کراہیت پر محمول کیا ہے جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ بغیر شھر کے اضافت کے رمضان کا اطلاق کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہے۔
جنت اور جہنم کا ثبوت اور دونوں اس وقت موجود ہیں اور ان کے لیے دروازے ہیں جو کھولے اور بند کیے جاتے ہیں۔
شیاطین کے وجود کا ثبوت اور اس بات کا اثبات کہ ان کے پاس جسم ہیں جنہیں بیڑیوں میں باندھا اور زنجیروں میں جکڑا جاسکتا ہے، رمضان میں جنت کے دروازوں کے کھولے جانے ، جہنم کے دروازوں کے بند کیے جانے اور شیاطین کو جکڑنے سے متعلق صحیح بات یہی ہے کہ اس کو حقیقت پر محمول کیا جائے گا، جیسا کہ علماء سلف نے اسے ظاہر پر محمول کیا ہے، کیونکہ اصول یہ ہے کہ اس وقت تک کلام کو ظاہر اور حقیقت پر محمول کیا جائے گا،جب تک کوئی ایسی دلیل نہ مل جائے جو اسے ظاہر سے پھیر دے، امام احمد نے اس حدیث کو ظاہر پر ہی محمول کیا ہے، قال عبد اللہ بن الإمام أحمد: قلتُ لأبي: قد نرى المجنون يُصرَع في شهر رمضان؟ قال: هكذا جاء الحديث ولا تكلَّم في ذلك [مصائب الإنسان من مكائد الشيطان: ۱۴۴] عبد اللہ بن امام احمد کہتے ہیں: میں نے اپنے والد سے کہا: مجنون شخص کو ماہ رمضان میں بھی دورہ کیوں پڑ جاتا ہے؟ تو انہوں نے کہا: حدیث میں ایسے ہی آیا ہے اس بارے میں مزید گفتگو مت کرو، شیخ تقی الدین ابراہیم بن مفلح فرماتے ہیں: الشياطين تُسلسل وتُغَلّ في رمضان على ظاهر الحديث، شیاطین رمضان میں جکڑ دئیے جاتے ہیں اور انہیں بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اس میں حدیث کا ظاہری معنی لیا جائے گا [الإسلام سؤال وجواب: الحكمة من تصفيد الشياطين في رمضان: رقم: ۲۲۱۱۶۲]
سوال: ماہ رمضان میں جب شیاطین زنجیروں میں جکڑ دئیے جاتے ہیں، قید کر دیے جاتے ہیں اور انہیں بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں تو آخر لوگ رمضان میں گناہ اور نافرمانی کے کام کیوں کرتے ہیں؟
جواب: یہ اشکال اور شبہ ہمارے ذہنوں کا اختراع ہے،ورنہ نبی کریم ﷺ کا فرمان اپنی جگہ صادق ہے، حدیث رسول میں ہمیں کوئی شک وشبہ نہیں کرنا چاہئے ، البتہ اہل علم نے اس اشکال کے متعدد جوابات دیے ہیں، چند جوابات ملاحظہ فرمائیں:
امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں:
۱۔ شیاطین کو ایسے روزے داروں تک رسائی سے روک دیا جاتا ہے جنہوں نے روزے کے شرائط اور مکمل آداب کو ملحوظ رکھا، لیکن ایسے روزے دار جنہوں نے شرائط یا آداب کا خیال نہیں رکھا ان سے شیاطین کو نہیں روکا جاتا۔
۲۔ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ تمام روزے داروں تک شیاطین کی رسائی نہیں ہوتی ، پھر بھی تمام شیاطین کے جکڑے جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ گناہ سرے سے ہی ختم ہو جائیں، کیونکہ گناہوں کے رونما ہونے کے شیاطین کے علاوہ بھی بہت سے اسباب ہیں، جن میں خبیث لوگ، بری عادات، اور انسانی شکل میں شیاطین بھی شامل ہیں۔
۳۔یہ بھی ممکن ہے کہ اس حدیث میں اکثر شیاطین اور سرکش قسم کے شیطانوں کے بارے میں کہا گیا ہو، چنانچہ یہ ممکن ہے کہ غیر سرکش شیطان کو نہ جکڑا جاتا ہو، مطلب اور مفہوم یہ ہے کہ: شر کے ذرائع کم سے کم ہو جاتے ہیں اور یہ بات رمضان میں بالکل واضح ہوتی ہے؛ کیونکہ دیگر مہینوں کی بہ نسبت اس ماہ میں گناہوں کی مقدار بہت کم ہوتی ہے انتہی [المفهِم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم: ۳؍۱۳۶] شیخ ابن عثیمین فرماتے ہیں: اس حدیث کے بعض الفاظ میں یہ بھی ہے کہ : (سرکش شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں) اور نسائی کی حدیث میں ہے کہ(بیڑیاں ڈال دی جاتی ہیں) اس قسم کی احادیث غیبی امور سے متعلق ہیں ، اور غیبی امور کے بارے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ جیسے بیان ہوں ویسے ہی تسلیم کر لیا جائے اور انہیں مبنی بر حق مانا جائے، نیز اس بارے میں اپنی عقل کے گھوڑے نہ دوڑائے جائیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسی موقف کی بنا پر ہر آدمی کا دین سلامت اور انجام بہتر ہوگا، یہی وجہ ہے کہ جب عبد اللہ بن امام احمد بن حنبل نے اپنے والد سے کہا: انسان کو رمضان میں بھی جنات کے دورے پڑتے ہیں تو انہوں نے کہا: حدیث میں ایسے ہی آیا ہے، اس بارے میں مزید بات مت کرو، ویسے بھی لوگوں کو گمراہ کرنے سے انہیں روک دیا جاتا ہے اور یہ بات مشاہدے میں بھی ہے کہ لوگ کثرت کے ساتھ خیر چاہتے ہیں اور رمضان میں اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں [مجموع فتاوى ابن عثیمین: ۲۰؍۷۵] شیخ ابن عثیمین مزید فرماتے ہیں: یہ اللہ تعالیٰ کی تمام مسلمانوں کے لیے امداد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمن کو باندھ دیا ہے جو اپنے ماننے والوں کو جہنم کا ایندھن بننے کی دعوت دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نیک لوگ اس ماہ میں دیگر مہینوں کی بہ نسبت زیادہ نیکی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور گناہوں سے بچ کر رہتے ہیں [مجالس شهر رمضان: ابن عثیمین: ۸، کچھ تصرف کے ساتھ] شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:یہ اس لیے ہے کہ ماہ رمضان میں دل نیکی اور اعمال صالح کی طرف لپکتے ہیں، جن کی وجہ سے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دل گناہوں سے بچتے ہیں اسی وجہ سے جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے، چنانچہ وہ ایسے کار نامے سر انجام نہیں دے پاتے جو غیر رمضان میں کر دکھاتے ہیں؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان جکڑا ہوا قید ہوتا ہے، [مجموع الفتاوى: ۱۴؍۱۶۷] حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: في هذا إِشَارَة إِلَى رَفْعِ عُذْرِ الْمُكَلَّفِ، كَأَنَّهُ يُقَالُ لَهُ: قَدْ كُفَّتِ الشَّيَاطِينُ عَنْكَ ؛ فَلَا تَعْتَلَّ بِهِمْ فِي تَرْكِ الطَّاعَةِ ولا فِعْلِ الْمَعْصِيَةِ [فتح الباري لابن حجر: ۴؍۱۱۴] اس حدیث میں اشارہ ہے کہ اب مکلف شخص کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہا، گویا کہ مکلف شخص سے کہا جا رہا ہے کہ:تم سے شیاطین کو دور باندھ دیا گیا ہے، اب گناہ کرنے اور نیکی چھوڑنے کے بارے میں یہ حجت نہیں بنا سکتے کہ شیطان نے گمراہ کر دیا. اس کے علاوہ اہل علم نے رمضان میں شیاطین کو جکڑنے کی حکمتیں بھی بیان کی ہیں جن میں کچھ یہ ہیں:لوگوں کو گمراہ کرنے کے واقعات اور شر میں کمی ہونا، مسلمانوں کو ایذا رسانی اور روزہ خراب کرنے سے روکنا، تا کہ رمضان کے علاوہ دیگر مہینوں میں جہاں تک ان کی رسائی ہوتی ہے وہاں تک رمضان میں ان کی رسائی ممکن نہ ہو، کیونکہ شیاطین دیگر مہینوں میں لوگوں کو گمراہ کر کے بہت سی نیکیوں سےان کا منہ موڑ دیتے ہیں، جبکہ رمضان میں ان کے جکڑے جانے سے لوگ اطاعت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور ماہ رمضان میں ہر قسم کی شہوت پرستی سے باز رہتے ہیں، مندرجہ بالا اقوال سے یہ واضح ہوگیا کہ شیاطین کو جکڑنا حقیقت پر مبنی ہے، اور اللہ تعالیٰ کو اس بارے میں حقیقی علم ہے، تاہم اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ شیاطین کی تاثیر بالکل ختم کر دی جاتی ہے، یا اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے جناتی دورے، یا جنوں کی وجہ سے انسانوں کا نقصان نہ ہو، یا لوگ بالکل ہی گناہ کرنا چھوڑ دیں بلکہ یہاں مطلب یہ ہے کہ رمضان میں انہیں کمزور کر دیا جاتا ہے اور رمضان میں ان کی قوت اتنی نہیں ہوتی جیسے رمضان سے پہلے ہوتی ہے [بحوالہ: اسلام سوال وجواب اردو: سوال نمبر: ۲۲۱۱۶۲]
رمضان میں جنت کے دروازوں کا کھولا جانا، جہنم کے دروازوں کا بند کیا جانا اور شیاطین کا جکڑا جانا یہ بندوں پر اللہ کی مہربانی ہے، عبادت گزار نیک بندوں کا استقبال ہے اور ماہ رمضان کے خصائص میں سے ہے، ماہ رمضان کےبعض دیگر خصائص درج ذیل ہیں:
رمضان کا روزہ اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک ہے [بخاري: ۸، مسلم: ۱۶] رمضان سابقہ کتب سماویہ اور قرآن مجید کے نزول کا مہینہ ہے [صحيح الجامع: ۱۴۹۷، البقرۃ: ۱۸۵] جہنم سے آزادی کا مہینہ ہے [صحيح ابن خزيمة: ۱۸۸۳، أخرجه الترمذي: ۶۸۲، وابن ماجه: ۱۶۴۲] لیلۃ القدر کا مہینہ ہے [القدر: ۱، صحيح ابن ماجه: ۱۳۴۱] رمضان کے مہینے میں عمرہ حج کے برابر ہے [البخاري: ۱۸۶۳، مسلم: ۱۲۵۶] رمضان مبارک مہینہ ہے، نبیﷺ اس کی آمد کی بشارت صحابہ کرام کو دیتے تھے [صحيح النسائي: ۲۱۰۵] نیکیوں کا موسم بہار ہے [صحيح ابن خزيمة: ۱۸۸۳] رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف مسنون ہے، نبیﷺ نے اس پر مواظبت کی ہے [صحيح البخاري: ۲۰۶۶، مسلم: ۱۱۷۲] رمضان میں قرآن مجید کا دراسہ (دورہ کرنا، ایک دوسرے کو سننا اور سنانا) مستحب عمل ہے [البخاري: ۶، مسلم: ۲۳۰۸] رمضان میں صیام وقیام گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ ہے [البخاري: ۲۰۰۸، مسلم: ۱۷۴] رمضان میں صدقات و خیرات اور سخاوت وفیاضی مستحب ہے [البخاري: ۶، واللفظ لمسلم: ۲۳۰۸] دعاؤں کا مہینہ ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آیات صیام کے ضمن میں آیت دعا کو ذکر کیا ہے، جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ماہ رمضان میں خصوصی طور پر دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہئے اور روزے دار کی دعا قبول ہوتی ہے [البقرۃ: ۱۸۶، صحيح الجامع: ۳۰۳۰، أخرجه الطبراني في الدعاء: ۱۳۱۳ واللفظ له]
ابوحمدان اشرف فیضی
ناظم جامعہ محمدیہ عربیہ رائیدرگ،آندھرا پردیش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ۔
تخريج: صحيح البخاري: كِتَابٌ: بَدْءُ الْخَلْقِ : بَابُ صِفَةِ إِبْلِيسَ وَجُنُودِهِ: ۳۲۷۷، صحيح مسلم: كِتَابٌ: الصِّيَامُ، بَابٌ: فَضْلُ شَهْرِ رَمَضَانَ: ۱۰۷۹، سنن النسائي: كِتَابُ الصِّيَامِ: بَابٌ: فَضْلُ شَهْرِ رَمَضَانَ: ۲۰۹۷، مسند أحمد: مُسْنَدُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: ۸۶۸۴
ترجمہ: جب رمضان (کا مہینہ) داخل ہوتا ہے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو (زنجیروں میں) جکڑ دیا جاتا ہے۔
شرح وفوائد: یہ تینوں امور رمضان میں پیش آتے ہیں:
۱۔ جنت کے دروازے عمل گزاروں کے لیے بطور ترغیب کھول دیے جاتے ہیں تاکہ وہ کثرت کے ساتھ نیکیاں یعنی نماز، صدقہ، ذکر، اور قرآن پاک کی تلاوت وغیرہ کریں۔
۲۔ جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں کیوں کہ اس مہینے میں مومنوں سے بہت کم گناہ سرزد ہوتے ہیں۔
۳۔ شیطانوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں یعنی سرکش شیطانوں کو جیسا کہ دوسری روایت میں آیا ہے: أتاكُم رَمضانُ شَهرٌ مبارَك، فرَضَ اللَّهُ عزَّ وجَلَّ عليكُم صيامَه، تُفَتَّحُ فيهِ أبوابُ السَّماءِ، وتغَلَّقُ فيهِ أبوابُ الجحيمِ، وتُغَلُّ فيهِ مَرَدَةُ الشَّياطينِ، للَّهِ فيهِ ليلةٌ خيرٌ من ألفِ شَهرٍ، مَن حُرِمَ خيرَها فقد حُرِمَ [صحيح النسائي: ۲۱۰۵، صحيح الترغيب: ۹۹۹] رمضان کا مبارک مہینہ تمہارے پاس آ چکا ہے، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کر دیئے ہیں، اس میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اور اس میں اللہ تعالیٰ کے لیے ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس کے خیر سے محروم رہا تو وہ بس محروم ہی رہا، یہ سب کچھ جس کی نبی ﷺ نے خبر دی ہے برحق ہے اور آپ ﷺ نے یہ اپنی امت کے لیے بطورِ نصیحت، انہیں نیکی کی رغبت دلانے اور برائی سے ڈرانے کے لیے بیان کیا ہے [بحوالہ: موسوعة الأحاديث النبوية: HadeethEnc.Com]
بعض اہل علم نے صرف رمضان کہنے کو کراہیت پر محمول کیا ہے جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ بغیر شھر کے اضافت کے رمضان کا اطلاق کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہے۔
جنت اور جہنم کا ثبوت اور دونوں اس وقت موجود ہیں اور ان کے لیے دروازے ہیں جو کھولے اور بند کیے جاتے ہیں۔
شیاطین کے وجود کا ثبوت اور اس بات کا اثبات کہ ان کے پاس جسم ہیں جنہیں بیڑیوں میں باندھا اور زنجیروں میں جکڑا جاسکتا ہے، رمضان میں جنت کے دروازوں کے کھولے جانے ، جہنم کے دروازوں کے بند کیے جانے اور شیاطین کو جکڑنے سے متعلق صحیح بات یہی ہے کہ اس کو حقیقت پر محمول کیا جائے گا، جیسا کہ علماء سلف نے اسے ظاہر پر محمول کیا ہے، کیونکہ اصول یہ ہے کہ اس وقت تک کلام کو ظاہر اور حقیقت پر محمول کیا جائے گا،جب تک کوئی ایسی دلیل نہ مل جائے جو اسے ظاہر سے پھیر دے، امام احمد نے اس حدیث کو ظاہر پر ہی محمول کیا ہے، قال عبد اللہ بن الإمام أحمد: قلتُ لأبي: قد نرى المجنون يُصرَع في شهر رمضان؟ قال: هكذا جاء الحديث ولا تكلَّم في ذلك [مصائب الإنسان من مكائد الشيطان: ۱۴۴] عبد اللہ بن امام احمد کہتے ہیں: میں نے اپنے والد سے کہا: مجنون شخص کو ماہ رمضان میں بھی دورہ کیوں پڑ جاتا ہے؟ تو انہوں نے کہا: حدیث میں ایسے ہی آیا ہے اس بارے میں مزید گفتگو مت کرو، شیخ تقی الدین ابراہیم بن مفلح فرماتے ہیں: الشياطين تُسلسل وتُغَلّ في رمضان على ظاهر الحديث، شیاطین رمضان میں جکڑ دئیے جاتے ہیں اور انہیں بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اس میں حدیث کا ظاہری معنی لیا جائے گا [الإسلام سؤال وجواب: الحكمة من تصفيد الشياطين في رمضان: رقم: ۲۲۱۱۶۲]
سوال: ماہ رمضان میں جب شیاطین زنجیروں میں جکڑ دئیے جاتے ہیں، قید کر دیے جاتے ہیں اور انہیں بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں تو آخر لوگ رمضان میں گناہ اور نافرمانی کے کام کیوں کرتے ہیں؟
جواب: یہ اشکال اور شبہ ہمارے ذہنوں کا اختراع ہے،ورنہ نبی کریم ﷺ کا فرمان اپنی جگہ صادق ہے، حدیث رسول میں ہمیں کوئی شک وشبہ نہیں کرنا چاہئے ، البتہ اہل علم نے اس اشکال کے متعدد جوابات دیے ہیں، چند جوابات ملاحظہ فرمائیں:
امام ابو العباس قرطبی فرماتے ہیں:
۱۔ شیاطین کو ایسے روزے داروں تک رسائی سے روک دیا جاتا ہے جنہوں نے روزے کے شرائط اور مکمل آداب کو ملحوظ رکھا، لیکن ایسے روزے دار جنہوں نے شرائط یا آداب کا خیال نہیں رکھا ان سے شیاطین کو نہیں روکا جاتا۔
۲۔ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ تمام روزے داروں تک شیاطین کی رسائی نہیں ہوتی ، پھر بھی تمام شیاطین کے جکڑے جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ گناہ سرے سے ہی ختم ہو جائیں، کیونکہ گناہوں کے رونما ہونے کے شیاطین کے علاوہ بھی بہت سے اسباب ہیں، جن میں خبیث لوگ، بری عادات، اور انسانی شکل میں شیاطین بھی شامل ہیں۔
۳۔یہ بھی ممکن ہے کہ اس حدیث میں اکثر شیاطین اور سرکش قسم کے شیطانوں کے بارے میں کہا گیا ہو، چنانچہ یہ ممکن ہے کہ غیر سرکش شیطان کو نہ جکڑا جاتا ہو، مطلب اور مفہوم یہ ہے کہ: شر کے ذرائع کم سے کم ہو جاتے ہیں اور یہ بات رمضان میں بالکل واضح ہوتی ہے؛ کیونکہ دیگر مہینوں کی بہ نسبت اس ماہ میں گناہوں کی مقدار بہت کم ہوتی ہے انتہی [المفهِم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم: ۳؍۱۳۶] شیخ ابن عثیمین فرماتے ہیں: اس حدیث کے بعض الفاظ میں یہ بھی ہے کہ : (سرکش شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں) اور نسائی کی حدیث میں ہے کہ(بیڑیاں ڈال دی جاتی ہیں) اس قسم کی احادیث غیبی امور سے متعلق ہیں ، اور غیبی امور کے بارے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ جیسے بیان ہوں ویسے ہی تسلیم کر لیا جائے اور انہیں مبنی بر حق مانا جائے، نیز اس بارے میں اپنی عقل کے گھوڑے نہ دوڑائے جائیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسی موقف کی بنا پر ہر آدمی کا دین سلامت اور انجام بہتر ہوگا، یہی وجہ ہے کہ جب عبد اللہ بن امام احمد بن حنبل نے اپنے والد سے کہا: انسان کو رمضان میں بھی جنات کے دورے پڑتے ہیں تو انہوں نے کہا: حدیث میں ایسے ہی آیا ہے، اس بارے میں مزید بات مت کرو، ویسے بھی لوگوں کو گمراہ کرنے سے انہیں روک دیا جاتا ہے اور یہ بات مشاہدے میں بھی ہے کہ لوگ کثرت کے ساتھ خیر چاہتے ہیں اور رمضان میں اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں [مجموع فتاوى ابن عثیمین: ۲۰؍۷۵] شیخ ابن عثیمین مزید فرماتے ہیں: یہ اللہ تعالیٰ کی تمام مسلمانوں کے لیے امداد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمن کو باندھ دیا ہے جو اپنے ماننے والوں کو جہنم کا ایندھن بننے کی دعوت دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نیک لوگ اس ماہ میں دیگر مہینوں کی بہ نسبت زیادہ نیکی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور گناہوں سے بچ کر رہتے ہیں [مجالس شهر رمضان: ابن عثیمین: ۸، کچھ تصرف کے ساتھ] شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:یہ اس لیے ہے کہ ماہ رمضان میں دل نیکی اور اعمال صالح کی طرف لپکتے ہیں، جن کی وجہ سے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دل گناہوں سے بچتے ہیں اسی وجہ سے جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے، چنانچہ وہ ایسے کار نامے سر انجام نہیں دے پاتے جو غیر رمضان میں کر دکھاتے ہیں؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان جکڑا ہوا قید ہوتا ہے، [مجموع الفتاوى: ۱۴؍۱۶۷] حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: في هذا إِشَارَة إِلَى رَفْعِ عُذْرِ الْمُكَلَّفِ، كَأَنَّهُ يُقَالُ لَهُ: قَدْ كُفَّتِ الشَّيَاطِينُ عَنْكَ ؛ فَلَا تَعْتَلَّ بِهِمْ فِي تَرْكِ الطَّاعَةِ ولا فِعْلِ الْمَعْصِيَةِ [فتح الباري لابن حجر: ۴؍۱۱۴] اس حدیث میں اشارہ ہے کہ اب مکلف شخص کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہا، گویا کہ مکلف شخص سے کہا جا رہا ہے کہ:تم سے شیاطین کو دور باندھ دیا گیا ہے، اب گناہ کرنے اور نیکی چھوڑنے کے بارے میں یہ حجت نہیں بنا سکتے کہ شیطان نے گمراہ کر دیا. اس کے علاوہ اہل علم نے رمضان میں شیاطین کو جکڑنے کی حکمتیں بھی بیان کی ہیں جن میں کچھ یہ ہیں:لوگوں کو گمراہ کرنے کے واقعات اور شر میں کمی ہونا، مسلمانوں کو ایذا رسانی اور روزہ خراب کرنے سے روکنا، تا کہ رمضان کے علاوہ دیگر مہینوں میں جہاں تک ان کی رسائی ہوتی ہے وہاں تک رمضان میں ان کی رسائی ممکن نہ ہو، کیونکہ شیاطین دیگر مہینوں میں لوگوں کو گمراہ کر کے بہت سی نیکیوں سےان کا منہ موڑ دیتے ہیں، جبکہ رمضان میں ان کے جکڑے جانے سے لوگ اطاعت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور ماہ رمضان میں ہر قسم کی شہوت پرستی سے باز رہتے ہیں، مندرجہ بالا اقوال سے یہ واضح ہوگیا کہ شیاطین کو جکڑنا حقیقت پر مبنی ہے، اور اللہ تعالیٰ کو اس بارے میں حقیقی علم ہے، تاہم اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ شیاطین کی تاثیر بالکل ختم کر دی جاتی ہے، یا اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے جناتی دورے، یا جنوں کی وجہ سے انسانوں کا نقصان نہ ہو، یا لوگ بالکل ہی گناہ کرنا چھوڑ دیں بلکہ یہاں مطلب یہ ہے کہ رمضان میں انہیں کمزور کر دیا جاتا ہے اور رمضان میں ان کی قوت اتنی نہیں ہوتی جیسے رمضان سے پہلے ہوتی ہے [بحوالہ: اسلام سوال وجواب اردو: سوال نمبر: ۲۲۱۱۶۲]
رمضان میں جنت کے دروازوں کا کھولا جانا، جہنم کے دروازوں کا بند کیا جانا اور شیاطین کا جکڑا جانا یہ بندوں پر اللہ کی مہربانی ہے، عبادت گزار نیک بندوں کا استقبال ہے اور ماہ رمضان کے خصائص میں سے ہے، ماہ رمضان کےبعض دیگر خصائص درج ذیل ہیں:
رمضان کا روزہ اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک ہے [بخاري: ۸، مسلم: ۱۶] رمضان سابقہ کتب سماویہ اور قرآن مجید کے نزول کا مہینہ ہے [صحيح الجامع: ۱۴۹۷، البقرۃ: ۱۸۵] جہنم سے آزادی کا مہینہ ہے [صحيح ابن خزيمة: ۱۸۸۳، أخرجه الترمذي: ۶۸۲، وابن ماجه: ۱۶۴۲] لیلۃ القدر کا مہینہ ہے [القدر: ۱، صحيح ابن ماجه: ۱۳۴۱] رمضان کے مہینے میں عمرہ حج کے برابر ہے [البخاري: ۱۸۶۳، مسلم: ۱۲۵۶] رمضان مبارک مہینہ ہے، نبیﷺ اس کی آمد کی بشارت صحابہ کرام کو دیتے تھے [صحيح النسائي: ۲۱۰۵] نیکیوں کا موسم بہار ہے [صحيح ابن خزيمة: ۱۸۸۳] رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف مسنون ہے، نبیﷺ نے اس پر مواظبت کی ہے [صحيح البخاري: ۲۰۶۶، مسلم: ۱۱۷۲] رمضان میں قرآن مجید کا دراسہ (دورہ کرنا، ایک دوسرے کو سننا اور سنانا) مستحب عمل ہے [البخاري: ۶، مسلم: ۲۳۰۸] رمضان میں صیام وقیام گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ ہے [البخاري: ۲۰۰۸، مسلم: ۱۷۴] رمضان میں صدقات و خیرات اور سخاوت وفیاضی مستحب ہے [البخاري: ۶، واللفظ لمسلم: ۲۳۰۸] دعاؤں کا مہینہ ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آیات صیام کے ضمن میں آیت دعا کو ذکر کیا ہے، جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ماہ رمضان میں خصوصی طور پر دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہئے اور روزے دار کی دعا قبول ہوتی ہے [البقرۃ: ۱۸۶، صحيح الجامع: ۳۰۳۰، أخرجه الطبراني في الدعاء: ۱۳۱۳ واللفظ له]