Rashid Bin Qamar
New member
اہل بدعت کے ساتھ تعامل، منھج سلف، اکابر اہل حدیث کا طرز عمل، بعض اشکالات اور ان کا ازالہ:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
شیخ محمد ضياء الحق تیمی حفظہ اللہ۔جامعہ اسلامیہ مدینہ نبویہ
(تحریر کچھ طویل ہے، مگر اسے پڑھنے سے آپ کے دل ودماغ کی بہت سی گرہیں ان شاء اللہ ضرور کھلیں گی جو آج پروپیگنڈے کے زور پر سادہ ذہنوں پر لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے)
● ایک صاحب لکھتے ہیں: "آہ رے منافقت! تیرا ہی سہارا ہے۔ شیخ علامہ یوسف القرضاوی دعائے مغفرت کے بھی لائق نہیں ہیں، کیونکہ ان کے کچھ آراء مروجہ فقہی آراء سے مختلف تھے، مگر وہیں سعودی عرب میں ایک شیخ پائے جاتے ہیں، ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم عیسی، رابطہ کے جنرل سکریٹری ہیں، اس سال خطیب حج تھے، مگر کیا آپ نے دیکھا کہ ہمارے سلفی احباب نے اسی طرح واویلا مچایا ہو جس طرح وہ دیگر مواقع پر کرتے ہیں؟ ان کے نظریات کیسے ہیں، کیا بتلانے کی ضرورت ہے؟۔۔۔۔۔۔مسئلہ قرضاوی صاحب کے وفات پر لوگوں کے خاموش رہنے اور نہ رہنے کا ہے ہی نہیں، یا دعائے مغفرت کرنے نہ کرنے کا نہیں ہے، مسئلہ جنازے سے پہلے ہی خارجی، بدعتی اور جہنمی جیسے القاب سے ملقب کرنے کا ہے، کہ یہی کرنے سے "سلفیت" ثابت ہوگی؟"
● اس عبارت کو پڑھنے سے مندرجہ ذیل امور کا پتہ چلتا ہے:
1- علامہ قرضاوی کے آراء جن سے ہمیں اختلاف ہے وہ فقہی آراء ہیں۔
2- ان فقہی آراء کی خاصیت یہ تھی کہ وہ مروجہ فقہی آراء سے مختلف تھے۔ یعنی ضروری نہیں کہ وہ کتاب وسنت کے بھی خلاف ہوں۔
3- پہلے دونوں نکات کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کی تعظیم وتوقیر ویسے ہی ضروری ہے جیسا کہ دیگر امت کے کبار اہل علم کی ہونی چاہئے۔
3- علامہ قرضاوی کے لئے یہ لوگ دعائے مغفرت کو ناجائز سمجھتے ہیں۔
4- جو علامہ قرضاوی پر واویلا مچا رہے ہیں لیکن ڈاکٹر محمد عیسی پر خاموش ہیں وہ در اصل منافقانہ روش پر ہیں۔
● صاحب تحریر کو چونکہ یہ زعم ہے کہ وہ سلفی منہج کی صحیح نمائندگی کر رہے ہیں، اس لئے وہ اپنے مخالف رائے رکھنے والے سلفی علماء پر کافی چراغ پا ہیں، جبکہ اس مختصر پیراگراف میں ہی انہوں نے کئی ایک علمی اور منہجی غلطیاں کی ہیں، لیکن اس کے باجود بہت سارے فارغینِ اہل حدیث مدارس، طلباء اور نوجوانوں نے اس کی خوب پذیرائی کی ہے، بلکہ اس طرح کی جو بھی تحریر جس میں واضح منہجی غلطیاں پائی جاتی ہیں اہل حدیث کے ایک طبقے سے خوب داد تحسین حاصل کرتی ہے، بلکہ معاملہ دھیرے دھیرے دو محاذوں کا ہونے لگا ہے، اور جب ہم اس شدید اختلاف کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ بہت سارے اذہان میں یہ بات راسخ یے کہ اہل بدعت کے ساتھ تعامل میں سلف کے منہج اور اکابر اہل حدیث کے منہج میں فرق پایا جاتا ہے، اور ہمارے اکابر اہل بدعت کے ساتھ ہر طرح کے تعامل کے روادار تھے، اور ہمارے ارد گرد کے ماحول کے اعتبار سے ہمارے لئے وہی منہج درست ہے جو ہمارے اکابر نے اختیار کیا ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ اہل بدعت کے تئیں سلف اور ہمارے اکابر کے موقف کو ایک ساتھ سمجھنے کی کوشش کی جائے اور دیکھا جائے کہ کیا واقعی ان دونوں کے درمیان کوئی ایسا جوہری اختلاف موجود ہے جو ہمیں دو مختلف محاذوں میں تقسیم کر دے؟ یا معاملہ صرف ہمارے سوئے فہم کا ہے؟
مضمون شاید طویل ہوجائے اس کے لئے ہم پیشگی معذرت خواہ ہیں۔
● سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ سلف یعنی صحابہ کرام، تابعین عظام، تبع تابعین، اور ائمہ کرام اور علمائے اہل سنت کا منہج اہل بدعت کے تعلق سے کیا تھا؟ نیچے اسی سلسلے میں اہل علم کے کچھ اقوال پیش کئے جا رہے ہیں:
(1) قال الإمام البغوي رحمه الله : ( و قد مضت الصحابة و التابعون ، و أتباعهم ، و علماء السنن على هذا مجمعين متفقين على معاداة أهل البدع و مهاجرتهم ) .[ شرح السنّة للبغوي: 1/227 ]
یعنی صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور علمائے اہل سنت اس بات پر متفق ہیں اور اس پر اجماع قائم ہے کہ اہل بدعت سے عداوت رکھی جائے گی اور ان سے قطع تعلق کیا جائے گا۔
(2) وقال الشاطبي : ( إن فرقة النجاة ، و هم أهل السنة ، مأمورون بعداوة أهل البدع ، و التشريد بهم ، و التنكيل بمن انحاش إلى جهتهم ، و نحن مأمورون بمعاداتهم ، و هم مأمورون بموالاتنا و الرجوع إلى الجماعة ) .[ الاعتصام ، للشاطبي : 1/120 ].
فرقہ ناجیہ اہل سنت کو حکم ہے کہ وہ اہل بدعت سے عداوت رکھیں، انہیں اپنے سماج سے بھگائیں، اور اگر وہ باہر سے آدھمکیں تو انہیں سخت سزائیں دیں، ہمیں ان سے عداوت رکھنے کا حکم ہے، جبکہ انہیں حکم ہے کہ وہ ہم سے دوستی کریں اور ہماری جماعت میں شامل ہو جائیں۔
(3) وقال الإمام أبو عثمان إسماعيل الصابوني رحمه الله حكايةً عن أهل السنّة : ( و يبغضون أهل البدع الذين أحدثوا في الدين ما ليس منه ، و لا يحبونهم ، و لا يصحبونهم ) .
[ عقيدة السلف أصحاب الحديث للصابوني ، ص : 118 ].
امام صابونی اہل سنت کا منہج بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ اہل بدعت سے بغض رکھتے ہیں جنہوں نے دین میں بدعات ایجاد کیں، نہ ان سے محبت رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کی صحبت اختیار کرتے ہیں۔
(4) والإمام الطحاوي وصفهم بأنهم ( يحابّون في الدين ، و يتباغضون فيه ، و يتقون الجدال في أصول الدين ، و الخصومات فيه ، و يجانبون أهل البدع و الضلالات ، و يعادون أصحاب البدع و الأهواء المرديات الفاضحات ) .شرح الطحاوية ، لابن أبي العز ، ص : 520 ]
امام طحاوی اہل سنت کا وصف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دین کی وجہ سے وہ کسی سے محبت یا بغض رکھتے ہیں، أصول دین میں بحث وجدال اور مناظرہ بازی سے بچتے ہیں، اہل بدعت وضلالت سے دوری بنائے رکھتے ہیں اور بدعتیوں اور ہوا پرستوں سے عداوت رکھتے ہیں۔
(5) قال ابن بطة: إحدى علامات أهل السنة حبهم لأئمة السنة، وعلمائها وأنصارها وأو ليائها، وبغضهم لأئمة البدع، الذين يدعون إلى النار، ويدلون أصحابهم على دار البوار، وقد زين الله سبحانه قلوب أهل السنة ونورها بحب علماء السنة فضلا منه جل جلاله. [ الإبانة الكبرى ، لابن بطة ( 2/456 )
اہل سنت کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ اہل سنت کے ائمہ، علماء، انصار اور اولیاء سے محبت کرتے ہیں اور اہل بدعت کے ائمہ سے بغض رکھتے ہیں، جو لوگوں کو جہنم کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اس کی طرف رہنمائی کرتے ہیں، اور اللہ عزوجل کا ان پر یہ فضل واحسان ہے کہ وہ ان کے دلوں کو علمائے اہل سنت کی محبت سے پر نور اور مزین رکھتے ہے۔۔
(6) وقال الصابوني أيضا: "اتفقوا مع ذلك على القول بقهر أهل البدع، وإذلالهم وإخزائهم وابعادهم واقصائهم، والتباعد منهم ومن مصاحبتهم ومعاشرتهم، والتقرب إلى الله عز وجل بمجانبتهم ومهاجرتهم"
صابونی فرماتے ہیں کہ اہل بدعت کو زیر کرنے، ان کی تذلیل اور توہین کرنے، ان کو دور بھگانے، اور ان سے دوری بنانے، اور ان کی صحبت اور ہم نشینی سے بچنے، اور ان سے قطع تعلق کو تقرب الہی کا ذریعہ سمجھنے میں تمام اہل سنت کا اتفاق ہے۔
ان اقوال کو بار بار پڑھیں اور ساتھ ہی اس نکتے پر غور کریں کہ ان میں جتنی بھی باتیں اہل بدعت کے حوالے سے کہی گئی ہیں وہ جمہور سلف یا بعض سلف کی رائے نہیں، بلکہ تمام اسلاف کرام صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ اہل سنت کی اجماعی رائے ہے، یعنی ان میں سے کسی بھی بات کو رد کرنا گویا سلف کے اجماعی موقف سے انحراف ہے۔
● اب سوال یہ ہے کہ یہ اقوال تو انتہائی صریح، دو ٹوک اور واضح ہیں، ان میں کوئی غموض اور اشکال بھی نہیں کہ سمجھنے میں کوئی دقت ہو، جبکہ ہمارے اکابر اہل حدیث کا طرز عمل بظاہر اس سے مختلف نظر آتا ہے، تو اس کے لئے ہمیں کئی پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے تو ہم یہ حسن ظن رکھیں کہ ہمارے اکابر کا عمومی طرز عمل اسلاف کرام سے اس قدر مختلف نہیں رہا ہوگا، اور جو اختلاف ہمیں نظر آرہا ہے وہ ہمارے سوئے فہم کا نتیجہ ہے، اور اگر کہیں یقین ہو جائے کہ انہوں نے سلف کے منہج کو ترک کیا ہے تو چونکہ ہم پر سلف کے منہج کی پیروی ضروری ہے، نہ کہ اکابر کی، اور وہی نجات کی راہ ہے، اس لئے ہم سلف کے منہج کو پکڑتے ہوئے اپنے اکابر کے بظاہر مخالف طرز عمل کی بہتر سے بہتر توجیہ پیش کریں اور ان کے لئے اعذار تلاش کریں، نہ کہ انہیں سلف کے مقابلے میں لا کھڑا کریں، کیوں کہ ہمارے اکابر نے نہ ہی اس کی دعوت دی ہے اور نہ ہی یہ ان کا منہج ہے۔ گویا اکابر پرستی میں منہج سلف کو ترک کرنا منہج سلف سے بھی انحراف ہے اور اکابر کے منہج سے بھی انحراف ہے۔ کیوں کہ ہمارے اکابر کتاب وسنت اور فہم سلف کو ہر چیز پر مقدم رکھتے تھے۔ اور ایسی صورت میں ہم میں اور گمراہ فرقوں میں کوئی فرق بھی نہیں رہے گا جو اکابر پرستی میں غلو کرتے ہوئے کتاب وسنت اور منھج سلف سے دور ہوتے چلے گئے۔
اس مختصر تمہید کے بعد آگے ہم غور کرتے ہیں کہ کیا واقعی ہمارے اکابر نے اہل بدعت کے ساتھ تعامل کے باب میں اسلاف کرام کے منہج کو بالائے طاق رکھ دیا تھا جیسا کہ بعض حضرات اسلاف کے اس موقف کو سن کر غیظ وغضب کا شکار ہوجاتے اور انہیں بلا کسی دلیل وبرہان کے محض اکابر پرستی کے زعم میں رد کر دیتے ہیں:
● اسلاف کرام اور اکابر اہل حدیث کا منہج:
اوپر اہل بدعت کے ساتھ تعامل کے سلسلے میں اسلاف کرام صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ اسلام کا جو اجماعی منہج بیان کیا گیا ہے وہ چار اصول پر مبنی ہے:
1- پہلا اصول: اہل بدعت سے بغض اور عداوت رکھنا۔
اس اصول کا تعلق مسئلہ عقیدہ ولاء وبراء سے ہے، یعنی کسی سے خالص اللہ کے لئے محبت کرنا اور اسی کے لئے بغض رکھنا، اور اس کا تقاضا ہے کہ ایک بدعتی سے بغض رکھا جائے کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا دشمن ہوتا ہے، دین کا خائن وغدار ہوتا ہے، وہ اللہ کے دین میں تحریف پیدا کرنے اور اسے مسخ کرنے کی کوشش کرتا ہے، شریعت سازی میں وہ اپنے آپ کو اللہ کا شریک ٹھہراتا ہے، اور اللہ کے بندوں کو ضلالت وگمراہی اور جہنم کی راہ کی طرف بلاتا ہے، لہذا ہر مومن سے مطلوب ہے کہ وہ اہل بدعت سے اس کی بدعت کے بقدر بغض اور عداوت رکھے۔ اس میں کسی بھی قسم کا خلل در اصل ایمان اور عقیدے میں خلل ہے۔ اسی لئے بدعت اور اہل بدعت کی مذمت اور شناعت پر نصوص شریعت بھرے ہوئے ہیں اور اس میں کسی بھی قسم کی مداہنت جرم عظیم اور ایمان وعقیدے کے لئے خطرہ ہے۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان سے ویسے ہی بغض رکھا جائے گا جیسے کافروں اور منافقوں سے رکھا جاتا ہے، بلکہ ان کے ایمان کے بقدر ان سے دوستی اور محبت بھی رکھی جائے گی، اور بیک وقت ایک شخص سے اس کے ایمان کے بقدر محبت رکھنا اور فسق وبدعت کے بقدر دشمنی اور بغض رکھنا یہی اہل سنت کا عقیدہ ہے، اور اس میں وہ خوارج اور مرجئہ کے افراط اور تفریط کے درمیان ہیں۔ اس لئے ایک بدعتی شخص (جس کی بدعت مکفرہ نہ ہو) کے لئے استغفار اور اس پر ترحم کرنا، اس کے نماز جنازہ میں شریک ہونا جائز ہے، لیکن چونکہ وہ بدعتی بھی ہے اور لوگوں کو اس کی بدعت سے ڈرانا اور بچانا بھی ہے، اس لئے اہل علم وفضل کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایسا علانیہ نہ کریں تاکہ اس سے لوگ عبرت پکڑیں، بدعت کی شناعت وقباحت ان کے دل میں باقی رہے، اور ایک بدعتی سے جو نفرت اور بغض مطلوب ہے وہ خالص محبت میں نہ بدل جائے اور لوگ اس کے نقش قدم پر نہ چلنے لگیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے اکابر اہل حدیث اہل بدعت سے بغض نہیں رکھتے تھے، وہ ان سے خالص محبت کرتے تھے؟ اور وہ عقیدہ ولاء وبراء کے مفہوم سے نا آشنا تھے؟
حاشا وکلا! یقینا وہ اس باب میں سلف کے منہج پر تھے اور اس میں کسی کا بھی اختلاف یقینا نہیں ہونا چاہئے۔
2- دوسرا اصول: اہل بدعت کی صحبت اختیار کرنے اور ہم نشینی سے بچنا۔ اس میں ان کے دروس اور محاضرات کو سننا، ان کی کتابیں پڑھنا وغیرہ بھی داخل ہیں۔
اہل بدعت کے ساتھ تعامل میں اہل سنت وجماعت کا یہ دوسرا متفقہ اصول ہے۔ یہ اصول در حقیقت عقیدہ ولاء وبراء، جو ایمان کا سب سے مضبوط کڑا ہے، کے ارد گرد ایک مضبوط دیوار کی طرح ہے، اسی عقیدہ ولاء وبراء کی حفاظت کے لئے صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ اسلام نے متفقہ طور پر اس دیوار کو پھلانگنے سے منع کیا ہے، جو ہم سے زیادہ دین کو سمجھنے والے، بدعات وخرافات کی باریکیوں سے واقفیت رکھنے والے، اور اپنی اصابت رائے، سلامت طبع، دور بینی، معاملہ فہمی، حکمت وبصیرت اور فہم وشعور میں اعلی وارفع تھے۔
اب جو شخص بھی اپنی ذہانت اور فقاہت پر اعتماد کرتے ہوئے سلف کے اس اصول سے انحراف کرتا ہے اور بدعت اور اہل بدعت سے قریب ہوتا ہے، اور اس دیوار کو پھلانگنے کی کوشش کرتا ہے، وہ اسی قدر عقیدہ ولاء وبراء کے باب میں ضلالت وگمراہی کے غار میں جا گرتا ہے، اس کے دل میں بدعت اور اہل بدعت سے بغض ونفرت کی جگہ محبت اور دوستی لینے لگتی ہے، بدعت کی شناعت وقباحت ختم ہونے لگتی ہے، ائمہ سنت اور علمائے سنت کی محبت دل سے رخصت ہونے لگتی ہے اور ائمہ ضلالت وبدعات کی محبت دل میں گھر کرنے لگتی ہے، جس کی وجہ سے دل تاریک اور بیمار ہونے لگتا ہے۔ کیونکہ ائمہ سنت کی کتابیں اور باتیں کتاب وسنت اور آثار سلف سے مزین ہوتی ہیں، اور چونکہ قرآن وسنت کے نصوص سراپا نور ہیں اس لئے وہ دلوں کو نور سے معمور کر دیتے ہیں، ان سے شبہات وشہوات کی تاریکیاں چھٹتی ہیں، حقائق روز روشن کی طرح عیاں ہو تے ہیں، جبکہ ائمہ بدعت وضلالت کی کتابوں اور باتوں میں اکثر عقلی موشگافیاں، فلسفیانہ گفتگو، قیاس آرائیاں، باطل استدلالات، اور ضعیف وموضوع روایتیں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے انہیں پڑھ اور سن کر قلوب واذہان تاریک ہوجاتے ہیں، شبہات وشہوات کا غلبہ شدید تر ہونے لگتا ہے، حق وباطل خلط ملط ہونے لگتا ہے، انسان متشابہات میں الجھ کر محکمات کا انکار کرنے لگتا ہے، پھر دھیرے دھیرے اس کی سوچ وفکر اہل باطل کے سانچے میں ڈھلنے لگتا ہے،۔ اور ایک وقت وہ خود محدثات وبدعات کو گلے لگانے لگتا ہے اور حق اور اہل حق کا دشمن بن جاتا ہے۔ ان کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں سے بڑے بڑے نتیجے اخذ کرتا ہے، ان کے تئیں لمز وہمز، طعن وتشنیع، کذب وافتراء کو روا سمجھنے لگتا ہے، جبکہ اس کے بالمقابل اہل بدعت کے لئے تعصب رکھنے لگتا ہے، ان کے بڑے بڑے انحرافات یہاں تک کہ کفریات تک کی تاویلیں کرنے لگتا ہے، اور ان پر رد کرنے والوں کو متشدد اور انتہا پسند قرار دیتا ہے، جبکہ انتہا پسندی اور تشدد یہ ہے کہ انسان کتاب وسنت سے منحرف ہو جائے، فہم سلف سے اعراض کرنے لگے اور دین میں محدثات اور مخترعات کے لئے راہیں ہموار کرنے لگے۔
خود آپ اپنے گرد وپیش کے ماحول پر نظر دوڑائیں، اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو ٹٹول کر دیکھیں، ان میں سے جس نے بھی سلف کے اس اصول کو بالائے طاق رکھا، اہل باطل کی کتابوں اور تقریروں کو پڑھنا اور سننا شروع کیا، ان کی کیا حالت ہوئی؟
مثال کے طور پر ڈاکٹر زبیر کو ہی لے لیں جو اسلاف کرام کے اس اصول کو اپنی جوتی کے نوک پر رکھتے ہیں، انہوں نے امام بربہاری، لالکائی، حسن بصری اور فضیل بن عیاض جیسے بڑے ائمہ اہل سنت اور اولیاء اللہ جن کی محبت اور دوستی تقرب الہی کا ذریعہ ہے، ان پر طعن کیا، انہیں تکفیری اور متشدد کہا، اور ان پر بہتان باندھا، جبکہ اس کے بالمقابل ڈاکٹر اسرار جیسے منحرف اور مولانا مودودی، سید قطب اور قرضاوی جیسے روسائے بدعات وضلالات کی خوب تعریفیں کرتے ہیں، ان کی کفریات اور واضح انحرافات کی تاویلیں کرتے ہیں، اور ان کے لئے شدید ترین تعصب رکھتے ہیں، یہاں تک کہ جنہوں نے ان کے انحرافات کو ان کی کتابوں سے دلائل وبراہین کے ذریعے ثابت کیا ان کے تئیں بغض ونفرت، لمز وہمز، کذب وافتراء سب کچھ روا رکھتے ہیں۔
آج کل اسی راہ پر مولانا خضر حیات صاحب بھی ہیں، جو اسلاف کرام کے اس متفقہ اصول کو توڑ دینا چاہتے ہیں، اور خود بھی اہل بدعت کو پڑھتے اور سنتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دے رہے ہیں، اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اشارے وکنائے میں امت کے جید اور بہترین علماء کو علمائے باطل اور علمائے فتنہ وثورات کو علمائے حق باور کرا رہے ہیں، اور قرضاوی جیسے امام ثورات وفتن اور افکار ضالہ وکفریات کے دفاع کے لئے میدان میں اتر آئے ہیں اور اس کے لئے امام ابن باز کے چالیس سال پہلے کے تعامل کو پیش کر رہے ہیں، جبکہ اس وقت کے قرضاوی اور آج کے قرضاوی میں آسمان وزمین کا فرق ہے، اس وقت کے قرضاوی اپنی کج روی کے بالکل ابتدائی مرحلے میں تھے، جبکہ آج کے قرضاوی اپنے تباہ کن افکار اور اباحیت پسند سوچ میں کافی آگے نکل چکے ہیں، اپنی خارجی فکر اور اس کی ترویج واشاعت میں ان کا مقام ابھی اسامہ بن لادن ، مسعری اور فقیہ سے بہت اونچا ہے، اس لئے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ امام ابن باز کی ان لوگوں کے بارے میں کیا رائے تھی۔ شیخ ابن باز نے انہیں ضال ومضل کہا تھا اور انتہائی سخت انداز میں ان سے تحذیر کی تھی۔ ظاہر ہے آج اگر شیخ با حیات ہوتے تو ان کے منہج سے یہی واضح ہوتا ہے کہ وہ قرضاوی کو بھی ضال ومضل کہتے اور ان لوگوں سے بھی زیادہ سخت انداز میں ان سے تحذیر کرتے، اس کے علاوہ شیخ ابن باز کے اس وقت کے تعامل سے خود مولانا خضر حیات اور ان کے ہم خیال لوگوں کے منہج پر ہی سخت ضرب پڑتی ہے، کیونکہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ باطل افکار ونطریات پر مشتمل کتابوں پر بین لگانا، اور ان کی نشر واشاعت سے روکنا اور لوگوں کو ان سے دور رکھنا شیخ ابن باز کا منہج تھا، جو ہمارے اسلاف کرام کا منہج یے، اسی لئے تو قرضاوی کی کتاب کی طباعت کے لئے ان باطل مسائل کو نکالنے کی بات کی تھی۔
یہی حال ان لوگوں کا بھی ہے جو مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں یا لکچرر ہیں، اور اخوانیوں کی صحبت ومعاشرت میں رہتے ہیں، سلف کے اس اصول کو توڑنے کی وجہ سے وہ دن بہ دن سلف اور منہج سلف سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں، فکری اباحیت کا شکار ہو رہے ہیں، علمائے حق اور ائمہ دین سے نفرت وبغض اور بدعت واہل بدعت کی محبت اور ان کے تئیں غیرت اور تعصب ان کے دلوں میں خوب پروان چڑھ رہا ہے۔
یہی حال مدارس کے ان فارغین کا ہے جو اپنی اردو ٹھیک کرنے کے چکر میں پہلے دن سے ہی مولانا مودودی اور وحید الدین خاں جیسے گمراہ مصنفین کو پڑھنا شروع کر دیتے ہیں، دھیرے دھیرے ان کے دل سے سنت اور ائمہ سنت اور علمائے سنت اور منہج سلف کی محبت ختم ہونے لگتی ہے، اور بدعت اور اہل بدعت کے تئیں نرم گوشہ جنم لے لیتا ہے، اور اکثر ان کے منحرف افکار کے شکار بھی ہو جاتے ہیں۔
یہی حال ان لکھاریوں کا بھی ہے جنہوں نے منہج سلف کو پڑھا نہیں ہے، ان کے مطالعہ کا دائرہ اردو کی کتابوں تک محدود ہے، جب وہ منھج سلف کے بارے میں سنتے ہیں تو ان کو عجیب سا لگتا ہے، ان کا دل ودماغ اس کو قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتا اور پھر بعض متشابہات کے ذریعے محکم باتوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دینے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں، ان کے دلوں میں بھی علمائے سنت سے زیادہ ائمہ بدعات کے تئیں غیرت پائی جاتی ہے۔
ان مثالوں کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس باب میں جو جس قدر تساہل کا شکار ہوتا ہے اور اپنے اسلاف کے منہج سے دور ہوتا ہے وہ اسی قدر پھسلتا ہے۔
آپ اگر سوچیں کہ مرزا جہلمی کے درس میں بیٹھنے والے کے دل میں صحابہ کرام کی ویسی محبت باقی رہے گی جو کسی سلفی عالم کے درس میں بیٹھنے سے ہوتی ہے تو ظاہر ہے یہ دعوی خلاف واقعہ ہو گا، اور ایسی کوئی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل سکتی۔ اسی طرح منحرف مصنفین کی کتابوں کو پڑھنے والے کے دل میں بھی کیا سنت اور عقیدہ کے تئیں وہی غیرت باقی رہے گی جو اہل سنت کی کتابوں کو پڑھنے سے پائی جاتی ہے؟ یہ ایک محال چیز ہے، کیونکہ انسان جس چیز کو پڑھتا اور سنتا ہے، اس کے اثرات کو کم یا زیادہ بہ تدریج قبول کرتا جاتا ہے، اس سے بالکلیہ کوئی شخص بھی انکار نہیں کر سکتا ہے۔
● اس اصول میں اکابر کا طرز عمل:
اب سوال یہ ہے کہ ہمارے کتنے اکابر ہیں جو اہل بدعت کی صحبت اور ہم نشینی اختیار کرتے تھے؟ یعنی ان کے علمی دروس میں شریک ہوتے تھے اور ان کے ساتھ صبح وشام اٹھتے بیٹھتے تھے؟
اور اگر کسی نے ان کی صحبت اختیار کی ہے تو ان کا ذاتی عمل ہمارے لئے حجت ہے یا پھر صحابہ، تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ سنت کا طرز عمل؟
3- تیسرا اصول: اہل بدعت سے قطع تعلقی اور ان کا سماجی بائیکاٹ کرنا۔
اس اصول کا مقصد بدعتی کی زجر وتوبیخ ہے، کیونکہ جب سماج میں اس کا بائیکاٹ کیا جائے گا تو وہ بدعت سے تائب بھی ہو سکتا یے، اور اس سے دوسرے لوگ جو اس کے نقش قدم پر چلنا چاہیں گے ان کی حوصلہ شکنی بھی ہوگی، لیکن یہ مقصد ایسے ماحول میں حاصل نہیں ہو سکتا جہاں اہل بدعت کا غلبہ ہے، وہاں بائیکاٹ سے ہم خود تنہا پڑ جائیں گے، اس لئے ایسی جگہ ان سے ایسے تعلقات قائم رکھنا جن سے یہ ظاہر نہ ہو کہ ہم اپنے اصول اور مسلمات میں ان سے مصالحت کر رہے ہیں جائز ہے بلکہ بسا اوقات دعوت کی افادیت کے اعتبار سے شرعا مطلوب امر بھی ہے۔
ہمارے اکابر اہل حدیث کے بیشتر تعلقات اہل بدعت سے اسی طرح کے تھے، وہ سیاسی، ملی اور سماجی بنیادوں پر ان سے تعلقات رکھتے تھے اور یہ بر صغیر کے ماحول میں دعوتی ناحیے سے جائز اور مطلوب امر ہے، لیکن ساتھ ہی وہ بدعت اور اہل بدعت کے تئیں شدید بھی تھے، انہوں نے ان پر رد کرنے میں کسی طرح کی مداہنت سے کام نہیں لیا ہے۔ ان کے اس طرح کے تعلقات سے یہ استدلال کرنا کہ وہ اہل بدعت سے بغض نہیں رکھتے تھے، وہ اباحیت پسند تھے، وہ ہر طرح کے بدعتی سے گھل مل کر رہنے، ان کی کتابوں کو پڑھنے اور انہیں سننے کو جائز سمجھتے تھے، وہ ائمہ مضلین سے تحذیر کے قائل نہیں تھے، یہ در اصل ان پر بہت بڑا بہتان اور الزام ہے، اور اس غلط استدلال کے ذریعے اہل سنت کے متفقہ دوسرے اصول کو گول کرنے کی کوشش کرنا اکابر کے نام پر بہت بڑا دھوکا اور فراڈ ہے۔
4- چوتھا اصول: اہل بدعت کی تذلیل وتحقیر کرنا، ان کو سزائیں دینا، ان کو اپنے درمیان سے بھگانا وغیرہ۔
اس اصول کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو اہل بدعت کی کتابوں اور باتوں کے قریب جانے سے حتی الوسع روکا جائے۔ اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ائمہ بدعات کے افکار پر رد کرنے سے پہلے خود ان کی اہانت کی جائے، ان کی تحقیر کی جائے اور ان کی شخصیت کو ہی لوگوں کی نگاہ میں کم تر بنایا جائے، کیونکہ انہوں نے خود بدعات کا ارتکاب کرکے اپنی اہانت کی ہے، اور اللہ اور اس کے رسول کی دشمنی مول لی ہے، اور وہ اس کے دین میں فراڈ اور جعل سازی کرتے اور لوگوں کے دین وایمان کو تباہ کرنے کے مجرم قرار پائے ہیں۔
اب اس میں جتنا تساہل برتا جائے گا اور ائمہ سنت کے منہج سے انحراف اختیار کیا جائے گا اسی قدر لوگوں کے دلوں میں اہل بدعت کی تعظیم وتوقیر پیدا ہوگی، اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ لوگ لا محالہ دوسرے اصول کو توڑیں گے اور ان کی کتابوں، لیکچرز، اور تقریروں کو سننا شروع کریں گے، جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ لوگ ان کے انحرافات کو قبول کرتے جائیں گے، ان کے شبہات کا شکار ہوں گے، اور عقیدہ ولاء وبراء جو اصول دین میں سے ہے وہ کمزور ہوتا جائے گا۔
اس اصول میں بھی ہمارے اکابر عمومی طور پر منہج سلف کے پیروکار تھے۔ اہل بدعات کے خلاف ان کے جہاد کا طویل سلسلہ اسی کا غماز ہے، لیکن یہاں اس بات کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے تقلید اور اہل تقلید پر رد کرنے میں زیادہ زور صرف کیا، جس کی وجہ سے وہ اس باب میں خط امتیاز کھنچنے میں پوری طرح کامیاب ہو گئے، لیکن تحریکیت اور اہل تحریک کے رد میں وہ اس قدر متوجہ نہیں ہوئے، یا مولانا مودودی کے عدم تقلید کے رجحان کو تقلید وجمود کے زور کو توڑنے میں نفع بخش سمجھ کر اکثر علماء نے ان کے انحرافات سے اغماض کیا، ۔حالانکہ سلفیت تقلید اور عدم تقلید کے درمیانی راہ منہج سلف کی پیروی کا نام ہے، مطلقا عدم تقلید بسا اوقات تقلید سے بھی زیادہ ضلالت وگمراہی کا سبب بنتی ہے۔ یا پھر جماعت اسلامی ایک نئی تحریک ہونے کی بنیاد پر اکثر علماء اس کے افکار اور سنگینی سے کما حقہ واقف نہیں ہوئے اور حسن ظن کی بنیاد پر مولانا مودودی کے تئیں نرم گوشہ اختیار کر لیا، حالانکہ انفرادی طور پر کئی علماء نے مودودی کو اور ان کے افکار کو بے نقاب کیا لیکن اس باب میں وہ اجتماعی اور ہمہ گیر کوشش نہیں رہی جو منہج سلف اور تحریکیت کے درمیان خط امتیاز کھینچ سکے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اکثر اہل حدیث جماعت اسلامی میں ضم ہو کر رہ گئے، اور تحریکیت کے جراثیم ان کے اندر سرایت کر گئے، ان کے مدارس کی لائبریریاں اہل تقلید کی کتابوں سے تو خالی رہیں اور اس میں وہ کامیاب رہے، لیکن مودودی، حس البناء، سید قطب، قرضاوی اور ان جیسے تحریکی مفکرین کی کتابوں سے پُر رہیں، اور ان کے رد میں جو کتابیں ہمارے بعض اکابر جیسے مولابا ثناءاللہ امرتسری، شیخ محدث گوندلوی ، شیخ اسماعیل سلفی اور دیگر حضرات نے لکھی ہیں ان سے اکثر لائبریریاں کھالی رہیں اور آج بھی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ شیخ صلاح الدین یوسف کی کتاب "خلافت وملوکیت" موجود ہے۔ یا اگر کسی لائبریری میں وہ کتابین ہیں بھی تو بچوں کو ان سے واقف نہیں کرایا جاتا ہے۔
اہل تقلید وجمود کے رد میں ہمارے اکابر نے اس اصول کو تو پوری طرح برتا، لیکن جو نئی تحریکیں جنم لی ہیں ان کے رد میں ہمارے اکابر سے معاملے کی سنگینی کو سمجھنے میں کہیں نا کہیں چوک ہوئی ہے جس کا بہت بڑا خمیازہ جماعت اہل حدیث کو بھگتنا پڑ رہا ہے، اس لئے ضرورت ہے کہ اس کا فورا تدارک کیا جائے، اور رافضیت، خارجیت، اباحیت سے تیار شدہ اس جدید مذہب اور فتنے سے ہماری جماعت کے نونہالوں کو بچانے کی کوشش کی جائے۔
● تنبیہ:
بہت سارے اہل حدیث لکھاری جو منھج سلف سے کما حقہ واقف نہیں ہیں وہ اپنی نادانی کی بنیاد پر یہ بات اکثر کہتے ہیں کہ شخصیت پر رد نہ کرو بلکہ افکار پر رد کرو، یعنی وہ اس اصول کا انکار کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پہلے ان کو غار کے کنارے جانے دو، پھر جب وہ اس میں گرنے لگیں تو بچانے کی کوشش کرو، جبکہ کمالِ نصیحت کا تقاضا یہ ہے اور جس کو اسلاف کرام نے اختیار کیا ہے کہ پہلے ہی متنبہ کیا جائے کہ اس جگہ کے قریب مت جاؤ، کیونکہ گڑھے میں گرنے کا ڈر ہے، لیکن اس کے باوجود کوئی اگر نادانی کی بنیاد پر چلا جائے تو پھر اگلی کوشش ہونی چاہئے کہ اسے کیسے بچایا جائے، لیکن اگر کوئی کہے کہ نہیں نہیں سب کو وہاں جانے دو، ڈراؤ مت، خوف مت پھیلاؤ، ہاں جب گرنے لگے تو پھر بچانے کی کوشش کرو، ظاہر ہے ایسی صورت میں اکثریت تو اس میں گر جائے گی، لیکن اگر پہلے متنبہ کیا جائے گا تو اکثریت بچ جائے گی۔
در اصل اہل بدعت کی تحذیر سے روکنے والے یا ان کی تعریف کرنے والے اور ائمہ سلف کی راہ کو ترک کرنے والے ضلالت کے غار کی طرف لوگوں کو پہلے جانے دیتے ہیں، یا پھر لوگوں کو اس کی طرف دعوت دیتے ہیں، پھر وہ بچانے کا مشورہ دیتے ہیں حالانکہ وہ خود گر چکے ہوتے ہیں تو وہ دوسروں کو کیا بچا پائیں گے، یا پھر بچانے والوں پر ہی مختلف مقدمے دائر کر دیتے ہیں۔
اب آتے ہیں آغاز میں دی گئی تحریر کی طرف کہ اس میں کہاں کہاں منہج سلف سے انحراف پایا جاتا ہے:
1- صاحب تحریر نے اس میں اپنے ان علماء پر طعن وتشنیع کیا ہے جن کے بارے ان کو یقین ہے کہ وہ منہج سلف کو ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔
2- بدعت کی شناعت وقباحت کو کم کیا گیا ہے، چنانچہ ایک شخص کے کفریات، انحرافات، اور اباحیت کو فقہی اختلاف سے تعبیر کیا ہے، (مضمون خاصا طویل ہو چکا ہے اس لئے اس کی وضاحت ابھی نہیں کر سکتا) ظاہر ہے کہ یہ اسی وقت ہو گا جب انسان کے دل سے بدعت کی قباحت نکل جائے گی۔ اور اس کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ انسان کے الحب فی اللہ والبغض فی اللہ اور عقیدہ ولاء وبراء میں خلل واقع ہوگا جو اصول ایمان میں سے ہے۔
3- اس میں ایک بڑے بدعتی کی تعظیم وتوقیر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی اور یہ اس باب میں منہج سلف کے چوتھے اصول سے انحراف ہے۔
4- اس میں ایک باطل کے ذریعے سے دوسرے باطل کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک باطل یہ ہے کہ ڈاکٹر محمد عیسی کے انحرافات پر رد کرنے کا اس وقت سے مطالبہ جب کسی مسلم حاکم نے ان کو امیر حج بنایا، جبکہ یہ مطالبہ اس وقت کرنا تھا جب ان سے یہ انحرافات صادر ہوئے تھے، (اور یہ کام اسی وقت شیخ عباد، شیخ صالح فوزان، اور شیخ سالم طویل وغیرہ سلفی علماء نے کیا ہے) لیکن مقصد انحرافات پر رد نہیں ہے بلکہ مسلم حاکم کو مطعون کرنا مقصود ہے، جو خود بنفسہ ایک باطل ہے اور منہج سلف کے خلاف، اور اس باطل کے ذریعے سے ایک دوسرے باطل کو ثابت کرنا، یعنی ایک بدعتی کی تعظیم وتوقیر پیدا کرنے کی کوشش کرنا، جو منھج سلف کے خلاف ہے۔
5- شریعت میں جو کام مطلوب ہے اس کو واویلا سے تعبیر کرنا اور اس کا مذاق اڑانا، جبکہ باطل پر سکوت کی دعوت دینا، یہ قابل انکار کام ہے نہ کہ اس پر رد کرنا۔
یہاں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ رد ڈاکٹر محمد عیسی پر کیوں نہیں؟ تو جواب یہ ہے کہ ڈاکٹر محمد عیسی کی طرح اور ان سے بڑے بڑے منحرفین ایسے ہیں جن کے سلسلے میں ہم سکوت اختیار کئے ہوئے ہیں کیونکہ لوگوں نے ان کو فقیہ، محدث اور شیخ الاسلام کا لقب نہیں دیا جس طرح قرضاوی کو دے رہے ہیں۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں جو لوگوں کی نگاہ میں معتمد عالم نہیں ہیں ان کے انحرافات پر رد کرنا گویا ان کے انحرافات کی تشہیر کرنا ہے جو خود ایک بہت بڑا مفسدہ ہے۔
6- اہل سنت کے اصول اور خوارج کے اصول سے عدم واقفیت، اور دونوں کو گڈ مڈ کر دینا ۔
7- عقیدہ ولاء وبراء کے تعلق سے غلط فہمی، در اصل کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی سے دینی معاملے میں بغض ونفرت رکھنے سے ہم معاشرے میں تنہا رہ جائیں گے، ہمارے دنیاوی معاملات متاثر ہونگے۔ یہ نا سمجھی کا نتیجہ ہے۔ کیا ہم نہیں مانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام مشرکین مکہ اور یہودیوں سے شدید نفرت رکھتے تھے، دینی اعتبار سے سخت کشمکش اور جنگ جاری تھی، لیکن اس کے باجود دنیاوی معاملات جیسے بیع وشراء، تجارت سیاست وغیرہ بالکل نارمل تھے۔ یہی حال اہل بدعت کے ساتھ اسلاف کرام کا رہا ہے، دینی اعتبار سے ان سے نفرت اور ائمہ بدعت سے سخت تحذیر اور تعزیر کے باجود ان کے دنیاوی معاملات بالکل نارمل رہے۔ آج ہم اپنے ملک میں کافروں کے علاوہ شیعوں اور بریلویوں سے بھی سخت نفرت کرتے ہیں، دینی اعتبار سے ہم کہیں ان سے سمجھوتہ نہیں کرتے، ان کے ائمہ ودعاة سے سخت تحذیر اور نفرت بھی کرتے ہیں لیکن ہمارے دنیاوی معاملات ان کے ساتھ بھی نارمل ہیں۔۔۔۔یہی بات ان تحریکیوں اور اہل باطل جو ہماری صفوں میں گھس کر ہمیں کھوکھلا کر رہے ہیں ان کے ساتھ کیوں نہیں ہو سکتی؟ یہ در اصل منھج سلف کو کما حقہ نہ سمجھنے ، انہیں نہ پڑھنے، اور فرق باطلہ اور اہل سنت کے منھج کے بنیادی اور باریک فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ ورنہ منھج سلف سراپا رحمت، اخروی نجات کا ذریعہ اور دنیا وآخرت کی اصلاح کا ضامن ہے۔
● بہر حال ایسے لوگ جو منھج سلف کے بنیادی اصول سے بھی ناواقف ہیں، فرق باطلہ اور اہل سنت کے اصول کے درمیان باریک فرق کو نہیں جانتے، انہیں چاہیے کہ اس طرح طیش میں آکر تحریر نا لکھا کریں۔ اگر لکھنا ہی ہو تو ائمہ سلف کی کتابوں سے پہلے مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کریں، علماء کی طرف رجوع کریں، پھر واقعی لگے کہ کسی سے غلطی ہوئی ہے تو ناصحانہ انداز میں اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔ ٹکراؤ کی راہ مناسب نہیں ہے، اور جو اہل علم حضرات محض پارٹی بازی کی بنیاد پر اس طرح کی تحریروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں انہیں بھی سوچنا چاہیے کہ منھج سلف پر لکھی گئی تحریر میں سلف سے نقولات ہوتے ہیں نہ کہ مزاج اور ذوق کی بات۔ یہ تو سراسر اباحیت اور عقلیت پسندی پے جو معتزلہ کی راہ ہے
اللہ رب العالمین ہم سب کو منھج سلف کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
شیخ محمد ضياء الحق تیمی حفظہ اللہ۔جامعہ اسلامیہ مدینہ نبویہ
(تحریر کچھ طویل ہے، مگر اسے پڑھنے سے آپ کے دل ودماغ کی بہت سی گرہیں ان شاء اللہ ضرور کھلیں گی جو آج پروپیگنڈے کے زور پر سادہ ذہنوں پر لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے)
● ایک صاحب لکھتے ہیں: "آہ رے منافقت! تیرا ہی سہارا ہے۔ شیخ علامہ یوسف القرضاوی دعائے مغفرت کے بھی لائق نہیں ہیں، کیونکہ ان کے کچھ آراء مروجہ فقہی آراء سے مختلف تھے، مگر وہیں سعودی عرب میں ایک شیخ پائے جاتے ہیں، ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم عیسی، رابطہ کے جنرل سکریٹری ہیں، اس سال خطیب حج تھے، مگر کیا آپ نے دیکھا کہ ہمارے سلفی احباب نے اسی طرح واویلا مچایا ہو جس طرح وہ دیگر مواقع پر کرتے ہیں؟ ان کے نظریات کیسے ہیں، کیا بتلانے کی ضرورت ہے؟۔۔۔۔۔۔مسئلہ قرضاوی صاحب کے وفات پر لوگوں کے خاموش رہنے اور نہ رہنے کا ہے ہی نہیں، یا دعائے مغفرت کرنے نہ کرنے کا نہیں ہے، مسئلہ جنازے سے پہلے ہی خارجی، بدعتی اور جہنمی جیسے القاب سے ملقب کرنے کا ہے، کہ یہی کرنے سے "سلفیت" ثابت ہوگی؟"
● اس عبارت کو پڑھنے سے مندرجہ ذیل امور کا پتہ چلتا ہے:
1- علامہ قرضاوی کے آراء جن سے ہمیں اختلاف ہے وہ فقہی آراء ہیں۔
2- ان فقہی آراء کی خاصیت یہ تھی کہ وہ مروجہ فقہی آراء سے مختلف تھے۔ یعنی ضروری نہیں کہ وہ کتاب وسنت کے بھی خلاف ہوں۔
3- پہلے دونوں نکات کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کی تعظیم وتوقیر ویسے ہی ضروری ہے جیسا کہ دیگر امت کے کبار اہل علم کی ہونی چاہئے۔
3- علامہ قرضاوی کے لئے یہ لوگ دعائے مغفرت کو ناجائز سمجھتے ہیں۔
4- جو علامہ قرضاوی پر واویلا مچا رہے ہیں لیکن ڈاکٹر محمد عیسی پر خاموش ہیں وہ در اصل منافقانہ روش پر ہیں۔
● صاحب تحریر کو چونکہ یہ زعم ہے کہ وہ سلفی منہج کی صحیح نمائندگی کر رہے ہیں، اس لئے وہ اپنے مخالف رائے رکھنے والے سلفی علماء پر کافی چراغ پا ہیں، جبکہ اس مختصر پیراگراف میں ہی انہوں نے کئی ایک علمی اور منہجی غلطیاں کی ہیں، لیکن اس کے باجود بہت سارے فارغینِ اہل حدیث مدارس، طلباء اور نوجوانوں نے اس کی خوب پذیرائی کی ہے، بلکہ اس طرح کی جو بھی تحریر جس میں واضح منہجی غلطیاں پائی جاتی ہیں اہل حدیث کے ایک طبقے سے خوب داد تحسین حاصل کرتی ہے، بلکہ معاملہ دھیرے دھیرے دو محاذوں کا ہونے لگا ہے، اور جب ہم اس شدید اختلاف کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ بہت سارے اذہان میں یہ بات راسخ یے کہ اہل بدعت کے ساتھ تعامل میں سلف کے منہج اور اکابر اہل حدیث کے منہج میں فرق پایا جاتا ہے، اور ہمارے اکابر اہل بدعت کے ساتھ ہر طرح کے تعامل کے روادار تھے، اور ہمارے ارد گرد کے ماحول کے اعتبار سے ہمارے لئے وہی منہج درست ہے جو ہمارے اکابر نے اختیار کیا ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ اہل بدعت کے تئیں سلف اور ہمارے اکابر کے موقف کو ایک ساتھ سمجھنے کی کوشش کی جائے اور دیکھا جائے کہ کیا واقعی ان دونوں کے درمیان کوئی ایسا جوہری اختلاف موجود ہے جو ہمیں دو مختلف محاذوں میں تقسیم کر دے؟ یا معاملہ صرف ہمارے سوئے فہم کا ہے؟
مضمون شاید طویل ہوجائے اس کے لئے ہم پیشگی معذرت خواہ ہیں۔
● سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ سلف یعنی صحابہ کرام، تابعین عظام، تبع تابعین، اور ائمہ کرام اور علمائے اہل سنت کا منہج اہل بدعت کے تعلق سے کیا تھا؟ نیچے اسی سلسلے میں اہل علم کے کچھ اقوال پیش کئے جا رہے ہیں:
(1) قال الإمام البغوي رحمه الله : ( و قد مضت الصحابة و التابعون ، و أتباعهم ، و علماء السنن على هذا مجمعين متفقين على معاداة أهل البدع و مهاجرتهم ) .[ شرح السنّة للبغوي: 1/227 ]
یعنی صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور علمائے اہل سنت اس بات پر متفق ہیں اور اس پر اجماع قائم ہے کہ اہل بدعت سے عداوت رکھی جائے گی اور ان سے قطع تعلق کیا جائے گا۔
(2) وقال الشاطبي : ( إن فرقة النجاة ، و هم أهل السنة ، مأمورون بعداوة أهل البدع ، و التشريد بهم ، و التنكيل بمن انحاش إلى جهتهم ، و نحن مأمورون بمعاداتهم ، و هم مأمورون بموالاتنا و الرجوع إلى الجماعة ) .[ الاعتصام ، للشاطبي : 1/120 ].
فرقہ ناجیہ اہل سنت کو حکم ہے کہ وہ اہل بدعت سے عداوت رکھیں، انہیں اپنے سماج سے بھگائیں، اور اگر وہ باہر سے آدھمکیں تو انہیں سخت سزائیں دیں، ہمیں ان سے عداوت رکھنے کا حکم ہے، جبکہ انہیں حکم ہے کہ وہ ہم سے دوستی کریں اور ہماری جماعت میں شامل ہو جائیں۔
(3) وقال الإمام أبو عثمان إسماعيل الصابوني رحمه الله حكايةً عن أهل السنّة : ( و يبغضون أهل البدع الذين أحدثوا في الدين ما ليس منه ، و لا يحبونهم ، و لا يصحبونهم ) .
[ عقيدة السلف أصحاب الحديث للصابوني ، ص : 118 ].
امام صابونی اہل سنت کا منہج بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ اہل بدعت سے بغض رکھتے ہیں جنہوں نے دین میں بدعات ایجاد کیں، نہ ان سے محبت رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کی صحبت اختیار کرتے ہیں۔
(4) والإمام الطحاوي وصفهم بأنهم ( يحابّون في الدين ، و يتباغضون فيه ، و يتقون الجدال في أصول الدين ، و الخصومات فيه ، و يجانبون أهل البدع و الضلالات ، و يعادون أصحاب البدع و الأهواء المرديات الفاضحات ) .شرح الطحاوية ، لابن أبي العز ، ص : 520 ]
امام طحاوی اہل سنت کا وصف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دین کی وجہ سے وہ کسی سے محبت یا بغض رکھتے ہیں، أصول دین میں بحث وجدال اور مناظرہ بازی سے بچتے ہیں، اہل بدعت وضلالت سے دوری بنائے رکھتے ہیں اور بدعتیوں اور ہوا پرستوں سے عداوت رکھتے ہیں۔
(5) قال ابن بطة: إحدى علامات أهل السنة حبهم لأئمة السنة، وعلمائها وأنصارها وأو ليائها، وبغضهم لأئمة البدع، الذين يدعون إلى النار، ويدلون أصحابهم على دار البوار، وقد زين الله سبحانه قلوب أهل السنة ونورها بحب علماء السنة فضلا منه جل جلاله. [ الإبانة الكبرى ، لابن بطة ( 2/456 )
اہل سنت کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ اہل سنت کے ائمہ، علماء، انصار اور اولیاء سے محبت کرتے ہیں اور اہل بدعت کے ائمہ سے بغض رکھتے ہیں، جو لوگوں کو جہنم کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اس کی طرف رہنمائی کرتے ہیں، اور اللہ عزوجل کا ان پر یہ فضل واحسان ہے کہ وہ ان کے دلوں کو علمائے اہل سنت کی محبت سے پر نور اور مزین رکھتے ہے۔۔
(6) وقال الصابوني أيضا: "اتفقوا مع ذلك على القول بقهر أهل البدع، وإذلالهم وإخزائهم وابعادهم واقصائهم، والتباعد منهم ومن مصاحبتهم ومعاشرتهم، والتقرب إلى الله عز وجل بمجانبتهم ومهاجرتهم"
صابونی فرماتے ہیں کہ اہل بدعت کو زیر کرنے، ان کی تذلیل اور توہین کرنے، ان کو دور بھگانے، اور ان سے دوری بنانے، اور ان کی صحبت اور ہم نشینی سے بچنے، اور ان سے قطع تعلق کو تقرب الہی کا ذریعہ سمجھنے میں تمام اہل سنت کا اتفاق ہے۔
ان اقوال کو بار بار پڑھیں اور ساتھ ہی اس نکتے پر غور کریں کہ ان میں جتنی بھی باتیں اہل بدعت کے حوالے سے کہی گئی ہیں وہ جمہور سلف یا بعض سلف کی رائے نہیں، بلکہ تمام اسلاف کرام صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ اہل سنت کی اجماعی رائے ہے، یعنی ان میں سے کسی بھی بات کو رد کرنا گویا سلف کے اجماعی موقف سے انحراف ہے۔
● اب سوال یہ ہے کہ یہ اقوال تو انتہائی صریح، دو ٹوک اور واضح ہیں، ان میں کوئی غموض اور اشکال بھی نہیں کہ سمجھنے میں کوئی دقت ہو، جبکہ ہمارے اکابر اہل حدیث کا طرز عمل بظاہر اس سے مختلف نظر آتا ہے، تو اس کے لئے ہمیں کئی پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے تو ہم یہ حسن ظن رکھیں کہ ہمارے اکابر کا عمومی طرز عمل اسلاف کرام سے اس قدر مختلف نہیں رہا ہوگا، اور جو اختلاف ہمیں نظر آرہا ہے وہ ہمارے سوئے فہم کا نتیجہ ہے، اور اگر کہیں یقین ہو جائے کہ انہوں نے سلف کے منہج کو ترک کیا ہے تو چونکہ ہم پر سلف کے منہج کی پیروی ضروری ہے، نہ کہ اکابر کی، اور وہی نجات کی راہ ہے، اس لئے ہم سلف کے منہج کو پکڑتے ہوئے اپنے اکابر کے بظاہر مخالف طرز عمل کی بہتر سے بہتر توجیہ پیش کریں اور ان کے لئے اعذار تلاش کریں، نہ کہ انہیں سلف کے مقابلے میں لا کھڑا کریں، کیوں کہ ہمارے اکابر نے نہ ہی اس کی دعوت دی ہے اور نہ ہی یہ ان کا منہج ہے۔ گویا اکابر پرستی میں منہج سلف کو ترک کرنا منہج سلف سے بھی انحراف ہے اور اکابر کے منہج سے بھی انحراف ہے۔ کیوں کہ ہمارے اکابر کتاب وسنت اور فہم سلف کو ہر چیز پر مقدم رکھتے تھے۔ اور ایسی صورت میں ہم میں اور گمراہ فرقوں میں کوئی فرق بھی نہیں رہے گا جو اکابر پرستی میں غلو کرتے ہوئے کتاب وسنت اور منھج سلف سے دور ہوتے چلے گئے۔
اس مختصر تمہید کے بعد آگے ہم غور کرتے ہیں کہ کیا واقعی ہمارے اکابر نے اہل بدعت کے ساتھ تعامل کے باب میں اسلاف کرام کے منہج کو بالائے طاق رکھ دیا تھا جیسا کہ بعض حضرات اسلاف کے اس موقف کو سن کر غیظ وغضب کا شکار ہوجاتے اور انہیں بلا کسی دلیل وبرہان کے محض اکابر پرستی کے زعم میں رد کر دیتے ہیں:
● اسلاف کرام اور اکابر اہل حدیث کا منہج:
اوپر اہل بدعت کے ساتھ تعامل کے سلسلے میں اسلاف کرام صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ اسلام کا جو اجماعی منہج بیان کیا گیا ہے وہ چار اصول پر مبنی ہے:
1- پہلا اصول: اہل بدعت سے بغض اور عداوت رکھنا۔
اس اصول کا تعلق مسئلہ عقیدہ ولاء وبراء سے ہے، یعنی کسی سے خالص اللہ کے لئے محبت کرنا اور اسی کے لئے بغض رکھنا، اور اس کا تقاضا ہے کہ ایک بدعتی سے بغض رکھا جائے کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا دشمن ہوتا ہے، دین کا خائن وغدار ہوتا ہے، وہ اللہ کے دین میں تحریف پیدا کرنے اور اسے مسخ کرنے کی کوشش کرتا ہے، شریعت سازی میں وہ اپنے آپ کو اللہ کا شریک ٹھہراتا ہے، اور اللہ کے بندوں کو ضلالت وگمراہی اور جہنم کی راہ کی طرف بلاتا ہے، لہذا ہر مومن سے مطلوب ہے کہ وہ اہل بدعت سے اس کی بدعت کے بقدر بغض اور عداوت رکھے۔ اس میں کسی بھی قسم کا خلل در اصل ایمان اور عقیدے میں خلل ہے۔ اسی لئے بدعت اور اہل بدعت کی مذمت اور شناعت پر نصوص شریعت بھرے ہوئے ہیں اور اس میں کسی بھی قسم کی مداہنت جرم عظیم اور ایمان وعقیدے کے لئے خطرہ ہے۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان سے ویسے ہی بغض رکھا جائے گا جیسے کافروں اور منافقوں سے رکھا جاتا ہے، بلکہ ان کے ایمان کے بقدر ان سے دوستی اور محبت بھی رکھی جائے گی، اور بیک وقت ایک شخص سے اس کے ایمان کے بقدر محبت رکھنا اور فسق وبدعت کے بقدر دشمنی اور بغض رکھنا یہی اہل سنت کا عقیدہ ہے، اور اس میں وہ خوارج اور مرجئہ کے افراط اور تفریط کے درمیان ہیں۔ اس لئے ایک بدعتی شخص (جس کی بدعت مکفرہ نہ ہو) کے لئے استغفار اور اس پر ترحم کرنا، اس کے نماز جنازہ میں شریک ہونا جائز ہے، لیکن چونکہ وہ بدعتی بھی ہے اور لوگوں کو اس کی بدعت سے ڈرانا اور بچانا بھی ہے، اس لئے اہل علم وفضل کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایسا علانیہ نہ کریں تاکہ اس سے لوگ عبرت پکڑیں، بدعت کی شناعت وقباحت ان کے دل میں باقی رہے، اور ایک بدعتی سے جو نفرت اور بغض مطلوب ہے وہ خالص محبت میں نہ بدل جائے اور لوگ اس کے نقش قدم پر نہ چلنے لگیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے اکابر اہل حدیث اہل بدعت سے بغض نہیں رکھتے تھے، وہ ان سے خالص محبت کرتے تھے؟ اور وہ عقیدہ ولاء وبراء کے مفہوم سے نا آشنا تھے؟
حاشا وکلا! یقینا وہ اس باب میں سلف کے منہج پر تھے اور اس میں کسی کا بھی اختلاف یقینا نہیں ہونا چاہئے۔
2- دوسرا اصول: اہل بدعت کی صحبت اختیار کرنے اور ہم نشینی سے بچنا۔ اس میں ان کے دروس اور محاضرات کو سننا، ان کی کتابیں پڑھنا وغیرہ بھی داخل ہیں۔
اہل بدعت کے ساتھ تعامل میں اہل سنت وجماعت کا یہ دوسرا متفقہ اصول ہے۔ یہ اصول در حقیقت عقیدہ ولاء وبراء، جو ایمان کا سب سے مضبوط کڑا ہے، کے ارد گرد ایک مضبوط دیوار کی طرح ہے، اسی عقیدہ ولاء وبراء کی حفاظت کے لئے صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ اسلام نے متفقہ طور پر اس دیوار کو پھلانگنے سے منع کیا ہے، جو ہم سے زیادہ دین کو سمجھنے والے، بدعات وخرافات کی باریکیوں سے واقفیت رکھنے والے، اور اپنی اصابت رائے، سلامت طبع، دور بینی، معاملہ فہمی، حکمت وبصیرت اور فہم وشعور میں اعلی وارفع تھے۔
اب جو شخص بھی اپنی ذہانت اور فقاہت پر اعتماد کرتے ہوئے سلف کے اس اصول سے انحراف کرتا ہے اور بدعت اور اہل بدعت سے قریب ہوتا ہے، اور اس دیوار کو پھلانگنے کی کوشش کرتا ہے، وہ اسی قدر عقیدہ ولاء وبراء کے باب میں ضلالت وگمراہی کے غار میں جا گرتا ہے، اس کے دل میں بدعت اور اہل بدعت سے بغض ونفرت کی جگہ محبت اور دوستی لینے لگتی ہے، بدعت کی شناعت وقباحت ختم ہونے لگتی ہے، ائمہ سنت اور علمائے سنت کی محبت دل سے رخصت ہونے لگتی ہے اور ائمہ ضلالت وبدعات کی محبت دل میں گھر کرنے لگتی ہے، جس کی وجہ سے دل تاریک اور بیمار ہونے لگتا ہے۔ کیونکہ ائمہ سنت کی کتابیں اور باتیں کتاب وسنت اور آثار سلف سے مزین ہوتی ہیں، اور چونکہ قرآن وسنت کے نصوص سراپا نور ہیں اس لئے وہ دلوں کو نور سے معمور کر دیتے ہیں، ان سے شبہات وشہوات کی تاریکیاں چھٹتی ہیں، حقائق روز روشن کی طرح عیاں ہو تے ہیں، جبکہ ائمہ بدعت وضلالت کی کتابوں اور باتوں میں اکثر عقلی موشگافیاں، فلسفیانہ گفتگو، قیاس آرائیاں، باطل استدلالات، اور ضعیف وموضوع روایتیں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے انہیں پڑھ اور سن کر قلوب واذہان تاریک ہوجاتے ہیں، شبہات وشہوات کا غلبہ شدید تر ہونے لگتا ہے، حق وباطل خلط ملط ہونے لگتا ہے، انسان متشابہات میں الجھ کر محکمات کا انکار کرنے لگتا ہے، پھر دھیرے دھیرے اس کی سوچ وفکر اہل باطل کے سانچے میں ڈھلنے لگتا ہے،۔ اور ایک وقت وہ خود محدثات وبدعات کو گلے لگانے لگتا ہے اور حق اور اہل حق کا دشمن بن جاتا ہے۔ ان کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں سے بڑے بڑے نتیجے اخذ کرتا ہے، ان کے تئیں لمز وہمز، طعن وتشنیع، کذب وافتراء کو روا سمجھنے لگتا ہے، جبکہ اس کے بالمقابل اہل بدعت کے لئے تعصب رکھنے لگتا ہے، ان کے بڑے بڑے انحرافات یہاں تک کہ کفریات تک کی تاویلیں کرنے لگتا ہے، اور ان پر رد کرنے والوں کو متشدد اور انتہا پسند قرار دیتا ہے، جبکہ انتہا پسندی اور تشدد یہ ہے کہ انسان کتاب وسنت سے منحرف ہو جائے، فہم سلف سے اعراض کرنے لگے اور دین میں محدثات اور مخترعات کے لئے راہیں ہموار کرنے لگے۔
خود آپ اپنے گرد وپیش کے ماحول پر نظر دوڑائیں، اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو ٹٹول کر دیکھیں، ان میں سے جس نے بھی سلف کے اس اصول کو بالائے طاق رکھا، اہل باطل کی کتابوں اور تقریروں کو پڑھنا اور سننا شروع کیا، ان کی کیا حالت ہوئی؟
مثال کے طور پر ڈاکٹر زبیر کو ہی لے لیں جو اسلاف کرام کے اس اصول کو اپنی جوتی کے نوک پر رکھتے ہیں، انہوں نے امام بربہاری، لالکائی، حسن بصری اور فضیل بن عیاض جیسے بڑے ائمہ اہل سنت اور اولیاء اللہ جن کی محبت اور دوستی تقرب الہی کا ذریعہ ہے، ان پر طعن کیا، انہیں تکفیری اور متشدد کہا، اور ان پر بہتان باندھا، جبکہ اس کے بالمقابل ڈاکٹر اسرار جیسے منحرف اور مولانا مودودی، سید قطب اور قرضاوی جیسے روسائے بدعات وضلالات کی خوب تعریفیں کرتے ہیں، ان کی کفریات اور واضح انحرافات کی تاویلیں کرتے ہیں، اور ان کے لئے شدید ترین تعصب رکھتے ہیں، یہاں تک کہ جنہوں نے ان کے انحرافات کو ان کی کتابوں سے دلائل وبراہین کے ذریعے ثابت کیا ان کے تئیں بغض ونفرت، لمز وہمز، کذب وافتراء سب کچھ روا رکھتے ہیں۔
آج کل اسی راہ پر مولانا خضر حیات صاحب بھی ہیں، جو اسلاف کرام کے اس متفقہ اصول کو توڑ دینا چاہتے ہیں، اور خود بھی اہل بدعت کو پڑھتے اور سنتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دے رہے ہیں، اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اشارے وکنائے میں امت کے جید اور بہترین علماء کو علمائے باطل اور علمائے فتنہ وثورات کو علمائے حق باور کرا رہے ہیں، اور قرضاوی جیسے امام ثورات وفتن اور افکار ضالہ وکفریات کے دفاع کے لئے میدان میں اتر آئے ہیں اور اس کے لئے امام ابن باز کے چالیس سال پہلے کے تعامل کو پیش کر رہے ہیں، جبکہ اس وقت کے قرضاوی اور آج کے قرضاوی میں آسمان وزمین کا فرق ہے، اس وقت کے قرضاوی اپنی کج روی کے بالکل ابتدائی مرحلے میں تھے، جبکہ آج کے قرضاوی اپنے تباہ کن افکار اور اباحیت پسند سوچ میں کافی آگے نکل چکے ہیں، اپنی خارجی فکر اور اس کی ترویج واشاعت میں ان کا مقام ابھی اسامہ بن لادن ، مسعری اور فقیہ سے بہت اونچا ہے، اس لئے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ امام ابن باز کی ان لوگوں کے بارے میں کیا رائے تھی۔ شیخ ابن باز نے انہیں ضال ومضل کہا تھا اور انتہائی سخت انداز میں ان سے تحذیر کی تھی۔ ظاہر ہے آج اگر شیخ با حیات ہوتے تو ان کے منہج سے یہی واضح ہوتا ہے کہ وہ قرضاوی کو بھی ضال ومضل کہتے اور ان لوگوں سے بھی زیادہ سخت انداز میں ان سے تحذیر کرتے، اس کے علاوہ شیخ ابن باز کے اس وقت کے تعامل سے خود مولانا خضر حیات اور ان کے ہم خیال لوگوں کے منہج پر ہی سخت ضرب پڑتی ہے، کیونکہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ باطل افکار ونطریات پر مشتمل کتابوں پر بین لگانا، اور ان کی نشر واشاعت سے روکنا اور لوگوں کو ان سے دور رکھنا شیخ ابن باز کا منہج تھا، جو ہمارے اسلاف کرام کا منہج یے، اسی لئے تو قرضاوی کی کتاب کی طباعت کے لئے ان باطل مسائل کو نکالنے کی بات کی تھی۔
یہی حال ان لوگوں کا بھی ہے جو مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں یا لکچرر ہیں، اور اخوانیوں کی صحبت ومعاشرت میں رہتے ہیں، سلف کے اس اصول کو توڑنے کی وجہ سے وہ دن بہ دن سلف اور منہج سلف سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں، فکری اباحیت کا شکار ہو رہے ہیں، علمائے حق اور ائمہ دین سے نفرت وبغض اور بدعت واہل بدعت کی محبت اور ان کے تئیں غیرت اور تعصب ان کے دلوں میں خوب پروان چڑھ رہا ہے۔
یہی حال مدارس کے ان فارغین کا ہے جو اپنی اردو ٹھیک کرنے کے چکر میں پہلے دن سے ہی مولانا مودودی اور وحید الدین خاں جیسے گمراہ مصنفین کو پڑھنا شروع کر دیتے ہیں، دھیرے دھیرے ان کے دل سے سنت اور ائمہ سنت اور علمائے سنت اور منہج سلف کی محبت ختم ہونے لگتی ہے، اور بدعت اور اہل بدعت کے تئیں نرم گوشہ جنم لے لیتا ہے، اور اکثر ان کے منحرف افکار کے شکار بھی ہو جاتے ہیں۔
یہی حال ان لکھاریوں کا بھی ہے جنہوں نے منہج سلف کو پڑھا نہیں ہے، ان کے مطالعہ کا دائرہ اردو کی کتابوں تک محدود ہے، جب وہ منھج سلف کے بارے میں سنتے ہیں تو ان کو عجیب سا لگتا ہے، ان کا دل ودماغ اس کو قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتا اور پھر بعض متشابہات کے ذریعے محکم باتوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دینے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں، ان کے دلوں میں بھی علمائے سنت سے زیادہ ائمہ بدعات کے تئیں غیرت پائی جاتی ہے۔
ان مثالوں کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس باب میں جو جس قدر تساہل کا شکار ہوتا ہے اور اپنے اسلاف کے منہج سے دور ہوتا ہے وہ اسی قدر پھسلتا ہے۔
آپ اگر سوچیں کہ مرزا جہلمی کے درس میں بیٹھنے والے کے دل میں صحابہ کرام کی ویسی محبت باقی رہے گی جو کسی سلفی عالم کے درس میں بیٹھنے سے ہوتی ہے تو ظاہر ہے یہ دعوی خلاف واقعہ ہو گا، اور ایسی کوئی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل سکتی۔ اسی طرح منحرف مصنفین کی کتابوں کو پڑھنے والے کے دل میں بھی کیا سنت اور عقیدہ کے تئیں وہی غیرت باقی رہے گی جو اہل سنت کی کتابوں کو پڑھنے سے پائی جاتی ہے؟ یہ ایک محال چیز ہے، کیونکہ انسان جس چیز کو پڑھتا اور سنتا ہے، اس کے اثرات کو کم یا زیادہ بہ تدریج قبول کرتا جاتا ہے، اس سے بالکلیہ کوئی شخص بھی انکار نہیں کر سکتا ہے۔
● اس اصول میں اکابر کا طرز عمل:
اب سوال یہ ہے کہ ہمارے کتنے اکابر ہیں جو اہل بدعت کی صحبت اور ہم نشینی اختیار کرتے تھے؟ یعنی ان کے علمی دروس میں شریک ہوتے تھے اور ان کے ساتھ صبح وشام اٹھتے بیٹھتے تھے؟
اور اگر کسی نے ان کی صحبت اختیار کی ہے تو ان کا ذاتی عمل ہمارے لئے حجت ہے یا پھر صحابہ، تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ سنت کا طرز عمل؟
3- تیسرا اصول: اہل بدعت سے قطع تعلقی اور ان کا سماجی بائیکاٹ کرنا۔
اس اصول کا مقصد بدعتی کی زجر وتوبیخ ہے، کیونکہ جب سماج میں اس کا بائیکاٹ کیا جائے گا تو وہ بدعت سے تائب بھی ہو سکتا یے، اور اس سے دوسرے لوگ جو اس کے نقش قدم پر چلنا چاہیں گے ان کی حوصلہ شکنی بھی ہوگی، لیکن یہ مقصد ایسے ماحول میں حاصل نہیں ہو سکتا جہاں اہل بدعت کا غلبہ ہے، وہاں بائیکاٹ سے ہم خود تنہا پڑ جائیں گے، اس لئے ایسی جگہ ان سے ایسے تعلقات قائم رکھنا جن سے یہ ظاہر نہ ہو کہ ہم اپنے اصول اور مسلمات میں ان سے مصالحت کر رہے ہیں جائز ہے بلکہ بسا اوقات دعوت کی افادیت کے اعتبار سے شرعا مطلوب امر بھی ہے۔
ہمارے اکابر اہل حدیث کے بیشتر تعلقات اہل بدعت سے اسی طرح کے تھے، وہ سیاسی، ملی اور سماجی بنیادوں پر ان سے تعلقات رکھتے تھے اور یہ بر صغیر کے ماحول میں دعوتی ناحیے سے جائز اور مطلوب امر ہے، لیکن ساتھ ہی وہ بدعت اور اہل بدعت کے تئیں شدید بھی تھے، انہوں نے ان پر رد کرنے میں کسی طرح کی مداہنت سے کام نہیں لیا ہے۔ ان کے اس طرح کے تعلقات سے یہ استدلال کرنا کہ وہ اہل بدعت سے بغض نہیں رکھتے تھے، وہ اباحیت پسند تھے، وہ ہر طرح کے بدعتی سے گھل مل کر رہنے، ان کی کتابوں کو پڑھنے اور انہیں سننے کو جائز سمجھتے تھے، وہ ائمہ مضلین سے تحذیر کے قائل نہیں تھے، یہ در اصل ان پر بہت بڑا بہتان اور الزام ہے، اور اس غلط استدلال کے ذریعے اہل سنت کے متفقہ دوسرے اصول کو گول کرنے کی کوشش کرنا اکابر کے نام پر بہت بڑا دھوکا اور فراڈ ہے۔
4- چوتھا اصول: اہل بدعت کی تذلیل وتحقیر کرنا، ان کو سزائیں دینا، ان کو اپنے درمیان سے بھگانا وغیرہ۔
اس اصول کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو اہل بدعت کی کتابوں اور باتوں کے قریب جانے سے حتی الوسع روکا جائے۔ اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ائمہ بدعات کے افکار پر رد کرنے سے پہلے خود ان کی اہانت کی جائے، ان کی تحقیر کی جائے اور ان کی شخصیت کو ہی لوگوں کی نگاہ میں کم تر بنایا جائے، کیونکہ انہوں نے خود بدعات کا ارتکاب کرکے اپنی اہانت کی ہے، اور اللہ اور اس کے رسول کی دشمنی مول لی ہے، اور وہ اس کے دین میں فراڈ اور جعل سازی کرتے اور لوگوں کے دین وایمان کو تباہ کرنے کے مجرم قرار پائے ہیں۔
اب اس میں جتنا تساہل برتا جائے گا اور ائمہ سنت کے منہج سے انحراف اختیار کیا جائے گا اسی قدر لوگوں کے دلوں میں اہل بدعت کی تعظیم وتوقیر پیدا ہوگی، اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ لوگ لا محالہ دوسرے اصول کو توڑیں گے اور ان کی کتابوں، لیکچرز، اور تقریروں کو سننا شروع کریں گے، جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ لوگ ان کے انحرافات کو قبول کرتے جائیں گے، ان کے شبہات کا شکار ہوں گے، اور عقیدہ ولاء وبراء جو اصول دین میں سے ہے وہ کمزور ہوتا جائے گا۔
اس اصول میں بھی ہمارے اکابر عمومی طور پر منہج سلف کے پیروکار تھے۔ اہل بدعات کے خلاف ان کے جہاد کا طویل سلسلہ اسی کا غماز ہے، لیکن یہاں اس بات کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے تقلید اور اہل تقلید پر رد کرنے میں زیادہ زور صرف کیا، جس کی وجہ سے وہ اس باب میں خط امتیاز کھنچنے میں پوری طرح کامیاب ہو گئے، لیکن تحریکیت اور اہل تحریک کے رد میں وہ اس قدر متوجہ نہیں ہوئے، یا مولانا مودودی کے عدم تقلید کے رجحان کو تقلید وجمود کے زور کو توڑنے میں نفع بخش سمجھ کر اکثر علماء نے ان کے انحرافات سے اغماض کیا، ۔حالانکہ سلفیت تقلید اور عدم تقلید کے درمیانی راہ منہج سلف کی پیروی کا نام ہے، مطلقا عدم تقلید بسا اوقات تقلید سے بھی زیادہ ضلالت وگمراہی کا سبب بنتی ہے۔ یا پھر جماعت اسلامی ایک نئی تحریک ہونے کی بنیاد پر اکثر علماء اس کے افکار اور سنگینی سے کما حقہ واقف نہیں ہوئے اور حسن ظن کی بنیاد پر مولانا مودودی کے تئیں نرم گوشہ اختیار کر لیا، حالانکہ انفرادی طور پر کئی علماء نے مودودی کو اور ان کے افکار کو بے نقاب کیا لیکن اس باب میں وہ اجتماعی اور ہمہ گیر کوشش نہیں رہی جو منہج سلف اور تحریکیت کے درمیان خط امتیاز کھینچ سکے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اکثر اہل حدیث جماعت اسلامی میں ضم ہو کر رہ گئے، اور تحریکیت کے جراثیم ان کے اندر سرایت کر گئے، ان کے مدارس کی لائبریریاں اہل تقلید کی کتابوں سے تو خالی رہیں اور اس میں وہ کامیاب رہے، لیکن مودودی، حس البناء، سید قطب، قرضاوی اور ان جیسے تحریکی مفکرین کی کتابوں سے پُر رہیں، اور ان کے رد میں جو کتابیں ہمارے بعض اکابر جیسے مولابا ثناءاللہ امرتسری، شیخ محدث گوندلوی ، شیخ اسماعیل سلفی اور دیگر حضرات نے لکھی ہیں ان سے اکثر لائبریریاں کھالی رہیں اور آج بھی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ شیخ صلاح الدین یوسف کی کتاب "خلافت وملوکیت" موجود ہے۔ یا اگر کسی لائبریری میں وہ کتابین ہیں بھی تو بچوں کو ان سے واقف نہیں کرایا جاتا ہے۔
اہل تقلید وجمود کے رد میں ہمارے اکابر نے اس اصول کو تو پوری طرح برتا، لیکن جو نئی تحریکیں جنم لی ہیں ان کے رد میں ہمارے اکابر سے معاملے کی سنگینی کو سمجھنے میں کہیں نا کہیں چوک ہوئی ہے جس کا بہت بڑا خمیازہ جماعت اہل حدیث کو بھگتنا پڑ رہا ہے، اس لئے ضرورت ہے کہ اس کا فورا تدارک کیا جائے، اور رافضیت، خارجیت، اباحیت سے تیار شدہ اس جدید مذہب اور فتنے سے ہماری جماعت کے نونہالوں کو بچانے کی کوشش کی جائے۔
● تنبیہ:
بہت سارے اہل حدیث لکھاری جو منھج سلف سے کما حقہ واقف نہیں ہیں وہ اپنی نادانی کی بنیاد پر یہ بات اکثر کہتے ہیں کہ شخصیت پر رد نہ کرو بلکہ افکار پر رد کرو، یعنی وہ اس اصول کا انکار کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پہلے ان کو غار کے کنارے جانے دو، پھر جب وہ اس میں گرنے لگیں تو بچانے کی کوشش کرو، جبکہ کمالِ نصیحت کا تقاضا یہ ہے اور جس کو اسلاف کرام نے اختیار کیا ہے کہ پہلے ہی متنبہ کیا جائے کہ اس جگہ کے قریب مت جاؤ، کیونکہ گڑھے میں گرنے کا ڈر ہے، لیکن اس کے باوجود کوئی اگر نادانی کی بنیاد پر چلا جائے تو پھر اگلی کوشش ہونی چاہئے کہ اسے کیسے بچایا جائے، لیکن اگر کوئی کہے کہ نہیں نہیں سب کو وہاں جانے دو، ڈراؤ مت، خوف مت پھیلاؤ، ہاں جب گرنے لگے تو پھر بچانے کی کوشش کرو، ظاہر ہے ایسی صورت میں اکثریت تو اس میں گر جائے گی، لیکن اگر پہلے متنبہ کیا جائے گا تو اکثریت بچ جائے گی۔
در اصل اہل بدعت کی تحذیر سے روکنے والے یا ان کی تعریف کرنے والے اور ائمہ سلف کی راہ کو ترک کرنے والے ضلالت کے غار کی طرف لوگوں کو پہلے جانے دیتے ہیں، یا پھر لوگوں کو اس کی طرف دعوت دیتے ہیں، پھر وہ بچانے کا مشورہ دیتے ہیں حالانکہ وہ خود گر چکے ہوتے ہیں تو وہ دوسروں کو کیا بچا پائیں گے، یا پھر بچانے والوں پر ہی مختلف مقدمے دائر کر دیتے ہیں۔
اب آتے ہیں آغاز میں دی گئی تحریر کی طرف کہ اس میں کہاں کہاں منہج سلف سے انحراف پایا جاتا ہے:
1- صاحب تحریر نے اس میں اپنے ان علماء پر طعن وتشنیع کیا ہے جن کے بارے ان کو یقین ہے کہ وہ منہج سلف کو ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔
2- بدعت کی شناعت وقباحت کو کم کیا گیا ہے، چنانچہ ایک شخص کے کفریات، انحرافات، اور اباحیت کو فقہی اختلاف سے تعبیر کیا ہے، (مضمون خاصا طویل ہو چکا ہے اس لئے اس کی وضاحت ابھی نہیں کر سکتا) ظاہر ہے کہ یہ اسی وقت ہو گا جب انسان کے دل سے بدعت کی قباحت نکل جائے گی۔ اور اس کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ انسان کے الحب فی اللہ والبغض فی اللہ اور عقیدہ ولاء وبراء میں خلل واقع ہوگا جو اصول ایمان میں سے ہے۔
3- اس میں ایک بڑے بدعتی کی تعظیم وتوقیر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی اور یہ اس باب میں منہج سلف کے چوتھے اصول سے انحراف ہے۔
4- اس میں ایک باطل کے ذریعے سے دوسرے باطل کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک باطل یہ ہے کہ ڈاکٹر محمد عیسی کے انحرافات پر رد کرنے کا اس وقت سے مطالبہ جب کسی مسلم حاکم نے ان کو امیر حج بنایا، جبکہ یہ مطالبہ اس وقت کرنا تھا جب ان سے یہ انحرافات صادر ہوئے تھے، (اور یہ کام اسی وقت شیخ عباد، شیخ صالح فوزان، اور شیخ سالم طویل وغیرہ سلفی علماء نے کیا ہے) لیکن مقصد انحرافات پر رد نہیں ہے بلکہ مسلم حاکم کو مطعون کرنا مقصود ہے، جو خود بنفسہ ایک باطل ہے اور منہج سلف کے خلاف، اور اس باطل کے ذریعے سے ایک دوسرے باطل کو ثابت کرنا، یعنی ایک بدعتی کی تعظیم وتوقیر پیدا کرنے کی کوشش کرنا، جو منھج سلف کے خلاف ہے۔
5- شریعت میں جو کام مطلوب ہے اس کو واویلا سے تعبیر کرنا اور اس کا مذاق اڑانا، جبکہ باطل پر سکوت کی دعوت دینا، یہ قابل انکار کام ہے نہ کہ اس پر رد کرنا۔
یہاں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ رد ڈاکٹر محمد عیسی پر کیوں نہیں؟ تو جواب یہ ہے کہ ڈاکٹر محمد عیسی کی طرح اور ان سے بڑے بڑے منحرفین ایسے ہیں جن کے سلسلے میں ہم سکوت اختیار کئے ہوئے ہیں کیونکہ لوگوں نے ان کو فقیہ، محدث اور شیخ الاسلام کا لقب نہیں دیا جس طرح قرضاوی کو دے رہے ہیں۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں جو لوگوں کی نگاہ میں معتمد عالم نہیں ہیں ان کے انحرافات پر رد کرنا گویا ان کے انحرافات کی تشہیر کرنا ہے جو خود ایک بہت بڑا مفسدہ ہے۔
6- اہل سنت کے اصول اور خوارج کے اصول سے عدم واقفیت، اور دونوں کو گڈ مڈ کر دینا ۔
7- عقیدہ ولاء وبراء کے تعلق سے غلط فہمی، در اصل کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی سے دینی معاملے میں بغض ونفرت رکھنے سے ہم معاشرے میں تنہا رہ جائیں گے، ہمارے دنیاوی معاملات متاثر ہونگے۔ یہ نا سمجھی کا نتیجہ ہے۔ کیا ہم نہیں مانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام مشرکین مکہ اور یہودیوں سے شدید نفرت رکھتے تھے، دینی اعتبار سے سخت کشمکش اور جنگ جاری تھی، لیکن اس کے باجود دنیاوی معاملات جیسے بیع وشراء، تجارت سیاست وغیرہ بالکل نارمل تھے۔ یہی حال اہل بدعت کے ساتھ اسلاف کرام کا رہا ہے، دینی اعتبار سے ان سے نفرت اور ائمہ بدعت سے سخت تحذیر اور تعزیر کے باجود ان کے دنیاوی معاملات بالکل نارمل رہے۔ آج ہم اپنے ملک میں کافروں کے علاوہ شیعوں اور بریلویوں سے بھی سخت نفرت کرتے ہیں، دینی اعتبار سے ہم کہیں ان سے سمجھوتہ نہیں کرتے، ان کے ائمہ ودعاة سے سخت تحذیر اور نفرت بھی کرتے ہیں لیکن ہمارے دنیاوی معاملات ان کے ساتھ بھی نارمل ہیں۔۔۔۔یہی بات ان تحریکیوں اور اہل باطل جو ہماری صفوں میں گھس کر ہمیں کھوکھلا کر رہے ہیں ان کے ساتھ کیوں نہیں ہو سکتی؟ یہ در اصل منھج سلف کو کما حقہ نہ سمجھنے ، انہیں نہ پڑھنے، اور فرق باطلہ اور اہل سنت کے منھج کے بنیادی اور باریک فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ ورنہ منھج سلف سراپا رحمت، اخروی نجات کا ذریعہ اور دنیا وآخرت کی اصلاح کا ضامن ہے۔
● بہر حال ایسے لوگ جو منھج سلف کے بنیادی اصول سے بھی ناواقف ہیں، فرق باطلہ اور اہل سنت کے اصول کے درمیان باریک فرق کو نہیں جانتے، انہیں چاہیے کہ اس طرح طیش میں آکر تحریر نا لکھا کریں۔ اگر لکھنا ہی ہو تو ائمہ سلف کی کتابوں سے پہلے مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کریں، علماء کی طرف رجوع کریں، پھر واقعی لگے کہ کسی سے غلطی ہوئی ہے تو ناصحانہ انداز میں اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔ ٹکراؤ کی راہ مناسب نہیں ہے، اور جو اہل علم حضرات محض پارٹی بازی کی بنیاد پر اس طرح کی تحریروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں انہیں بھی سوچنا چاہیے کہ منھج سلف پر لکھی گئی تحریر میں سلف سے نقولات ہوتے ہیں نہ کہ مزاج اور ذوق کی بات۔ یہ تو سراسر اباحیت اور عقلیت پسندی پے جو معتزلہ کی راہ ہے
اللہ رب العالمین ہم سب کو منھج سلف کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق دے۔