ذیشان خان

Administrator
حرمِ مکی کا وادئ غیر ذی زرع میں انتخاب کیوں؟

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، وبعد!

اللہ تعالیٰ؛ العلیم الحکیم ہیں، ربِ حکیم کا ہر فیصلہ، ہر حُکم، حکمت سے پُر ہوتا ہے۔ بندے پر ضروری ہے کہ رب کے فیصلوں سے راضی رہے، قضاءِ الہی سے رضامندی در اصل توکل علی اللہ کا عروج ہے۔
غیر ذی زرع کا معنی
سر زمینِ مکہ کو قرآن نے ( بے زراعت وادی ) کہا ہے، یعنی یہ ایسی زمین ہے جہاں کھیتی باڑی اور زراعت نہیں ہوتی ہے، اور اس اہم کام کو انجام دینے کے لیے یہاں پانی بھی میسر نہیں ہے۔
ابراھیم علیہ السلام کی یہ قرآنی دعا مع ترجمہ از مولانا عبد الرحمن کیلانی (ت 1995م) رحمہ اللہ ملاحظہ کریں:
﴿رَّبَّنَآ إِنِّىٓ أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِى بِوَادٍ غَيْرِ ذِى زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ ٱلْمُحَرَّمِ﴾، اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے قابلِ احترام گھر کے پاس ایسے میدان میں لابسایا ہے جہاں کوئی کھیتی نہیں۔ ( إبراهيم: 37 ).
فائدہ
شہر مکہ - شرَّفها الله - کو کیسے بسایا گیا، اس کی تفصیل کے لیے اس حوالے کی مدد سے معلوم کریں۔
( صحيح البخاري: كتاب أحاديث الأنبياء، بابٌ [بدون ترجمة]، رقم: 3364 ).
قابلِ ذکر پہلو
ابھی چند سطور قبل میں نے ذکر کیا تھا کہ سر زمینِ مکہ کو ﴿غَيْرِ ذِى زَرْعٍ﴾ کہا گیا ہے۔
اسی وجہ سے ابرھیم علیہ السلام نے دعا فرمائی کہ اے اللہ! اس وادی میں بسنے والوں کو ہر قسم کے پھلوں سے روزی دے، اس لیے کہ یہ وادی ایسی ہے کہ جہاں کھیتی نہیں ہے، لیکن اس غیر ذی زرع وادی میں پھل پہنچادے تاکہ یہاں کے لوگ انھیں کھائیں، اور یہ روزی تیری اطاعت بجا لانے کے لیے معاون ثابت ہو۔
دعا یہ تھی: ﴿وَٱرْزُقْهُم مِّنَ ٱلثَّمَرَٰتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ﴾ اور انھیں ہر قسم کے پھلوں سے رزق دے تاکہ وہ تیرا شکر کریں۔ ( إبراهيم: 37 ).
شہرِ مکہ کا (غیر ذی زرع) ہونا اہلِ مکہ کے لیے اتنی اہم بات تھی کہ انہوں نے خاتم النبیین محمد ﷺ کی تصدیق کے لیے ایک مطالبہ یہ بھی کیا تھا۔
ان دو آیتوں کو پڑھیے اور غور کیجیے کہ اہلِ مکہ کے نزدیک اس وادی کا ( غیر ذی زرع ) ہونا کتنا بڑا مسئلہ تھا، کہ اگر اس بے آب وگیاہ وادی کو محمد ﷺ زراعت کے قابل بنادیں گے تو وہ ایمان لانے میں دیر نہیں کریں گے۔
اللہ تعالیٰ نے حکایت بیان فرمائی:
﴿وَقَالُواْ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ ٱلْأَرْضِ يَنۢبُوعًا أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍۢ وَعِنَبٍۢ فَتُفَجِّرَ ٱلْأَنْهَٰرَ خِلَٰلَهَا تَفْجِيرًا ﴾ اور وہ بولے: ہم آپ پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے، حتی کہ آپ ہمارے لیے زمین سے چشمہ جاری کریں۔ یا آپ کے اپنے لیے کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو، پھر آپ اس باغ کے درمیان جگہ جگہ نہریں جاری کردیں۔ ( الإسراء: 90 - 91 ).
دھیان دیں!
دنیا کے کسی بھی علاقے کے لیے؛ نبی پر ایمان لانے میں اس طرح کی شرطیں رکھنا مناسب نہیں ہیں۔
تاہم اہلِ مکہ کی بیان کردہ مذکورہ شرطیں ( وادی غیر ذی زرع ) کے اعتبار سے ان کے نزدیک غیر معمولی اہمیت کے حامل رہی ہیں۔
کام کی بات
مجھے یہ سب تفصیل اس لیے بتانی تھی کہ ابراھیم علیہ السلام نے اپنی زوجہ اور شیرخوار بچے اسماعیل علیہ السلام کو ( وادئ غیر ذی زرع ) ہی میں کیوں لاکر بسایا؟
اللہ تعالیٰ نے ابراھیم اور اسماعیل علیہما السلام کو تعمیرِ کعبہ کا حکم ( وادئ غیر ذی زرع ) ہی میں کیوں دیا؟
یقینًا اس میں کئی حکمتیں پنہاں ہوں گی، یہاں دو حکمتیں ذکر کر رہا ہوں۔
پہلی حکمت
ایک حکمت تقی الدین ابو العباس احمد بن عبد الحلیم المعروف ب شیخ الاسلام ابن تیمیہ (ت 728ھ) رحمہ اللہ ذکر کیے ہیں۔
شیخ الاسلام اپنی کتاب ( الجواب الصحيح لمن بدَّل دين المسيح: ٣/٥١٧ ) میں فرماتے ہیں:
وادئ مکہ کو ( وادئ غیر ذی زرع ) بنانے میں اللہ رب العزت کی حکمت یہ ہے کہ لوگ ( بیت اللہ الحرام ) کی طرف آئیں تو محض اس ارادے سے آئیں کہ انہیں حج کرنا ہے، کعبے کا طواف کرنا ہے، شعائر اللہ کی عظمت بجا لانا ہے۔ اگر مکہ زراعت کے قابل زمین ہوتی، یہاں نہریں اور باغات اور دنیا کی آرائش ہوتی تو لوگ محض دنیوی منافع کے لیے بھی اس طرف رخ کرتے، سیر وتفریح اور سیاحت کے لیے سفر کرتے، یوں ان کا یہاں آنا اللہ تعالیٰ کی رضا کی بجائے دنیاوی امور کے لیے ہوتا۔
آپ کی عبارت ملاحظہ ہو:
واللهُ مِن حِكمتِه جَعْلُ بيتِه بوادٍ غيرِ ذي زَرْعٍ لِئلَّا يكونَ عندَه ما ترْغَبُ النُّفوسُ فيه مِن الدنيا فيكونَ حَجُّهُم للدُّنيا لا لِلهِ
دوسری حکمت
گیارہویں صدی ہجری کے کثیر التصانیف مصری عالمِ دین ابو العباس احمد بن محمد شہاب الدین الحسینی الحموی (ت 1098ھ) رحمہ اللہ؛ اپنے وقت کے ساداتِ احناف میں شمار ہوتے ہیں، اور آپ کتابی دنیا میں احمد بن محمد المکی سے معروف ہیں۔
شیخ احمد مکی کی متعدد تصانیف ہیں، جن کا ذکر ماضی قریب کے مشہور دمشقی مؤرخ خیر الدین الزِّرکلی (ت 1976م) نے اپنی کتاب ( الأعلام: ١/٢٣٩ ) میں کیا ہے، یہ کتاب ہمارے پاس آٹھ جلدوں میں مطبوع موجود ہے، صاحب الاعلام الزرکلی نے آپ کی 16 تصانیف کا ذکر کیا ہے مگر اس رسالے کا ذکر نہیں کیا ہے جس کا ایک اقتباس میں ذکر کرنے جا رہا ہوں۔
شیخ احمد مکی نے سورۂ آلِ عمران کی آیت (نمبر 96) ﴿إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍۢ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِى بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَٰلَمِينَ﴾ پر تفسیری بیان ضبطِ تحریر کیا ہے۔
اور اس رسالے کا نام ( تحفة الأكياس في تفسير قوله تعالى ﴿إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍۢ وُضِعَ لِلنَّاسِ﴾ ) ہے۔
اس رسالے ( ص: 58 ) میں آپ نے حرمِ مکی کا ( وادئ غیر ذی زرع ) میں ہونے کی ایک اور ایمان افروز حکمت ذکر فرمائے ہیں، کہتے ہیں:
أنَّه تعالَى قطَعَ بذلك رجاءَ أهلِ حَرَمِه وسدَنَةِ بيتِه عمَّن سواه؛ حتى لا يتوكَّلوا إلَّا على اللهِ.
اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ الحرام کے لیے ( وادئ غیر ذی زرع ) کا انتخاب اس لیے کیا تاکہ مکے کے باشندے، حرم کے خادمین، اور باہر سے آنے والے زائرین ظاہری اسباب اور وسائل پر بھروسہ نہ کر لیں۔
بلکہ صرف مسبب الاسباب؛ اللہ وحدہ لا شریک لہ پر کامل بھروسہ رکھیں، اور رب العالمین پر حق توکلہ والا توکل اختیار کریں۔
آخری بات
تحریر کا مقصد واضح ہے کہ بندے کو ربِ اعلیٰ پر کما حقہ بھروسہ رکھنا چاہیے، بالخصوص ہمارے ملک کے حالات پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں؛ اخبارات وجرائد، ٹیلیویژن، اور سوشل میڈیا وغیرہ پر ایسی خبریں پڑھنے سننے کو مل رہی ہیں جس سے بحیثیتِ انسان دل لرزنے لگتا ہے، دلوں میں خوف اور نا امیدی جگہ بنا رہی ہے.
مگر ہم بحیثیتِ مسلمان، قرآن پڑھنے والے، نبی کی سیرت کا مطالعہ کرنے والے؛ ہمیں رب العالمین پر ابراھیم وہاجرہ کا ( وادئ غیر ذی زرع ) میں جیسا ایمان اور توکل تھا اسے اختیار کرنے کی ضرورت ہے، پھر نتائج بہتر سے بہتر ہی ہوں گے۔
کل آنے والی صبح؛ اخبار وجرائد کی خوف پیدا کرنے والی سرخی سے پہلے رب السماوات والارض کے کلام سے امید دلانے والی آیت کو پڑھ لیں: ﴿وَلَا تَهِنُواْ وَلَا تَحْزَنُواْ وَأَنتُمُ ٱلْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ﴾ ( آل عمران: 139 ).

محمد معاذ أبو قحافة
٥ ربيع الأول ١٤٤٤ھ، ليلة الإثنين
 
Top