أبو المديح بلال الخليلي
New member
دین اسلام میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کی کوششیں زمانہ قدیم سے جاری وساری ہیں، ان شکوک وشبہات کے ذریعہ معترضین، دین اسلام کے حقیقی تعلیمات کو ہدف کا نشانہ بناتے ہیں، لہذا کبھی یہ معترضین عقائد میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی صحیح احادیث نبویہ میں تناقضات کا ذکر کرکے اعتراض کرتے ہیں، اور کبھی ائمہ احادیث پر بے جا الزام لگا کر ان کی علمی شخصیت کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں. لہذا بعض صحیحین کے معترضین نے جب صحیحین پر اعتراض کیا تو انہی میں سے ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ امام مسلم جرح وتعدیل میں امام بخاری کے مقلد ہیں، جبکہ امام مسلم کا شمار جرح وتعدیل کے بلند پایہ ائمہ کرام میں ہوتا ہے جس کی صراحت خود امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی کی ہے حتی کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام مسلم رحمہ اللہ کو ائمہ نقاد کے پانچویں طبقہ میں ذکر کیا ہے۔
ابن عقدہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
یقیناً امام مسلم رحمہ اللہ فن حدیث میں عظیم صلاحیتوں کے مالک تھے ،حدیث صحیح وسقیم کی پہچان میں وہ اپنے زمانہ کے اکثر محدثین پر فوقیت رکھتے تھے حتی کہ بعض امور میں ان کو امام بخاری پر بھی برتری حاصل تھی ،کیونکہ امام بخاری نے اہل شام کی اکثر روایات بطریق مناولہ حاصل کی ہیں جسکے سبب کبھی غلطی کا بھی امکان ہوتا ہے اور نام وکنیت کے تعدد سے ایک راوی کو دو سمجھ لیتے ہیں ۔ جبکہ امام مسلم نے براہ راست سماع کیا ہے جسکی وجہ سے آپ مغالطہ نہیں کھاتے۔ (شرح مسلم للنووی)
احمد بن سلمہ کہتے ہیں کہ :
"میں نے ابو زرعہ اور ابو حاتم کو صحت حدیث کی معرفت میں امام مسلم کو اپنے ہمعصر اساتذہ پر ترجیح دیتے دیکھا ہے" (البدایہ والنہایہ لابن کثیر)
امام بخاری رحمہ اللہ امام مسلم رحمہ اللہ کے اساتذہ میں سے ہیں، اور امام مسلم امام بخاری کی بڑی تعظیم کرنے والے شاگرد تھے، حتی کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کی تعظیم میں بالمشافہہ یہاں تک کہا تھا کہ
"اے امام حدیث، اپنا پیر آگے بڑھائیں تاکہ ان کو میں چوم سکوں" (تاریخ دمشق، وتاریخ بغداد)
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ امام مسلم رحمہ اللہ سے فن حدیث میں اعلی درجے کے شخصیت ہیں، اور خود امام مسلم رحمہ اللہ اپنے امام بخاری رحمہ اللہ کے کئی مسائل میں ان کی موافقت بھی کئے ہیں، جیسے کہ مسألة اللفظ بالقرآن وغیرہ میں، لیکن دیگر مسائل میں امام مسلم رحمہ اللہ امام بخاری رحمہ اللہ سے بالکل اختلاف کرتے بھی نظر آتے ہیں، جیسے قبول حدیث و صحت حدیث میں امام بخاری لقاء کے قائل ہیں، جبکہ امام مسلم صرف معاصرت ہی کو کافی سمجھتے ہیں، لہذا امام مسلم رحمہ اللہ اپنی شرط معاصرت پر زور دیتے ہوئے اپنی صحیح کے مقدمہ میں شرط لقاء کی تردید بھی کئے ہیں، جبکہ محدثین کے نزدیک امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط لقاء ہی قبول حدیث وصحت حدیث میں راجح ہے۔
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
ثم إن مسلمًا لحدة في خلقه، انحرف أيضًا عن البخاري، ولم يذكر له حديثًا، ولا سماه في صحيحه، بل افتتح الكتاب بالحط على من اشترط اللقي لمن روي عنه بصيغة "عن"، وادعى الإجماع في أن المعاصرة كافية، ووبخ من اشترط ذلك، وإنما يقول ذلك أبوعبد الله البخاري، وشيخه علي بن المديني، وهو الأصوب الأقوى. اهـ.
" پھر امام مسلم رحمہ اللہ اپنی حدت طبع کی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ سے الگ ہو گئے، اور ان کی کوئی روایت ذکر نہیں کی اور نہ ہی اپنی صحیح میں ان کے نام کا تذکرہ کیا، بلکہ کتاب کی ابتداء ان لوگوں کی تردید سے کی جو راوی سے صیغہ عن سے روایت کرتے ہوئے ملاقات کی شرط لگاتے ہیں، پھر صحت حدیث کیلئے صرف معاصرت ہونے پر اجماع کا دعوی کیا، اور (اپنے مقدمہ میں) سختی سے اس شرط کا انکار کیا، جبکہ یہ شرط امام بخاری اور ان کے شیخ علی بن مدینی رحمہما اللہ کا قوی منہج ہے، اور یہی زیادہ صحیح اور قوی منہج ہے " (سیر اعلام النبلاء)
جرح وتعدیل میں امام مسلم رحمہ اللہ کا منہج :
(۱) امام مسلم رحمہ اللہ کا رواۃ کے سلسلہ میں جرح وتعدیل کے احکام زیادہ مروی نہیں ہیں، اس کی غالب وجہ جرح وتعدیل اور اسماء الرجال سے متعلق ان کے اکثر کتب مفقود ہیں۔
لیکن حسب کتب مطبوعات، وہ رواۃ جن پر امام مسلم رحمہ اللہ نے کلام کیا ہے، ان کی تعداد ٤٦ ہے، اور اگر ان رواۃ کے ساتھ امام مسلم رحمہ اللہ کی دوسری کتاب "الکنی والاسماء" میں مجروحین رواۃ کو شامل کرلیا جائے، جن کی تعداد ۸۸ ہے، تو مجموعی تعداد ۱۳٤ بنتی ہے جن پر امام مسلم رحمہ اللہ نے جرح وکلام کیا ہے، اور یہ تعداد اگر امام مسلم کے امام بخاری اور ابو زرعہ رازی رحمہما اللہ سے مقارنہ کے طور پر دیکھا جائے تو بہت قلیل تعداد ہے۔
(۲) امام مسلم رحمہ اللہ کی جرح وتعدیل میں جمہور سے موافقت :
امام مسلم رحمہ اللہ ۱۳ رواۃ کی صریح توثیق میں، دو راویوں پر صریح صدوق کا حکم لگانے میں، ۱۱ رواۃ کی تضعیف میں، اور ایک راوی پر جہالت کا حکم لگانے میں جمہور محدثین کی موافقت کئے ہیں۔
سو امام مسلم رحمہ اللہ کی یہ جرح وتعدیل ٤٦ رواۃ میں سے ۲۷ رواۃ پر جمہور محدثین کی موافقت پر دلالت کرتی ہے۔
(۳) علماء جرح وتعدیل میں امام مسلم رحمہ اللہ منفرد عالم ہیں جنہوں نے زید بن یزید الثقفی کی توثیق کی ہے، جو کہ امام مسلم رحمہ اللہ کی فن جرح وتعدیل میں امام ہونے کی دلیل ہے، اسی طرح ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اپنی کتاب التھذیب میں زید بن یزید الثقفی کے ترجمہ میں امام مسلم رحمہ اللہ کے علاوہ اور کسی کا قول ذکر نہیں کیا، لہذا اسی وجہ سے امام مسلم رحمہ اللہ اپنی صحیح میں مذکورہ راوی سے روایت کرنے میں باقی اصحاب ستہ سے منفرد ہیں۔
(٤) کبھی کبھی امام مسلم رحمہ اللہ کسی راوی کو بدعتی سے متصف کرتے ہیں، لیکن بالضبط اس سے متعلق اس کے حالت کی صراحت نہیں کرتے،سو ایسا راوی جمہور محدثین کے نزدیک کبھی ثقہ ہوتا ہے اور کبھی صدوق۔
(۵) کبھی کبھی امام مسلم صرف راوی کی روایت پر نقد کرتے ہیں، اس کے حال پر نہیں، جیسا کہ محمد بن علی بن عبد اللہ بن عباس کے ترجمہ میں امام مسلم رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ محمد بن علی کا اپنے دادا عبد اللہ بن عباس رضی للہ عنہ سے سماع ثابت نہیں، اور اسی طرح میمون بن مہران کے ترجمہ میں کہ ان کا سماع حدیث المواقیت میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں۔
(٦) عام طور پر امام مسلم رحمہ اللہ ایسے جملے استعمال کرتے ہیں جو راوی کی صورت حال کو اس کی حقیقت کے مطابق بیان کرتے ہیں، اور اکثر متشدد الفاظ سے پرہیز کرتے ہیں، سوائے عبد اللہ بن لھیعہ راوی پر، کہ ان کے ترجمہ میں امام مسلم نے ان کو المصحف في متنه والمغفل في اسناده" کے الفاظ سے ذکر کئے ہیں، جبکہ مذکورہ راوی کے سلسلہ میں خلاصہ یہی ہے کہ وہ صدوق مختلط ہیں، شاید اسی وجہ سے امام مسلم رحمہ اللہ ان کو متوسطین کے درجہ میں ذکر کئے ہیں۔
(۷) کبھی کبھی امام مسلم رحمہ اللہ رواۃ پر مرکب جملے استعمال کرتے ہیں، جن کے ظاہر سے تناقض کا وہم ہوتا ہے، جیسے کہ ھارون الاعور کو امام مسلم رحمہ اللہ نے صدوقا حافظا کہا، حالانکہ وہ صدوق راوی ہیں، اسی طرح عبد اللہ بن معاذ کو ثقۃ صدوق کہا، حالانکہ وہ صدوق راوی ہیں، اسی طرح محمد بن عبد الوھاب الفراء کےسلسلہ میں امام مسلم رحمہ اللہ نے ثقۃ صدوق کہا، حالانکہ وہ ثقہ راوی ہیں۔
(۸) اسی طرح بسا اوقات امام مسلم رحمہ اللہ ایک ہی راوی پر دو مناقض حکم لگاتے ہیں، جیسا کہ یزید بن ابی زیاد راوی کو امام مسلم رحمہ اللہ اپنی کتاب "التمییز" میں ضعیف قرار دئے ہیں، اور دوسری جگہ اپنی صحیح کے مقدمہ میں ان کو صدوق بھی کہے ہیں۔
(۹) اسی طرح امام مسلم رحمہ اللہ کا رواۃ کی جرح میں اپنے شیخ امام بخاری رحمہ اللہ سے اختلاف بھی منقول ہے، جیسا کہ ابراہیم بن ابی حیۃ کے سلسلہ میں امام مسلم رحمہ اللہ کا حکم "ضعیف الحدیث" کا ہے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ "منکر الحدیث" کہتے ہیں، اسی طرح یحییٰ بن میمون التمار کے سلسلہ میں امام مسلم رحمہ اللہ منکر الحدیث کہتے ہیں، تو امام بخاری رحمہ اللہ سے اس راوی کے سلسلہ میں "سکت عنہ" منقول ہے۔
(۱۰) امام مسلم رحمہ اللہ اپنی کتاب "الکنی والاسماء" کے جمیع احکام میں امام بخاری رحمہ اللہ کے متابع نہیں ہیں، گرچہ کہ امام حاکم رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ :
"ومن تأمّل كتاب مسلم بن الحجّاج في الأسماء والكنى علم أنّه منقولٌ من كتاب محمد بن إسماعيل حذو القذة بالقذة."
یعنی جو کوئی بھی امام مسلم رحمہ اللہ کی کتاب "الکنی والاسماء" میں غور وفکر کریگا، وہ جان لیگا کہ مذکورہ کتاب پوری کی پوری امام محمد بن اسماعیل (البخاری) کی کتاب التاریخ سے منقول و ماخوذ ہے"
جبکہ امام حاکم رحمہ اللہ کا یہ قول کئی وجوہات کی وجہ سے محل نظر ہے، اور ان کے اس قول پر ائمہ ومحدثین نے درج ذیل جوابات دئے ہیں :
الف : اکثر محدثین ومحققین کا اس کتاب کو امام مسلم رحمہ اللہ کی طرف نسبت کرنے میں اتفاق ہے، جیسا کہ جن علماء، محدثین ومحققین نے امام مسلم رحمہ اللہ کا ترجمہ کئے ہیں، انہوں نے امام مسلم رحمہ اللہ کی تصنیفات میں اس کتاب کو ضرور ذکر کئے ہیں، حتی کہ جن متقدمین علماء نے اس کتاب کے نصوص سے استفادہ کئے ہیں، انہوں نے بھی اپنی تالیفات میں ان نصوص کی نسبت امام مسلم رحمہ اللہ کی طرف کئے ہیں، جیسا کہ حافظ ابن مندہ رحمہ اللہ وغیرہ۔ اگر امام مسلم رحمہ اللہ کی یہ کتاب منقول ہوتی تو نسبت کتاب میں ضرور اختلاف پایا جاتا۔
ب : اسی طرح اگر ہم دونوں اماموں کے کتابوں (الکنی والاسماء لمسلم والتاریخ الکبیر للبخاری) کے مابین مقارنہ کریں تو معلوم ہوگا کہ کئی تراجم شخصیات میں مختلف عبارات نظر آئیں گی، جیسا کہ :
۔۔امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الکنی والاسماء" میں سلمہ بن صالح الاحمر کا ترجمہ ان الفاظ میں ملتا ہے کہ : "ابو اسحاق، سلمة بن صالح الاحمر الجعفي، قاضي واسط، عن حماد بن ابي سليمان، ضعيف الحديث. (الكنى والاسماء : ١/٣٩)
۔۔جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی کتاب " التاریخ الکبیر" مذکورہ راوی کا ترجمہ اس طرح ذکر کئے ہیں کہ :
"سلمة بن صالح، ابو اسحاق الاحمر الجعفي، قاضي واسط، غلطوه في حماد بن سليمان، قاله علي بن حجر " (التاريخ الكبير : ٨٤/٢/٢)
اسی طرح دوسری مثال :
۔۔امام مسلم رحمہ اللہ اپنی کتاب "الکنی والاسماء" میں ایک راوی کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں کہ :
"ابو الحجاج رشدین بن سعد المھری، عن یونس بن یزید، ضعیف الحدیث" (الکنی والاسماء : ۱/۲٦٢)
۔۔جبکہ اسی راوی کا ترجمہ امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب التاریخ میں یوں منقول ہے کہ :
"رشدین بن سعد ابو الحجاج المھری، عن عقیل ویونس، قاله قتيبة كان لا يبالي ما دفع اليه فيقرأه، قال أحمد مات سنة ثمان وثمانين ومائة، هو المصري" (التاريخ الكبير : ٣٣٧/١/٢)
لہذا اگر یہ مسئلہ اسی طرح ہوتا جیسا کہ امام حاکم رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے، تو دونوں کتابوں کے نصوص میں مطابقت ضرور پائی جاتی، جبکہ عدم مطابقت امام حاکم رحمہ اللہ کے قول "حذو القذۃ بالقذۃ" کے بطلان پر واضح دلیل ہے۔
اسی طرح اگر ہم دقت نظری سے امام مسلم رحمہ اللہ کی کتاب "الکنی والاسماء" کا مطالعہ کریں، تو معلوم ہوگا کہ بعض جگہ امام مسلم رحمہ اللہ سے سہو بھی ہوا ہے، جیسے کہ اسی کتاب "الکنی والاسماء" میں امام مسلم رحمہ اللہ نے ایک راوی کے سلسلہ میں یوں راقم ہیں کہ : ((ابو بکر حوشب بن مسلم)) ۔
جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب "التاریخ" میں ((حوشب بن مسلم ابو بشر)) مذکور ہے، جو کہ صحیح اور صواب ہے۔
اگر امام مسلم رحمہ اللہ امام حاکم رحمہ اللہ کے بقول حذو القذۃ بالقذۃ اس کتاب کے ناقل ہوتے تو قطعاً اس وہم کا شکار نہ ہوتے۔
ج :دونوں کتابوں میں موجود تراجم کى تعداد بھی امام حاکم رحمہ اللہ کے قول کے باطل ہونے پر دلالت کرتے ہیں، جیسے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب "التاریخ" میں ۱۳۲۰۵ رواۃ کے تراجم مذکور ہیں، جبکہ امام مسلم رحمہ اللہ کی کتاب "الکنی والاسماء" میں صرف ۳۸۰٤ رواۃ کے تراجم مذکور ہیں، مطلب واضح ہے کہ امام مسلم رحمہ اللہ کی کتاب امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب کے مقابلہ میں صرف ایک تہائی کتاب ہے۔
لہذا یہ تمام نکات و دلائل اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ امام مسلم رحمہ اللہ فن جرح وتعدیل میں ایک مستقل علمی شخصیت مانے جاتے ہیں، فن جرح وتعدیل میں ان کا بھی اپنا منفرد منہج، اصول اور ضوابط ہیں، نہ تو وہ اس فن میں امام بخاری کے مقلد ہیں اور نہ ان کے متبع، ہاں بعض مسائل میں ان کا اپنے شیخ کے ساتھ موافقت مسلّم ہے، لیکن موافقت اور نقل میں بھی آسمان زمین کا فرق ہے۔
أبو المديح بلال الخليلي
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
ابن عقدہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
یقیناً امام مسلم رحمہ اللہ فن حدیث میں عظیم صلاحیتوں کے مالک تھے ،حدیث صحیح وسقیم کی پہچان میں وہ اپنے زمانہ کے اکثر محدثین پر فوقیت رکھتے تھے حتی کہ بعض امور میں ان کو امام بخاری پر بھی برتری حاصل تھی ،کیونکہ امام بخاری نے اہل شام کی اکثر روایات بطریق مناولہ حاصل کی ہیں جسکے سبب کبھی غلطی کا بھی امکان ہوتا ہے اور نام وکنیت کے تعدد سے ایک راوی کو دو سمجھ لیتے ہیں ۔ جبکہ امام مسلم نے براہ راست سماع کیا ہے جسکی وجہ سے آپ مغالطہ نہیں کھاتے۔ (شرح مسلم للنووی)
احمد بن سلمہ کہتے ہیں کہ :
"میں نے ابو زرعہ اور ابو حاتم کو صحت حدیث کی معرفت میں امام مسلم کو اپنے ہمعصر اساتذہ پر ترجیح دیتے دیکھا ہے" (البدایہ والنہایہ لابن کثیر)
امام بخاری رحمہ اللہ امام مسلم رحمہ اللہ کے اساتذہ میں سے ہیں، اور امام مسلم امام بخاری کی بڑی تعظیم کرنے والے شاگرد تھے، حتی کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کی تعظیم میں بالمشافہہ یہاں تک کہا تھا کہ
"اے امام حدیث، اپنا پیر آگے بڑھائیں تاکہ ان کو میں چوم سکوں" (تاریخ دمشق، وتاریخ بغداد)
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ امام مسلم رحمہ اللہ سے فن حدیث میں اعلی درجے کے شخصیت ہیں، اور خود امام مسلم رحمہ اللہ اپنے امام بخاری رحمہ اللہ کے کئی مسائل میں ان کی موافقت بھی کئے ہیں، جیسے کہ مسألة اللفظ بالقرآن وغیرہ میں، لیکن دیگر مسائل میں امام مسلم رحمہ اللہ امام بخاری رحمہ اللہ سے بالکل اختلاف کرتے بھی نظر آتے ہیں، جیسے قبول حدیث و صحت حدیث میں امام بخاری لقاء کے قائل ہیں، جبکہ امام مسلم صرف معاصرت ہی کو کافی سمجھتے ہیں، لہذا امام مسلم رحمہ اللہ اپنی شرط معاصرت پر زور دیتے ہوئے اپنی صحیح کے مقدمہ میں شرط لقاء کی تردید بھی کئے ہیں، جبکہ محدثین کے نزدیک امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط لقاء ہی قبول حدیث وصحت حدیث میں راجح ہے۔
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
ثم إن مسلمًا لحدة في خلقه، انحرف أيضًا عن البخاري، ولم يذكر له حديثًا، ولا سماه في صحيحه، بل افتتح الكتاب بالحط على من اشترط اللقي لمن روي عنه بصيغة "عن"، وادعى الإجماع في أن المعاصرة كافية، ووبخ من اشترط ذلك، وإنما يقول ذلك أبوعبد الله البخاري، وشيخه علي بن المديني، وهو الأصوب الأقوى. اهـ.
" پھر امام مسلم رحمہ اللہ اپنی حدت طبع کی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ سے الگ ہو گئے، اور ان کی کوئی روایت ذکر نہیں کی اور نہ ہی اپنی صحیح میں ان کے نام کا تذکرہ کیا، بلکہ کتاب کی ابتداء ان لوگوں کی تردید سے کی جو راوی سے صیغہ عن سے روایت کرتے ہوئے ملاقات کی شرط لگاتے ہیں، پھر صحت حدیث کیلئے صرف معاصرت ہونے پر اجماع کا دعوی کیا، اور (اپنے مقدمہ میں) سختی سے اس شرط کا انکار کیا، جبکہ یہ شرط امام بخاری اور ان کے شیخ علی بن مدینی رحمہما اللہ کا قوی منہج ہے، اور یہی زیادہ صحیح اور قوی منہج ہے " (سیر اعلام النبلاء)
جرح وتعدیل میں امام مسلم رحمہ اللہ کا منہج :
(۱) امام مسلم رحمہ اللہ کا رواۃ کے سلسلہ میں جرح وتعدیل کے احکام زیادہ مروی نہیں ہیں، اس کی غالب وجہ جرح وتعدیل اور اسماء الرجال سے متعلق ان کے اکثر کتب مفقود ہیں۔
لیکن حسب کتب مطبوعات، وہ رواۃ جن پر امام مسلم رحمہ اللہ نے کلام کیا ہے، ان کی تعداد ٤٦ ہے، اور اگر ان رواۃ کے ساتھ امام مسلم رحمہ اللہ کی دوسری کتاب "الکنی والاسماء" میں مجروحین رواۃ کو شامل کرلیا جائے، جن کی تعداد ۸۸ ہے، تو مجموعی تعداد ۱۳٤ بنتی ہے جن پر امام مسلم رحمہ اللہ نے جرح وکلام کیا ہے، اور یہ تعداد اگر امام مسلم کے امام بخاری اور ابو زرعہ رازی رحمہما اللہ سے مقارنہ کے طور پر دیکھا جائے تو بہت قلیل تعداد ہے۔
(۲) امام مسلم رحمہ اللہ کی جرح وتعدیل میں جمہور سے موافقت :
امام مسلم رحمہ اللہ ۱۳ رواۃ کی صریح توثیق میں، دو راویوں پر صریح صدوق کا حکم لگانے میں، ۱۱ رواۃ کی تضعیف میں، اور ایک راوی پر جہالت کا حکم لگانے میں جمہور محدثین کی موافقت کئے ہیں۔
سو امام مسلم رحمہ اللہ کی یہ جرح وتعدیل ٤٦ رواۃ میں سے ۲۷ رواۃ پر جمہور محدثین کی موافقت پر دلالت کرتی ہے۔
(۳) علماء جرح وتعدیل میں امام مسلم رحمہ اللہ منفرد عالم ہیں جنہوں نے زید بن یزید الثقفی کی توثیق کی ہے، جو کہ امام مسلم رحمہ اللہ کی فن جرح وتعدیل میں امام ہونے کی دلیل ہے، اسی طرح ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اپنی کتاب التھذیب میں زید بن یزید الثقفی کے ترجمہ میں امام مسلم رحمہ اللہ کے علاوہ اور کسی کا قول ذکر نہیں کیا، لہذا اسی وجہ سے امام مسلم رحمہ اللہ اپنی صحیح میں مذکورہ راوی سے روایت کرنے میں باقی اصحاب ستہ سے منفرد ہیں۔
(٤) کبھی کبھی امام مسلم رحمہ اللہ کسی راوی کو بدعتی سے متصف کرتے ہیں، لیکن بالضبط اس سے متعلق اس کے حالت کی صراحت نہیں کرتے،سو ایسا راوی جمہور محدثین کے نزدیک کبھی ثقہ ہوتا ہے اور کبھی صدوق۔
(۵) کبھی کبھی امام مسلم صرف راوی کی روایت پر نقد کرتے ہیں، اس کے حال پر نہیں، جیسا کہ محمد بن علی بن عبد اللہ بن عباس کے ترجمہ میں امام مسلم رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ محمد بن علی کا اپنے دادا عبد اللہ بن عباس رضی للہ عنہ سے سماع ثابت نہیں، اور اسی طرح میمون بن مہران کے ترجمہ میں کہ ان کا سماع حدیث المواقیت میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں۔
(٦) عام طور پر امام مسلم رحمہ اللہ ایسے جملے استعمال کرتے ہیں جو راوی کی صورت حال کو اس کی حقیقت کے مطابق بیان کرتے ہیں، اور اکثر متشدد الفاظ سے پرہیز کرتے ہیں، سوائے عبد اللہ بن لھیعہ راوی پر، کہ ان کے ترجمہ میں امام مسلم نے ان کو المصحف في متنه والمغفل في اسناده" کے الفاظ سے ذکر کئے ہیں، جبکہ مذکورہ راوی کے سلسلہ میں خلاصہ یہی ہے کہ وہ صدوق مختلط ہیں، شاید اسی وجہ سے امام مسلم رحمہ اللہ ان کو متوسطین کے درجہ میں ذکر کئے ہیں۔
(۷) کبھی کبھی امام مسلم رحمہ اللہ رواۃ پر مرکب جملے استعمال کرتے ہیں، جن کے ظاہر سے تناقض کا وہم ہوتا ہے، جیسے کہ ھارون الاعور کو امام مسلم رحمہ اللہ نے صدوقا حافظا کہا، حالانکہ وہ صدوق راوی ہیں، اسی طرح عبد اللہ بن معاذ کو ثقۃ صدوق کہا، حالانکہ وہ صدوق راوی ہیں، اسی طرح محمد بن عبد الوھاب الفراء کےسلسلہ میں امام مسلم رحمہ اللہ نے ثقۃ صدوق کہا، حالانکہ وہ ثقہ راوی ہیں۔
(۸) اسی طرح بسا اوقات امام مسلم رحمہ اللہ ایک ہی راوی پر دو مناقض حکم لگاتے ہیں، جیسا کہ یزید بن ابی زیاد راوی کو امام مسلم رحمہ اللہ اپنی کتاب "التمییز" میں ضعیف قرار دئے ہیں، اور دوسری جگہ اپنی صحیح کے مقدمہ میں ان کو صدوق بھی کہے ہیں۔
(۹) اسی طرح امام مسلم رحمہ اللہ کا رواۃ کی جرح میں اپنے شیخ امام بخاری رحمہ اللہ سے اختلاف بھی منقول ہے، جیسا کہ ابراہیم بن ابی حیۃ کے سلسلہ میں امام مسلم رحمہ اللہ کا حکم "ضعیف الحدیث" کا ہے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ "منکر الحدیث" کہتے ہیں، اسی طرح یحییٰ بن میمون التمار کے سلسلہ میں امام مسلم رحمہ اللہ منکر الحدیث کہتے ہیں، تو امام بخاری رحمہ اللہ سے اس راوی کے سلسلہ میں "سکت عنہ" منقول ہے۔
(۱۰) امام مسلم رحمہ اللہ اپنی کتاب "الکنی والاسماء" کے جمیع احکام میں امام بخاری رحمہ اللہ کے متابع نہیں ہیں، گرچہ کہ امام حاکم رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ :
"ومن تأمّل كتاب مسلم بن الحجّاج في الأسماء والكنى علم أنّه منقولٌ من كتاب محمد بن إسماعيل حذو القذة بالقذة."
یعنی جو کوئی بھی امام مسلم رحمہ اللہ کی کتاب "الکنی والاسماء" میں غور وفکر کریگا، وہ جان لیگا کہ مذکورہ کتاب پوری کی پوری امام محمد بن اسماعیل (البخاری) کی کتاب التاریخ سے منقول و ماخوذ ہے"
جبکہ امام حاکم رحمہ اللہ کا یہ قول کئی وجوہات کی وجہ سے محل نظر ہے، اور ان کے اس قول پر ائمہ ومحدثین نے درج ذیل جوابات دئے ہیں :
الف : اکثر محدثین ومحققین کا اس کتاب کو امام مسلم رحمہ اللہ کی طرف نسبت کرنے میں اتفاق ہے، جیسا کہ جن علماء، محدثین ومحققین نے امام مسلم رحمہ اللہ کا ترجمہ کئے ہیں، انہوں نے امام مسلم رحمہ اللہ کی تصنیفات میں اس کتاب کو ضرور ذکر کئے ہیں، حتی کہ جن متقدمین علماء نے اس کتاب کے نصوص سے استفادہ کئے ہیں، انہوں نے بھی اپنی تالیفات میں ان نصوص کی نسبت امام مسلم رحمہ اللہ کی طرف کئے ہیں، جیسا کہ حافظ ابن مندہ رحمہ اللہ وغیرہ۔ اگر امام مسلم رحمہ اللہ کی یہ کتاب منقول ہوتی تو نسبت کتاب میں ضرور اختلاف پایا جاتا۔
ب : اسی طرح اگر ہم دونوں اماموں کے کتابوں (الکنی والاسماء لمسلم والتاریخ الکبیر للبخاری) کے مابین مقارنہ کریں تو معلوم ہوگا کہ کئی تراجم شخصیات میں مختلف عبارات نظر آئیں گی، جیسا کہ :
۔۔امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الکنی والاسماء" میں سلمہ بن صالح الاحمر کا ترجمہ ان الفاظ میں ملتا ہے کہ : "ابو اسحاق، سلمة بن صالح الاحمر الجعفي، قاضي واسط، عن حماد بن ابي سليمان، ضعيف الحديث. (الكنى والاسماء : ١/٣٩)
۔۔جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی کتاب " التاریخ الکبیر" مذکورہ راوی کا ترجمہ اس طرح ذکر کئے ہیں کہ :
"سلمة بن صالح، ابو اسحاق الاحمر الجعفي، قاضي واسط، غلطوه في حماد بن سليمان، قاله علي بن حجر " (التاريخ الكبير : ٨٤/٢/٢)
اسی طرح دوسری مثال :
۔۔امام مسلم رحمہ اللہ اپنی کتاب "الکنی والاسماء" میں ایک راوی کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں کہ :
"ابو الحجاج رشدین بن سعد المھری، عن یونس بن یزید، ضعیف الحدیث" (الکنی والاسماء : ۱/۲٦٢)
۔۔جبکہ اسی راوی کا ترجمہ امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب التاریخ میں یوں منقول ہے کہ :
"رشدین بن سعد ابو الحجاج المھری، عن عقیل ویونس، قاله قتيبة كان لا يبالي ما دفع اليه فيقرأه، قال أحمد مات سنة ثمان وثمانين ومائة، هو المصري" (التاريخ الكبير : ٣٣٧/١/٢)
لہذا اگر یہ مسئلہ اسی طرح ہوتا جیسا کہ امام حاکم رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے، تو دونوں کتابوں کے نصوص میں مطابقت ضرور پائی جاتی، جبکہ عدم مطابقت امام حاکم رحمہ اللہ کے قول "حذو القذۃ بالقذۃ" کے بطلان پر واضح دلیل ہے۔
اسی طرح اگر ہم دقت نظری سے امام مسلم رحمہ اللہ کی کتاب "الکنی والاسماء" کا مطالعہ کریں، تو معلوم ہوگا کہ بعض جگہ امام مسلم رحمہ اللہ سے سہو بھی ہوا ہے، جیسے کہ اسی کتاب "الکنی والاسماء" میں امام مسلم رحمہ اللہ نے ایک راوی کے سلسلہ میں یوں راقم ہیں کہ : ((ابو بکر حوشب بن مسلم)) ۔
جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب "التاریخ" میں ((حوشب بن مسلم ابو بشر)) مذکور ہے، جو کہ صحیح اور صواب ہے۔
اگر امام مسلم رحمہ اللہ امام حاکم رحمہ اللہ کے بقول حذو القذۃ بالقذۃ اس کتاب کے ناقل ہوتے تو قطعاً اس وہم کا شکار نہ ہوتے۔
ج :دونوں کتابوں میں موجود تراجم کى تعداد بھی امام حاکم رحمہ اللہ کے قول کے باطل ہونے پر دلالت کرتے ہیں، جیسے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب "التاریخ" میں ۱۳۲۰۵ رواۃ کے تراجم مذکور ہیں، جبکہ امام مسلم رحمہ اللہ کی کتاب "الکنی والاسماء" میں صرف ۳۸۰٤ رواۃ کے تراجم مذکور ہیں، مطلب واضح ہے کہ امام مسلم رحمہ اللہ کی کتاب امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب کے مقابلہ میں صرف ایک تہائی کتاب ہے۔
لہذا یہ تمام نکات و دلائل اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ امام مسلم رحمہ اللہ فن جرح وتعدیل میں ایک مستقل علمی شخصیت مانے جاتے ہیں، فن جرح وتعدیل میں ان کا بھی اپنا منفرد منہج، اصول اور ضوابط ہیں، نہ تو وہ اس فن میں امام بخاری کے مقلد ہیں اور نہ ان کے متبع، ہاں بعض مسائل میں ان کا اپنے شیخ کے ساتھ موافقت مسلّم ہے، لیکن موافقت اور نقل میں بھی آسمان زمین کا فرق ہے۔
أبو المديح بلال الخليلي
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ