(سنن ابوداؤد کی ایسی شرح جو مکمل ہوکر طبع ہوتی تو "لا مقصود الا ھو" کا مصداق ہوتی)

حدیث کی بنیادی کتابوں میں سے ایک کتاب سنن ابو داؤد بھی ہے، جس کی عظمت وجلالت شریعت کا ہر طالب جانتا ہے، جس پر علماء ومحدثین کی جانب سے متعدد شروحات وتعلیقات کی گئی ہیں، جس میں معالم السنن للخطابي، شرح لابن رسلان، بذل المجهود للسهارنفوري، المنهل العذب المورود للسبكي وغیرہ قابل ذکر ولائق مطالعہ ہیں، لیکن عصر حاضر میں سنن ابوداود کے شروحات میں جس شرح کو شرحا و استنباطا زیادہ شہرت ملی وہ عون المعبود لشمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی ہے، جو کہ اصلا انہی کی تصنیف غایۃ المقصود فی حل سنن ابی داوُد کی تلخیص ہے، اس کتاب (عون المعبود) کی عظمت کو اجاگر کرتے ہوئے محمد منیر الدین دمشقی نے کہا تھا کہ :"كل من جاء بعده من شيوخ الهند وغيره استمدوا من شرحه".

اصل شرح (غایۃ المقصود) کے سلسلہ میں کہا جاتا ہے کہ علامہ شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی نے اس شرح کو ٣٢ جلدوں میں تصنیف کی پھر عون المعبود کے نام سے اس موسع شرح کی تلخیص کی، لیکن عصر حاضر میں اس موسع شرح کی صرف ٣ جلدیں ہی موجود ہیں باقی مفقود۔

چنانچہ اس سلسلہ میں مولانا عبد الحمید رحمانی لکھتے ہیں :
’’آپ کی تصنیفات کی سب سے بڑی خصوصیت پوری ذہانت و فطانت کے ساتھ علومِ حدیث و فقہ کے مشکل سے مشکل مسائل کا حل اور اسانید میں مہارت اور ان پر مجتہدانہ کلام ہے۔ کوئی بھی مسئلہ ہو، آپ اسے تشنہ نہیں چھوڑتے۔ قوتِ فیصلہ اور صحیح نتیجے تک پہنچ جانے کے ملکہ کے اعتبار سے آپ محدثین سلف کی یادگار تھے۔ میں نے عرب دنیا میں عموماً یہ سنا کہ تحقیق و تدقیق اور قوتِ اجتہاد میں آپ کا درجہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے بھی بڑھا ہوا ہے۔ آپ کی تصنیفات اس وقت عرب دنیا میں بڑی تیزی سے شائع ہو رہی ہیں ۔ ایک مرتبہ ہمیں بعض ذرائع سے علم ہوا کہ ’’غایۃ المقصود‘‘ پاکستان کے کسی عالم کو مل گئی ہے، جب یہ خبر ہم نے مشہور حجازی عالم شیخ سلیمان صنیع کو سنائی تو انھوں نے ارشاد فرمایا کہ اگر کتاب مل گئی ہو تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ پوری بتیس جلدیں اپنے مصارف پر چھپوا کر مفت تقسیم کرا دوں گا۔‘‘ (١)

مزید اس شرح کی خصوصیت پر صاحب بذل المجہود خلیل احمد سہارنپوری الحنفی رقمطراز ہیں کہ :
"رأيت جزءا واحدا من الشرح الذي ألفه الشيخ أبو الطيب شمس الحق المسمى بــ غاية المقصود فوجدته لكشف مكنوزاته كافلا وبجميع مخزوناته حافلا"

میں نے شیخ ابو الطیب شمس الحق کی شرح کا ایک جزء دیکھا ہے جو غایۃ المقصود کے نام سے موسوم ہے، جس کو میں نے پوشیدہ علمی ذخائر کو ظاہر کرتے اور علمی خزائن سے پر پایا ہے۔ (۲)

اسی طرح ڈاکٹر محمود احمد غازی اپنے محاضرات حدیث میں فرماتے ہیں کہ :-
"میاں نذیر حسین کے دوسرے شاگرد تھے علامہ شمس الحق عظیم آبادی، یہ اتنے بڑے محدث ہیں کہ اگر یہ کہا جائے کہ ان کے زمانے میں ان سے بڑا محدث کوئی نہیں تھا، یا اگر تھے تو ایک دو ہی تھے تو شاید مبالغہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے دو کارنامے انجام دئیے جو بہت غیر معمولی تھے۔ ان کا ایک کارنامہ تو یہ تھا کہ انہوں نے "غایۃ المقصود" کے نام سے سنن ابو داؤد کی شرح لکھی جو بتیس جلدوں میں تھی۔ بہت افسوس کی بات ہے کہ یہ شرح چھپ نہ سکی۔ بعد میں اس کی تلخیص "عون المعبود" کے نام سے شائع ہوئی جو سنن ابو داؤد کی بہترین شرحوں میں سے ایک ہے" (٣)

لہذا ابھی تک کے اقوال میں یہی سمجھ آیا کہ علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے یہ موسع شرح مکمل کرلی تھی، لیکن شیخ الحدیث ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ عون المعبود کے اختتام تک غایۃ المقصود کی تکمیل نہیں ہوئی تھی، جو کہ ان کی پیش کردہ توجیہات کے مطابق درست معلوم ہوتا ہے، ملاحظہ فرمائیں :

غایۃ المقصود في حل سنن أبي داود :
محدث ڈیانوی رحمہ اللہ کی یہ سب سے بڑی تصنیف ہے۔ جسے ۳۲ اجزا میں مکمل ہونا تھا، مگر افسوس کہ حضرت موصوف اس کی تکمیل نہ کر سکے۔ بعض تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے کہ یہ کتاب ۳۲ اجزا میں مکمل ہوئی، مگر یہ صحیح نہیں۔ ’’عون المعبود‘‘ کی جلد ٤ کے آخر میں خود محدث ڈیانوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:

’’ھذا آخر الجزء الرابع من عون المعبود شرح سنن أبي داود تقبل اللّٰه مني وجعله ذخیرۃ لیوم المعاد ووفقني لإتمام الشرح الکبیر المسمی بغایة المقصود شرح سنن أبي داود‘‘

یہ بات طے شدہ ہے کہ عون المعبود کی جلد رابع ۱۳۲۳ھ میں طبع ہوئی تھی۔ جس سے یہ ثابت ہوا کہ ۱۳۲۳ھ تک غایۃ المقصود مکمل نہیں ہوئی تھی اور عون المعبود کی جس تقریظ میں علامہ حسین بن محسن انصاری رحمہ اللہ وغیرہ نے جو یہ کہا ہے کہ ’’غایۃ المقصود‘‘ ۳۲ جلدوں میں ہے۔ تو اس سے مراد یہ ہے کہ یہ شرح ۳۲ جلدوں میں مکمل ہو گئی ہے۔ سنن ابو داود کو چونکہ خطیب بغدادی نے ۳۲ اجزا میں تقسیم کیا ہے اور اسی تقسیم کے مطابق محدث ڈیانوی اس کی شرح علاحدہ علاحدہ کرنا چاہتے تھے۔ جس کا جزوِ اول طبع بھی ہوا۔ اس بنا پر ان بزرگوں نے تمام کتاب کا تخمینہ ۳۲ اجزا بتلایا۔ نہ کہ یہ ۳۲ اجزا میں مکمل ہوئی ہے۔ عون المعبود کے مطالعے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تکمیل نہیں ہو سکی، جب کہ ہر اہم بحث کے آخر میں کہا گیا ہے کہ تفصیل ’’غایۃ المقصود‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں۔ مگر تیسری جلد (ص: ۲٠٦) کے ’’باب في الدعاء للمیت إذا وضع في قبرہ‘‘ کے بعد یہ اشارہ دیکھنے میں نہیں آیا ۔ مولانا محمد عزیر شمس صاحب ’’حیاۃ المحدث‘‘ (ص: ۱۸۰، ۱۸۱) میں بھی اسی نتیجے تک پہنچے ہیں، البتہ اس سلسلے میں انھوں نے مزید مفید معلومات کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر انھوں نے اس خیال کی پرزور تردید کی ہے کہ ’’غایۃ المقصود‘‘ کا نسخہ مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ نے خرید لیا تھا اور اس کو پیشِ نظر رکھ کر انھوں نے ’’بذل المجہود‘‘ کی تکمیل کی۔ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ ’’غایۃ المقصود‘‘ کی تکمیل نہیں ہوئی، اگر مکمل ہو کر زیورِ طبع سے آراستہ ہوتی تو سنن ابو داود کے لیے ’’لا مقصود إلا ھو‘‘ کا مصداق ہوتی۔

مولانا عبدالرشید بن مولانا ظہیر احسن نیموی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’وھذا شرح نفیس لیس له نظیر بین شروحه وقد رزق بالقبولیة بین العلماء الأعلام تقبل اللّٰه منه‘‘ (ترجمان :دہلی)
’’یہ شرح بہت عمدہ ہے اور ابو داود کی تمام شروح میں سے اس کی نظیر نہیں۔ علما و اعلام نے اسے شرفِ قبولیت بخشا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس سعی کو قبول فرمائے۔‘‘

آخر میں شائقین حضرات کو یہ مژدہ جانفزا بھی سنائے دیتے ہیں کہ ’’غایۃ المقصود‘‘ کے مزید دو پارے پٹنہ لائبریری سے مل گئے ہیں۔ سنا ہے کہ ہندوستان میں حضراتِ سلفیین ان کی طباعت کی فکر میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ وہ دن جلد لائے کہ یہ زیورِ طبع سے آراستہ ہوں اور ذریعہ تسکین اہلِ ایمان ہوں۔
{{اب بحمد اللہ اس کی تین جلدیں حدیث اکادمی فیصل آباد پاکستان اور ’’المجمع العلمي کراتشي‘‘ کے زیرِ اہتمام زیور طبع سے آراستہ ہو گئی ہے}} - (٤)

غایۃ المقصود کے خصائص :

(۱) آغاز شرح سے قبل ایک نفیس مقدمہ درج ہے جو سنن ابوداؤد کی عظمت، امام ابوداؤد کی سوانح، سنن کے نسخ وروایات اور شروح وتعلیقات وتلخیصات نیز مؤلف کا صاحب السنن تک کی سند کے تذکرہ پر محیط ہے۔

(۲) احادیث کی شرح کرنے میں غریب الفاظ کی تحلیل وتوضیح کے ساتھ حدیث سے مستنبط فقہی مسائل کا ذکر کیا گیا ہے۔

(۳) اختلافی مسائل میں مجتہدین کے اختلافی اقوال کو مع ہر ایک کے دلائل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، پھر ان اختلافی مسائل کا دلائل سے مناقشہ کرتے ہوئے مؤلف کے نزدیک راجح قول کی تعیین بھی کی گئی ہے.

(٤) پہلی مرتبہ مذکور ہر راوی کا ضبط حروف کے ساتھ ترجمہ پیش کیا گیا ہے، اور رواۃ حدیث کے تراجم علماء نقد کے اقوال کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔

(۵) اگر کسی سند یا متن میں اضطراب ہو تو مؤلف نے اس کی توضیح بھی بیان کردی ہے۔

(٦) سنن کے ہر حدیث کی تخریج مع صحت وضعف بیان کردیا گیا ہے۔

(۷) جن احادیث میں تعارض ہو وہاں جمع تطبیق کی صورتیں ذکر کردی گئی ہیں۔

(۸) کتب حدیث وشراح سنن سے صادر کئی اغلاط وخطاء پر تنبیہ کی گئی ہے، اور پوری کتاب میں اس کی کئی مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں، جیسا کہ مؤلف نے پہلی ہی حدیث میں شیخ سراج احمد سرہندی سے وارد کئی اخطاء پر تنبیہ کی ہے۔

(۹) دیگر کچھ شراح کی طرح مؤلف نے تعصب مذہبی سے پرے ہوکر قرآن وسنت کے موافق صواب وسدید اقوال و آراء ہی کو ترجیح دی ہے۔

(۱۰) دیگر کتب حدیث میں موجود باب سے تعلق رکھنے والی جملہ روایات کو باب کے آخر میں مع صحت وضعف بیان کیا گیا ہے۔ (۵)

نشر واشاعت :-
کچھ قرائن سے یہ ثابت ہے کہ علامہ شمس الحق کی زندگی ہی میں اس شرح کا پہلا جزء شائع ہوچکا تھا، جیسا کہ خلیل احمد سہارنپوری الحنفی رحمہ اللہ اور شیخ الحدیث ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے۔

مولانا تلطف حسین عظیم آبادی (1916ء) جو کہ ہندوستان میں خدام توحید وحدیث میں شمار کئے جاتے ہیں جنہوں نے اپنی جانب سے کئی کتب عقائد واحادیث کی نشر واشاعت کی، جس میں غایۃ المقصود بھی تھی جو انہوں نے شائع کی تھی (٦)

عصر حاضر میں اس شرح کے مخطوطات (خط مؤلف کے ساتھ) خدا بخش خان پٹنہ میں موجود تھے، چنانچہ اس شرح کے مخطوطات ملنے پر اس کی تحقیق واشاعت کا کام شروع ہوگیا، سو پہلے جزء کی تحقیق محقق تراث ابن تیمیہ شیخ محمد عزیر شمس حفظہ اللہ نے کی ہے، جبکہ دوسرے جزء کی اشتراکی تحقیق ابو القاسم الاعظمی اور عبد القدوس محمد نذیر نے کی، اسی طرح تیسرے جزء کی اشتراکی تحقیق محمد الیاس عبد القادر اور شیخ مقصود الحسن فیضی سلمہم اللہ نے کی ہے، اور پھر المجمع العلمی کراچی وحدیث اکادیمی فیصل آباد کے زیر اہتمام ١٤١٤ھ میں پہلی طباعت سے یہ شرح مزین ہوئی- (٧)

فی الحال تین مجلدات کتاب الطہارۃ کی کامل شرح اور کتاب الصلاۃ کے صرف دو ابواب (باب المواقیت و باب وقت صلاۃ النبی ﷺ وکیف کان یصلیھا) پر محیط ہے۔ اس کے بعد ناشر صاحب کا اظہار تمنا ہے کہ :
"الى هنا وجدنا هذا الشرح الكبير المسمى ب غاية المقصود شرح سنن ابى ابي داؤد ونسأل الله تعالى أن يهدينا إلى العثور على الباقي"

یقینا غایۃ المقصود میں ہر مسئلہ کی جو توسیع ہے وہ لائق مطالعہ ہے، اور ہر طالب حدیث کیلئے اس کے مباحث قابل دراسہ ہیں، اس شرح میں بیک وقت جہاں علم الرجال کا دریا بہتا ہے وہیں علوم فقہ کا سمندر دکھائی دیتا ہے، یہ شرح جہاں لغوی خزائن سے پر ہے، وہیں احکام اسلام کی حکمتوں سے بھی تعبیر ہے گویا کہ یہ شرح ایک طرح سے وہ سمندر ہے جس میں شرعی علوم کے اکثر ندیاں ملتی نظر آتی ہے، کاش کہ یہ شرح مکمل ہوکر طباعت ہوپاتی تو یقیناً طلاب شرع کیلئے ایک بنیادی مصدر کی سی حیثیت رکھتی۔ لکن (قدر اللہ وما شاء فعل) .

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس شرح کے باقی اجزاء بھی مل جائیں اور تحقیق ہوکر جلد شائع ہوں یا امت مسلمہ میں کسی کو مؤلف کے طرز تالیف پر اس کی تکمیل کرنے کی توفیق دے. آمین

ابو المدیح بلال الخلیلی
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

(١) مجموعہ مقالات مولانا عبد الحمید رحمانی : ۲/ ۳۵
(٢) مقدمة بذل المجهود : ٣٩/١
(٣) بر صغیر میں علم حدیث از محمود احمد غازی : ٤٢٩
(٤) مقالات اثریہ از خبیب احمد : ۲۸۹ - ۲۹۲
(۵) غایۃ المقصود سے بتصرف مترجمہ خصائص : ص - ۱۵/۱٤/۱۳
(٦) دبستان نذیریہ از تنزیل صدیقی
(٧) غاية المقصود : كلمة الناشر
 
Last edited:
Top