اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْعَالِمِينَ • (الروم : ٢٢)
اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگتوں کا اختلاف بھی ہے، دانشمندوں کیلئے اس میں یقیناً بڑی نشانیاں ہیں •

اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں اپنی کئی بڑی بڑی نشانیوں میں سے تمام زبانوں کو بھی اپنی نشانی بتایا ہے، اور دنیا میں اتنی زبانوں کا موجود ہونا یقیناً اللہ کی قدرت کی ایک بہت بڑی نشانی ہے، عربی ہے، اردو ہے، انگریزی ہے، ہندی ہے، حتی کہ خود ہمارے ہندوستان میں بیس سے زائد رسمی زبانیں بولی کہی اور لکھی جاتی ہیں، جن میں سے ایک کنڑ زبان بھی ہے، جس کی تاریخ کنڑ زبان کے مؤرخین کے مطابق چار ہزار سال قدیم زبان ہے، جو دراوڈی زبان کی ایک فرعي زبان ہے، لیکن اس کا تعلق ہندی اور سنسکرت سے بھی ہے، کہ بعض الفاظ ہندی اور سنسکرت سے مستعار لئے گئے ہیں۔
ویکیپیڈیا کی خبر کے مطابق موجودہ دور میں کنڑ زبان کے جمیع ناطقین کی تعداد تقریبا 56 ملین ہیں، جو کہ ریاست کرناٹک کے ناطقین کے علاوہ ریاست آندھرا، تلنگانہ، مہاراشٹر، کیرلا، تمل ناڈو اور گووا میں بھی اہالیان حدود کی زبان ہے، لہذا ایک داعی و عالم کیلئے جہاں عربی واردو زبان دعوت دین کیلئے اہم ہے، وہیں علاقائی زبان کی فہم و معرفت بھی ضروری ہے۔
چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ۖ فَيُضِلُّ اللَّهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ • (ابراھیم : ٤)
ہم نے ہر ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں ہی بھیجا ہے، تاکہ ان کے سامنے (دین کی تعلیمات) وضاحت سے بیان کردے، اب اللہ تعالی جسے چاہے گمراہ کردے اور جسے چاہے راہ دکھا دے، وہ غلبہ اور حکمت والا ہے •

اس آیت کی تفسیر میں شیخ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
جب اللہ تعالی نے اہل دنیا پر یہ احسان فرمایا کہ ان کی ہدایت کیلئے کتابیں نازل کیں، اور رسول بھیجے اس احسان کی تکمیل اس طرح فرمائی کہ ہر رسول کو قومی زبان میں بھیجا، تاکہ کسی کو ہدایت کا راستہ سمجھنے میں دقت نہ ہو۔ لیکن اس بیان وتشریح کے بعد ہدایت اسے ہی ملے گی جسے اللہ چاہے گا۔ (تفسیر احسن البیان ، سورہ ابراہیم آیت ٤ کی تفسیر)

اسی طرح نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ :
عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لَمْ يَبْعَثِ اللَّهُ، عَزَّ وَجَلَّ، نَبِيًّا إِلَّا بِلُغَةِ قَوْمِهِ" (مسند احمد : متنه صحيح، وأما إسناد هذا الحديث، فرجاله ثقات رجال الصحيح لكن مجاهداً لم يسمع من أبي ذر.)
ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
"اللہ تعالی ہر نبی کو ان کی قومی زبان ہی میں مبعوث کیا ہے" (مسند احمد)

مبعوث رسل اور انزال کتب کا واحد مقصد ہی یہی ہے کہ متلاشیان حق کو ہدایت نصیب ہو اور منکرین پر حجت قائم ہو جائے, چنانچہ اسی آیت کی تفسیر میں امام قرطبی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ :
"ہر وہ آدمی جس کے سامنے نبی کریم ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کو ایسے ترجمہ کے ساتھ پیش کیا جائے جو اس کو سمجھ آتا ہو تو اس پر حجت قائم ہوجاتی ہے" (قرطبی)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ :
غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا إلى قَوْمِهِ نہیں کہا بلکہ بلسان قومه کہا۔ اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی رسول بھیجے، ان کو ان کی قوم کے زمانے میں بھیجا ہے، تاکہ وہ انہی کی زبان میں دین کی تعلیمات کھول کھول کر بیان کریں، لہذا جب وہ کھول کھول کر بیان کردیں تو اس سے مقصود دعوت پوری ہو گئی، پس اولاً تبلیغ رسالت کیلئے یہ ضروری ہے کہ (فہم وتفہیم) ان کی قوم کی زبان میں شرعی الفاظ میں ہو، لیکن جو لوگ شرعی زبان نہ جانتے ہوں تو ان کیلئے معنیً نقل کرنا بھی جائز ہے، لیکن ان (علماء ودعاۃ) میں سے کسی کو ان قوم والوں کی زبان بھی سیکھنا چاہئے تاکہ وہ ان کے مسائل و مراد کو جان پہچان سکے، چنانچہ ایسی صورت میں مخلوق پر حجت قائم ہوجائے گی، اور رسول کی لائی ہوئی تعلیمات کے نقل سے ممکن ہے ان کو ہدایت بھی حاصل ہو، خواہ وہ دعوت لفظاً ہو یا معنىً ، لہذا رسول کی لائی ہوئی شریعت کو معنیً نقل کرنا بھی جائز ہے، اور ان لوگوں کیلئے جن کو عربی نہیں آتی قرآن کا ترجمہ کرنا بالاتفاق جائز ہے - (الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح)

جب اسلام کی دعوت الہی دعوت ہے، تو ضروری ہے کہ ایسے لوگ موجود ہوں جو اس دعوت کو دوسری قوموں تک ان کی زبان میں پہنچا سکیں۔ خود رسول ﷺ کے پاس ایسے صحابہ کرام موجود تھے جو فارسی، رومی، حبشی زبان جانتے تھے۔ یہود کی زبان سریانی جاننے والا کوئی نہیں تھا، تو رسولؐ نے انصاری صحابی حضرت زید بن ثابتؓ کو اسے سیکھنے کا حکم دیا ، سو زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "{فَتَعَلَّمْتُهَا فِي سَبْعَةَ عَشَرَ يَوْمًا}" (مسند احمد : إسناده صحيح إن كان ثابت بن عبيد سمع من مولاه زيد بن ثابت) اور صرف سترہ دنوں میں وہ اس زبان کے ماہر ہو گئے۔
دراصل جب حصول علم میں اخلاص اور عزم مصمم ہو تو مختصر وقت میں بھی اخلاص کی برکت اور ذاتی اجتہاد سے علم حاصل ضرور ہوتا ہے، جیسا کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے۔

غرض کہ مختصرا یہاں یہ مقصود ہے کہ عربی واردو کے ساتھ علاقائی زبان کا سیکھنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ دعوت دین کی ذمہ داری جو علماء عصر پر فرض ہے، وہ مکمل ہو اور راہ حق کے مسافروں کیلئے ہدایت کا سبب بنے اور منکرین قوم پر حجت بن جائے۔
لیکن بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ دعوت دین کیلئے بالخصوص ہندوستان کی سرزمین پر دعوت دین میں تین چیزیں بہت ضروری ہیں:
(۱) مخلص علماء کی ٹیم
(۲) مخلص اصحاب ثروت کی امداد
(۳) صوبائی جمعیت کے زیر اہتمام دعوت کا کام

مخلص علماء کی ٹیم کا طریقہ تشکیل:
اولا صوبہ کرناٹک کے جمیع علماء کی لسٹ تیار کی جائے اور ساتھ ایک رپورٹ بھی تیار کی جائے جس میں بالخصوص یہ صراحت ہو کہ وہ کہاں کے ہیں، کہاں سے فارغ ہیں، حالیہ مصروفیات کیا ہیں، اور کنڑ زبان جانتے ہیں یا نہیں۔ اگر جانتے ہیں تو کیا صرف بولنا جانتے ہیں یا بولنے کے ساتھ لکھنا پڑھنا بھی جانتے ہیں۔ اور حالیہ پتہ اور نمبر۔
(۱) پھر صوبائی کبار علماء کی ایک تنظیم تشکیل دی جائے، جو حالات حاضرہ کے مطابق علاقائی زبان جاننے والے علماء کی رہنمائی کر سکیں۔
(۲) کبار علماء کی تشکیل کا طریقہ یوں ہو کہ ہر ضلع سے ایک عالم کا انتخاب کریں، جو عربی، اردو، انگریزی اور کنڑ زبان میں ماہر ہوں، چنانچہ صوبہ کرناٹک میں 31 اضلاع ہیں، تو اس حساب سے 31 علماء کی ایک مضبوط ٹیم ہوگئی، اور ہر ضلع کے اس ایک عالم کے تحت تین علماء کے گروپ بنائے جائیں :
- پہلے گروپ میں ان علماء کو رکھا جائے جو صرف عربی، اردو یا انگریزی جانتے ہوں، اور کنڑ زبان سے ان کا کوئی تعلق نہ ہو یا سرے سے نہ جانتے ہوں
- دوسرے گروپ میں ان علماء کو رکھا جائے جو عربی، اردو اور انگریزی کے ساتھ کنڑ زبان میں صرف بول سکتے ہوں، لکھنا پڑھنا جانتے نہ ہوں
- تیسرے گروپ میں ان علماء کو رکھا جائے جو کنڑ زبان بولنے کے ساتھ ساتھ لکھنا پڑھنا بھی جانتے ہوں

اب ان تینوں گروپ کے علماء سے استخدام کا طریقہ یوں ہو کہ :
(۱) پہلے گروپ کے علماء میں اگر کوئی کنڑ زبان سیکھنے کے خواہشمند ہوں تو ان کو تیسرے گروپ کے علماء سے رابطہ کروائیں، تاکہ وہ ان کی سیکھنے میں مدد کرسکیں، اور اگر کوئی سیکھنے کے خواہشمند نہ ہوں تو ان سے درج ذیل خدمات لی جا سکتی ہیں :
- مختصر عربی کتب یا پمفلٹ کی اردو ترجمانی
- جمعہ وہفتواری و ماہانہ اردو خطبات
اس میں مزید خدمات بھی لی جا سکتی ہیں

(۲) دوسرے گروپ کے علماء چونکہ کنڑ زبان بولنا جانتے ہیں لیکن لکھنا پڑھنا نہیں جانتے، تو ان سے مذکورہ دو خدمات کے ساتھ
- کنڑ زبان میں خطابات سے بھی خدمت لی جا سکتی ہے
- مزید یہ کہ ان کے خطابات کنڑ زبان میں رکارڈ کی جائیں، تاکہ دیگر کنڑ زبان جاننے والے حضرات تک بھی ان کی دعوت سوشل میڈیا سے پہنچائی جا سکے۔

(۳) تیسرے گروپ کے علماء چونکہ اپنی صلاحیت کے اعتبار سے مذکورہ فریقین سے بہتر ہیں، تو ان سے کافی مدد لی جا سکتی ہے :
مذکورہ چار خدمات کے ساتھ
- ان سے عربی یا اردو سے عقدی، فقہی اور سیرت کی چھوٹی کتابوں کا کنڑ زبان میں ترجمہ کروایا جائے۔
- صوبائی جمعیت کے زیر اہتمام ان کے ذریعہ ہفتواری یا ماہانہ سمر اسلامی کورس کروایا جائے، جس کو کامیاب بنانے کیلئے ہر مشارک کو شرکت کرنے پر شہادۃ الحضور کے ساتھ کچھ کتب وغیرہ بھی دی جائیں۔
اس کے علاوہ اور بھی مزید خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔

اصحاب ثروت سے استخدام :
عصر حاضر کے اکثر ہندی علماء کا حال یہ ہے کہ وہ صرف مسجد ومدرسہ تک محدود رہتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ اسلامی اسکول کا رخ کرتے ہیں، نہ تو ان کو تجارت کا کوئی خبرہ ہوتا ہے اور نہ عصری تعلیم سے گریجویٹ ہوتے ہیں، الا ماشاء اللہ۔
لہذا غالباً وجہ یہی ہے کہ ان کی مادی حالت بہت کمزور رہتی ہے، اب جبکہ دعوت دین کا کام ان سے لینا ہو تو ان کے احوال کی فکر کرنا اور ان کے مادی وسائل کو قوت دینا ضلعی جمعیت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے، اس سلسلہ میں ہمارے لئے خلافت راشدہ کا زمانہ ایک نمونہ ہے ، بالخصوص عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کہ انہوں نے کس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں راتبہ شہری کا انتظام کیا، بیت المال کی بنیاد اور اموال کی تقسیم کا طریقہ کار یہ سب ہمارے لئے اسوہ ونمونہ ہے

میری نظر میں اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ:
- ضلعی جمعیت اصحاب ثروت سے رابطہ کریں اور ان سے کہے کہ ان کی ہر ماہ کی آمدنی سے علی الاقل ڈھائی فیصد رقم بیت المال میں فی سبیل اللہ جمع کروائیں، اگر زیادہ عطاء کرنے کا ہو تو نور علی نور ہے۔ چنانچہ یہ بھی ایک طریقہ ہوسکتا ہے
- یا یہ بھی طریقہ ہو سکتا ہے کہ تین یا چار ماہ کی تنخواہ یک بارگی دے دیا جائے، یا پھر کم از کم ان کی معیشت وروزگاری کا کوئی اور طریقہ نکالا جائے۔

صوبائی جمعیت سے کچھ امور پر توجہ کی التماس :

(١) جمیع صوبائی علماء کا ایک ڈیٹا بنائیں، جس میں ان کی ساری تفصیلات موجود ہوں، جس کا طریقہ کار قول اول میں مذکور ہے۔

(۲) اب تک کنڑ زبان میں مؤلفہ ومترجمہ تمام سلفی کتب کا احاطہ کیا جائے، اور اس کے دو قائمہ بنائے جائیں، پہلے قائمہ میں صرف ان مستقل کتب کا تذکرہ ہو جو خالص کنڑ ہی میں لکھے گئے ہوں،مترجمہ نہ ہوں، جیسے کتاب کا نام، مؤلف کا نام، طبع کا نام ، قیمت وغیرہ اور دوسرے قائمہ میں مترجمہ کتب کی تفصیلات جیسے کہ کتاب کا نام، اصل کتاب کا نام، اصل مؤلف، مترجم، طبع اور قیمت۔

(٣) جن سلفی کتب کا کنڑا زبان میں ترجمہ نہ ہوا ہو، ان کتب کا ترجمہ کروایا جائے، بالخصوص عقیدہ اور سیرت کی کتابوں کا، پھر حسب ضرورت دیگر فنون کا کروایا جا سکتا ہے۔

(٤) صوبائی جمعیت اپنے زیر اہتمام ایک ویب سائٹ کا افتتاح کریں، جس میں کنڑ زبان کے مواد بھی اپلوڈ ہوں، کنڑ زبان میں خطابات، نظمیں، آرٹیکلز، قرآن وسنت اور اقوال سلف پر مبنی تصاویر، کنڑ زبان میں موجود کتب اور اس کا قائمہ، ہوسکے تو آڈیو اور ویڈیوز کیلئے ایک یوٹیوب کا چینل بھی بنایا جا سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں سوشل میڈیا کا میدان بہت وسیع ہے۔

(٥) ان علماء ودعاۃ کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے سالانہ ایک جلسہ منعقد کیا جائے جس میں سال بھر میں ہر ضلع سے ایک بہترین داعی کو جس نے سال بھر میں بہترین دعوت کا کام کیا ہو، اس کو تشجیعی انعام دیا جائے۔ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے، اس کے کئی فوائد ہونگے ان شاء اللہ :
- ایک تو اس جلسہ سے صوبائی علماء کی جان پہچان بالمشافہہ ہوگی، اور ایک دوسرے سے متعارف ہونے کا یہ ایک ذریعہ ہوگا.
- اجتماعی طور پر کام کرنے میں ایک دوسرے کی مدد ہوگی، اور اس میں برکت ہوگی باذن اللہ.
- اسی طرح اس جلسہ سے علماء میں حالیہ خدمات کی معرفت ہوگی کہ دعوت دین میں مزید خدمات کس طرح اور کیسے انجام دی جا سکتی ہیں، اور اہل خبرہ سے کچھ سننے سیکھنے کا موقع ملے گا.

(٦) صوبائی پیمانے پر کنڑ زبان میں کسی سیرت کی کتاب کا مسابقہ رکھا جائے، جس میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی شامل ہوسکیں۔ اس طرح نبی کریم ﷺ کی حقیقی سیرت غیر مسلموں تک پہنچے گی تو انہیں اسلام کی معرفت حاصل کرنے کی جستجو ضرور ہوگی۔

(۷) اسی طرح علماء کی ٹیم کی ساتھ عالمات کی بھی ایک ایسی ٹیم بنائی جائے جو کنڑ زبان میں دعوت دین کا فریضہ انجام دے سکیں، کیونکہ ہمارے معاشرہ میں بالخصوص قریوں میں بیشتر ایسی خواتین ہیں جو صرف کنڑ زبان ہی جانتی ہیں، اور ان تک بھی دین کے مسائل کو پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے، لیکن چونکہ قریوں کے مساجد میں اکثر خواتین کا انتظام نہیں ہوتا یا ہوتا بھی ہو تو وہ بہت کم آتی ہیں، سو ایسی صورت میں عالمات وداعیات کو دعوت کی راہ میں آگے بڑھنا خواہ خطابات کے ذریعہ ہو یا تالیف وتصنیف کے ذریعہ سے، حالیہ وقت کی اشد ضرورت ہے، سو امید ہے کہ اس مسئلہ پر بھی غور کیا جائے گا۔

کچھ اہم ملاحظات :

< دعوت دین کی ذمہ داری حسب ضرورت فردا بھی واجب ہوتی ہے اور اجتماعا بھی، لہذا کوئی یہ نہ سوچے کہ جمعیت کے زیر کفالت رہ کر ہی دعوت کا کام کرنا ہے، بلکہ فردا فردا بھی ہر مسلم پر حسب استطاعت و ضرورت دعوت واجب ہے۔

< کنڑ زبان میں دعوت دین کا کام ہم علماء پر اس لئے بھی اشد واجب ہو جاتا ہے کہ اس میدان میں پیچھے رہنے کی وجہ سے برادرز کا فتنہ کافی مضبوط ہوتا جا رہا ہے، جن کا علم صرف گوگل اور چند انگریزی کتب ہیں، اور ان کنڑ زبان کے برادرز کا فتنہ کرناٹک کے ساحلی علاقوں میں بالخصوص منگلور اڈپی وغیرہ میں کافی تیزی سے پھیل رہا ہے، اور اگر ہم نے بروقت اس فتنہ کی سرکوبی نہ کی تو وہ دن دور نہیں جب لوگ علماء کو چھوڑ کر انہی برادرز کو امامت کا منصب سونپ دیں۔

< دعوت دین میں خواہ وہ اردو میں ہوں یا کنڑ زبان میں، سب سے پہلے اصول الدعوۃ ومنھج الدعوۃ کے سلسلہ میں علماء سے از سر نو جان لیں، کیونکہ یہ دعوت کی فیلڈ علم، اخلاص اور صبر کا تقاضہ کرتی ہے۔

ایک گزارش :
دعوت دین کی اہمیت، فضیلت، اور ضرورت پر یقینا آپ سب بخوبی واقف ہیں، اور الحمد للہ کہ اکثر علماء ودعاۃ دعوت دین کی راہ فردا یا اجتماعا کام بھی کر رہے ہیں، لیکن اگر یہی کام باہمی مشاورت ومعاونت سے ہو تو یقیناً اس کام میں برکت اور سہولت رہے گی اور کام کرنے میں دقت نہ ہوگی باذن اللہ، لہذا دینی امور میں ہمیشہ باہمی مشاورت کرتے رہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَشَاوِرۡهُمۡ فِی ٱلۡأَمۡرِۖ }

اس آیت سے مشاورت کی اہمیت، افادیت اور اس کی ضرورت ومشروعیت ثابت ہوتی ہے, اس آیت کے ضمن میں ابن عطیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
"شوری (مشاورت) قواعد شریعت اور پختگی احکام میں سے ہے، جو اہل علم اور اہل دین سے مشاورت نہیں کرتا، تو اس کا معزول ہونا واجب ہے، یہ ایسا حکم ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے، حتی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد سے مؤمنین کی مدح اور تعریف کی ہے، کہ {وأمرهم شورى بينهم} یعنی ان کا ہر کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے"
لہذا آپ سے بھی اس کار دعوت میں مشاورت معاونت کی امید کی جاتی ہے، کہ آپ کے پاس اس سلسلہ میں مزید کچھ اقتراحات ہوں، یا کوئی خبرہ ہو جو اس دعوت میں ہمارے کام آسکے تو ضرور پیش کریں، اور اسی طرح اپنے دیگر علماء کو بھی اس سلسلہ میں آگے بڑھنے کی تلقین کریں، ویسے دعوت کا کام ہم کو ہر حال میں کرنا ہی ہے، تو کیوں نا ہم سب مل کر باہمی مشاورت ومعاونت کے ساتھ اجتماعی شکل میں جدید وسائل کا استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھیں، اور امت کو ان کے حقیقی رب سے جوڑنے کی کوشش کریں۔

خلاصہ و خاتمہ :
خلاصہ یہی ہے کہ دعوت دین میں علاقائی زبان سیکھنا اور اس میں امت کو دعوت دینا وقت کی اشد ضرورت ہے، جس پر نص صریح بھی دال ہیں، اور اسی طرح اس کار کی تکمیل تین گروہوں علماء، اصحاب ثروت اور جمعیت سے ہی ہے، جن کی باہمی معاونت سے ان شاء اللہ حکمت وسلیقہ سے کام ہونے کی قوی امید ہے، اور سب سے اہم یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو مخلص رکھیں، اور صبر سے اپنے ذات کو منور کریں تو وجعلنا منهم أئمة يهدون بأمرنا لما صبروا وكانوا بآياتنا يوقنون کے مصداق ضرور ہونگے باذن اللہ۔

آخر میں رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں مخلص ہوکر دعوت دین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور امت کی اصلاح میں ہم سے خدمت لے تاکہ حق پسند عوام کو ہدایت نصیب ہو اور منکرین پر حجت قائم ہو۔۔۔ آمین
سبحان ربك رب العزة عما يصفون وسلام على المرسلين والحمد لله رب العالمين.

ابو المدیح بلال الخلیلی
جامعة اسلامية مدينة منورة
 
Top