Muhammad raza

New member
نماز میں سورہ فاتحہ سے پہلے اعوذ باللہ یا بسم اللہ(آہستہ آواز میں بھی) پڑھنا سنت سے ثابت نہیں ہے کیونکہ بخاری اور مسلم،نسائی ترمذی ابوداؤد نے تواتر کے ساتھ روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر۔اولی اور سورہ فاتحہ کے درمیان دعائے استفتاح کے علاوہ اور کچھ نہیں پڑھتے تھے۔
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے اللہ کے رسول آپ تکبیر اور سورۃ فاتحہ کے درمیان کیا پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا، اللھم باعد بینی وبین خطایای ... (یعنی دعا استفتاح) ۔متفق علیہ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يسكت بَين التَّكْبِير وَبَين الْقِرَاءَة إسكاتة قَالَ أَحْسبهُ قَالَ هنيَّة فَقلت بِأبي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ إِسْكَاتُكَ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَة مَا تَقُولُ قَالَ: «أَقُولُ اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنَ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ والثلج وَالْبرد»
روارہ بخاری ،مسلم، ترمذی ابو داؤد، نسائی
Screenshot_2023-02-28-10-51-35-59_680d03679600f7af0b4c700c6b270fe7.jpg
جبکہ ابو داؤد کی ایک حدیث سے ہمیں تعوذ سے ملتی جلتی ایک عبارت ملتی ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ مُطَهَّرٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَلِيٍّ الرِّفَاعِيِّ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ النَّاجِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ كَبَّرَ ثُمَّ يَقُولُ ‏"‏ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلاَ إِلَهَ غَيْرُكَ ‏"‏ ‏.‏ ثُمَّ يَقُولُ ‏"‏ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ ‏"‏ ‏.‏ ثَلاَثًا ثُمَّ يَقُولُ ‏"‏ اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا ‏"‏ ‏.‏ ثَلاَثًا ‏"‏ أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ ‏"‏ ‏.‏ ثُمَّ يَقْرَأُ ‏.‏ قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَهَذَا الْحَدِيثُ يَقُولُونَ هُوَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَلِيٍّ عَنِ الْحَسَنِ مُرْسَلاً الْوَهَمُ مِنْ جَعْفَرٍ ‏.‏IMG_20230320_105520.jpg

لیکن امام ابو داود اور ترمذی دونوں نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحت کے اعتبار سے صحیح نہیں بلکہ حسن ہے


تنبیہ ۔چند ایک روایت میں تسمیہ اونچی آواز میں اور آہستہ آواز میں پڑھنا موجود ہے لیکن یہ روایات معتبر و متواتر احادیث کے خلاف ہیں جو لوگ کہتے ہیں رسول اللہ سے اونچی آواز میں تسمیہ پڑھنا ثابت نہیں ان کے پاس آہستہ آواز میں پڑھنے کا بھی کوئی ثبوت موجود نہیں ہے بلکہ صحیح حدیث سے بہت واضح ہے رسول اللہ سورۃ فاتحہ سے پہلے آہستہ آواز سے صرف دعا استفتاح پڑھتے تھے۔

لہٰذا کسی بھی صحیح حدیث سے نماز میں سورہ فاتحہ سے پہلے نہ توں تعوذ اور نہ ہی اونچی یا آہستہ آواز میں کہی تسمیہ کا ذکر ملتا ہے ۔
  1. واضح رہے کہ جو لوگ ابوداؤد یا ترمذی کی ایک حدیث کی مثال دیتے ہیں کہ اس میں تعوذ کا ذکر ہے یاد رکھیں وہ خوبخو ان الفاظ کے ساتھ "اعوذ باللہ من شیطان الرجیم" نہیں ہے ۔ بلکہ کچھ اور طرح ہے جو کہ مندرجہ بالا حدیث میں مذکور ہے۔اور دوسری بات کی یہ حدیث ایک مکمل دعائے استفتاح ہے اس کے اندر ہی تعوذ سے ملتی جلتی عبارت ہے نہ کہ اس کے بعد، اور یہ حدیث سند کے اعتبار سے بھی صحیح نہیں بلکہ حسن ہے ،
  2. لہذا دعائے استفتاح اور سورۃ فاتحہ کے درمیان تعوذ اور تسمیہ مستند نہیں
FOOTNOTE

Screenshot_2023-03-20-11-31-40-31_40deb401b9ffe8e1df2f1cc5ba480b12.jpgScreenshot_2023-03-20-11-29-56-77_40deb401b9ffe8e1df2f1cc5ba480b12.jpg
 
Last edited:
Top