Rashid Bin Qamar
New member






تحریر: ابومحمد عبدالاحدسلفی
*اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَحْدَہ،وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ مَنْ لَّا نَبِیَّ بَعْدَہ:امابعد*
*أَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ، مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ،*
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
*اَلَّذِيۡنَ يُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَهُمۡ بِالَّيۡلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً فَلَهُمۡ اَجۡرُهُمۡ عِنۡدَ رَبِّهِمۡۚ وَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ ۞*
*{البقرة,سورۃ نمبر ٢,آیت نمبر ٢٧٤}*
وہ لوگ جو اپنے مال رات اور دن، چھپے اور کھلے خرچ کرتے ہیں، سو ان کے لیے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
*عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:.......*
أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ.
*{صحیح البخاری،كِتَابُ المَغَازِي،بَابُ بَعْثِ أَبِي مُوسَى، وَمُعَاذٍ إِلَى اليَمَنِ قَبْلَ حَجَّةِ الوَدَاعِ:٤٣٤٧}*
اللّٰہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ کو بھی فرض کیا ہے ، جو ان کے مالدار لوگوں سے لی جائے گی اور انہیں کے غریبوں میں تقسیم کردی جائے گی.
زکوٰة ٢ہجری کومسلمانوں پرفرض ہوٸی۔
*{شرح صحیح بخاری(مولانا محمد داٶدراز)،٣٨١/٢}*

*قُلۡ اِنَّ رَبِّىۡ يَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖ وَيَقۡدِرُ لَهٗ ؕ وَمَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ فَهُوَ يُخۡلِفُهٗ ۚ وَهُوَ خَيۡرُ الرّٰزِقِيۡنَ ۞*
*{سبا ٕ،سورۃ نمبر ٣٤،آیت نمبر ٣٩}*
کہہ دے بیشک میرا رب رزق فراخ کرتا ہے اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے اور اس کے لیے تنگ کردیتا ہے اور تم جو بھی چیز خرچ کرتے ہو تو وہ اس کی جگہ اور دیتا ہے اور وہ سب رزق دینے والوں سے بہتر ہے۔
*عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِّنْ مَالٍ وَمَا زَادَ اللّٰهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللّٰهُ*
*{صحیح مسلم،كِتَابُ الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ،بَابُ اسْتِحْبَابِ الْعَفْوِ وَالتَّوَاضُعِ:٦٥٩٢/٢٥٨٨}*
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "صدقے نے مال میں کبھی کوئی کمی نہیں کی اور معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کو عزت ہی میں بڑھاتا ہے اور کوئی شخص (صرف اور صرف) اللہ کی خاطر تواضع (انکسار) اختیار نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ اس کا مقام بلند کر دیتا ہے۔"
رسول اللہ ﷺ نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
*"أنفق یا بلال،ولا تخش من ذی العرش إقلالا"*
*{صحیح الجامع الصغیر:١٥١٢}*
اےبلال! خرچ کرو اور عرش والے سےکسی کمی کا ڈر اور خوف نہ رکھو۔"

*الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُم بِالْفَحْشَاءِ ۖ وَاللَّهُ يَعِدُكُم مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ۞*
*{سورۃ البقرۃ,سورة نمبر٢،آیت نمبر٢٦٨}*
شیطان تمہیں فقیری سے دھمکاتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ وسعت والا اور علم والا ہے۔
*عَنْ أَسْمَاءَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أَنْفِقِي ، وَلَا تُحْصِي فَيُحْصِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ ، وَلَا تُوعِي فَيُوعِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ*
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” خرچ کیا کر ، گنا نہ کر ، تاکہ تمہیں بھی گن کے نہ ملے اور جوڑ کے نہ رکھو ، تاکہ تم سے بھی اللہ تعالیٰ ( اپنی نعمتوں کو ) نہ چھپا لے ۔“
*{صحیح بخاری،كِتَابُ الهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا،هِبَةِ المَرْأَةِ لِغَيْرِ زَوْجِهَا وَعِتْقِهَا، إِذَا كَانَ لَهَا زَوْجٌ فَهُوَ جَائِزٌ، إِذَا لَمْ تَكُنْ سَفِيهَةً:٢٥٩١}*
*تشریح:*مولانا محمد داٶد راز صاحب اس حدیث کی تشریح کرتےہوٸےلکھتے ہیں کہ: یعنی اللّٰہ پاک بھی تیرے اوپر کشائش نہیں کرے گا اور زیادہ روزی نہیں دے گا۔ اگر خیرات کرے گی، صدقہ دے گی تو اللّٰہ پاک اور زیادہ دے گا۔ اس حدیث سے حضرت امام بخاری رحمہ نے یہ نکالا کہ خاوند والی عورت کا ہبہ صحیح ہے۔ کیوں کہ ہبہ اور صدقے کا ایک ہی حکم ہے۔

*محمدبن عبدالرحمٰن رحمہ اللّٰہ بیان کرتےہیں* کہ رسول اللّٰہ ﷺ اور عمر رضی اللّٰہ عنہ کاخط جو زکوٰة کےمتعلق ہے۔اس میں لکھا ہوا ہےکہ سونے سےکوٸی چیز نہیں لی جاٸیگی حتیٰ کہ وہ بیس دینار تک پہنچ جاٸے۔جب بیس دینار تک پہنچ جاٸےتو اس میں آدھا دینار زکوٰة ہوگی،اور چاندی سے کچھ نہیں لیا جاٸےگاحتیٰ کہ وہ دو سو درہم تک پہنچ جاٸےجب دو سو درہم تک پہنچ جاٸےگی تو اس میں پانچ درہم ہے۔
*{کتاب الأموال لأبی عبید:١١٠٦/٤٠٨،نقلاً من"إروا ٕ الغلیل:٢٩٠/٣" فتاویٰ الدّعوة،جلد١،صفحہ:٢١٤}*
*تشریح:*
*مفتی عبدالرحمٰن عابد حافظہ اللّٰہ تعالیٰ لکھتےہیں:* کہ"سونےکےبارے میں عام معروف ہے کہ بیس دینار کا وزن ساڑھے سات تولے ہے جو ٨٧.٢٥ یعنی سوا ستاسی گرام بنتےہی۔لیکن بعض محققین کے بڑی باریکی سے تحقیق کرکے اس کا وزن ٧٠گرام نکالا ہے "ایک دینار کا وزن ساڑھے تین گرام بنتا ہے" سعودی عرب کےعلما ٕ میں سے *ڈاکٹر عبداللّٰہ بن محمد العطار اور شیخ ابوبکر جابرالجزاٸری اور پاکستان میں ہمارے استاذ مفتی عبدالرحمان رحمانی رحمة اللّٰہ علیہ نے یہی وزن نکالا ہے.*
*مفتی عبدالرحمان رحمانی رحمة اللہ علیہ فرماتےہیں:* "کہ اکثر محدثین کے مطابق جو کے بہتر دانے تولے جاٸیں تو ساڑھےتین گرام کے برابر ہوتےہیں،اس طرح بیس دینارستر گرام سونے کےبرابر ہوگا،جو چھ تولہ بنتا ہے۔"
*{فتاویٰ الدّعوة،جلد ١،صفحات ٢١٤،٢١٥۔دارالاندلس}*

*1 دینار۔3.5=72 جوکےدانے*
*20دینار۔3.5*20=70گرام*
___________الحاصل:6 تولہ___________

*1 درہم۔48 یا 50 جو کےدانے=2.3گرام*
*48 یا 50 جوکےدانے=2.3 گرام*
*200 درہم۔2.3*200=460گرام*
_________الحاصل:39.3 تولہ___________

اللّٰہ تعالیٰ نے زمین کی ہر پیداوار میں عشر یا نصف العشر فرض کیا ہے۔جو اللّٰہ تعالیٰ کا حق ہے اور ہر مسلمان پر ادا کرنا ضروری ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ فرماتاہے:
*يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ*
*{سورۃ البقرۃ,آیت نمبر:٢٦٧}*
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے خرچ کرو جو تم نے کمائی ہیں اور ان میں سے بھی جو ہم نے تمھارے لیے زمین سے نکالی ہیں اور اس میں سے گندی چیز کا ارادہ نہ کرو، جسے تم خرچ کرتے ہو، حالانکہ تم اسے کسی صورت لینے والے نہیں، مگر یہ کہ اس کے بارے میں آنکھیں بند کرلو اور جان لو کہ بے شک اللّٰہ بڑا بے پروا، بے حد خوبیوں والا ہے۔
*تفسیر:*
1- صدقے کی قبولیت کے لئے جس طرح ضروری ہے کہ من واذی اور ریاکاری سے پاک ہو (جیسا کہ گذشتہ آیات میں بتایا گیا ہے) اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حلال اور پاکیزہ کمائی سے ہو۔چاہے وہ کاروبار (تجارت وصنعت) کے ذریعے سے ہو یا فصل اور باغات کی پیداوار سے۔ اور یہ جو فرمایا کہ خبیث چیزوں کو اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرنے کا قصد مت کرو)۔ تو خبیث سے ایک تو وہ چیزیں مُراد ہیں جو غلط کمائی سے ہوں۔ اللّٰہ تعالیٰ اسے قبول نہیں فرماتا۔ حدیث میں ہے: [ إنَّ اللهَ طَيِّبٌ لا يَقْبَلُ إِلا طَيِّبا ]، ”اللہ تعالیٰ پاک ہے، پاک (حلال) چیز ہی قبول فرماتا ہے۔“ دوسرے خبیث کے معنی ردی اور نکمی چیز کے ہیں، ردی چیزیں بھی اللہ کی راہ میں خرچ نہ کی جائیں، جیسا کہ آیت ﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾ کا بھی مفاد ہے۔ اس کی شان نزول کی روایت میں بتلایا گیا ہے کہ بعض انصار مدینہ خراب اور نکمی کھجوریں بطور صدقہ مسجد میں دے جاتے، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
*(فتح القدیر۔ بحوالہ ترمذی وابن ماجہ وغیرہ )*
2- یعنی جس طرح تم خود ردی چیزیں لینا پسند نہیں کرتے، اسی طرح اللّٰہ کی راہ میں بھی اچھی چیز ہی خرچ کرو۔
*{تفسیر احسن البیان}*
*عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُيُونُ أَوْ كَانَ عَثَرِيًّا الْعُشْرُ وَمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ*
*{صحیح بخاری،كِتَابُ الزَّكَاةِ,بَابُ العُشْرِ فِيمَا يُسْقَى مِنْ مَاءِ السَّمَاءِ، وَبِالْمَاءِ الجَارِي وَلَمْ يَرَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ العَزِيزِ: «فِي العَسَلِ شَيْئًا:١٤٨٣}*
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ وہ زمین جسے آسمان ( بارش کا پانی ) یا چشمہ سیراب کرتا ہو۔ یا وہ خود بخود نمی سے سیراب ہوجاتی ہو تو اس کی پیداوار سے دسواں حصہ لیا جائے اور وہ زمین جسے کنویں سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جاتا ہو تو اس کی پیداوار سے بیسواں حصہ لیا جائے۔
*مفتی عبدالرحمٰن عابد حافظہ اللّٰہ تعالیٰ لکھتےہیں* کہ:"بعض لوگ سبزیوں اور پھلوں میں عشر کے قاٸل نہیں ہیں،وہ اس حدیث سےاستدلال کرتے ہیں کہ *آپ ﷺ نےفرمایا:حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عُمَارَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ عَنْ مُعَاذٍ أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُهُ عَنْ الْخَضْرَاوَاتِ وَهِيَ الْبُقُولُ فَقَالَ لَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ...*
*{جامع ترمذی,أَبْوَابُ الزَّكَاةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ,بَاب مَا جَاءَ فِي زَكَاةِ الْخَضْرَاوَاتِ:٦٣٨۔وإسنادہ ضعیف}*
"معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرمﷺکولکھا ،وہ آپ سے سبزیوں کی زکاۃکے بارے میں پوچھ رہے تھے تو آپ نے فرمایا: 'ان میں کوئی زکاۃ نہیں ہے_"*
*امام ترمذی کہتے ہیں*: ۱- اس حدیث کی سندصحیح نہیں ہے۔
*حسن* ، عمارہ کے بیٹے ہیں ، اوریہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں۔شعبہ وغیرہ نے ان کی تضعیف کی ہے، اور ابن مبارک نے انہیں متروک قراردیا ہے۔

زمین سےحاصل ہونےوالی پیداوار پانچ وسق یا اس سے زیادہ ہوتو اس پر عشر فرش ہوجاتا ہے۔
اور اگر پانچ وسق سے کم ہوتو اس پر عشر فرض نہیں ہوتا۔
جیسا کہ حدیث میں ہے:
*عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ،قَالَ:لَيْسَ فِيمَا أَقَلُّ مِنْ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ.*
*{صحیح بخاری،كِتَابُ الزَّكَاةِ,بَابٌ:لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ:١٤٨٤}*
"پانچ وسق سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔"
*تشریح:*
*مولانا داٶد راز صاحب فرماتےہیں کہ:* "یہ غلّہ میں ٥ وسق سے کم پر عشر نہیں اور ٥ وسق اکیس من ساڑھے سینتیس سیر(21_37.5) وزن ٨٠ تولہ کےسیر کےحساب سےہوتا ہے۔کیونکہ ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہےاور صاع ٢٣٤ تولے(٦تولہ کم ٣سیر) کا ہوتا ہے۔پس ایک وسق ٤من ١٥.٥ سیر کاہوا۔"
*{شرح صحیح بخاری،جلد٢،صفحہ ٤٢٢۔مکتبہ اسلامیہ}*
*مفتی عبدالرحمٰن عابد صاحب لکھتےہیں کہ* "ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہےاور پانچ وسق تین سو صاع بن جاٸیں گےاور ایک صاع کا تحقیقی وزن تقریباً اکیس سو گرام ہے۔اس اعتبار سے یہ کل پندرہ من اور تیس کلو وزن بنتا ہے۔
*2100*300=630000/1000=630/40=15.75*
*{خطباتِ راشدیہ سلفیہ،پہلاخطبہ،صفحہ ٧}*

ساری پیداوار میں سےاخراجات نکال کر عشردینےکی دلیل میرےعلم میں نہیں ہے۔
*مفتی عبدالرحمٰن عابد حفظہ اللّٰہ نےفرمایا:* "زمین سےحاصل ہونےوالی پوری پیداوار سےعشر نکالنا ضروری ہے۔۔۔۔اور فرمایا تقاضا ہےکہ پیداوار کا عشر ٹھیکہ نکالےبغیر زمین سےحاصل ہونےوالی ساری آمدنی سےادا کرے۔"
*(فتاویٰ الدّعوة جلد١)*
*مفتی حافظ عبدالسّلام بن محمد حفظہ اللّٰہ نےفرمایا:* "اگر زمین کی آمدنی کےعلاوہ اس کےپاس اتنامال موجود ہےجس میں سےوہ ٹھیکہ یا ٹھیکےکےلیے لیا ہوا قرض ادا کرسکتاہےتو اسےزمین سےحاصل ہونےوالی ساری آمدنی کا عشر ادا کرناہوگا۔کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نےزمین سےنکلنےوالی ساری آمدنی میں سےخرچ کرنےکاحکم دیا ہے۔
لیکن اگراس کےپاس زمین سےحاصل ہونےوالی آمدنی کےعلاوہ کوٸی مال نہیں جس سےوہ ٹھیکہ ادا کرسکےتو اس پر عشرفرض نہیں اس کی دلیل یہ ہےکہ
فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ..
*(صحیح البخاری:٤٣٤٧)*
معلوم ہوا کہ صدقہ اغنیا ٕ پرفرض ہے جس کاسارا مال قرض میں جارہا ہوتو وہ غنی نہیں رہتا بلکہ فقیرہوتا ہے اور فقیر پرصدقہ فرض نہیں۔
قرآنِ مجیدمیں ہےکہ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا ؕ
"اللّٰہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔"
*(سورة البقرة:٢٨٦/٢)*
*(احکام زکوٰة وعشروصدقہ فطر)*
*وما علینا الا البلاغ*
٢١۔٣۔٢٠٢٣ ٕ