Rashid Bin Qamar
New member
تین طلاق : اورچودہ سوسال قبل نبوی عدالت کا فیصلہ
✿ ✿ ✿
تحریر: کفایت اللہ سنابلی
✿ ✿ ✿
تین طلاق کا مسئلہ عہدرسالت میں بھی پیش آچکا ہے اور عدالت نبوی میں اس کا فیصلہ بھی ہوچکا ہے۔ نبوی عدالت سے بڑھ کر نہ کوئی عدالت ہے اورنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کوئی فیصلہ کرسکتاہے۔ملاحظہ فرمائيں:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حدثنا سعد بن إبراهيم ، حدثنا أبي ، عن محمد بن إسحاق ، حدثني داود بن الحصين ، عن عكرمة ، مولى ابن عباس ، عن ابن عباس ، قال : طلق ركانة بن عبد يزيد أخو بني المطلب امرأته ثلاثا في مجلس واحد ، فحزن عليها حزنا شديدا ، قال : فسأله رسول الله صلى الله عليه وسلم : «كيف طلقتها ؟» قال : طلقتها ثلاثا ، قال : فقال : «في مجلس واحد ؟ » قال : نعم قال : «فإنما تلك واحدة فأرجعها إن شئت» قال : فرجعها فكان ابن عباس : يرى أنما الطلاق عند كل طهر
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رکانہ بن عبدیزید نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے دی، پھر اس پر انہیں شدید رنج لاحق ہوا ، تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”تم نے کیسے طلاق دی ؟“ انہوں نے کہا: میں نے تین طلاق دے دی ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ سلم نے پوچھا: ”کیا ایک ہی مجلس میں ؟“ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”پھر یہ ایک ہی طلاق ہے تم چاہو تو اپنی بیوی کو واپس لے لو“ ، چنانچہ انہوں نے اپنی بیوی کو واپس لے لیا ۔ اس حدیث کی بنا پر ابن عباس رضی اللہ عنہ فتوی دیتے کہ طلاق الگ الگ طہر میں ہی معتبر ہوگی[مسند أحمد ط الميمنية: 1/ 265 رقم 2387 وإسناده صحيح ، ومن طريق أحمد أخرجه الضياء المقدسي في ”المختارة“ (11/ 363) والذهبي في ”تاريخ الإسلام“ (8/ 410 ، ت تدمري )۔وأخرجه أيضا البيهقي في ”السنن الكبرى“ ( 7/ 339،ط الهند) من طريق عبد الله بن سعد عن أبيه عن عمه إبراهيم بن سعد ۔وأخرجه أيضا أبويعلى في ”مسنده“ (4/379 ) من طريق يونس بن بكير ، وأبو نعيم في ”معرفة الصحابة“ (2/ 1113 ) من طريق يزيد بن هارون كلهم( إبراهيم بن سعدو يونس بن بكيرو يزيد بن هارون) عن ابن إسحاق به ]
✿ ✿ ✿
یہ حديث بلاتردد بالکل صحیح اور بے داغ ہے اسے درج ذيل محدثين نے صحيح قرار ديا ہے:
➊ امام أحمد بن حنبل رحمه الله (م241) [مسائل أحمد رواية أبي داود- ت طارق ص: 236، مجموع الفتاوى :33/ 73 ، 86 ]
➋ امام أبو يعلى رحمه الله (م307) [ فتح الباري 9/ 362]،
➌ أبو الحسن علي بن عبدالله اللخمي (م570)[الوثائق كما في إغاثة اللهفان 1/ 326]
➍ امام ضياء الدين المقدسي رحمه الله (م643) [ المختارة:11/ 363 ]،
➎ شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله (م728)[ مجموع الفتاوى 33/ 67]،
➏ امام ابن قيم رحمه الله (م751)[إغاثة اللهفان 1/ 287]،
➐ حافظ ابن حجر رحمه الله (م852)[ فتح الباري 9/ 362 سكت عليه وأقر تصحيح أبي يعلي]
➑ علامہ أحمد شاكر(م1377)[مسند أحمد ت شاكر 3/ 91 تحت الرقم2387]
➒ علامہ المعلمي رحمه الله (م1386)[آثار الشيخ المعلمي 17/ 604، اشار إلي صحته]
➓ علامہ البانی رحمہ اللہ(م1420)[إرواء الغليل 7/ 145 ]
✿ ✿ ✿
◄ اعتراضات کا جائزہ:
اس حدیث پر کئے گئے مشہور اعتراضات کو تین قسموں میں بانٹ سکتے ہیں: ① رواۃ پر اعتراض ، ② اضطراب کا اعتراض ، ③ طریق پر اعتراض۔
◄ مختصر جوابات:
پہلا اعتراض تو انتہائی بودا ہے کیونکہ اس کے سارے رواۃ ثقہ ہیں ۔رہا دوسرا اعتراض تو یہ غلط فہمی کا نتیجہ ہے کیونکہ اضطراب والی بات سنن ابوداؤد وغیرہ کی حدیث البتہ سے متعلق ہے نہ کہ مسند احمد والی مذکورہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ سے متعلق ، رہا تیسرا اعتراض تو وہ یہ ہے کہ یہ حدیث « داؤد بن الحصين عن عكرمة» کے طریق سے ہیں اور داؤد جب عکرمہ سے روایت کرتے ہیں تو ان کی روایت منکر ہوتی جیساکہ کئی ایک محدث نے کہا ہے۔
عرض ہے کہ اس اعتراض سے اچھے خاصے لوگ دھوکہ میں پڑ گئے ہیں اس لئے اس کے تعلق سے کچھ وضاحتیں ضروری ہیں۔
سب سے پہلے یہ واضح رہے کہ یہ نقد صرف اور صرف امام علي بن المديني رحمه الله (المتوفى234) کا ہے ۔باقی دیگر محدثین نے اسی پر اعتماد کیا ہے ۔اب اس کے کل چار جوابات ملاحظہ فرمائیں:
➊ تطبیق :
ائمہ میں جب اختلاف ہو تو جمع و توفیق یعنی تطبیق کی صورت بھی دیکھی جاتی ہے اور یہاں یہ صورت ممکن ہے اس کا خلاصہ یہ کہ اس طریق میں جب داؤد کےتلامذہ ضعیف ہوتے ہیں تبھی نکارت ہوتی ہے لیکن جب داؤد سے ثقہ تلامذہ روایت کرتے ہیں تو نکارت نہیں ہوتی ۔امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365) نے یہی وضاحت کی ہے دیکھیں:[الكامل لابن عدي طبعة الرشد: 4/ 440]
➋ تاویل:
اس طریق میں نکارت سے مراد تفرد ہے جیساکہ متعدد ائمہ نے صراحت کی ہے کہ تفرد پر بھی نکارت کا اطلاق کیا جاتا ہے ۔لیکن عکرمہ سے داؤد بن الحصین کو خاص ملازمت و تلمذ حاصل ہے بلکہ عکرمہ اخیر حیات میں داؤد بن الحصین کے یہاں ہی مقیم تھے اور وہیں ان کی وفات ہوئی اس لئے ظاہر ہے کہ عکرمہ سے یہ ایسی باتیں بیان کرسکتے ہیں جو دیگر حضرات کے علم میں نہ آسکیں ۔علامہ نے ندودی رحمہ اللہ یہ جواب بڑی تفصیل سے رقم فرمایا ہے دیکھیں: [تنویر الآفاق ص: 471تا479]
➌ ترجیح:
ابن المدینی رحمہ اللہ کے برعکس دیگر ناقدین اور ماہرین علل، ائمہ نے اس طریق کو صحیح قراردیا ہے جیساکہ حدیث مذکور کے مصححین میں بعض نام دیکھے جاسکتے ہیں ۔علاوہ ازیں یہ حدیث جس طریق سے مروی ہے عین اسی طریق سے یعنی {إبراهيم بن سعد الزهري عن ابن إسحاق، قال: حدثني داود بن الحصين، عن عكرمة، عن ابن عباس} کی سند سے امام احمد بن حبنل رحمہ اللہ نے وہ حدیث بھی روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا کو ان کے شوہر ابوالعاص رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے بعد ان کے پاس بھیج دیا اور قدیم نکاح ہی کو باقی رکھا نئے سرے سے نکاح نہیں پڑھايا ۔[مسند أحمد ط الرسالة 4/ 195 رقم 2366]
اس حدیث کے بارے میں امام عبداللہ کہتے ہیں کے ان کے والد امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:
والحديث الصحيح الذي روي أن النبي صلى الله عليه وسلم أقرهما على النكاح الأول
اس سلسلے میں جو صحیح حدیث مروی ہے وہ یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں (زینب اور ابوالعاص رضی اللہ عنہما) کو پہلے نکاح پر باقی رکھا۔[مسند أحمد ط الميمنية: 2/ 207]
معلوم ہوا کہ امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک یہ سند بالکل صحیح ہے ، اس کے رجال یا ”داؤد عن عکرمہ“ کے طریق پر کوئی بھی اعتراض درست نہیں ہے۔
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے بهي امام احمد رحمہ کی طرح مذکورہ حدیث زینب کے بارے میں کہا:
والصواب حديث ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم ردها بالنكاح الأول
صحیح ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسم نے اپنی بیٹی زینب کو ان کے شوہر کے پاس پہلے نکاح پر ہی بھیج دیا ۔[سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 4/ 374]
معلوم ہوا کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ جیسے ماہر علل کے نزدیک بھی یہ طریق بالکل صحیح ہے ، یہی موقف اور بھی کئی محدثین کا ہے اس لئے اس طریق پر امام ابن المدینی کا کلام مرجوح ہے۔
➍ تردید:
امام ابن المدینی نے اپنے کلام کی بنیاد ایسی بات پر رکھی ہے جو جرح کو مستلزم نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اپنی جرح کے بعد کہا ہے:
ومالك روى عن داود بن حصين، عن غير عكرمة.( یعنی امام مالک نے داؤد بن حصین عن عکرمہ کے طریق سے روایت نہیں لی ہے)[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 3/ 409]
لیکن یہ بات درست نہیں ہے اور حقیقت یہ ہے کہ خود امام مالک نے اسی طریق سے موطا میں ایک مقام پر روایت لی ہے لیکن عکرمہ کو مبہم بنادیا ہے ۔دیکھیں:[موطأ مالك ت عبد الباقي: 1/ 11]
اور یہ امام مالک کا طرزعمل تھا کہ وہ جس راوی کو پسند نہیں کرتے تھے اسے ساقط کردیتے تھے یا مبہم بنادیتے تھے اور اہل علم نے وضاحت کی ہے کہ امام مالک عکرمہ کو بعض لوگوں کے کلام (جو کہ بے بنیاد تھا )کے سبب پسند نہیں کرتے تھے[الاستذكار 1/ 64]
اس لئے ایک مقام پر اسے مبہم بنادیا جبکہ ایک دوسرے مقام پر اسے ساقط کردیا [موطأ مالك ت عبد الباقي: 1/ 287]
معلوم ہوا کہ امام مالک کو اصل مسئلہ عکرمہ سے تھا وہ انہیں ناپسند تھے لیکن اس ناپسندیدگی کے باجود وہ ان کے نزدیک ضعیف نہیں تھے کیونکہ انہوں نے خود ان کی روایت پر اعتماد کیا ہے ۔بلکہ ایک مقام پر عکرمہ کا نام بھی لیا کیونکہ وہاں احتمال تھا کہ یہ عکرمہ کا قول بھی ہوسکتا ہے اورایسا ہونے کی صورت میں اصل قائل ساقط نہ ہو اس لئے ان کا نام صراحتا ذکرکیا ہے ۔[موطأ مالك ت عبد الباقي: 1/ 384]
امام مالک کے منہج سے صاف ظاہر ہے کہ وہ عکرمہ کو ناپسند کرتے تھے سند سے ان کو گرادیتے تھے یا انہیں مبہم بنادیتے تھے اور ایک مقام پر ضرورتا ان کا نام لیا ۔
اس پوری صورت حال کو سامنے نہ رکھا جائے تو یقینا منظر یہی سامنے آتا ہے کہ امام مالک عکرمہ کا قول بھی درج کررہے اورداؤد کی روایت بھی لے رہے ہیں لیکن (داؤد عن عکرمہ) کے طریق سے روایت نہیں لارہے ہیں ۔جس سے امام مالک کی نظر میں یہ طریق ہی مشتبہ ٹہرتا ہے ۔ لیکن ماقبل ہم واضح کرچکے ہیں امام مالک نے اس طریق سے بھی رویات لی ہے لیکن عکرمہ کو روپوش کردیا ہے ۔ لہٰذا امام مالک کی نظر میں یہ طریق منکر ثابت نہیں ہوتا لہٰذا اس کی بنیاد پر امام ابن المدینی کا نتیجہ بھی قابل قبول نہیں بلکہ قابل رد ہوگا ۔
نیز یہ بھی کہا گیا ہے کہ امام مالک نے عکرمہ سے متعلق بعد میں اپنے خیالات بدل دئے تھے اور ان سے روایت شروع کردی تھی ۔جیساکہ علامہ ندوی رحمہ اللہ نے تحقیق پیش کی ہے۔
✿ تنبیہ:
بعض اہل علم اس طریق پر نکارت کے اعتراض کے لئے امام ابوداؤد کا قول: أحاديثه عن عكرمة مناكير (عکرمہ سے ان کی احادیث مناکیر ہیں)(تهذيب الكمال : 8/ 381)پیش کرتے ہیں ۔
عرض ہے کہ اول توبعض کے منہج کے مطابق یہ قول ثابت ہی نہیں ۔ دوسرے یہ کہ امام ابوداؤد امام ابن المدینی کے شاگردہیں اس لئے بہت ممکن ہے انہوں نے اپنے استاذ ہی کے قول کی ترجمانی کی ہو جس کا جواب دیا جاچکا ہے۔
علاوہ بریں امام ابوداؤد کے الفاظ الگ ہیں انہوں نے داؤد کو اس طریق میں منکر الحدیث نہیں کہا ہے بلکہ اس طریق سے ان کی مرویات کو مناکیر کہا ہے اس سے فی نفسہ اس طریق پر کوئی داغ نہیں لگتا بلکہ اس کے ذمہ دار دوسرے رواۃ بھی ہوسکتے ہیں جیساکہ امام ابن عدی کے حوالے سے وضاحت گذرچکی ہے ۔اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ خود امام ابوداؤد نے اس طریق سے آنے والی بعض احادیث پر اعتماد کیا ہے جیساکہ علامہ ندوی رحمہ اللہ نے تفصیل پیش کی ہے۔
بلکہ اگر امام ابوداؤد نے ان الفاظ میں اپنے استاذ ابن المدینی ہی کے موقف کی ترجمانی کی ہے تو پھر ثابت ہوتا ہے کہ ابن المدینی رحمہ اللہ کے کلام کا بھی وہ مفاد نہیں ہے جو سمجھ لیا گیا ہے بلکہ بات صرف وہی ہے جس کی وضاحت امام ابن عدی رحمہ اللہ نے کی ہے جیساکہ اوپر پیش کیا گیا ۔
اس حدیث پرمشہور اعتراضات کا یہ انتہائی مختصر جواب ہے مکمل تفصیل ان شاء اللہ ہماری طلاق والی کتاب میں ملے گی ۔
(كفايت الله السنابلي)
✿ ✿ ✿
تحریر: کفایت اللہ سنابلی
✿ ✿ ✿
تین طلاق کا مسئلہ عہدرسالت میں بھی پیش آچکا ہے اور عدالت نبوی میں اس کا فیصلہ بھی ہوچکا ہے۔ نبوی عدالت سے بڑھ کر نہ کوئی عدالت ہے اورنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کوئی فیصلہ کرسکتاہے۔ملاحظہ فرمائيں:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حدثنا سعد بن إبراهيم ، حدثنا أبي ، عن محمد بن إسحاق ، حدثني داود بن الحصين ، عن عكرمة ، مولى ابن عباس ، عن ابن عباس ، قال : طلق ركانة بن عبد يزيد أخو بني المطلب امرأته ثلاثا في مجلس واحد ، فحزن عليها حزنا شديدا ، قال : فسأله رسول الله صلى الله عليه وسلم : «كيف طلقتها ؟» قال : طلقتها ثلاثا ، قال : فقال : «في مجلس واحد ؟ » قال : نعم قال : «فإنما تلك واحدة فأرجعها إن شئت» قال : فرجعها فكان ابن عباس : يرى أنما الطلاق عند كل طهر
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رکانہ بن عبدیزید نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے دی، پھر اس پر انہیں شدید رنج لاحق ہوا ، تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”تم نے کیسے طلاق دی ؟“ انہوں نے کہا: میں نے تین طلاق دے دی ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ سلم نے پوچھا: ”کیا ایک ہی مجلس میں ؟“ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”پھر یہ ایک ہی طلاق ہے تم چاہو تو اپنی بیوی کو واپس لے لو“ ، چنانچہ انہوں نے اپنی بیوی کو واپس لے لیا ۔ اس حدیث کی بنا پر ابن عباس رضی اللہ عنہ فتوی دیتے کہ طلاق الگ الگ طہر میں ہی معتبر ہوگی[مسند أحمد ط الميمنية: 1/ 265 رقم 2387 وإسناده صحيح ، ومن طريق أحمد أخرجه الضياء المقدسي في ”المختارة“ (11/ 363) والذهبي في ”تاريخ الإسلام“ (8/ 410 ، ت تدمري )۔وأخرجه أيضا البيهقي في ”السنن الكبرى“ ( 7/ 339،ط الهند) من طريق عبد الله بن سعد عن أبيه عن عمه إبراهيم بن سعد ۔وأخرجه أيضا أبويعلى في ”مسنده“ (4/379 ) من طريق يونس بن بكير ، وأبو نعيم في ”معرفة الصحابة“ (2/ 1113 ) من طريق يزيد بن هارون كلهم( إبراهيم بن سعدو يونس بن بكيرو يزيد بن هارون) عن ابن إسحاق به ]
✿ ✿ ✿
یہ حديث بلاتردد بالکل صحیح اور بے داغ ہے اسے درج ذيل محدثين نے صحيح قرار ديا ہے:
➊ امام أحمد بن حنبل رحمه الله (م241) [مسائل أحمد رواية أبي داود- ت طارق ص: 236، مجموع الفتاوى :33/ 73 ، 86 ]
➋ امام أبو يعلى رحمه الله (م307) [ فتح الباري 9/ 362]،
➌ أبو الحسن علي بن عبدالله اللخمي (م570)[الوثائق كما في إغاثة اللهفان 1/ 326]
➍ امام ضياء الدين المقدسي رحمه الله (م643) [ المختارة:11/ 363 ]،
➎ شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله (م728)[ مجموع الفتاوى 33/ 67]،
➏ امام ابن قيم رحمه الله (م751)[إغاثة اللهفان 1/ 287]،
➐ حافظ ابن حجر رحمه الله (م852)[ فتح الباري 9/ 362 سكت عليه وأقر تصحيح أبي يعلي]
➑ علامہ أحمد شاكر(م1377)[مسند أحمد ت شاكر 3/ 91 تحت الرقم2387]
➒ علامہ المعلمي رحمه الله (م1386)[آثار الشيخ المعلمي 17/ 604، اشار إلي صحته]
➓ علامہ البانی رحمہ اللہ(م1420)[إرواء الغليل 7/ 145 ]
✿ ✿ ✿
◄ اعتراضات کا جائزہ:
اس حدیث پر کئے گئے مشہور اعتراضات کو تین قسموں میں بانٹ سکتے ہیں: ① رواۃ پر اعتراض ، ② اضطراب کا اعتراض ، ③ طریق پر اعتراض۔
◄ مختصر جوابات:
پہلا اعتراض تو انتہائی بودا ہے کیونکہ اس کے سارے رواۃ ثقہ ہیں ۔رہا دوسرا اعتراض تو یہ غلط فہمی کا نتیجہ ہے کیونکہ اضطراب والی بات سنن ابوداؤد وغیرہ کی حدیث البتہ سے متعلق ہے نہ کہ مسند احمد والی مذکورہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ سے متعلق ، رہا تیسرا اعتراض تو وہ یہ ہے کہ یہ حدیث « داؤد بن الحصين عن عكرمة» کے طریق سے ہیں اور داؤد جب عکرمہ سے روایت کرتے ہیں تو ان کی روایت منکر ہوتی جیساکہ کئی ایک محدث نے کہا ہے۔
عرض ہے کہ اس اعتراض سے اچھے خاصے لوگ دھوکہ میں پڑ گئے ہیں اس لئے اس کے تعلق سے کچھ وضاحتیں ضروری ہیں۔
سب سے پہلے یہ واضح رہے کہ یہ نقد صرف اور صرف امام علي بن المديني رحمه الله (المتوفى234) کا ہے ۔باقی دیگر محدثین نے اسی پر اعتماد کیا ہے ۔اب اس کے کل چار جوابات ملاحظہ فرمائیں:
➊ تطبیق :
ائمہ میں جب اختلاف ہو تو جمع و توفیق یعنی تطبیق کی صورت بھی دیکھی جاتی ہے اور یہاں یہ صورت ممکن ہے اس کا خلاصہ یہ کہ اس طریق میں جب داؤد کےتلامذہ ضعیف ہوتے ہیں تبھی نکارت ہوتی ہے لیکن جب داؤد سے ثقہ تلامذہ روایت کرتے ہیں تو نکارت نہیں ہوتی ۔امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365) نے یہی وضاحت کی ہے دیکھیں:[الكامل لابن عدي طبعة الرشد: 4/ 440]
➋ تاویل:
اس طریق میں نکارت سے مراد تفرد ہے جیساکہ متعدد ائمہ نے صراحت کی ہے کہ تفرد پر بھی نکارت کا اطلاق کیا جاتا ہے ۔لیکن عکرمہ سے داؤد بن الحصین کو خاص ملازمت و تلمذ حاصل ہے بلکہ عکرمہ اخیر حیات میں داؤد بن الحصین کے یہاں ہی مقیم تھے اور وہیں ان کی وفات ہوئی اس لئے ظاہر ہے کہ عکرمہ سے یہ ایسی باتیں بیان کرسکتے ہیں جو دیگر حضرات کے علم میں نہ آسکیں ۔علامہ نے ندودی رحمہ اللہ یہ جواب بڑی تفصیل سے رقم فرمایا ہے دیکھیں: [تنویر الآفاق ص: 471تا479]
➌ ترجیح:
ابن المدینی رحمہ اللہ کے برعکس دیگر ناقدین اور ماہرین علل، ائمہ نے اس طریق کو صحیح قراردیا ہے جیساکہ حدیث مذکور کے مصححین میں بعض نام دیکھے جاسکتے ہیں ۔علاوہ ازیں یہ حدیث جس طریق سے مروی ہے عین اسی طریق سے یعنی {إبراهيم بن سعد الزهري عن ابن إسحاق، قال: حدثني داود بن الحصين، عن عكرمة، عن ابن عباس} کی سند سے امام احمد بن حبنل رحمہ اللہ نے وہ حدیث بھی روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا کو ان کے شوہر ابوالعاص رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے بعد ان کے پاس بھیج دیا اور قدیم نکاح ہی کو باقی رکھا نئے سرے سے نکاح نہیں پڑھايا ۔[مسند أحمد ط الرسالة 4/ 195 رقم 2366]
اس حدیث کے بارے میں امام عبداللہ کہتے ہیں کے ان کے والد امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:
والحديث الصحيح الذي روي أن النبي صلى الله عليه وسلم أقرهما على النكاح الأول
اس سلسلے میں جو صحیح حدیث مروی ہے وہ یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں (زینب اور ابوالعاص رضی اللہ عنہما) کو پہلے نکاح پر باقی رکھا۔[مسند أحمد ط الميمنية: 2/ 207]
معلوم ہوا کہ امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک یہ سند بالکل صحیح ہے ، اس کے رجال یا ”داؤد عن عکرمہ“ کے طریق پر کوئی بھی اعتراض درست نہیں ہے۔
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے بهي امام احمد رحمہ کی طرح مذکورہ حدیث زینب کے بارے میں کہا:
والصواب حديث ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم ردها بالنكاح الأول
صحیح ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسم نے اپنی بیٹی زینب کو ان کے شوہر کے پاس پہلے نکاح پر ہی بھیج دیا ۔[سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 4/ 374]
معلوم ہوا کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ جیسے ماہر علل کے نزدیک بھی یہ طریق بالکل صحیح ہے ، یہی موقف اور بھی کئی محدثین کا ہے اس لئے اس طریق پر امام ابن المدینی کا کلام مرجوح ہے۔
➍ تردید:
امام ابن المدینی نے اپنے کلام کی بنیاد ایسی بات پر رکھی ہے جو جرح کو مستلزم نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اپنی جرح کے بعد کہا ہے:
ومالك روى عن داود بن حصين، عن غير عكرمة.( یعنی امام مالک نے داؤد بن حصین عن عکرمہ کے طریق سے روایت نہیں لی ہے)[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 3/ 409]
لیکن یہ بات درست نہیں ہے اور حقیقت یہ ہے کہ خود امام مالک نے اسی طریق سے موطا میں ایک مقام پر روایت لی ہے لیکن عکرمہ کو مبہم بنادیا ہے ۔دیکھیں:[موطأ مالك ت عبد الباقي: 1/ 11]
اور یہ امام مالک کا طرزعمل تھا کہ وہ جس راوی کو پسند نہیں کرتے تھے اسے ساقط کردیتے تھے یا مبہم بنادیتے تھے اور اہل علم نے وضاحت کی ہے کہ امام مالک عکرمہ کو بعض لوگوں کے کلام (جو کہ بے بنیاد تھا )کے سبب پسند نہیں کرتے تھے[الاستذكار 1/ 64]
اس لئے ایک مقام پر اسے مبہم بنادیا جبکہ ایک دوسرے مقام پر اسے ساقط کردیا [موطأ مالك ت عبد الباقي: 1/ 287]
معلوم ہوا کہ امام مالک کو اصل مسئلہ عکرمہ سے تھا وہ انہیں ناپسند تھے لیکن اس ناپسندیدگی کے باجود وہ ان کے نزدیک ضعیف نہیں تھے کیونکہ انہوں نے خود ان کی روایت پر اعتماد کیا ہے ۔بلکہ ایک مقام پر عکرمہ کا نام بھی لیا کیونکہ وہاں احتمال تھا کہ یہ عکرمہ کا قول بھی ہوسکتا ہے اورایسا ہونے کی صورت میں اصل قائل ساقط نہ ہو اس لئے ان کا نام صراحتا ذکرکیا ہے ۔[موطأ مالك ت عبد الباقي: 1/ 384]
امام مالک کے منہج سے صاف ظاہر ہے کہ وہ عکرمہ کو ناپسند کرتے تھے سند سے ان کو گرادیتے تھے یا انہیں مبہم بنادیتے تھے اور ایک مقام پر ضرورتا ان کا نام لیا ۔
اس پوری صورت حال کو سامنے نہ رکھا جائے تو یقینا منظر یہی سامنے آتا ہے کہ امام مالک عکرمہ کا قول بھی درج کررہے اورداؤد کی روایت بھی لے رہے ہیں لیکن (داؤد عن عکرمہ) کے طریق سے روایت نہیں لارہے ہیں ۔جس سے امام مالک کی نظر میں یہ طریق ہی مشتبہ ٹہرتا ہے ۔ لیکن ماقبل ہم واضح کرچکے ہیں امام مالک نے اس طریق سے بھی رویات لی ہے لیکن عکرمہ کو روپوش کردیا ہے ۔ لہٰذا امام مالک کی نظر میں یہ طریق منکر ثابت نہیں ہوتا لہٰذا اس کی بنیاد پر امام ابن المدینی کا نتیجہ بھی قابل قبول نہیں بلکہ قابل رد ہوگا ۔
نیز یہ بھی کہا گیا ہے کہ امام مالک نے عکرمہ سے متعلق بعد میں اپنے خیالات بدل دئے تھے اور ان سے روایت شروع کردی تھی ۔جیساکہ علامہ ندوی رحمہ اللہ نے تحقیق پیش کی ہے۔
✿ تنبیہ:
بعض اہل علم اس طریق پر نکارت کے اعتراض کے لئے امام ابوداؤد کا قول: أحاديثه عن عكرمة مناكير (عکرمہ سے ان کی احادیث مناکیر ہیں)(تهذيب الكمال : 8/ 381)پیش کرتے ہیں ۔
عرض ہے کہ اول توبعض کے منہج کے مطابق یہ قول ثابت ہی نہیں ۔ دوسرے یہ کہ امام ابوداؤد امام ابن المدینی کے شاگردہیں اس لئے بہت ممکن ہے انہوں نے اپنے استاذ ہی کے قول کی ترجمانی کی ہو جس کا جواب دیا جاچکا ہے۔
علاوہ بریں امام ابوداؤد کے الفاظ الگ ہیں انہوں نے داؤد کو اس طریق میں منکر الحدیث نہیں کہا ہے بلکہ اس طریق سے ان کی مرویات کو مناکیر کہا ہے اس سے فی نفسہ اس طریق پر کوئی داغ نہیں لگتا بلکہ اس کے ذمہ دار دوسرے رواۃ بھی ہوسکتے ہیں جیساکہ امام ابن عدی کے حوالے سے وضاحت گذرچکی ہے ۔اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ خود امام ابوداؤد نے اس طریق سے آنے والی بعض احادیث پر اعتماد کیا ہے جیساکہ علامہ ندوی رحمہ اللہ نے تفصیل پیش کی ہے۔
بلکہ اگر امام ابوداؤد نے ان الفاظ میں اپنے استاذ ابن المدینی ہی کے موقف کی ترجمانی کی ہے تو پھر ثابت ہوتا ہے کہ ابن المدینی رحمہ اللہ کے کلام کا بھی وہ مفاد نہیں ہے جو سمجھ لیا گیا ہے بلکہ بات صرف وہی ہے جس کی وضاحت امام ابن عدی رحمہ اللہ نے کی ہے جیساکہ اوپر پیش کیا گیا ۔
اس حدیث پرمشہور اعتراضات کا یہ انتہائی مختصر جواب ہے مکمل تفصیل ان شاء اللہ ہماری طلاق والی کتاب میں ملے گی ۔
(كفايت الله السنابلي)