Muhammad raza
New member
علامہ البانی عصر حاضر کے مشہور محدث ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک انسان بھی ہیں لہذا ان سے "صفۃ صلاۃ النبی "نامی ایک کتاب لکھنے میں چند ایک ٹیکنیکی غلطیاں ہوئیں ہیں جن کی نشاندہی بہت ضروری ہے


نماز میں سورہ فاتحہ سے پہلے تعوذ (اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ) اور تسمیہ (بسم اللہ الرحمن الرحیم) پڑھنا بدعت ہے
نماز میں سورہ فاتحہ سے پہلے اعوذ باللہ یا بسم اللہ(آہستہ آواز میں بھی) پڑھنا سنت سے ثابت نہیں ہے کیونکہ بخاری اور مسلم،نسائی ترمذی ابوداؤد نے تواتر کے ساتھ روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر۔اولی اور سورہ فاتحہ کے درمیان دعائے استفتاح کے علاوہ اور کچھ نہیں پڑھتے تھے۔
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے اللہ کے رسول آپ تکبیر اور سورۃ فاتحہ کے درمیان کیا پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا، اللھم باعد بینی وبین خطایای ... (یعنی دعا استفتاح) ۔متفق علیہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يسكت بَين التَّكْبِير وَبَين الْقِرَاءَة إسكاتة قَالَ أَحْسبهُ قَالَ هنيَّة فَقلت بِأبي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ إِسْكَاتُكَ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَة مَا تَقُولُ قَالَ: «أَقُولُ اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنَ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ والثلج وَالْبرد»
روارہ بخاری ،مسلم، ترمذی ابو داؤد، نسائی
جبکہ ابو داؤد کی ایک حدیث سے ہمیں تعوذ سے ملتی جلتی ایک عبارت ملتی ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ مُطَهَّرٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَلِيٍّ الرِّفَاعِيِّ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ النَّاجِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ كَبَّرَ ثُمَّ يَقُولُ " سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلاَ إِلَهَ غَيْرُكَ " . ثُمَّ يَقُولُ " لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ " . ثَلاَثًا ثُمَّ يَقُولُ " اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا " . ثَلاَثًا " أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ" . ثُمَّ يَقْرَأُ . قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَهَذَا الْحَدِيثُ يَقُولُونَ هُوَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَلِيٍّ عَنِ الْحَسَنِ مُرْسَلاً الْوَهَمُ مِنْ جَعْفَرٍ .
لیکن امام ابو داود اور ترمذی دونوں نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحت کے اعتبار سے صحیح نہیں بلکہ حسن ہے
تنبیہ ۔چند ایک روایت میں تسمیہ اونچی آواز میں اور آہستہ آواز میں پڑھنا موجود ہے لیکن یہ روایات معتبر و متواتر احادیث کے خلاف ہیں، جو لوگ کہتے ہیں رسول اللہ سے اونچی آواز میں تسمیہ پڑھنا ثابت نہیں ان کے پاس آہستہ آواز میں پڑھنے کا بھی کوئی ثبوت موجود نہیں ہے بلکہ صحیح حدیث سے بہت واضح ہے رسول اللہ سورۃ فاتحہ سے پہلے آہستہ آواز سے صرف دعا استفتاح پڑھتے تھے۔
لہٰذا کسی بھی صحیح حدیث سے نماز میں سورہ فاتحہ سے پہلے نہ توں تعوذ اور نہ ہی اونچی یا آہستہ آواز میں کہی تسمیہ کا ذکر ملتا ہے ۔
Search Results - Search Results - Bokhari أَقُولُ اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَاىَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنْ خَطَايَاىَ كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ اللَّهُمَّ اغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَاىَ بِالثَّلْجِ وَالْمَاءِ وَالْبَرَدِ (page 1) - Sunnah.com - Sayings and Teachings of Prophet Muhammad (صلى الله عليه و سلم)
Hadith of the Prophet Muhammad (saws) in English and Arabic
sunnah.com



تشہد کے بعد درود ابراہیمی پڑھنا بدعت
نماز میں تشہد کے بعد درود ابراہیمی سنت سے ثابت نہیں ، بخاری مسلم، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، ... کی احادیث کے مطابق تشہد کے بعد براہ راست دعا مانگنی چاہئے۔
نماز میں درود شریف پڑھنا بہت سی احادیث سے ثابت ہے
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کی حمد و ثنا اور درود شریف کو عملی طور پر نماز میں کیسے پڑھنا چاہیے۔
تو دلائل بہت واضح ہیں کہ رسول اللہ اور صحابہ کرام سے نماز میں عملی طور پر اللہ کی حمد و ثنا اور درود پڑھنا مندرجہ ذیل طریقے سےثابت ہے
مندرجہ بالا حدیث میں اللہ کی حمد و ثناء(التحیات للہ وصلوات وطیبات) اور درودشریف ( السلام علیک ایها النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ..) کا ذکر موجود ہے۔اور اسے تشہد کہتے ہیں
لہذا سلف سے نماز میں اللہ کی حمد و ثنا اور درود شریف پڑھنے کا صرف یہی ایک طریقہ ثابت ہے ۔
لوگ مندرجہ ذیل حدیث کا مفہوم غلط سمجھتے ہیں اور بھول جاتے ہیں۔
اس حدیث میں ہمیں کہیں بھی دو مرتبہ اللہ کی حمد اور درود پڑھنے کی تلقین نہیں کی جا رہی بلکہ اللہ کی حمد و ثناء اور درود شریف تشہد کے اندر ہی موجود ہے لہذا تشہد کے بعد درود ابراہیمی یا کوئی اور درود پڑھنا سنت سے ثابت نہیں
علامہ البانی کا یہ فتویٰ کہ تشہد کے بعد درود ابراہیمی فرض ہے، بے بنیاد ہے، ورنہ امام بخاری ،مسلم،ترمذی اور ابوداؤد رحمہ اللہ کی زندگی بھر کی نمازیں باطل ہیں کیونکہ انہوں نے تشہد کے بعد دعا کے علاوہ کچھ نہیں پڑھا۔
FOOTNOTE
معتبر و متواتر احادیث سے تشہد اور دعا کے درمیان درود کا ذکر کہی نہیں ملتا ہے، دلائل ملاحظہ فرمائیں
Search Results - Search Results - التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ ورسولہ (page 1) - Sunnah.com - Sayings and Teachings of Prophet Muhammad (صلى الله عليه و سلم)
Hadith of the Prophet Muhammad (saws) in English and Arabic
sunnah.com

وضو کے دوران کانوں کا مسح
بخاری و مسلم اور دوسری کئی کتب احادیث میں دوران وضو کانوں کا مسح کرنا ثابت نہیں
رہی بات ابوداؤد کی ایک روایت کی تو اس میں کانوں پر مسح صحیح سند کے ساتھ جبکہ کے کانوں کے سوراخوں کا مسح حسن سند کے ساتھ موجود ہے ۔
لیکن کانوں کے مسح والی یہ روایت یا تو شاذ ہے یا پھر ضعیف ہے
کیونکہ یہ رسول اللہ اور صحابہ کے تواتر عمل کے خلاف ہے، صرف بخاری مسلم میں ہی وضو کا طریقہ راویت کرنے والے سینکڑوں سقہ راوی ہیں لیکن کانوں کا مسح کرنا کسی سے بھی منقول نہیں۔
Namaz E Nabwi By Nasir Ud Din Albani : Free Download, Borrow, and Streaming : Internet Archive
Namaz e Nabwi By Nasir Ud Din Albaniنماز نبویمولانا ناصر الدین البانیfor more ebooks visit ebooks.i360.pk
archive.org



نماز میں سورہ فاتحہ سے پہلے اعوذ باللہ یا بسم اللہ(آہستہ آواز میں بھی) پڑھنا سنت سے ثابت نہیں ہے کیونکہ بخاری اور مسلم،نسائی ترمذی ابوداؤد نے تواتر کے ساتھ روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر۔اولی اور سورہ فاتحہ کے درمیان دعائے استفتاح کے علاوہ اور کچھ نہیں پڑھتے تھے۔
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے اللہ کے رسول آپ تکبیر اور سورۃ فاتحہ کے درمیان کیا پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا، اللھم باعد بینی وبین خطایای ... (یعنی دعا استفتاح) ۔متفق علیہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يسكت بَين التَّكْبِير وَبَين الْقِرَاءَة إسكاتة قَالَ أَحْسبهُ قَالَ هنيَّة فَقلت بِأبي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ إِسْكَاتُكَ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَة مَا تَقُولُ قَالَ: «أَقُولُ اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنَ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ والثلج وَالْبرد»
روارہ بخاری ،مسلم، ترمذی ابو داؤد، نسائی
جبکہ ابو داؤد کی ایک حدیث سے ہمیں تعوذ سے ملتی جلتی ایک عبارت ملتی ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ مُطَهَّرٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَلِيٍّ الرِّفَاعِيِّ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ النَّاجِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ كَبَّرَ ثُمَّ يَقُولُ " سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلاَ إِلَهَ غَيْرُكَ " . ثُمَّ يَقُولُ " لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ " . ثَلاَثًا ثُمَّ يَقُولُ " اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا " . ثَلاَثًا " أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ" . ثُمَّ يَقْرَأُ . قَالَ أَبُو دَاوُدَ وَهَذَا الْحَدِيثُ يَقُولُونَ هُوَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَلِيٍّ عَنِ الْحَسَنِ مُرْسَلاً الْوَهَمُ مِنْ جَعْفَرٍ .
لیکن امام ابو داود اور ترمذی دونوں نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحت کے اعتبار سے صحیح نہیں بلکہ حسن ہے
تنبیہ ۔چند ایک روایت میں تسمیہ اونچی آواز میں اور آہستہ آواز میں پڑھنا موجود ہے لیکن یہ روایات معتبر و متواتر احادیث کے خلاف ہیں، جو لوگ کہتے ہیں رسول اللہ سے اونچی آواز میں تسمیہ پڑھنا ثابت نہیں ان کے پاس آہستہ آواز میں پڑھنے کا بھی کوئی ثبوت موجود نہیں ہے بلکہ صحیح حدیث سے بہت واضح ہے رسول اللہ سورۃ فاتحہ سے پہلے آہستہ آواز سے صرف دعا استفتاح پڑھتے تھے۔
لہٰذا کسی بھی صحیح حدیث سے نماز میں سورہ فاتحہ سے پہلے نہ توں تعوذ اور نہ ہی اونچی یا آہستہ آواز میں کہی تسمیہ کا ذکر ملتا ہے ۔
- واضح رہے کہ جو لوگ ابوداؤد یا ترمذی کی ایک حدیث کی مثال دیتے ہیں کہ اس میں تعوذ کا ذکر ہے تو وہ خوبخو ان الفاظ کے ساتھ "اعوذ باللہ من شیطان الرجیم" نہیں ہے بلکہ کچھ اور طرح ہے جو کہ مندرجہ بالا حدیث میں مذکور ہے۔اور دوسری بات کی یہ حدیث ایک مکمل دعائے استفتاح ہے اس کے اندر ہی تعوذ سے ملتی جلتی عبارت ہے نہ کہ اس کے بعد، اور یہ حدیث سند کے اعتبار سے بھی صحیح نہیں بلکہ حسن ہے ،
- لہذا دعائے استفتاح اور سورۃ فاتحہ کے درمیان تعوذ اور تسمیہ مستند نہیں

Search Results - Search Results - Bokhari أَقُولُ اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَاىَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنْ خَطَايَاىَ كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ اللَّهُمَّ اغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَاىَ بِالثَّلْجِ وَالْمَاءِ وَالْبَرَدِ (page 1) - Sunnah.com - Sayings and Teachings of Prophet Muhammad (صلى الله عليه و سلم)
Hadith of the Prophet Muhammad (saws) in English and Arabic





نماز میں تشہد کے بعد درود ابراہیمی سنت سے ثابت نہیں ، بخاری مسلم، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، ... کی احادیث کے مطابق تشہد کے بعد براہ راست دعا مانگنی چاہئے۔
نماز میں درود شریف پڑھنا بہت سی احادیث سے ثابت ہے
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کی حمد و ثنا اور درود شریف کو عملی طور پر نماز میں کیسے پڑھنا چاہیے۔
تو دلائل بہت واضح ہیں کہ رسول اللہ اور صحابہ کرام سے نماز میں عملی طور پر اللہ کی حمد و ثنا اور درود پڑھنا مندرجہ ذیل طریقے سےثابت ہے
مندرجہ بالا حدیث میں اللہ کی حمد و ثناء(التحیات للہ وصلوات وطیبات) اور درودشریف ( السلام علیک ایها النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ..) کا ذکر موجود ہے۔اور اسے تشہد کہتے ہیں
لہذا سلف سے نماز میں اللہ کی حمد و ثنا اور درود شریف پڑھنے کا صرف یہی ایک طریقہ ثابت ہے ۔
لوگ مندرجہ ذیل حدیث کا مفہوم غلط سمجھتے ہیں اور بھول جاتے ہیں۔
اس حدیث میں ہمیں کہیں بھی دو مرتبہ اللہ کی حمد اور درود پڑھنے کی تلقین نہیں کی جا رہی بلکہ اللہ کی حمد و ثناء اور درود شریف تشہد کے اندر ہی موجود ہے لہذا تشہد کے بعد درود ابراہیمی یا کوئی اور درود پڑھنا سنت سے ثابت نہیں
علامہ البانی کا یہ فتویٰ کہ تشہد کے بعد درود ابراہیمی فرض ہے، بے بنیاد ہے، ورنہ امام بخاری ،مسلم،ترمذی اور ابوداؤد رحمہ اللہ کی زندگی بھر کی نمازیں باطل ہیں کیونکہ انہوں نے تشہد کے بعد دعا کے علاوہ کچھ نہیں پڑھا۔
FOOTNOTE
معتبر و متواتر احادیث سے تشہد اور دعا کے درمیان درود کا ذکر کہی نہیں ملتا ہے، دلائل ملاحظہ فرمائیں

Search Results - Search Results - التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ ورسولہ (page 1) - Sunnah.com - Sayings and Teachings of Prophet Muhammad (صلى الله عليه و سلم)
Hadith of the Prophet Muhammad (saws) in English and Arabic

sunnah.com



بخاری و مسلم اور دوسری کئی کتب احادیث میں دوران وضو کانوں کا مسح کرنا ثابت نہیں
رہی بات ابوداؤد کی ایک روایت کی تو اس میں کانوں پر مسح صحیح سند کے ساتھ جبکہ کے کانوں کے سوراخوں کا مسح حسن سند کے ساتھ موجود ہے ۔
لیکن کانوں کے مسح والی یہ روایت یا تو شاذ ہے یا پھر ضعیف ہے
کیونکہ یہ رسول اللہ اور صحابہ کے تواتر عمل کے خلاف ہے، صرف بخاری مسلم میں ہی وضو کا طریقہ راویت کرنے والے سینکڑوں سقہ راوی ہیں لیکن کانوں کا مسح کرنا کسی سے بھی منقول نہیں۔
Last edited: