سيدنا حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے امتیازات
تحریر : افروز عالم ذکراللہ سلفی،گلری،ممبئی(قسط نمبر: 16/ جاری)
(24) سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا دور حکومت اہل اسلام کے لیے سراپا فتح وظفر کا دور
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ بارہ سال 23/ تا 35/ہجری کے عرصہ پر شامل ہے، اس دوران اسلام دور دور تک پھیلا ،باوجود اس کے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اسلام بڑی قوت اور تیزی کے ساتھ چاروں طرف پھیل رہا تھا اور بقول علامہ اقبال رحمہ اللہ:
"تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا"
تاہم سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو خوش قسمتی سے ایسے سپہ سالار میسر آئے جن کی جنگی فہم و فراست بڑی معروف تھی ،ولید بن عقبہ،سعید بن العاص،عبداللہ بن عامر ،عبداللہ بن سعد بن ابی سرح،اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہم ان کے مشہور سپہ سالار تھے۔
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں
سن 27-28 ہجری کی اہم فتوحات:-
سن 27/ ہجری میں عبداللہ بن ابی سرح کی قیادت میں لیبیا،تیونس،الجزائر،اور دیگر بہت سے قلع فتح ہوئے،اسی طرح مصر سے لے کر مراکش تک اسلامی سلطنت کا جھنڈا لہرانے لگا۔
سن 28/ہجری میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ افریقہ کی فتح کی بشارت لے کر آئے،عبداللہ بن ابی سرح نے ان کو بھیجا وہ اپنی سواری پر سوار ہوکر بیس رات میں افریقہ سے مدینہ منورہ پہونچے۔(235)
اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو دشمنوں سے مڈبھیڑ کی خبر دی، تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان کے قول سے تعجب کیا اور کہا کہ کیا آپ اس بات کی طاقت رکھتے ہیں کہ تمام لوگوں کو اس بات کی خوشخبری سنائیں، تو آپ نے کہا ہاں ،حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ کا ہاتھ پکڑ کر منبر تک لے گئے اور بتلایا کہ جو بات ہم سے آپ نے بیان کی ہے اس کو سب کے سامنے بیان کردیجئے،حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے سامنے اپنی بات رکھی۔(236)
قبرص کی جنگ: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے قبرص میں جنگ کی،(237)
آپ کے ساتھ ام حرام بنت ملحان انصاریہ رضی اللہ عنہا تھیں (238) ام حرام بنت ملحان حضرت انس بن مالک الانصاری رضی اللہ عنہ کی خالہ تھیں،اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لے جاتے،ان کے پاس قیلولہ کرتے وہ آپ کی عزت کرتی تھیں،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں خبر دی تھی کہ وہ شہیدہ ہیں ،
جو حضرت عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ(239) کی بیوی تھیں، اس غزوہ میں ساتھ ہی تھیں، اور وفات پاگئیں اور وہیں مدفون ہوئیں، اہل قبرص ان کے قبر کو بطور شفا سمجھتے اور اس کا نام نیک عورت کی قبر رکھ دیا تھا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا تھا کہ ان کی امت بحری جنگ کرے گی تو ام حرام نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہمارے لیے اللہ تعالٰی سے دعا کر دیجئے کہ ہمیں بھی اللہ تعالیٰ ان میں بنادے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : تم سابقین اولین میں سے ہو ، وہ اپنی سواری سے گر کر وفات پا گئیں اور شہادت کی موت سے سرفراز ہوئیں، جزیرہ قبرص کے مسلمانوں نے ان قربانیوں کا ایک نشان چھوڑا جو انھوں نے دین کی نشر و اشاعت کے لئے پیش کیا۔(240)
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جبرا کسی کو اس مہم میں شامل نہیں کیا بلکہ لوگوں نے برضا و رغبت اپنی طرف سے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،اور ایک بہت بڑی فوج آپ کے ساتھ اس مہم کو سر کرنے کے لیے روانہ ہوئی۔(241)
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمانوں کی نگاہ میں دنیا کی کوئی حیثیت نہ تھی،باوجود اس کے کہ دنیا کے دروازے ان پر کھل چکے تھے،دنیا کی نعمتیں ان کو دستیاب تھیں،لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس کو کوئی اہمیت نہ دی۔
مسلمانوں کی تربیت ہی اس سوچ پر ہوتی تھی کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والا ہے،اللہ تعالیٰ نے انہیں نصرت دین،اقامت عدل ،فضائل و مکارم کی نشر واشاعت اور اللہ کے دین کو تمام ادیان پر غالب کرنے کے لیے منتخب فرمایا ہے،ان کی یہ سوچ تھی کہ یہ فریضہ ان کا حقیقی مشن ہے،فی سبیل اللہ لڑائی کرنا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے،اگر ہم نے اس ذمہ داری و فریضے میں کوتاہی اور کمی اور اس فرض منصبی کی ادائیگی سے رک گئے تو اللہ تعالیٰ اپنی مدد ان سے دنیا میں روک لے گا اور آخرت میں اپنی رحمت ورضا سے ان کو محروم کردے گا اور یہ بہت بڑا خسران و گھاٹا ہوگا،اسی بنا پر وہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بے تابی سے نکل پڑے اور کشتیوں پر سوار ہونے میں ایک دوسرے سے سبقت کرنے لگے ،شاید ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کی حدیث ان کے ذہن و دماغ میں گھر کر گئی تھی،جس نے انھیں اللہ رب العالمین کی راہ میں لڑائی کرنے کے لیے ابھارا،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صادق ومصدوق کی حدیث سچ ثابت ہوئی ،یہ واقعہ موسم سرما کے اختتام کے بعد 28/ہجری بمطابق 649/ ء میں پیش آیا۔۔(242)
قبرص والے قلعہ بند ہوگئے، مسلمانوں سے مقابلے کے لیے نہ نکلے،بلکہ رومیوں کے انتظار میں رہے،تاکہ وہ ان کے دفاع کے لیے پہونچیں اور مسلمانوں کے حملوں کو روکیں۔۔(243)
مسلمانوں نے ان کا محاصرۃ کیا تو وہ لوگ صلح کا مطالبہ کرنے لگے اور اپنے آپ کو مسلمانوں کے سپرد کر دیا،مسلمان واپس شام پہونچ گئے ،اس حملے نے یہ ثابت کردیا کہ مسلمان بھی بحری جنگ کی اچھی طرح طاقت رکھتے ہیں،اس مہم سے مسلمانوں کو ایک طرح سے بحری جنگوں کی مشق کا موقع ملا تاکہ وہ شام و اسکندریہ پر حملہ کی صورت میں رومی دشمن کا بھرپور مقابلہ کرسکیں۔(244)
جزیرۃ قبرص کو موجودہ دور میں جزیرۃ "سائپرس " کے نام سے جانا جاتا ہے۔(245)
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں سن29/ ہجری کی اہم فتوحات :-
29/ہجری میں عراق کے اندر جرف کو فتح کیا،اسی سال حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر طعن کیا گیا اور ان کے ساتھ بدعہدی کی گئی۔(246)
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں
سن 30/ ہجری کے اہم فتوحات:-
تیس ہجری کو کوفہ کے گورنر عظیم جرنیل حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں طبرستان فتح ہوا،اس لشکر میں حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ ،حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ،حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ ،حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ،اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ،جیسے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین موجود تھے،اسی تیس ہجری میں ہی خراسان،نیشاپور،طوس،سرخس،مرو،اور بیھق کو فتح کیا گیا۔(247)
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں
سن31/ہجری کے اہم فتوحات:-
اکتیس ہجری کو بصرے کے گورنر عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے لشکر اسلام کی قیادت کرتے ہوئے خراسان کی طرف پیش قدمی کی،اس کے باشندوں نے مقابلہ کرنے کے بجائے سالانہ خراج دینے کی شرط پر صلح میں عافیت سمجھی، صلح کا معاہدہ کرنے کے بعد قہستان کی طرف بڑھے،وہاں جنگ ہوئی،دشمن فوج قلعہ بند ہونے پر مجبور ہوئی،آخر کار انہوں نے چھ لاکھ درہم سالانہ ادا کرنے کا وعدہ کرتے ہوئےمصالحت کرلی،وہاں سے مشہور جرنیل احنف بن قیس کو لشکر اسلام کا قائد بنا کر طخارستان کی طرف روانہ کیا،وہ بھی آسانی سے فتح ہوگیا، اقرع بن حابس تمیمی کی قیادت میں جوزجان کی طرف لشکر روانہ کیا،وہ بھی سر نگوں ہوا،احنف بن قیس نے طالقان فتح کیا،اہل طالقان نے چار لاکھ درہم سالانہ ادا کرنے پر مصالحت کرلی۔(248)
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں
سن 32/ ہجری کی اہم فتوحات
اس سال عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے مرو ،روذ،طالقان،فاریاب،جورجان،اور طخارستان کو فتح کیا،(249)
سن 32/ہجری میں آبنائے قسطنطنیہ ،باسفورس،یعنی استنبول تک جا پہنچے،یہ بڑا حیرت انگیز واقعہ ہے،آپ ہی کے لشکر کا کمانڈر عقبہ بن نافع تھا جس نے بحر ظلمات میں گھوڑے ڈالے تھے،سامنے خشکی کا کوئی کنارہ اور زمین کا کوئی ٹکڑا نظر نہ آیا تو وہ گھوڑے سے نیچے اترا سر سجدے میں رکھ کر کہا : اللہ تعالیٰ آگے سمندر ہی سمندر ہے اگر مجھے اس کے بعد بھی زمین کا ٹکڑا نظر آتا تو وہاں بھی تیرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پرچم لہرا دیتا ،انھیں کے دور میں مسلمان فتح حاصل کرتے کرتے چین اور روس تک جا پہنچے،اور ان کا بیشتر حصہ فتح کرلیا۔
یورپ کے دروازوں پر مسلمانوں نے انھیں ایام میں دستک دی،اسی دور میں افریقہ فتح ہوا،مؤرخین اور سیرت نگاروں کے مطابق جتنی فتوحات سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد میں ہوئیں اس سے کہیں زیادہ فتوحات سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے عہد میں ہوئیں،اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ان کا عہد حکومت اہل اسلام کے لیے سراپا فتح و ظفر کا دور ثابت ہوا۔(250)
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں بعض علاقے فتح تو ہوچکے تھے مگر رومیوں اور ایرانیوں کی شہ پاکر حلقۂ اطاعت میں داخل کیا گیا،مثلا 25/ ہجری میں اسکندریہ (مصر) میں رومیوں کے ایما پر بغاوت شروع ہوئی ،فاتح مصر سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے فوراً آگے بڑھ کر رومیوں کو شکست فاش سے دوچار کیا اور علاقے میں امن و امان قائم کیا۔(251)
اسی طرح روس کے علاقے آذر بائیجان اور آرمینیہ میں یزدگر کی تحریک پر بغاوتیں ہوئیں جن پر کوفہ کے گورنر ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ (252)
اور سلیمان باہلی رضی اللہ عنہ نے قابو پایا ۔(253)
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں
سن 33/ ہجری کی اہم فتوحات
33/ہجری میں عبداللہ بن ابی سرح کی قیادت میں حبشہ کو اسلامی ریاست میں شامل کیا گیا۔(254)
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں نے کس قدر کامیابی حاصل کیں ،چاروں طرف اسلامی حکومت پھیلتی چلی گئی،سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ مشرقی افریقہ کو فتح کرتے ہیں اور مسلمان کوہ قاف اور بحر قزوین تک پہونچ جاتے ہیں۔(255)
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں تمام فتوحات اور ان سے حاصل کردہ دروس و مواعظ:-
امام ابن کثیر رحمہ اللہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے متعلق لکھتے ہیں: کہ آپ کے ہاتھوں اللہ تبارک و تعالیٰ نے بہت سے ممالک اور شہروں کو فتح عطا فرمائی،اور اسلامی مملکت کے حدود کو وسعت ملی،محمدی سلطنت وسیع ہوئی،رسالت مصطفوی مشرق و مغرب میں پہونچی،اور اللہ تعالیٰ کا فرمان لوگوں پر ظاہر ہوا "وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ" (256)
تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کیے ہیں اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے،کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے،اور یقیناً ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ مستحکم کرکے جمادے گا جسے ان کے لیے وہ پسند فرما چکا ہے،اور ان کے اس خوف و خطر کو وہ امن و امان سے بدل دے گا،وہ میری عبادت کریں گے،میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہرائیں گے ،اس کے بعد جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وہ یقیناً فاسق ہیں۔
اور ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے "إِذَا هَلَكَ كِسْرَى فلا كِسْرَى بَعْدَهُ، وإذَا هَلَكَ قَيْصَرُ فلا قَيْصَرَ بَعْدَهُ، والذي نَفْسِي بيَدِهِ لَتُنْفَقَنَّ كُنُوزُهُما في سَبيلِ اللَّهِ. " (257)
جب قیصر ہلاک ہو جائے تو پھر اس کے بعد کوئی قیصر نہ ہوگا،اور جب کسری' ہلاک ہو جائے تو اس کے بعد کسریٰ نہ ہوگا اور تم ان دونوں کے خزانوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو گے۔
یہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوا،اللہ تعالیٰ کا وعدہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کا اتمام ہوا (258)
اللہ تعالیٰ نے ان کی خلافت میں امصار بلدان ان کی فتوحات عظیمہ اہل اسلام کو ارزائی فرمائیں،فتح فارس کو مکمل کیا،خراسان و بحستان ومرور و کابل کو فتح کیا،افریقہ و بربر شامل ممالک اسلامیہ ہوئے،جزائر مالٹا،کریٹ،طرابلس،فتح کیے گئے،انہی کے عہد میں قوت بحری قائم کی گئی،جس نے جزائر کو بھی فتح کیا،مشرق میں سائبیریا تک ان کی حکومت پہونچ گئی تھی۔(259)
اللہ تعالیٰ ہمیں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے طریقے اور ان کے راستے پر چلا اور ان کی زندگیوں سے ہمیں سبق اور نصیحت لینے کی توفیق عطا فرما اور خصوصاً آپ رضی اللہ عنہ کو اسلام اور محب اسلام کی طرف سے بہترین بدلہ عطا فرمائے،اور ہمیں جنت الفردوس میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ساتھ جمع کردے (آمین یارب العالمین)
حوالہ جات :
____________________________________________
(235)الکامل لابن الاثیر،47/03,
(236) الاکتفاء فی اخبار الخلفاء،229/01,
(237) قبرص ایک سفید مشہور جزیرۃ ہےمعجم البلدان،305/04, (238)اسدالغابۃ 317/06, الاصابۃ،228/08 لابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ
(239)عبادۃ بن الصامت انصاری، بیعت عقبہ اور بدر اس طرح تمام غزوات میں شریک رہے،34/ ہجری میں رملہ میں آپ کی وفات ہوئی،اس وقت آپ کی عمر 72/ سال کی تھی۔الطبقات لابن سعد،546/03,الاصابۃ لابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ،207/04,
(240) رواہ البخاری فی صحیحہ،کتاب الجہاد،باب غزو المرأۃ فی البحر،حدیث نمبر:2877/,فتح الباری،76/06,حدیث :2878,/ وکتاب الاستئذان،باب من زار قوما فقال عندھم،حدیث: 6282-6283/, و فتح الباری،70/11,و مسلم فی صحیحہ بشرح النووی،کتاب الامارۃ،باب فضل الغزو فی البحر،59/13,/ والبیھقی فی دلائل النبوۃ ،451/06, أن الرسول دعا لہ بالجھاد وبشرھا بالشھادۃ وتحقق لھا فی غزوۃ قبرص وھذا من أعظم دلائل النبوۃ
(241) جولۃ تاریخیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین،ص:356,/
(242) جولۃ تاریخیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین،ص:356,/
(243) جولۃ تاریخیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین،ص:357,/
(244) جولۃ تاریخیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین،ص:359,/
(245) الاکتفا فی اخبار الخلفاء،432/01,
(246) حکمران صحابہ،ص:218/,
(247) روشنی کے مینار ,ص:387,/
(248)حکمران صحابہ،ص:218,/
(249) سیر اعلام النبلاء،22/03,
(250) روشنی کے مینار,ص:87/,
(251) سیر أعلام النبلاء ،33/03,/
(252) البدایہ والنہایہ،216/08,فتوح البلدان،ص:200,/
(253) الولایۃ علی البلدان،206/01, الفتوح،112/02)
(254) حکمران صحابہ،ص:221,/
(255)الاکتفاء فی اخبار الخلفاء،231/01,
(256) سورة النور : آیت نمبر :55,/
(257) أخرجه البخاري (3120) (3121)،و مسلم في كتاب الفتن،حديث نمبر:2918/2919,ومسلم، من حديث جابر بن سمرة رضي الله عنه واللفظ للبخاري.
(258) البدایہ والنہایہ،216/06,
(259) 313/ اصحابِ بدر،ص:73,/
تحریر : افروز عالم ذکراللہ سلفی،گلری،ممبئی(قسط نمبر: 16/ جاری)
(24) سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا دور حکومت اہل اسلام کے لیے سراپا فتح وظفر کا دور
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ بارہ سال 23/ تا 35/ہجری کے عرصہ پر شامل ہے، اس دوران اسلام دور دور تک پھیلا ،باوجود اس کے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اسلام بڑی قوت اور تیزی کے ساتھ چاروں طرف پھیل رہا تھا اور بقول علامہ اقبال رحمہ اللہ:
"تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا"
تاہم سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو خوش قسمتی سے ایسے سپہ سالار میسر آئے جن کی جنگی فہم و فراست بڑی معروف تھی ،ولید بن عقبہ،سعید بن العاص،عبداللہ بن عامر ،عبداللہ بن سعد بن ابی سرح،اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہم ان کے مشہور سپہ سالار تھے۔
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں
سن 27-28 ہجری کی اہم فتوحات:-
سن 27/ ہجری میں عبداللہ بن ابی سرح کی قیادت میں لیبیا،تیونس،الجزائر،اور دیگر بہت سے قلع فتح ہوئے،اسی طرح مصر سے لے کر مراکش تک اسلامی سلطنت کا جھنڈا لہرانے لگا۔
سن 28/ہجری میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ افریقہ کی فتح کی بشارت لے کر آئے،عبداللہ بن ابی سرح نے ان کو بھیجا وہ اپنی سواری پر سوار ہوکر بیس رات میں افریقہ سے مدینہ منورہ پہونچے۔(235)
اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو دشمنوں سے مڈبھیڑ کی خبر دی، تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان کے قول سے تعجب کیا اور کہا کہ کیا آپ اس بات کی طاقت رکھتے ہیں کہ تمام لوگوں کو اس بات کی خوشخبری سنائیں، تو آپ نے کہا ہاں ،حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ کا ہاتھ پکڑ کر منبر تک لے گئے اور بتلایا کہ جو بات ہم سے آپ نے بیان کی ہے اس کو سب کے سامنے بیان کردیجئے،حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے سامنے اپنی بات رکھی۔(236)
قبرص کی جنگ: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے قبرص میں جنگ کی،(237)
آپ کے ساتھ ام حرام بنت ملحان انصاریہ رضی اللہ عنہا تھیں (238) ام حرام بنت ملحان حضرت انس بن مالک الانصاری رضی اللہ عنہ کی خالہ تھیں،اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لے جاتے،ان کے پاس قیلولہ کرتے وہ آپ کی عزت کرتی تھیں،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں خبر دی تھی کہ وہ شہیدہ ہیں ،
جو حضرت عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ(239) کی بیوی تھیں، اس غزوہ میں ساتھ ہی تھیں، اور وفات پاگئیں اور وہیں مدفون ہوئیں، اہل قبرص ان کے قبر کو بطور شفا سمجھتے اور اس کا نام نیک عورت کی قبر رکھ دیا تھا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا تھا کہ ان کی امت بحری جنگ کرے گی تو ام حرام نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہمارے لیے اللہ تعالٰی سے دعا کر دیجئے کہ ہمیں بھی اللہ تعالیٰ ان میں بنادے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : تم سابقین اولین میں سے ہو ، وہ اپنی سواری سے گر کر وفات پا گئیں اور شہادت کی موت سے سرفراز ہوئیں، جزیرہ قبرص کے مسلمانوں نے ان قربانیوں کا ایک نشان چھوڑا جو انھوں نے دین کی نشر و اشاعت کے لئے پیش کیا۔(240)
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جبرا کسی کو اس مہم میں شامل نہیں کیا بلکہ لوگوں نے برضا و رغبت اپنی طرف سے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،اور ایک بہت بڑی فوج آپ کے ساتھ اس مہم کو سر کرنے کے لیے روانہ ہوئی۔(241)
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمانوں کی نگاہ میں دنیا کی کوئی حیثیت نہ تھی،باوجود اس کے کہ دنیا کے دروازے ان پر کھل چکے تھے،دنیا کی نعمتیں ان کو دستیاب تھیں،لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس کو کوئی اہمیت نہ دی۔
مسلمانوں کی تربیت ہی اس سوچ پر ہوتی تھی کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والا ہے،اللہ تعالیٰ نے انہیں نصرت دین،اقامت عدل ،فضائل و مکارم کی نشر واشاعت اور اللہ کے دین کو تمام ادیان پر غالب کرنے کے لیے منتخب فرمایا ہے،ان کی یہ سوچ تھی کہ یہ فریضہ ان کا حقیقی مشن ہے،فی سبیل اللہ لڑائی کرنا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے،اگر ہم نے اس ذمہ داری و فریضے میں کوتاہی اور کمی اور اس فرض منصبی کی ادائیگی سے رک گئے تو اللہ تعالیٰ اپنی مدد ان سے دنیا میں روک لے گا اور آخرت میں اپنی رحمت ورضا سے ان کو محروم کردے گا اور یہ بہت بڑا خسران و گھاٹا ہوگا،اسی بنا پر وہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بے تابی سے نکل پڑے اور کشتیوں پر سوار ہونے میں ایک دوسرے سے سبقت کرنے لگے ،شاید ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کی حدیث ان کے ذہن و دماغ میں گھر کر گئی تھی،جس نے انھیں اللہ رب العالمین کی راہ میں لڑائی کرنے کے لیے ابھارا،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صادق ومصدوق کی حدیث سچ ثابت ہوئی ،یہ واقعہ موسم سرما کے اختتام کے بعد 28/ہجری بمطابق 649/ ء میں پیش آیا۔۔(242)
قبرص والے قلعہ بند ہوگئے، مسلمانوں سے مقابلے کے لیے نہ نکلے،بلکہ رومیوں کے انتظار میں رہے،تاکہ وہ ان کے دفاع کے لیے پہونچیں اور مسلمانوں کے حملوں کو روکیں۔۔(243)
مسلمانوں نے ان کا محاصرۃ کیا تو وہ لوگ صلح کا مطالبہ کرنے لگے اور اپنے آپ کو مسلمانوں کے سپرد کر دیا،مسلمان واپس شام پہونچ گئے ،اس حملے نے یہ ثابت کردیا کہ مسلمان بھی بحری جنگ کی اچھی طرح طاقت رکھتے ہیں،اس مہم سے مسلمانوں کو ایک طرح سے بحری جنگوں کی مشق کا موقع ملا تاکہ وہ شام و اسکندریہ پر حملہ کی صورت میں رومی دشمن کا بھرپور مقابلہ کرسکیں۔(244)
جزیرۃ قبرص کو موجودہ دور میں جزیرۃ "سائپرس " کے نام سے جانا جاتا ہے۔(245)
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں سن29/ ہجری کی اہم فتوحات :-
29/ہجری میں عراق کے اندر جرف کو فتح کیا،اسی سال حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر طعن کیا گیا اور ان کے ساتھ بدعہدی کی گئی۔(246)
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں
سن 30/ ہجری کے اہم فتوحات:-
تیس ہجری کو کوفہ کے گورنر عظیم جرنیل حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں طبرستان فتح ہوا،اس لشکر میں حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ ،حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ،حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ ،حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ،اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ،جیسے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین موجود تھے،اسی تیس ہجری میں ہی خراسان،نیشاپور،طوس،سرخس،مرو،اور بیھق کو فتح کیا گیا۔(247)
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں
سن31/ہجری کے اہم فتوحات:-
اکتیس ہجری کو بصرے کے گورنر عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے لشکر اسلام کی قیادت کرتے ہوئے خراسان کی طرف پیش قدمی کی،اس کے باشندوں نے مقابلہ کرنے کے بجائے سالانہ خراج دینے کی شرط پر صلح میں عافیت سمجھی، صلح کا معاہدہ کرنے کے بعد قہستان کی طرف بڑھے،وہاں جنگ ہوئی،دشمن فوج قلعہ بند ہونے پر مجبور ہوئی،آخر کار انہوں نے چھ لاکھ درہم سالانہ ادا کرنے کا وعدہ کرتے ہوئےمصالحت کرلی،وہاں سے مشہور جرنیل احنف بن قیس کو لشکر اسلام کا قائد بنا کر طخارستان کی طرف روانہ کیا،وہ بھی آسانی سے فتح ہوگیا، اقرع بن حابس تمیمی کی قیادت میں جوزجان کی طرف لشکر روانہ کیا،وہ بھی سر نگوں ہوا،احنف بن قیس نے طالقان فتح کیا،اہل طالقان نے چار لاکھ درہم سالانہ ادا کرنے پر مصالحت کرلی۔(248)
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں
سن 32/ ہجری کی اہم فتوحات
اس سال عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے مرو ،روذ،طالقان،فاریاب،جورجان،اور طخارستان کو فتح کیا،(249)
سن 32/ہجری میں آبنائے قسطنطنیہ ،باسفورس،یعنی استنبول تک جا پہنچے،یہ بڑا حیرت انگیز واقعہ ہے،آپ ہی کے لشکر کا کمانڈر عقبہ بن نافع تھا جس نے بحر ظلمات میں گھوڑے ڈالے تھے،سامنے خشکی کا کوئی کنارہ اور زمین کا کوئی ٹکڑا نظر نہ آیا تو وہ گھوڑے سے نیچے اترا سر سجدے میں رکھ کر کہا : اللہ تعالیٰ آگے سمندر ہی سمندر ہے اگر مجھے اس کے بعد بھی زمین کا ٹکڑا نظر آتا تو وہاں بھی تیرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پرچم لہرا دیتا ،انھیں کے دور میں مسلمان فتح حاصل کرتے کرتے چین اور روس تک جا پہنچے،اور ان کا بیشتر حصہ فتح کرلیا۔
یورپ کے دروازوں پر مسلمانوں نے انھیں ایام میں دستک دی،اسی دور میں افریقہ فتح ہوا،مؤرخین اور سیرت نگاروں کے مطابق جتنی فتوحات سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد میں ہوئیں اس سے کہیں زیادہ فتوحات سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے عہد میں ہوئیں،اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ان کا عہد حکومت اہل اسلام کے لیے سراپا فتح و ظفر کا دور ثابت ہوا۔(250)
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں بعض علاقے فتح تو ہوچکے تھے مگر رومیوں اور ایرانیوں کی شہ پاکر حلقۂ اطاعت میں داخل کیا گیا،مثلا 25/ ہجری میں اسکندریہ (مصر) میں رومیوں کے ایما پر بغاوت شروع ہوئی ،فاتح مصر سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے فوراً آگے بڑھ کر رومیوں کو شکست فاش سے دوچار کیا اور علاقے میں امن و امان قائم کیا۔(251)
اسی طرح روس کے علاقے آذر بائیجان اور آرمینیہ میں یزدگر کی تحریک پر بغاوتیں ہوئیں جن پر کوفہ کے گورنر ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ (252)
اور سلیمان باہلی رضی اللہ عنہ نے قابو پایا ۔(253)
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں
سن 33/ ہجری کی اہم فتوحات
33/ہجری میں عبداللہ بن ابی سرح کی قیادت میں حبشہ کو اسلامی ریاست میں شامل کیا گیا۔(254)
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں نے کس قدر کامیابی حاصل کیں ،چاروں طرف اسلامی حکومت پھیلتی چلی گئی،سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ مشرقی افریقہ کو فتح کرتے ہیں اور مسلمان کوہ قاف اور بحر قزوین تک پہونچ جاتے ہیں۔(255)
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں تمام فتوحات اور ان سے حاصل کردہ دروس و مواعظ:-
امام ابن کثیر رحمہ اللہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے متعلق لکھتے ہیں: کہ آپ کے ہاتھوں اللہ تبارک و تعالیٰ نے بہت سے ممالک اور شہروں کو فتح عطا فرمائی،اور اسلامی مملکت کے حدود کو وسعت ملی،محمدی سلطنت وسیع ہوئی،رسالت مصطفوی مشرق و مغرب میں پہونچی،اور اللہ تعالیٰ کا فرمان لوگوں پر ظاہر ہوا "وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ" (256)
تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کیے ہیں اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے،کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے،اور یقیناً ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ مستحکم کرکے جمادے گا جسے ان کے لیے وہ پسند فرما چکا ہے،اور ان کے اس خوف و خطر کو وہ امن و امان سے بدل دے گا،وہ میری عبادت کریں گے،میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہرائیں گے ،اس کے بعد جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وہ یقیناً فاسق ہیں۔
اور ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے "إِذَا هَلَكَ كِسْرَى فلا كِسْرَى بَعْدَهُ، وإذَا هَلَكَ قَيْصَرُ فلا قَيْصَرَ بَعْدَهُ، والذي نَفْسِي بيَدِهِ لَتُنْفَقَنَّ كُنُوزُهُما في سَبيلِ اللَّهِ. " (257)
جب قیصر ہلاک ہو جائے تو پھر اس کے بعد کوئی قیصر نہ ہوگا،اور جب کسری' ہلاک ہو جائے تو اس کے بعد کسریٰ نہ ہوگا اور تم ان دونوں کے خزانوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو گے۔
یہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوا،اللہ تعالیٰ کا وعدہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کا اتمام ہوا (258)
اللہ تعالیٰ نے ان کی خلافت میں امصار بلدان ان کی فتوحات عظیمہ اہل اسلام کو ارزائی فرمائیں،فتح فارس کو مکمل کیا،خراسان و بحستان ومرور و کابل کو فتح کیا،افریقہ و بربر شامل ممالک اسلامیہ ہوئے،جزائر مالٹا،کریٹ،طرابلس،فتح کیے گئے،انہی کے عہد میں قوت بحری قائم کی گئی،جس نے جزائر کو بھی فتح کیا،مشرق میں سائبیریا تک ان کی حکومت پہونچ گئی تھی۔(259)
اللہ تعالیٰ ہمیں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے طریقے اور ان کے راستے پر چلا اور ان کی زندگیوں سے ہمیں سبق اور نصیحت لینے کی توفیق عطا فرما اور خصوصاً آپ رضی اللہ عنہ کو اسلام اور محب اسلام کی طرف سے بہترین بدلہ عطا فرمائے،اور ہمیں جنت الفردوس میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ساتھ جمع کردے (آمین یارب العالمین)
حوالہ جات :
____________________________________________
(235)الکامل لابن الاثیر،47/03,
(236) الاکتفاء فی اخبار الخلفاء،229/01,
(237) قبرص ایک سفید مشہور جزیرۃ ہےمعجم البلدان،305/04, (238)اسدالغابۃ 317/06, الاصابۃ،228/08 لابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ
(239)عبادۃ بن الصامت انصاری، بیعت عقبہ اور بدر اس طرح تمام غزوات میں شریک رہے،34/ ہجری میں رملہ میں آپ کی وفات ہوئی،اس وقت آپ کی عمر 72/ سال کی تھی۔الطبقات لابن سعد،546/03,الاصابۃ لابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ،207/04,
(240) رواہ البخاری فی صحیحہ،کتاب الجہاد،باب غزو المرأۃ فی البحر،حدیث نمبر:2877/,فتح الباری،76/06,حدیث :2878,/ وکتاب الاستئذان،باب من زار قوما فقال عندھم،حدیث: 6282-6283/, و فتح الباری،70/11,و مسلم فی صحیحہ بشرح النووی،کتاب الامارۃ،باب فضل الغزو فی البحر،59/13,/ والبیھقی فی دلائل النبوۃ ،451/06, أن الرسول دعا لہ بالجھاد وبشرھا بالشھادۃ وتحقق لھا فی غزوۃ قبرص وھذا من أعظم دلائل النبوۃ
(241) جولۃ تاریخیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین،ص:356,/
(242) جولۃ تاریخیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین،ص:356,/
(243) جولۃ تاریخیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین،ص:357,/
(244) جولۃ تاریخیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین،ص:359,/
(245) الاکتفا فی اخبار الخلفاء،432/01,
(246) حکمران صحابہ،ص:218/,
(247) روشنی کے مینار ,ص:387,/
(248)حکمران صحابہ،ص:218,/
(249) سیر اعلام النبلاء،22/03,
(250) روشنی کے مینار,ص:87/,
(251) سیر أعلام النبلاء ،33/03,/
(252) البدایہ والنہایہ،216/08,فتوح البلدان،ص:200,/
(253) الولایۃ علی البلدان،206/01, الفتوح،112/02)
(254) حکمران صحابہ،ص:221,/
(255)الاکتفاء فی اخبار الخلفاء،231/01,
(256) سورة النور : آیت نمبر :55,/
(257) أخرجه البخاري (3120) (3121)،و مسلم في كتاب الفتن،حديث نمبر:2918/2919,ومسلم، من حديث جابر بن سمرة رضي الله عنه واللفظ للبخاري.
(258) البدایہ والنہایہ،216/06,
(259) 313/ اصحابِ بدر،ص:73,/