ذیشان خان

Administrator
کچھ کتابوں کے بارے میں

اجتماع الجيوش الإسلامية على حرب المعطلة و الجهمية لابن قيم الجوزيه

🖊۔۔۔۔ ظفرنعمان مکی

علامہ ابن القیم رحمہ اللہ گوناگوں صلاحیت کے مالک تھے اسی لۓ مختلف علوم و فنون میں انھوں کتابیں لکھیں اور لکھنے کا حق ادا کر دیا، علامہ ابن القیم کو کتابوں کے خریدنے اسے حاصل کرنے اور ان کتابوں کے مطالعہ کا ایسا شوق تھا جو خال خال لوگوں میں نظر آتا ہے
*ان کے شاگرد ابن رجب حنبلی ذیل طبقات الحنابلہ میں لکھتے ہیں “ میرے استاذ علم سے بہت زیادہ محبت کرنے والے تھے، کتابوں کے حاصل کرنے اور اسے پڑھنے لکھنے کا ایک عجیب سا شوق اپنے اندررکھتے تھے *
*ابن کثیر رحمه الله البدايه والنھایہ میں ذکر کرتے ہیں کہ علامہ موصوف کے پاس جتنی کتابیں تھی اس کی عشر عشیر بھی ان کے معاصرین کے پاس نہیں تھی*
اسی لے آج علامہ موصوف کی جس کتاب *“اجتماع الجیوش الإسلامیہ علی حرب المعطلة و الجهمية*"کا تعارف پیش خدمت ہے اس میں آپ دیکھنگے کہ مراجع و مصادر کا استعمال بکثرت کیا گیا ہے
*عقیدہ کے ایک نہایت اہم موضوع “اللہ کے علو و عرش پر مستوی ہونے کو مؤلف نے دلائل و براہین کی روشنی میں نہایت جامع و منفرد انداز میں ثابت کیا اور صرف اس ایک مسئلہ میں سو سے زائد کتابوں سے معلومات نقل کیا جو واضح دلیل ہے کہ علامہ کا مکتبہ بہت زیادہ وسیع تھا*
پیش خدمت کتاب اب تک کئ ناموں سے مطبوع ہے جیسے *اجتماع الجیوش الإسلامیہ على حرب المعطلة و الجهمية، اجتماع الجيوش الإسلامية على غزو المعطلة و الجهمية، الجيوش الإسلامية *
لیکن سب سے راجح عنوان پہلا ہے *اجتماع الجیوش الإسلامیہ علی حرب المعطلة والجهمية* كيونكہ کتاب ہذا کے کامل ترین نسخہ مخطوط پر یہی عنوان درج ہے۰
اس کتاب کو مولف نے اپنی وفات سے تقریباً ٦ سال قبل (٧٤٥هـ) میں لکھا جیسا کہ خود مولف نے اپنی کتاب *حادی الارواح* میں ذکر کیا ہے۰
*اس کتاب کا اصل موضوع باری تعالی کا مخلوق پر علو اور مستوی علی العرش ہونے کا اثبات ہے جیسا کہ خود مولف نے حادی الارواح میں ذکر کیا کہ میں نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے*
**لیکن کتاب کو عمومی طور سے دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اوّل بحیثیت مقدمہ جس میں مولف نے اللہ کی نعمتوں،
لوگوں کی قسمیں، قرآن میں بیان کی گئی مثالوں کے مصداق لوگوں کا بیان اور توحید باری و اسکی قسموں کو واضح کیا ہے۰*
پھر اس کے بعد مولف نے اصل موضوع کو شروع کیا اور نہایت منفرد اور جامع انداز میں استواء علی العرش کو ثابت کیا چنانچہ قرآنی آیات اور احادیث نبویہ سے دلیل دینے کے ساتھ صحابہ تابعین و تبع تابعین کے اقوال سے بھی موقف کو بحسن و خوبی ثابت کیا بلکہ اسی پر اکتفا نہیں کیا اس پر مستزاد اہل لغت، اہل کلام اور صوفیوں کی باتوں سے بھی معطلہ جھمیہ اور ان کے ہمنواؤں کی خبر لی۰
یہاں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ امام ذھبی صاحب سیر أعلام النبلاء کی بھی ایک کتاب اسی موضوع پر موجودہے العلو للعلی الغفار کے نام سے اور یہ کتاب بھی اس موضوع کی ایک نہایت اہم کتاب ہے لیکن علامہ ابن القیم رحمہ اللہ کی مذکورہ کتاب حسن ترتیب و تنظیم میں زیادہ بہتر ہے۰
اللهم إنَّا نسألك علما نافعا٠٠
 
Top