ذیشان خان

Administrator
فقہی فروعات کی تفہیم: اصول و آداب

رفیق احمد رئیس سلفی

دین اسلام کے جملہ احکام و مسائل کو دو حصوں: اصول و فروع میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ تقسیم ایک مسلمان کے عملی رویے کو متاثر کرنے کے لیے نہیں اور نہ اس لیے ہے کہ فروع پر عمل نہ کیا جائے بلکہ کسی دینی عمل کو انجام دیتے ہوئے اگر کوئی فقہی جزئیہ رہ گیا تو کیا وہ عمل شریعت کی نگاہ میں قابل قبول ہوگا یا اسے ازسرنو انجام دینا ہوگا۔ایسی صورت میں کہا جاتا ہے کہ اگر اصول چھوٹ گیا تو عمل کالعدم ہوگا لیکن فروع چھوٹ جائے تو عمل کے اعادے کی ضرورت نہیں۔ اس تقسیم کی شرعی حیثیت پر بھی سوالات کھڑے کیے جاسکتے ہیں اور اس پر گفتگو بھی کی جاسکتی ہے۔
تحقیق کا ایک موضوع یہ بھی ہے کہ فقہی تاریخ کے ارتقا کے مختلف مراحل میں یہ تقسیم کب عمل میں آئی؟ اس کی قانونی اور فقہی اساسیات کیا ہیں؟ کیا قرون مشہود لہا بالخیر میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟ نصوص اور تاریخی شواہد کی روشنی میں اس پر بحث کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی صاحب علم اس موضوع پر روشنی ڈال سکے تو ہمارے علم میں اضافہ ہوگا اور اس سلسلے کی بعض غلط فہمیاں بھی ان شاء اللہ دور ہوجائیں گی۔
عام طور پر سمجھا یہی جاتا ہے کہ عبادات کی صحت اور عدم صحت جن فقہی مسائل پر موقوف ہے، ان کو اصول کے دائرے میں رکھا گیا ہے اور جن فقہی مسائل کی یہ حیثیت نہیں ہے، ان کو فروع کے ذیل میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہاں بحث اس بات پر نہیں ہوتی کہ کس پر عمل کرنا ہے اور کسے نظر انداز کرنا ہے بلکہ بحث اس بات پر کی جاتی ہے کہ عمل کی صحت کا دارومدار کس پر ہے اور کس پر نہیں ہے۔
بہر حال اس وقت میرے پیش نظر اس نظریاتی الجھن کی گتھیاں سلجھانا نہیں بلکہ مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے فقہی فروعی اختلافات کی حقیقت کا پتا لگانا ہے جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے سے فاصلہ بنائے ہوئے ہیں حتی کہ مخالف مسلک رکھنے والے امام کے پیچھے نماز پڑھنے کے بھی روادار نہیں ہوتے۔ بعض شدت پسند حضرات شادی بیاہ کرنے میں بھی اپنے مخالف مسلک کے لوگوں میں احتیاط برتتے ہیں۔ بین المسالک خلیج دن بہ دن وسیع ہوتی جارہی ہے اور مختلف مسالک کے علماء شرح صدر کے ساتھ ایک دوسرے سے کوئی سنجیدہ گفتگو کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ جن ممالک میں مسلمان اکثریت میں ہیں اور وہاں حکومت مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے، وہاں تو زیادہ پریشانی نہیں ہے لیکن جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور کسی سیکولر یا غیر اسلامی نظام حکومت میں جی رہے ہیں، ان کی ایک دینی، سماجی اور سیاسی ضرورت یہ بھی ہے کہ وہ باہم اتفاق و اتحاد قائم رکھیں اور اپنی مشکلات کو مل جل کر حل کریں۔ ان کے اتحاد میں ایک بڑی رکاوٹ مسلکی بھید بھاؤ بھی ہے، اس لیے اس کی حد بندی اور فقہی اختلافات کی تفہیم ان کے لیے ایک بڑی ضرورت بن چکی ہے۔ علماء چوں کہ بڑی حد تک فقہی فروعات میں اختلافات کی حقیقت و حیثیت سے آگاہ ہیں، اس لیے ان کا مسئلہ زیادہ سنگین نہیں ہے لیکن عوام کو ان اختلافی مسائل کی تفہیم کیسے کرائی جائے اور جب ان پر بحث و گفتگو کی جائے تو وہ حدود و قیود کیا ہیں جن کا پاس و لحاظ رکھا جانا لازمی ہے۔
اسلامی تراث میں اس موضوع پر دواہم کتابیں: ’’رفع الملام عن أئمۃ الأعلام‘‘ اور ’’الانصاف فی بیان سبب الاختلاف‘‘ موجود ہیں، اول الذکر کی تصنیف شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ثانی الذکر کی تصنیف شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے کی ہے۔ ان دونوں کتابوں کا تعلق اسلامی تاریخ کے ان ائمہ فقہ سے ہے جنھوں نے اپنے پیچھے نہ صرف اپنے استنباط و اجتہاد کا عظیم سرمایہ چھوڑا ہے بلکہ اپنے تلامذہ کی ایک ایسی جماعت بھی تیار کی ہے جن کے علم، تقوی اور تدین پر امت اسلامیہ اعتماد کرتی ہے اور آج تک ملت میں تفقہ فی الدین کا جو زریں سلسلہ قائم ہے، وہ کوئی نوایجاد چیز نہیں بلکہ ملت کے انہی درخشاں چاند ستاروں کی دینی خدمات کا ایک تسلسل ہے جن سے ہم آج تک فیض یاب ہورہے ہیں۔ ذیل کی سطور میں اسی مسئلے کو معروضی انداز میں سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے، ضروری نہیں کہ میری تحریر سے کلی اتفاق کیا جائے، نقطہائے نظر مختلف ہوسکتے ہیں، لہذا مضمون پڑھنے کے بعد طعن و تشنیع کے تیر و نشتر چلانے کی بجائے مسئلے کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھیں، اگر کچھ لکھنا ہے تو تفصیل سے اس موضوع پر لکھیں تاکہ میری طرح دوسروں کے علم میں بھی اضافہ ہو۔

(۱)اسلامی تراث کے فقہی سرمائے میں بین المسالک بحث و تحقیق کے دوران راجح مرجوح اور افضل، غیر افضل کی جو اصطلاحات مروج ہیں، ان کا صحیح محل کیا ہے؟ کیا مرجوح کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی پہلو سے لائق اعتنا نہیں ہے، اسی طرح غیر افضل کا کیا یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اس پر عمل کرنے سے کسی کی دین داری مشتبہ ہوجائے گی۔ اس کی تحقیق اس لیے بھی ضروری ہے کیوں کہ مختلف فیہ مسائل فقہ کا خاصا بڑا حصہ اسی زمرے میں آتا ہے۔ اگر مرجوح اور غیرافضل کا مطلب یہ ہے کہ ان کی پشت پر جو دلائل موجودہیں، وہ درست نہیں ہیں، مثلاً دلیل میں پیش کی جانے والی قرآنی آیت کا غلط مفہوم لیا گیا ہے یا پیش کردہ حدیث کی نص غیر مقبول احادیث کے زمرے میں آتی ہے یا حدیث سے استنباط غلط ہے تو اس کے لیے کوئی دوسری اصطلاح ہونی چاہیے، اسے مرجوح اور غیرافضل سے تعبیر کرنا درست نہیں ہے۔
اس کے برعکس اگر مرجوح اور غیرافضل کا مطلب یہ ہے کہ مرجوح اور غیرافضل کی پشت پر جو نص ہے، وہ صحیح تو ہے لیکن جسے راجح اور افضل کہا گیا ہے، اس کے پیچھے جو نصوص ہیں، وہ اس کے مقابلے میں زیادہ صحیح اور واضح ہیں۔ تو پھر اس کی صحیح تفہیم کرانے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ مرجوح کی اگر کوئی بھی دلیل صحیح ہے تو اسے مرجوح کہنا درست نہیں ہے، اسی طرح غیرافضل کی پشت پر موجود نص اگر صحیح ہے تو اسے بھی غیرافضل کہنا صحیح نہیں ہے کیوں کہ نص سے ثابت شدہ کسی مسئلے کو مرجوح اور غیرافضل کہنا ایک ایسی جسارت ہے جس کی کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی۔ نبی اکرم ﷺ کا کوئی فعل اور قول مرجوح اور غیرافضل کے دائرے میں نہیں رکھا جاسکتا۔ اتباع سنت اور اسوۂ حسنہ کی پیروی کرنے کا جو بے لاگ حکم شریعت نے دیا ہے، اس سے یہ نقطۂ نظر براہ راست ٹکراتا ہے۔
یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے فقہی سرمائے میں یہ اصطلاحات بہ کثرت موجود ہیں اور تقریباً تمام مکاتب فکر نے ان کا استعمال کیا ہے، ان کا دفاع کیوں کر کیا جاسکتا ہے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ ان فقہائے کرام کے معہود ذہنی کی صحیح توجیہ کیا ہوسکتی ہے؟ اس سلسلے میں میرا علم اور مطالعہ ناقص ہے، میں کسی نتیجے تک پہنچنے سے قاصر ہوں، کیا ہی بہتر ہوتا کہ ہمارے بزرگ دوستوں میں ڈاکٹر فضل الرحمن مدنی اور ڈاکٹر عبدالقیوم بستوی حفظہما اللہ اس سلسلے میں ہماری رہنمائی فرماتے۔ نوجوان علماء میں برادر عزیز شیخ کفایت اللہ سنابلی کا بھی فقہی مطالعہ وسیع اور گہرا ہے، ان کی طرف سے بھی اگر کوئی چیز آئے تو مسئلے کی تفہیم میں مدد مل سکتی ہے۔

(۲)فقہی فروعات کا ایک بڑا حصہ ایسا بھی ہے جس میں ہمارے محترم فقہاء کے درمیان اختلاف اس طرح ہے کہ پیش کی جانے والی نص ذو معنی ہے۔ ایک پہلو سے دیکھا جائے تو مفہوم کچھ نکلتا ہے اور دوسرے پہلو سے دیکھا جائے تو مفہوم کچھ اور نکلتا ہے۔ دونوں میں سے کسی مفہوم کی تائید یا تردید مشکل سے کی جاسکتی ہے۔ دور اول کے کسی فقیہ نے اگر نص کے ایک پہلو کو پیش نظر رکھا اور اس سے مسئلہ مستنبط کرلیا تو اس کے مکتب فکر کے عوام و خواص نے اسے حتمی قرار دے کر اپنا لیا اور اس کے خلاف عمل کو انھوں نے اپنے مسلک کے مخالف یقین کرلیا۔ حزبیت آئی تو خود کو دوسروں سے ممتاز کرنے کے لیے اسی پہلو کو اپنا امتیاز بنالیا گیا اور پھر مناظرہ بازی شروع ہوگئی۔ اس مناظرہ بازی میں ایسے ایسے دلائل سامنے لائے گئے جو متبوع ائمہ کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آئے ہوں گے۔ اسی طرح متاخرین نے اپنے معاصر مخالفین کے دلائل کی تردید کے لیے ایسا لب و لہجہ اختیار کیا جو نہ صرف احترام مسلم بلکہ احترام انسانیت کے خلاف تھا۔ طعن و تشنیع اور تمسخر و استہزا کے سارے تیر کمانوں سے باہر نکل آئے۔ ڈاکٹر رضاء اللہ مبارک پوری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’سلفیت کا تعارف‘‘ میں اس فقہی جنگ و جدال کی کئی ایک مثالیں ذکر کی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل حدیث مسلک و عقیدہ کے تعلق سے جو یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ وہ متبوع ائمہ و فقہاء کا احترام نہیں کرتا، یہ ایک غلط الزام ہے، خود ان ائمہ و فقہاء کے متبوعین نے ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالی ہیں اور غیر مہذب لب و لہجہ اختیار کیا ہے۔
میرے ایک ندوی فاضل دوست نے بیان کیا کہ جب وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں زیر تعلیم تھے تو فقہ کے استاذ محترم نے منی کی پاکی اور ناپاکی کے مسئلے میں احناف اور شوافع کے درمیان جو اختلاف ہے، اس پر مفصل تقریر کرتے ہوئے یہاں تک فرمادیا کہ شوافع کے یہاں منی اس طرح پاک ہے کہ اسے روٹی کے اوپر رکھ کر کھایا بھی جاسکتا ہے۔ (نعوذباللہ من ذلک) کوئی شافعی المسلک اس بھدی گالی کو کیوں کر برداشت کرسکتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث جس میں وہ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے کپڑے سے منی سوکھ جانے کے بعد وہ کھرچ دیتی تھیں اور اسی کپڑے میں آپ ﷺ نماز ادا کرلیتے تھے۔ شوافع کا استدلال اسی حدیث سے ہے لیکن حنفی عالم دین نے اسے مذاق بنادیا اور منی کھانے تک بات پہنچادی۔ متاخرین نے جو فقہی سرمایہ ہم تک منتقل کیا ہے، اس میں اس قسم کی جسارتیں موجود ہیں۔ مناظرانہ کتابوں میں بھی یہ رنگ دیکھا جاسکتا ہے۔ تعصب اور حزبیت کے کئی ایک نمونے ہماری فقہی کتابوں میں موجود ہیں۔
ممبئی سے ایک کتاب بہت پہلے شائع ہوئی تھی۔ اس میں ایک مصنف نے ان راویوں کی ایک فہرست تیار کی ہے جن پر جھوٹی روایات بیان کرنے کی تہمت ہے اور جن سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا شرف تلمذ بتایا جاتا ہے۔ مصنف نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ یہ ہیں امام اعظم کے وہ کذاب اساتذہ جن سے انھوں نے زندگی بھر جھوٹ کی تعلیم حاصل کی اور اسی جھوٹ کی تاحیات تبلیغ کرتے رہے۔ اپنی بے خبری اور علمی کوتاہی پر ماتم کرنے کی بجائے اس لب و لہجہ میں گفتگو کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ کون نہیں جانتا کہ دور اول کے محدثین کے اساتذہ کی طویل فہرست میں کئی ایک نام ایسے آتے ہیں جو خود محدثین کے یہاں متکلم فیہ اور مجروح ہیں۔ اگر اسی طرح کا الزام سب پر لگادیا جائے تو ہمارے پاس کیا بچے گا لیکن حزبیت اور فرقہ پرستی ایک عالم دین کو بھی بہرہ گونگا بنادیتی ہے اور وہ حق و انصاف سے بہت دور چلا جاتا ہے۔
ہمارے بعض غیرت مند اسکالرس یہ توجیہ کرسکتے ہیں کہ مخالف خیمے کے لوگوں نے امام حدیث محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ کی عظمت کو بٹا لگایا تھا تو ان کو آئینہ دکھانے کے لیے مجبوری میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے تعلق سے یہ بات کہی گئی۔ اعاظم رجال ہماری مدح و توصیف کے محتاج نہیں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کو حدیث رسول کی خدمت کے باب میں دنیا نے جس مقام بلند پر فائز کردیا ہے، ساری حنفی دنیا متحد ہوکر بھی اس میں ذرہ برابر کمی نہیں کرسکتی، اسی طرح اسلامی تاریخ میں جو مقام امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو مل چکا ہے، ان کے سارے مخالفین ایک ساتھ مل کر بھی ان کی عظمت گھٹا نہیں سکتے۔
ماضی کی اہم شخصیات کو جن کی وفات پر ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے، فقہی تنازعات میں زیر بحث لانا ایک تکلیف دہ معاملہ ہے۔ انبیائے کرام کے علاوہ کوئی معصوم نہیں ہے، ان کے علاوہ تمام دینی شخصیات کے بارے میں صحیح نقطۂ نظر یہ ہے کہ ان سے اجتہادی غلطیوں کا امکان ہے۔ بقدر اخلاص وہ اپنی اجتہادی غلطیوں پر بھی ثواب کی مستحق ہیں۔ ایسی صورت میں ان پر طنز و استہزا قطعی مناسب نہیں ہے۔ ہمیں اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہیے اور کتاب و سنت کے روشن دلائل کی روشنی میں اپنا دینی سفر طے کرنا چاہیے۔ تقلید جامد نے شخصیات کے گرد تقدس کا جو ہالہ بنادیا ہے، وہی خرابی کی بنیادی وجہ ہے۔ ہمارا طرز عمل ان دینی شخصیات کے لیے صرف یہ ہونا چاہیے کہ ہم ان کے حق میں اللہ سے دعا کریں، کتاب و سنت سے ہم آہنگ ان کے فتاوی سے استفادہ کریں اور جہاں جہاں ان سے اجتہادی غلطیاں ہوئی ہیں، ان کو نظر انداز کریں اور ان کے تئیں حسن ظن رکھیں۔
نص کے ذومعنی اور ذووجہین ہونے کی کئی ایک مثالیں اسلامی تراث میں ہمیں ملتی ہیں: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے جب سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو خوارج سے مناظرہ کرنے کے لیے بھیجا تو انھیں تاکید فرمائی کہ ان پر قرآن سے حجت نہ قائم کرنا کیوں کہ اس کی بہت سی آیات ذووجہین ہیں، ان پر حدیث سے حجت قائم کرنا جس میں کسی دوسرے مفہوم کی گنجائش کم ہوتی ہے۔
اسی طرح جب نبی اکرم ﷺ نے اپنے دو ساتھیوں کو ایک منزل پر روانہ کیا تو ان سے کہا کہ جلدی جاؤ عصر کی نماز وہیں پہنچ کر پڑھنا۔ راستے میں ہی عصر کا وقت ہوگیا۔ ایک صحابی نے عصر کی نماز ادا کرلی اور دوسرے صحابی نے کہا کہ منزل پر پہنچ کر نماز عصر ادا کروں گا۔ واپس لوٹ کر جب دونوں صحابیوں نے اپنا ماجرا سنایا تو آپ ﷺنے دونوں کی تصویب فرمائی اور کسی کے عمل کو بھی اپنے حکم کے خلاف نہیں قرار دیا۔
اس طرح کی نصوص میں اگر اختلاف واقع ہوتا ہے تو دونوں نقطۂ نظر کی گنجائش شریعت میں موجود ہے۔ اگر کسی امام نے کسی ایک پہلو کو اختیار کیا ہے تو اس کے ہم نواؤں کو چاہیے کہ اس پر عمل کرنے کے ساتھ دوسرے پہلو کے لیے اپنے یہاں گنجائش رکھیں۔ اپنے اختیار کردہ پہلو کو درست اور دوسرے پہلو کو نادرست کہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اگر متاخرین اور معاصر علماء کے یہاں یہ رواداری پیدا ہوجائے تو بہت سے اختلافات سے بچا جاسکتا ہے اور عوام میں پھیلی بہت سی غلط فہمیاں دور کی جاسکتی ہیں۔

(۳)فقہی فروعات میں اختلاف کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مقتدا امام کے وقت میں متعلقہ نص عام نہیں ہوئی تھی اور انھیں اس کا کوئی علم نہیں تھا۔ جو نصوص ان کے سامنے تھیں، ان میں غور و فکر کرنے کے بعد انھوں نے ایک متعین مسئلے میں شرعی حکم بیان کیا لیکن وہ ان کا استنباط تھا جو ظاہر ہے کہ واضح نص کے سامنے اس کی بہت زیادہ علمی اہمیت نہیں ہے۔ اس طرح کی باتوں کو بعض حضرات جذبات کی رو میں بہہ کر ائمہ کی تنقیص پر محمول کرتے ہیں حالانکہ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ عہد صحابہ میں بھی بعض کبار صحابہ کو بسااوقات متعین نص کا علم نہیں ہوتا تھا اور جب کوئی انھیں اس کی اطلاع دیتا تھا تو وہ اسے شرح صدر سے قبول کرکے نص کے مطابق فیصلہ کرتے تھے۔ اس طرح کی کئی ایک مثالیں ہماری کتابوں میں معروف ہیں، ان کو ذکر کرنے کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔ اگر عہد صحابہ میں یہ صورت حال تھی تو بعد کی پہلی تین صدیوں میں کیوں اس کا امکان نہیں ہے جب کہ اس وقت تک احادیث کی جمع و تدوین کا سلسلہ جاری تھا اور مختلف شہروں میں اہل علم بکھرے ہوئے تھے۔ بعض ائمۂ فقہ کا زمانہ احادیث کی جمع و تدوین سے پہلے کا ہے۔ اس لیے ان کی طرف سے معذرت کی جاسکتی ہے کہ انھیں جو علم تھا، انھوں نے اسی کے مطابق فتوے دیے یا مسائل بیان کیے، وہ اسی کے مکلف تھے، اس سے زیادہ ان کی کوئی ذمہ داری نہیں تھی۔
اس کی ایک بڑی دلیل مقتدا ائمہ کے جلیل القدر تلامذہ کا کئی ایک مسائل میں ان سے اختلاف ہے۔استاذ کو دلیل نہیں ملی لیکن شاگرد کو مل گئی تو استاذ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے نص کو لے لیا اور استاذ کی بات نظرانداز کردی۔ ائمہ کرام کے اقوال: ’’صحیح حدیث ہی میرا مسلک ہے اور حدیث رسول کے سامنے میری بات رد کردیا کرو‘‘، اسی طرف ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ صاحبین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے استاذ محترم امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے دو تہائی مسائل مختلفہ میں اختلاف کیا ہے۔
کتب فقہ میں ہمیں کئی ایک مسائل میں یہ پڑھنے کو ملتا ہے کہ مقتدا امام کا قول قدیم یہ ہے اور ان کا قول جدید یہ ہے۔ یہاں بھی یہی صورت حال ہے کہ پہلے امام کے سامنے نص نہیں تھی تو ان کا فتوی کچھ اور تھا اور جب نص مل گئی تو فتوی کچھ اور ہوگیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ مقتدا ائمہ فقہ کے اس طرح کے اقوال کا کسی صاحب علم نے تحقیقی اور تنقیدی مطالعہ کیا ہے۔ اگر ہر ہر امام کے درون خانہ اس ارتقا اور اس کے مالہ و ماعلیہ کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ ملت اسلامیہ کے ان مخلص خدام نے اپنی طرف سے دانستہ کوئی کوتاہی نہیں کی، بشری کمزوریوں اور نصوص کی عدم موجودگی میں ان سے اگر کوئی تسامح ہوا ہے تو انھوں نے اس سے رجوع کیا ہے اور اپنے فتوے سابق پر ان کا اصرار باقی نہیں رہا ہے اور نہ انھوں نے جمود کا راستہ اختیار کیا ہے جو متاخرین کے یہاں ہمیں نظر آتا ہے۔ ملت کو سیسہ پلائی دیوار بنانے کے لیے اس موضوع پر شرح و بسط سے علمی کام کرنے کی ضرورت ہے۔اسی سے بین المسالک وہ فقہی رواداری پیدا ہوگی جو آج ملت اسلامیہ کی سب سے بڑی دینی ضرورت ہے۔
کتب فقہ خاص طور پر فقہ حنفی میں بعض مسائل کے تعلق سے ہم یہ پڑھتے ہیں کہ فلاں مسئلے میں شیخین، صاحبین یا طرفین کا مسلک یہ ہے لیکن مفتی بہ قول دوسرا ہے حالانکہ وہ مفتی بہ قول بسااوقات صریح حدیث کے خلاف ہوتا ہے جب کہ فقہ حنفی کے اساطین میں سے کسی نہ کسی کا قول حدیث کے مطابق ہوتا ہے۔ میں نے اپنے کئی حنفی دوستوں سے یہ سوال کیا کہ فقہ حنفی کے ارتقائی دور میں امام اعظم اور ان کے تینوں ارشد تلامذہ کے بعد کون سا ایسا حنفی فقیہ پیدا ہوا ہے جس نے یہ مفتی بہ قول کا فیصلہ صادر کیا ہے۔کسی دوست نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔اس طرح کے مسائل پر بھی تحقیق کی ضرورت ہے کہ آخر وہ کون سی شخصیت تھی جس نے یہ طرز عمل اپنایا اور اس کے اسباب و محرکات کیا تھے؟
اس طرح کے اختلافی امور و مسائل میں خود ائمہ کی ہدایت کے مطابق ہمیں ظاہری اور موجود نص پر عمل کرنا ہے، ان کے استنباط کو بنیاد بنا کر ملت میں تفرقہ بازی ایک مذموم عمل ہے، جس کی تائید نہیں کی جاسکتی۔ اسی باب سے تعلق رکھنے والے بیشتر اختلافی مسائل ہیں جن پر آج گرما گرمی پائی جاتی ہے اور مسلمانوں کے درمیان اختلافات کی خلیج وسیع کی جارہی ہے۔ متاخرین فقہاء نے مسلکی عصبیت میں مبتلا ہوکر اس سچائی کو قبول کرنے کی بجائے اپنے مقتدا ائمہ کے اقوال کو کمزور دلائل سے تقویت پہنچانے کی کوشش کی ہے اور اپنے مخالفین پر خشت باری کی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ جن مسائل کا مقتدا ائمہ کے یہاں ذکر بھی نہیں ملتا، ان کو بھی مسلکی امتیاز بنا لیا گیا ہے۔
کافی عرصہ ہوا میں نے دارالعلوم دیوبند کے فارغ اپنے ایک فاضل دوست سے پوچھا کہ کیا فقہ حنفی سے متعلق کتابوں میں صف بندی کے وقت پیر ملانے کا مسئلہ زیر بحث کہیں آیا ہے۔ انھوں نے جواب دیا: میری نظر سے کسی حنفی مسلک کی کتاب میں یہ مسئلہ نہیں گزرا۔ میں نے عرض کیا کہ پھر اس کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے جب کہ جس حدیث میں کندھوں کو ملانے کا ذکر ہے، اسی میں پیر سے پیر ملانے کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ زبانی طور پر یہ بات کیوں بیان کی جاتی ہے کہ ایک نمازی اپنے پیروں کے درمیان چار انگلی کے برابر یا ایک بالشت بھر فاصلہ رکھے۔ بعض بھاری جسم کے لوگ اس فاصلے کے ساتھ تو اپنا جسم بھی نہیں سنبھال سکتے۔ اس پر انھوں نے خاموشی اختیار کی اور کوئی جواب نہیں دیا۔
مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے اپنی ایک کتاب میں یہ بات لکھی ہے کہ برصغیر کے غیر مقلدین (اہل حدیثوں) نے بلاوجہ یہ مسئلہ چھیڑا ہے، پیر ملانے اور نہ ملانے کا کوئی مسئلہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ اپنے وقت کے اس عظیم محدث کے سلسلے میں کیا عرض کیا جائے جن کے فضائل و مناقب بیان کرتے ہوئے لکھا جاتا ہے کہ ان کو صحیح بخاری ہی نہیں، اس کی سب سے بڑی شرح فتح الباری بھی یاد تھی۔ صحیح بخاری میں قدم سے قدم ملانے کی حدیث موجود ہے، اس کے باوجود اس طرح کی بات لکھنا صرف مسلکی فرقہ پرستی کو ہوا دینا ہے۔ آپ عمل نہیں کرتے، کوئی زبردستی نہیں لیکن صحیح بخاری کی حدیث سے ثابت واضح مسئلہ کے عدم وجود کی بات کسی بھی حال میں تسلیم نہیں کی جاسکتی۔
فقہی فروعات کے سلسلے میں محدثین کا موقف
تقلید کے زیر اثر فقہی گروہ بندیوں کے درمیان محدثین کرام کا موقف سب سے زیادہ واضح، صاف اور مدلل رہا ہے۔ محدثین کے اسی موقف کی تائید اہل حدیث مسلک میں کی گئی ہے۔ یہ بات دوسری ہے کہ برصغیر کے مخصوص مناظرانہ ماحول میں بعض حضرات نے جواب آں غزل کے طور پر اپنے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اعتدال و توازن کھو دیا ہے اور اس مسلک کو بھی فرقہ بنا ڈالا ہے جو نہ صرف سارے مسالک کا محافظ اور نگراں تھا بلکہ ان کے درمیان محاکمہ کرنے کی اس کے اندر بھرپور صلاحیت پائی جاتی ہے۔ کتب احادیث میں محدثین کرام کے ترجمۂ ابواب کا بالاستیعاب مطالعہ کرجائیں وہ کسی مقتدا امام کے ذہنی تحفظات کے شکار نہیں ہیں، بلکہ صرف احادیث کو بنیاد بناتے ہیں جن میں کہیں کسی کی تائید نظر آتی ہے اور کہیں کسی کی۔ امام ابوداود اور امام ترمذی کی سنن کو اس باب میں بطور خاص دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں جہاں گنجائش ہوتی ہے اور نصوص موجود ہوتی ہیں، وہ متضاد تراجم ابواب قائم کرکے دونوں نقطہائے نظر سامنے رکھ دیتے ہیں۔ امام ترمذی تو مزید یہ بھی لکھ دیتے ہیں کہ کن کن ائمہ و فقہاء کا عمل اس پر ہے اور کن کن کا عمل دوسری حدیث پر ہے۔ اپنے اس طرز عمل سے انھوں نے اس خلیج کو پاٹنے کی سعی محمود فرمائی ہے جو مقلدین نے ملت کے اندر پیدا کردی تھی۔
تقلیدی مسالک کے تشکیلی دور ہی سے یہ مسئلہ زیر بحث آنے لگا تھا کہ نماز کی اقتدا کس کی کی جائے اور کس کی نہ کی جائے۔ اسی مسئلہ نے بعد کی صدیوں میں شدت اختیار کی اور بیت اللہ میں چار مصلے وجود میں آگئے۔ ہندوستان میں برٹش دور حکومت میں بھی کئی ایک مساجد میں مسئلہ امامت کو لے کر تنازعے شروع ہوئے، اہل حدیثوں کو مساجد سے نکالا گیا اور ان کی امامت میں نماز کی ادائیگی کو غیر صحیح کہا گیا۔ مقدمات قائم ہوئے اور برٹش بہادر کے فاضل ججوں کی طرف سے کئی ایک مساجد کے سلسلے میں ایسے فیصلے آئے کہ حنفی اپنے وقت پر نماز پڑھ لیا کریں اور اسی مسجد میں اہل حدیث اپنے وقت میں اپنے امام کے پیچھے نماز ادا کریں۔ بعض ریاستوں کی کئی مساجد میں یہ کربناک صورت حال پیدا ہوئی۔
امام المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں بھی یہ مسئلہ زیر بحث تھا، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے صحیح بخاری، کتاب الاذان، میں’’باب امامۃ المفتون والمبتدع ‘‘ کے عنوان کے ساتھ ترجمۃ الباب قائم کیا اور اس میں اپنی عادت کے مطابق پہلے مشہور تابعی امام حسن بصری کا فتوی نقل کیا کہ ’’بدعتی کے پیچھے نماز پڑھ لیا کرو، اس کی بدعت اس کے سر رہے گی‘‘۔ اس کے بعد وہ مشہور واقعہ نقل کیا جس کا تعلق سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت سے ہے کہ جب بلوائیوں نے مدینہ منورہ پر قبضہ کرلیا تھا اور خود ہی امامت و خطابت کرنے لگے تھے۔ عبیداللہ بن عدی بن خیار نے ان کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: آپ تو تمام لوگوں کے امام ہیں، آپ ایک ایسی آزمائش سے دوچار ہیں جسے ہم دیکھ رہے ہیں، صورت حال یہ ہے کہ ہمیں امام فتنہ نماز پڑھاتا ہے جس سے ہمیں گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نماز لوگوں کے اعمال میں سے اچھا عمل ہے، جب لوگ عمدہ کام کریں تو تم بھی اچھائی میں ان کے ساتھ شامل ہوجاؤ اور جب وہ برا کام کریں تو تم ان کی برائی سے الگ رہو۔(صحیح بخاری،حدیث نمبر:695)
امام بخاری رحمہ اللہ کے اس واضح موقف کو بعض حضرات یہ کہہ کر دھومل کرتے ہیں کہ بلوائی صرف فتنہ پرور تھے، ان کے یہاں اعتقادی گمراہی نہیں تھی، اس لیے سیدنا عثمان نے ان کے پیچھے نماز ادا کرنے کی اجازت دی تھی۔ اپنے ملک میں ہم جن حضرات کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کرتے ہیں، ان کا عقیدہ درست نہیں ہے۔ لیکن شاید انھیں معلوم نہیں کہ صحابہ کرام کی حرمت اور ان کے تقدس کا پاس و لحاظ رکھنا خالص اعتقادی مسئلہ ہے اور اس گروہ نے مدینہ منورہ میں موجود تمام صحابہ کو یرغمال بنا لیا تھا اور آخر کار سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا گیا۔ بلوائیوں اور فتنہ پردازوں کو عقیدہ کی پختگی کی سند دینا ایک طبع زاد چیز ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ملتی۔
سرتاج محدثین امام بخاری کا یہی موقف برصغیر میں ممتاز علمائے اہل حدیث کا رہا ہے اور انھوں نے یہاں موجود مسلمانوں کے دو بڑے فرقے دیوبندی اور بریلوی امام کے پیچھے نماز کی اقتدا کرنے کی اجازت دی ہے۔ ویسے بھی نماز کی اقتدا ظاہری اعمال و افعال یعنی قیام، رکوع، سجدہ اور قعدہ میں کی جاتی ہے، ان افعال کی ترتیب میں کوئی تبدیلی کسی مسلک میں نہیں کی جاتی، رہے بعض فروعی مسائل تو ہم اپنے نقطۂ نظر کے مطابق مخالف مسلک والے امام کے پیچھے بھی ان پر عمل کرتے ہیں، اس میں کوئی رکاوٹ نہیں آتی۔ دعوتی اور تربیتی لحاظ سے بھی اہل حدیث علماء کا یہ نقطۂ نظر درست ہے کیوں کہ جن مسلمانوں کے اندر اتباع سنت کے جذبے کی کمی ہے، تقلید کی بندشوں یا بعض غلط فہمیوں کی وجہ سے، ان کو راہ سنت دکھانا اور اتباع سنت پر آمادہ کرنا بھی تو ضروری ہے اور یہ کام باہم ایک دوسرے سے ملنے، ایک دوسرے کا احترام کرنے اور ایک دوسرے سے مختلف فیہ مسائل میں سنجیدہ گفتگو کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ جو حضرات تفریق بین المسلمین کی تحریک چلاتے ہیں، ان کا تو مقصد ہی اپنے جتھے کو الگ تھلگ رکھنا ہے تاکہ حقیقت ان کے سامنے واضح نہ ہو۔ اگر الگ تھلگ رکھنے والی پالیسی ہم نے اختیار کرلی تو ہم غیر شعوری طور پر متعصبین اور فرقہ پرستوں کو ہی تقویت پہنچانے والے بن جائیں گے اور پھر دعوت و اصلاح کا ایک وسیع میدان تنگ ہوجائے گا۔ برصغیر کی دینی فضا کو اہل بدعت اور اندھی تقلید کے علم برداروں نے جس قدر مسموم کیا ہے، اس پر کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، آج مسلمانوں کے درمیان دینی اعتبار سے جو دوریاں نظر آرہی ہیں اور وہ ایک دوسرے کے دین کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھتے ہیں، یہ اسی مذموم رویے کے برگ و بار ہیں۔ اگر اہل حدیث بھی اسی راہ پر چل پڑیں گے تو اسلامی دعوت کے کاز کو نقصان پہنچے گا اور مسلمانوں کے درمیان دوریاں بنائے رکھنے والوں کو تقویت مل جائے گی۔
علمائے اہل حدیث کا یہی وہ مبنی برحقیقت طرز عمل تھا جس کی وجہ سے آج بھی بحمد اللہ ہماری مساجد میں کسی دیوبندی اور بریلوی کو نماز پڑھنے سے منع نہیں کیا جاتا ہے بلکہ اہل حدیث مساجد کے دروازے تمام مسلمانوں کے لیے کھلے ہوئے ہیں اور ہماری مساجد میں پرسکون نماز ادا کرکے اور خطبات جمعہ سن کر بہت سے لوگ اپنی اصلاح کرلیتے ہیں، شرک و بدعت اور اندھی تقلید کے اندھیروں سے باہر نکل آتے ہیں اور جن کو اللہ توفیق دیتا ہے، وہ اہل حدیث مسلک اختیار کرکے سنت رسول کے متبع بن جاتے ہیں۔ علمائے دیوبند اور علمائے بریلی و بدایوں کی تمام تر تاکید اور منفی رویوں کے باوجود حنفی اور بریلوی عوام اہل حدیث مساجد میں نماز پڑھتے اور خطبات جمعہ سے مستفید ہوتے ہیں۔ اسی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عام مسلمانوں کا ذہن الحمد للہ آج بھی صاف ہے، معلومات کی کمی یا سازگار ماحول میسر نہ ہونے کی وجہ سے ان کی زندگیوں میں شرک و بدعت کے مظاہر موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر میں دعوت کتاب و سنت کے لیے ایک وسیع میدان ہمیشہ موجود رہا ہے اور آج بھی اس میں کوئی تنگی نہیں آئی ہے۔ دپنے ماحول سے ہم ضرور متاثر ہوئے ہیں، خود کو فرقہ پرستی کی آگ کے قریب کرلیا ہے اور بدقسمتی سے ہمارے کچھ نادان اور خود کو کٹر اہل حدیث کہنے والے نام نہاد علماء زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے، ان پر نمک چھڑکتے رہتے ہیں۔ نیتوں کا واقف کار اللہ ہے، وہی سب کو ان کی نیتوں کے مطابق جزا اور سزا دینے والا ہے۔ کبھی فرصت ملے تو ان حقائق پر غور کریں اور پھر اپنی تمام علمی و عملی سرگرمیوں کا محاسبہ کریں۔ دین رحمت کے پیغام محبت کو عام کرنا ہماری منصبی ذمہ داری ہے۔

*مولانا محمد اسماعیل گوجرانوالہ کا فتوی*
تعصب و تنگ نظری کے ماحول میں رہنے والے اور رد عمل کا شکار اپنے مخلص، دین دار اور نماز کے پابند نوجوانوں کی ذہنی تربیت اور ان کی فکری اصلاح کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایک بڑے اہل حدیث عالم کا فتوی نقل کردوں تاکہ انھیں شرح صدر ہوجائے، ان کی غلط فہمیاں دور ہوجائیں اور غیر شعوری طور پر وہ فرقہ پرستی اور حزبیت کا زہر گھولنے والے لوگوں کا دشوار کام آسان نہ بناتے پھریں۔
مولانا محمد اسماعیل گوجرانوالہ رحمہ اللہ کی علمی عظمت، منہج سلف کی ترجمانی اور پاسداری ہمارے حلقے میں تسلیم شدہ ہے۔ اہل حدیث مسلک کی تفہیم کے لیے ہمیں ان کی تصانیف اور تحریروں کا بطور خاص مطالعہ کرنا چاہیے۔ ایک بار لاہور سے شائع ہونے والے رسالے ’’ہفت روزہ الاعتصام‘‘ میں مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی رحمہ اللہ کا ایک فتوی شائع ہوا جس میں یہ لکھا گیا تھا کہ عیدین میں چوں کہ بارہ تکبیرات زوائد ہیں اور احناف صرف چھ تکبیرات کہتے ہیں، اس لیے احناف کے پیچھے اہل حدیث کی نماز عید درست نہیں ہے۔ مولانا اسماعیل گوجرانوالہ نے اس فتوے کا تفصیلی جواب لکھا، جس میں وہ حضرت کھنڈیلوی رحمہ اللہ کا تعاقب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’تکبیرات عید کے متعلق اہل علم کے دو مسلک ہیں: ایک گروہ بارہ تکبیرات قبل القرأۃ کا قائل ہے۔ امام مالک، امام احمد اور امام شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ کا بھی یہی معمول ہے۔ اس مسلک کی تائید عمرو بن عوف، حضرت عائشہ، ابن عمر، عبدالرحمن بن عوف اور سعد موذن کی روایات سے ہوتی ہے۔ عمرو بن عوف کی روایت کو: ’’أحسن شیء روی فی ہذاالباب‘‘ فرماتے ہیں حالانکہ اس میں بشر بن عبداللہ راوی متہم بالکذب ہے۔(شافعی، ابوداود، ابن حبان) میزان الاعتدال میں حضرت عائشہ کی روایت بحوالہ ابوداود ہے اور اس کے راوی ابن لہیعہ ہیں، ان کا ضعف مشہور ہے۔ ابن عمر کی روایت دارقطنی وغیرہ میں ہے، اس میں فرج بن فضالہ منکر الحدیث ہے۔(بخاری) سعد موذن کی روایت میں بقیہ ضعیف ہے اور عبدالرحمن بن عوف کی روایت میں حسن بجلی ضعیف ہیں۔ عبداللہ بن عمر کی روایت کے متعلق امام بخاری فرماتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے، عراقی اس کی سند کو صالح کہتے ہیں۔ دراصل یہی حدیث ہے جسے ’’أحسن شیء روی فی الباب‘‘ کہنا چاہیے۔ ترمذی کی ترجیح تحسین کا مدار بھی طرق کے تعدد پر ہی معلوم ہوتا ہے ورنہ ان کی مصطلح تحسین تو غرابت کے منافی ہوسکتی ہے، اس کا مفاد لغوی تحسین بھی نہیں ہوسکتا۔ عبداللہ بن عمرو کا طریق وہی ہے جو وہ عن ابیہ عن جدہ سے روایت فرماتے ہیں، اسی سند پر محدثین کی گفتگو مشہور ہے۔ سند بلا شک قابل اعتماد ہے، علی الاطلاق ضعیف نہیں لیکن صحیح کی ان اعلی اقسام سے بھی نہیں جن کی مخالفت کو انشراح کے ساتھ ناجائز اور نادرست کہا جاسکے۔
دوسرے مسلک کی تائید صرف بعض آثار سے ہوتی ہے۔ مرفوعاً صرف حضرت ابوموسی اشعری سے ایک حدیث مروی ہے جس کی سند میں عبدالرحمن بن ثابت بن ثوبان عنسی ہیں جن میں ائمہ حدیث کو کلام ہے اور صحیح یہ ہے کہ یہ بھی حضرت ابن مسعود کا اثر ہے، مرفوع نہیں، اس لیے اس میں تو کلام نہیں کہ توازن احادیث کے لحاظ سے پہلا مسلک راجح ہے اور احناف رحمہم اللہ کا مسلک ائمہ حدیث کے نقطۂ نظر سے ضعیف ہے۔
بایں ہمہ محترم المقام مفتی صاحب کا ارشاد کہ’’اہل حدیث نماز عید میں حنفی کی اقتدا نہ کرے‘‘، انصاف پر مبنی نہیں، میں یقین رکھتا ہوں کہ محترم مفتی صاحب اپنے اس فتوی پر نظر ثانی فرمائیں گے۔ مسلک اہل حدیث کی اساس تو صرف اس اصل پر ہے کہ اجتہادی مسائل میں فرقہ وارانہ عصبیت سے احتراز کیا جائے اور ترجیح کی بنیاد دلائل پر ہونی چاہیے مگر افسوس ہے کہ ہم لوگ خود فرقہ بن رہے ہیں، أعاذنا اللہ من الافتراق الشنیع۔
ایسے فرعی اجتہادی مسائل میں اپنے مسلک کی حمایت اور عملاً اس کی پابندی تو از بس ضروری ہے لیکن دوسرے کی اقتدا کے عدم جواز کا فتوی ناروا جسارت ہے اور اہل تحقیق کے لیے قطعی نامناسب۔ اہل تحقیق کو امام بخاری اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی طرح وسیع الصدر ہونا چاہیے اور اقتدا کے معاملہ میں اہل بدعت کو بھی بالکل نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ (ملاحظہ ہو فتاوی ابن تیمیہ، مطبوعہ اہل نجد جدید)

حضرت المحترم شیخ مولانا انور شاہ صاحب اور ان کے تلامذہ کی یہ عادت تھی اور ہے کہ اگر شوافع اور موالک وغیرہ احناف کے شروط و قیود وغیرہ کی پابندی کریں تو اقتدا درست ہے۔ یہ بات بھی بے معنی ہے اور مبنی برتعصب ہے۔ امام اگر دیانۃً ایک مسلک کو صحیح سمجھ کر اس کا پابند ہے تو مقتدی کو اس کی تحقیق سے اتفاق ہو یا نہ ہو، اقتدا میں کوئی حرج نہیں۔ تشبیک کی موجودگی میں اگر عبداللہ بن مسعود کی اقتدا درست ہے تو احناف کی تکبیرات ستہ منسوخہ اس سے زیادہ کڑوی نہیں، اس لیے اہل حدیث کے لیے احناف کی اقتدا بلا نکیر درست ہے‘‘۔
والسلام
محمد اسماعیل گوجرانوالہ
(فتاوی سلفیہ، مطبوعہ مکتبہ ترجمان دہلی، طبع اول ۱۹۹۱،ص:۷۵-۷۶)
اس قدر واضح، مبنی برحقیقت اور دو ٹوک تحریر دیکھ کر کہنا پڑے گا کہ تقلید کی بندشوں نے مسلمانوں کو ہلاکت کی جس راہ پر ڈال دیا ہے، اس سے بچنے کا واحد راستہ منہج اہل حدیث کی مخلصانہ پیروی ہے لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آج کچھ ناسمجھ اور جذباتی لوگ اپنی غیر علمی اور غیر سنجیدہ تحریروں سے اس صاف ستھرے مسلک کو داغ دار کررہے ہیں اور ہمارے کچھ ناپختہ اور جذباتی نوجوان ان کی ہاں میں ہاں ملا کر ان کے نفس کو موٹا کررہے ہیں جیسا کہ مولانا گوجرانوالہ نے پوری درد مندی سے اس کی شکایت کی ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ موجودہ دور میں ہماری بے عملی اور بدعملی ایسی تحریروں کو اپنے عقیدہ و مسلک کے تحفظ کے لیے ضروری سمجھ رہی ہے۔ علمائے اہل حدیث کا علمی وقار اور مختلف فیہ فقہی مسائل میں ان کی سنجیدہ گفتگو ایک معروف حقیقت ہے۔ اللہ کے لیے جماعت کے علمی وقار کو مجروح کرنے والی تحریروں کو پہچانیں اور ان کو اپنے درمیان قبول عام کا درجہ حاصل کرنے کا موقع ہرگز نہ دیں۔ غیر علمی اور غیر معروضی انداز صرف وہی اپناتا ہے جس کے پاس معقول دلائل نہیں ہوتے، ہمارے پاس بحمد اللہ اپنے ہر مسئلے کے لیے کتاب و سنت اور آثار صحابہ کے بھرپور دلائل موجود ہیں۔
مولانا گوجرانوالہ نے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا نام بھی اس ضمن میں لیا ہے، لگے ہاتھوں ان کی بھی ایک واضح تحریر ملاحظہ فرمالیں:
فإن أہل الحدیث والسنۃ کالشافعی وأحمد وإسحاق وغیرہم متفقون علی أن صلاۃ الجمعۃ تصلی خلف البر والفاجر حتی إن اکثر أہل البدع کالجہمیۃ الذین یقولون بخلق القرآن وأن اللہ لا یری فی الآخرۃ ومع أن أحمد ابتلی بہم وہو أشہر الأئمۃ بالإمامۃ فی السنۃ ومع ہذا فلم تختلف نصوصہ أنہ تصلی الجمعۃ خلف الجہمی والقدری والرافضی ولیس لأحد أن یدع الجمعۃ لبدعۃ فی الامام لکن تنازعوا ہل تعاد علی قولین ہما روایتان عن أحمد قیل تعاد خلف الفاسق ومذہب الشافعی وأبی حنیفۃ لا تعاد۔(مختصر الفتاوی المصریۃ لابن تیمیہ۱؍۵۴-۵۵)
’’اہل حدیث و سنت امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق وغیرہ اس بات پر متفق ہیں کہ امام نیک ہو یا فاسق و فاجر، اس کے پیچھے نماز جمعہ پڑھی جائے حتی کہ اکثر اہل بدعت مثلاً جہمی جو خلق قرآن کے قائل ہیں اور اس کے بھی کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار نہیں ہوگا، اور باوجود اس کے کہ امام احمد بن حنبل پر ان کی وجہ سے سخت ابتلا بھی آئی، اور امامان سنت میں وہ سب سے مشہور امام ہیں، پھر بھی امام احمد کی نصوص میں اس کے متعلق کوئی اختلاف نہیں کہ نماز جمعہ جہمی، قدری اور رافضی کے پیچھے ادا کی جانی چاہیے اور کسی کے لیے جائز نہیں ہے کہ امام میں پائی جانے والی کسی بدعت کی وجہ سے اس کے پیچھے نماز جمعہ ترک کردے۔ البتہ اس قسم کی نماز کے اعادہ اور عدم اعادہ کے بارے میں ائمہ کا اختلاف ہے۔ امام احمد بن حنبل سے دونوں روایتیں مروی ہیں، یہ بھی کہا گیا ہے کہ فاسق کے پیچھے پڑھی جانے والی نماز کا اعادہ کیا جائے اور امام شافعی اور امام ابوحنیفہ کا مذہب یہ ہے کہ نماز کا اعادہ نہ کیا جائے‘‘۔
ایک دوسرے جید عالم مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کا بھی اسی طرح کا ایک واقعہ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ نے اپنی ایک کتاب میں ذکر کیا ہے۔ اس واقعہ کا تعلق مشہور مصنف مولانا محمد اقبال کیلانی سے ہے۔ ان کا تعلق بریلوی گھرانے سے تھا۔ نوجوانی میں جب انھوں نے اہل حدیث مسلک اختیار کرلیا تو اپنے محلے کی مسجد میں بریلوی امام کے پیچھے نماز نہ پڑھ کر کسی دوسرے محلے میں اہل حدیث مسجد میں نماز پڑھنے جایا کرتے تھے۔ جب مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کو اس کی خبر ہوئی تو انھوں نے مولانا محمد اقبال کیلانی کو اپنے پاس بلایا اور ان سے پوچھا کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ آپ اپنے محلے کی مسجد میں نماز نہیں پڑھتے۔ انھوں نے جواب دیا کہ ہاں، میں نہیں پڑھتا کیوں کہ امام بریلوی ہے اور بریلوی امام کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔ مولانا بھوجیانی نے فرمایا: یہ فتوی آپ کو کس نے دیا؟ میں یہ فتوی دیتا ہوں کہ آپ کی نماز بریلوی امام کے پیچھے ہوجائے گی۔ اگر آپ اپنے محلے کی مسجد میں نماز نہیں پڑھیں گے تو وہاں کے لوگوں کی اصلاح اور تربیت کیسے ہوگی۔
لگے ہاتھوں مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کا ذکر کردہ ایک دل چسپ واقعہ بھی سن لیجیے جس کا تعلق مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کی ذات گرامی سے ہے۔ مولانا بھٹی صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’ایک دن مولانا عطاء اللہ فیروزپور گئے، مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ وہ مولانا محمد سعید شبلی سے ملنا چاہتے تھے جو فیروزپور چھاؤنی میں اسلامیہ حنفیہ ہائی اسکول میں دینیات کے استاد تھے اور چھاؤنی کی جامع مسجد میں خطابت و امامت کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا مولانا شبلی احناف کے بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ چھاؤنی کی جس مسجد کے وہ امام و خطیب تھے، وہ بھی بریلوی حضرات کی تھی۔ شبلی صاحب کے مولانا عطاء اللہ صاحب سے اچھے مراسم تھے اور صاحب مطالعہ شخص تھے۔ دونوں کے درمیان اصل رشتہ یہی تھا کہ دونوں کتابوں کے رسیا تھے اور مختلف مضامین کی کتابیں خریدتے اور پڑھتے رہتے تھے۔
ہم مولانا شبلی صاحب کی مسجد میں مغرب کی نماز کے وقت پہنچے تھے۔ اس وقت نماز ہورہی تھی اور وہ نماز پڑھا رہے تھے۔ ہم دوسری رکعت میں شامل جماعت ہوئے تھے، انھوں نے ’’ولا الضالین‘‘ پڑھا تو ہم نے قدرے بلند آواز سے کہا: ’’آمین‘‘۔
یہ اس مسجد میں بالکل نئی بات بلکہ نئی حرکت تھی جو ہم نے کی۔ جماعت ختم ہوئی تو لوگ غصے سے ادھر ادھر دیکھنے لگے اور بولے یہ کون لوگ ہیں جنھوں نے آمین پکاری ہے۔
سردیوں کے دن تھے اور مولانا عطاء اللہ صاحب نے کمبل اوڑھ رکھا تھا۔ مصلے پر بیٹھے ہوئے مولانا شبلی نے ان کو پہچان لیا اور کھڑے ہوکر نہایت احترام سے سلام کیا اور اپنے پاس مصلے پر بٹھایا۔لوگ اس صورت حال سے بڑے حیران ہوئے۔ انھوں نے مولانا عطاء اللہ صاحب کے بارے میں لوگوں کو بتایا کہ یہ بہت بڑے عالم ہیں اور میرے دوست ہیں، انھوں نے جو کچھ کیا ہے ٹھیک کیا ہے اور حدیث رسول کے مطابق کیا ہے۔
اس کے بعد لوگ خاموش ہوگئے اور نماز سے فارغ ہوکر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ مولانا شبلی ہمیں اپنے مکان پر لے گئے اور کافی دیر باتیں کرتے رہے۔ انھوں نے ہمیں کھانا بھی کھلایا اور چائے بھی پلائی‘‘۔
(استاد گرامی مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ، از مولانا محمد اسحاق بھٹی، محمد اسحاق بھٹی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، ساندہ، لاہور، طبع۲۰۱۷ء،ص:۱۱۷-۱۱۸)

*دین میں فقہی فروعات کا مقام*
مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اللہ کے ادارے ’’الدارالسلفیہ‘‘ ممبئی سے میری ایک مترجم کتاب ’’اذان کے احکام و مسائل‘‘ کے عنوان سے جولائی ۲۰۰۴ء میں شائع ہوئی تھی۔ عربی کتاب کا نام ’’المفید فی تقریب أحکام الأذان‘‘ ہے جو شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن جبرین رحمہ اللہ کے بعض فتاوی پر مشتمل ہے جسے ان کے ایک شاگرد محمد بن عبدالرحمن بن ملہی عریفی نے جمع کیا ہے۔ ۱۲۳؍صفحات پر مشتمل اس کتاب پر عرض مترجم کے عنوان سے ۱۲؍جولائی ۲۰۰۲ء کو جو کچھ میں نے تحریر کیا تھا، اس کے بعض حصے یہاں نقل کرتا ہوں، اس سے فقہی فروعات کے سلسلے میں شاید ہم کسی نتیجے پر پہنچ سکیں۔ سولہ سال پہلے کی یہ تحریر ملاحظہ فرمائیں:
’’افہام و تفہیم کے نقطۂ نظر سے احکام شریعت میں اصول و فروع کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ اس تقسیم کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ دین صرف اصول سے عبارت ہے اور فروع کی کوئی اہمیت و افادیت نہیں ہے۔
بعض حضرات کا خیال ہے کہ اصول پر اتفاق موجود ہو تو فروع میں اختلافات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کتاب و سنت کا براہ راست علم رکھنے والے شاید فکر و فہم کے اس انداز سے خود کو مطمئن نہ کرسکیں کیوں کہ اسلام کا کوئی ایسا اصول نہیں ہے جو عملی زندگی میں اپنے فروع کے بغیر داخل کیا جاسکے۔ عقائد، عبادات اور معاملات کے اندر جو بھی اصول فقہاء اور علمائے شریعت نے طے کیے ہیں، وہ اپنی تفصیلات کے بغیر نہ سمجھ میں آسکتے ہیں اور نہ دوسروں کو سمجھائے جاسکتے ہیں۔ شارع علیہ السلام نے اگر جزئیات دین خود بیان کی ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کو تسلیم نہ کیا جائے اور عملی زندگی میں ان کو برتا نہ جائے۔ مثالی ادوار کے نمونے کتب سیر و تراجم میں موجود ہیں، یہ نمونے اصول و فروع میں اس فرق کی تائید نہیں کرتے بلکہ ان نمونوں میں ہمیں شجر اسلام پھلتا پھولتا نظر آرہا ہے۔ برگ و بار کی تازگی اور سیرابی کے لیے درخت کی جڑ اور اس کا تنا ضروری ہے لیکن اپنی شاخوں، پتیوں، پھولوں اور پھلوں سے محروم درخت، بظاہر درخت جیسا نظر تو آسکتا ہے لیکن حقیقت میں وہ درخت نہیں ہے۔
شریعت میں فروعی احکام و مسائل سے متعلق دو رجحانات ایسے ہیں جن پر تفصیلی گفتگو کرنے کی ضرورت ہے۔ ان دونوں رجحانات نے ہماری دینی زندگی کو متاثر کیا ہے۔ ایک رجحان تو وہ ہے جس کی تصویر ہمیں بعض فقہی کتابوں میں نظر آتی ہے۔ ناقابل تصور مسائل اور ایسی فرعیات جن کا انسان کی عملی زندگی سے دور کا بھی تعلق نہیں، ان میں بہ کثرت موجود ہیں۔ انہی فقہی موشگافیوں کو بنیاد بناکر اجتہاد کا دروازہ بند کردیا گیا اور تفریعات فقہاء کی تقلید کو واجب قرار دے دیا گیا اور آج بھی ایک طبقے کا اصرار ہے کہ چوتھی صدی ہجری تک شریعت کی تطبیق و تنفیذ کا فریضہ ادا ہوچکا ہے، اس کے بعد کی صدیوں میں نصوص کتاب و سنت پر غور کرکے مسائل کا استنباط کرنا ضلالت و گمراہی ہے اور امت کے اتحاد و اتفاق کو انتشار و افتراق میں تبدیل کرنا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس رجحان کے حاملین نے مختلف مسائل میں روایت دیرینہ سے ہٹ کر فتوے دیے اور اپنے اس عمل کو عجیب و غریب فقہی اصطلاحات سے تعبیر کیا۔
اس کے برعکس فروعی مسائل سے متعلق ایک دوسرا رجحان ہے جس کی عمر کچھ زیادہ لمبی نہیں ہے بلکہ وہ نصف صدی پیشتر کی پیداوار ہے۔اس رجحان میں ان فروعات کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں ہے، ان پر عمل کریں یا نہ کریں، دینی زندگی میں کوئی فرق نہیں آتا۔ ملت کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس رجحان کو تقویت ان معرکہ آرائیوں سے ملی جو کتب مسالک میں نظر آتی ہیں اور جن کی چلتی پھرتی تصویریں معاشرے میں آج بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سنن و آداب سے زندگیاں خالی ہوگئیں اور ہم اصولوں پر عمل کرنے کی دہائی دے کر مومن کامل بنے رہے۔ آہستہ آہستہ جزئیات دین کا علم کم ہوتا گیا اور ہماری دینی مجلسیں بھی ان پر روشنی ڈالنے کو کار عبث سمجھنے لگیں۔ اب تو فارغین مدارس بھی ان میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتے۔ اتفاق سے کہیں کسی فروعی مسئلے پر گفتگو کرنے کی ضرورت آن پڑے تو صرف پیشانی ہی نہیں پورا جسم عرق آلود ہوجاتا ہے۔ کہاں یہ فریضہ کہ کار دعوت مکمل علم و آگہی اور فہم و بصیرت کے ساتھ انجام دینا ہے اور کہاں یہ صورت حال کہ داعیان دین مسائل دین سے ناواقف ہیں۔
صورت حال کی یہ سنگینی عالمی سطح پر پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالم عرب کے دین پسند طبقے میں اب یہ بات عام ہوچکی ہے کہ نصوص کتاب و سنت کی روشنی میں دین کے احکام و مسائل کو سمجھا جائے اور پوری بصیرت اور شرح صدر کے ساتھ ان پر عمل کیا جائے۔ علمائے ربانیین کی ایک معتد بہ تعداد چھوٹے بڑے رسائل کے ذریعے دین کے تمام مسائل پر کتاب و سنت اور سلف صالحین کا نقطۂ نظر واضح کرنے میں مصروف ہے‘‘۔(ص:۱۶-۱۸)
اہل حدیث مسلک اور عقیدہ کو دوسرے مسلک کے درمیان وہی مقام حاصل ہے جو خود اسلام کا دوسرے مذاہب کے درمیان ہے۔ ایک بڑے بھائی کا کردار ادا کرنے کے لیے وسعت ظرفی کا کردار ادا کرنا ضروری ہے۔ چھوٹوں کی ناراضگی اور ان کی غلط فہمیاں محبت، شفقت اور اپنائیت سے دور کی جاسکتی ہیں۔ ان سے جدال و قتال کروگے تو وہ احترام و اکرام کی تمام حدیں پار کرکے بغض و عناد کی ایسی خلیج پیدا کردیں گے جن کو پاٹنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجائے گا۔ دشمنی اور عداوت میں وہ یہ بھی بھول جائے گا کہ آپ اس کے بھائی ہیں۔ آپ کو نقصان پہنچانے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ اگر ہماری بصیرت اور بصارت زندہ اور سلامت ہے تو اپنے چاروں طرف اس مکروہ صورت حال کا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ملک میں وجود میں آنے والی تمام بڑی ملی تنظیموں اور اداروں میں ہمارے اسلاف نے نہ صرف شرکت کی ہے بلکہ ان کا کردار قائدانہ رہا ہے، ان کے پیش نظر جو اعلی مقاصد تھے، وہ بھی ہمارے سامنے ہیں، کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ اب صورت حال کیوں بدل گئی ہے کہ ملی تنظموں میں ہماری شرکت برائے نام ہی رہ گئی ہے اور ہم دودھ میں مکھی کی طرح ہر جگہ سے نکالے جارہے ہیں۔
اس کی ایک بڑی وجہ مختلف فیہ فقہی فروعات کے اصول و آداب کی عدم تفہیم بھی ہے۔ ان فقہی جزئیات کو جب آپ اسلام اور کفر کا، سنت اور بدعت کا مسئلہ سمجھ لیں گے تو یہی صورت حال پیدا ہوگی جو آج ہمارے سامنے ہے۔ پیشہ ور واعظین جو ایک رات کا ہزاروں روپیہ وصول کرکے مسلکی اعتبار سے آپ کو گرماتے اور نوجوانوں کو بھڑکاتے ہیں ان کو ملت کی بقا اور تحفظ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، وہ صرف اپنی ایک رات کا معاوضہ لے کر چلتے بنتے ہیں اور آپ کے درمیان جنگ و جدال کی حالت پیدا کرجاتے ہیں۔ ایسے واعظین سے خود کو دور رکھیے، ان شاء اللہ آپ سلامت رہیں گے اور ملت کے دکھ درد کو محسوس کرسکیں گے۔ دین کے ہر چھوٹے بڑے مسئلے پر عمل کرنا ہماری شناخت ہے لیکن اگر کسی غلط فہمی یا لاعلمی کی وجہ سے کسی کا عمل کسی فقہی مسئلے میں ہم سے مختلف ہے تو اس کی اقتدا وغیرہ پر سوال کھڑا کرنا ایک الگ مسئلہ ہے۔ ان دونوں کے درمیان فرق کو سمجھنا اور اپنے کردار و عمل، سلوک اور رویے میں توازن قائم رکھنا ہماری دینی اور ملی ضرورت بھی ہے اور وقت کا ایک اہم تقاضا بھی۔
 
Top