الحدیث الحسن

اہل علم نے حدیثِ حسن کو مختلف الفاظ سے تعبیر کیا ہے جس کی تفصیل امام ذھبی رحمہ اللہ نے "الموقظۃ فی علم مصطلح الحدیث" میں ذکر کی ہے ۔
میں یہاں صرف حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ کی "نخبۃ الفکر " میں ذکر کردہ تعریف کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حدیثِ صحیح کی پانچ شرائط ذکر کی ہیں
1)اس کے تمام راوی عادل ہوں
2)سند متصل ہو ۔
3)تمام راوی تام الضبط ہوں
4)حدیث معلول نہ ہو
5)حدیث شاذ نہ ہو ۔
ان شرائط کو نقل کرنے کے بعد حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:فإن خف الضبط فهو الحسن لذاته
اگر راوی( بمع بقیہ شروط) خفیف الضبط ہے تو اس کی روایت کو حسن لذاتہ کہا جائے گا ۔
اس تعریف پر امام محمد بن اسماعیل الصنعانی (ت1182)رحمہ اللہ نے اعتراض کیا فرماتے ہیں:ﻭﻳﻘﺎﻝ ﻟﻠﺤﺎﻓﻆ ﻭﻛﺬﻟﻚ ﺗﻌﺮﻳﻔﻚ اﻟﺤﺴﻦ ﻓﻲ اﻟﻨﺨﺒﺔ ﻭﺷﺮﺣﻬﺎ ﺑﻘﻮﻟﻚ ﻓﺈﻥ ﺧﻒ اﻟﻀﺒﻂ ﺃﻱ ﻗﻞ ﻣﻊ ﺑﻘﻴﺔ اﻟﺸﺮﻭﻁ اﻟﻤﺘﻘﺪﻣﺔ ﻓﻲ ﺣﺪ اﻟﺼﺤﻴﺢ ﻓﺤﺴﻦ ﻟﺬاﺗﻪ ﻏﻴﺮ ﻣﻨﻀﺒﻂ ﺃﻳﻀﺎ ﻓﺈﻥ ﺧﻔﺔ اﻟﻀﺒﻂ ﺃﻣﺮ ﻣﺠﻬﻮﻝ ﻭاﻟﺠﻮاﺏ ﺑﺄﻧﻪ ﻣﺒﻨﻲ ﻋﻠﻰ اﻟﻌﺮﻑ ﺃﻭ ﻋﻠﻰ اﻟﻤﺸﻬﻮﺭ ﻏﻴﺮ ﻧﺎﻓﻊ ﺇﺫ ﻻ ﻋﺮﻑ ﻓﻲ ﻣﻘﺪاﺭ ﺧﻔﺔ اﻟﻀﺒﻂ.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کو کہا جائے گا کہ آپ نے جو حسن کی تعریف نخبہ اور اس کی شرح میں کی ہے کہ اگر راوی کا حافظہ کمزور ہے اور بقیہ صحیح حدیث کی تمام شروط پائی جاتی ہیں تو اس کو حسن لذاتہ کہا جائے گا
یہ آپ کی تعریف بھی درست نہیں ہے کیونکہ خفۃ الضبط (کی مقدار) مجھول ہے ۔
اس اعتراض کا یہ جواب دینا کہ کہ خفۃ ضبط (کی مقدار)عرف یہ معنی مشھور پر محمول ہے فایدہ مند نہیں ہے ۔کیونکہ خفۃِ ضبط کی عرف میں کوئی مقدار معین نہیں ہے ۔
توضیح الافکار 436/1
لیکن امام سخاوی رحمہ اللہ نے "الجواھر و الدرر" 913/2 میں حافظ ابن حجر سے جو تعریف نقل کی ہے اس کے الفاظ اس طرح ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:حسن لذاتہ کی تعریف فقھاء و محدثین کے ہاں معروف ہے ۔
حسن لذاتہ وہ روایت ہے جس کی سند متصل ہو اس کی رواۃ سچائی کے ساتھ معروف ہوں ۔ ان راویوں کا ضبط صحیح (بخاری) کے راویوں سے کم ہو ۔اور وہ حدیث معلول و شاذ نہ ہو ۔
الجواہر و الدرر 913/2
اس تعریف کے ساتھ امام صنعانی کا اعتراض رفع ہو جاتا ہے ۔اور یہی تعریف ابن الصلاح نے "معرفۃ انواع علوم الحدیث" میں کی ہے۔
مستفاد من درس "الموقظۃ فی علم مصطلح الحدیث"