


قارئین کرام اس مضمون کے اندر میں زکات کے سلسلے میں چند اہم نکات پر مختصرا گفتگو کروں گا... ان شاء اللہ
زکات کی لغوی و اصطلاحی تعریف :
لغت : میں زکات کے کئی معانی بیان کئے گئے ہیں :
اول :طہارت ..یعنی اموال کی طہارت و پاکیزگی اور ستھرائی کیونکہ زکات لوگوں کی گندگی ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے " إنما هي من أوساخ الناس " ... یا کنجوسی اور بخل کی آلودگی سے دلوں کی صفائی... یا گناہوں سے دلوں کی صفائی ان معانی کے دلائل درج ذیل ہیں : (١) اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : إن الله لم يفرض الزكاة إلا ليطيب ما بقي من أموالكم... رواه أبو داود وصححه الإمام مقبل الوادعي في الصحيح المسند ٥٨١ .
ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ فرض ہی اس لیے کی ہے کہ اس سے تمہارا بقیہ مال پاک ہو جائے ۔
(٣) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا : فلما أنزلت جعلها الله طهرا للأموال ... صحيح البخاري ١٤٠٤
ترجمہ:
پھر جب زکوٰۃ کا حکم نازل ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کو مالوں کی پاکی کا سبب بنا دیا۔
(٣)اللہ تعالیٰ نے فرمایا :"خذ من أموالهم صدقة تطهرهم وتزكيهم بها...التوبة :١٠٣ )
ترجمہ:اے نبی ! آپ ان کے اموال سے صدقہ وصول کیجئے اور اس صدقہ کے ذریعہ ان (کے اموال) کو پاک کیجئے اور ان (کے نفوس) کا تزکیہ کیجئے،
شیخ صلاح الدین یوسف اس طرح کے چند دلائل کا تذکرہ کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
" اس سے معلوم ہوا کہ زکات و صدقات سے طہارت و پاکیزگی حاصل ہوتی ہے - طہارت کس چیز سے ؟ گناہوں سے اور اخلاق رذیلہ سے , مال کی زیادہ محبت انسان کو خود غرض , ظالم ,متکبر , بخیل اور بد دیانت وغیرہ بناتی ہے جبکہ زکات مال کی شدت محبت کو کم کر کے اسے اعتدال پر لاتی ہے اور انسان میں رحم وکرم, ہمدردی و اخوت ,ایثار و قربانی اور فضل و احسان کے جذبات پیدا کرتی ہے.. اور جب انسان اللہ کے حکم پر زکوۃ ادا کرتا ہے تو اس سے یقینا اس کے گناہ بھی معاف ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے : "ان الحسنات یذھبن السيئات " سورة هود : ١١٤) بلا شبہ نیکیاں برائیوں کو کم کر دیتی ہیں. ( زکوٰۃ , عشر اور صدقۃ الفطر فضائل, احکام, مسائل ص : ١٥ )
*دوم* :نماء, بڑھوتری ( کیونکہ زکات دینے سے مال میں اضافہ ہوتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے " ما نقصت صدقة من مال" صحیح مسلم :٦٥٩٢)
ترجمہ:صدقے نے مال میں کبھی کوئی کمی نہیں کی -
یا اس لیے کیونکہ زکات کا تعلق ان اموال سے ہے جن میں بڑھوتری اور اضافہ ہوتا ہے.. یا اس لیے کیونکہ زکات نکالنے سے نیکیوں میں اضافہ ہوتا ہے .. اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
(١) یَمۡحَقُ ٱللَّهُ ٱلرِّبَوٰا۟ وَیُرۡبِی ٱلصَّدَقَـٰتِۗ . البقرة :٢٧٦)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقہ کو بڑھاتا ہے-
(٢) نیز فرمایا : وَمَاۤ ءَاتَیۡتُم مِّن رِّبࣰا لِّیَرۡبُوَا۟ فِیۤ أَمۡوَ ٰلِ ٱلنَّاسِ فَلَا یَرۡبُوا۟ عِندَ ٱللَّهِۖ وَمَاۤ ءَاتَیۡتُم مِّن زَكَوٰةࣲ تُرِیدُونَ وَجۡهَ ٱللَّهِ فَأُو۟لَـٰۤىِٕكَ هُمُ ٱلۡمُضۡعِفُونَ .. الروم : ٣٩)
ترجمہ:تم جو سود پر دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں بڑھتا رہے وه اللہ تعالیٰ کے ہاں نہیں بڑھتا ۔ اور جو کچھ صدقہ زکوٰة تم اللہ تعالیٰ کا منھ دیکھنے (اورخوشنودی کے لئے) دو تو ایسے لوگ ہی اپنا دو چند کرنے والے ہیں-
(٣)نیز فرمایا : ﴿مَّثَلُ ٱلَّذِینَ یُنفِقُونَ أَمۡوَ ٰلَهُمۡ فِی سَبِیلِ ٱللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِی كُلِّ سُنۢبُلَةࣲ مِّا۟ئَةُ حَبَّةࣲۗ وَٱللَّهُ یُضَـٰعِفُ لِمَن یَشَاۤءُۚ وَٱللَّهُ وَ ٰسِعٌ عَلِیمٌ﴾ [البقرة ٢٦١]
ترجمہ:جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راه میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سودانے ہوں ، اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے اور اللہ تعالیٰ کشادگی واﻻ اور علم واﻻ ہے۔
*سوم* :برکت ،
*چہارم* :مدح
*پنجم* :خیر و صلاح وغیرہا معانی میں استعمال کیا جاتا ہے
دیکھئے ( النهاية في غريب الحديث والأثر، لابن الأثير، باب الزاي مع الكاف، مادة ((زكا))، ٢/ ٣٠٧، لسان العرب، لابن منظور، باب الواو والياء من المعتل فصل الزاي، مادة ((زكا))، ١٤/ ٣٥٨،التعريفات للجرجاني، ص ١٥٢، المغني لابن قدامة، ٤/ ٥، الشرح الممتع لابن عثيمين، ٦/ ١٧ )_
*اصطلاح میں زکات کی کئی تعریفات کی گئی ہیں :*
(١) "حق يجب في المال " زکات مال میں ایسے حق کو کہتے جس کی ادائیگی واجب ہے. ( المغني، لابن قدامة، ٤/ ٥، الشرح الكبير، ٦/ ٢٩١)
(۲) حقّ واجب في مال خاص، لطائفة مخصوصة، في وقت مخصوص .
زکات ایسے حق کو کہتے ہیں جو خاص مال میں خاص لوگوں کے لیے اور خاص وقت میں واجب ہوتا ہے. (منتهى الإرادات، لمحمد بن أحمد الفتوحي، ١/ ٤٣٥، الإقناع لطالب الانتفاع، لموسى الحجاوي، ١/ ٣٨٧، الروض المربع مع حاشية عبد الرحمن بن قاسم، ٣/ ١٦٤)
(٣) نصيب مقدر شرعاً في مال معين يصرف لطائفة مخصوصة .
زکات شرعا مقررہ ایک ایسے حصے کا نام ہے جو معین مال میں خاص لوگوں کے لیے فرض ہے..
*زکات کے اقسام :*
زکات کی تین قسمیں ہیں :
(١) *زکاة النفس* : (تزکیہ نفس ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا :" وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا ، فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا ، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا "
ترجمہ:اور روح انسانی کی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے پیدا کیا،پھر اس کی برائی اور اس کی پرہیز گاری کا اسے الہام کردیا،یقیناً وہ شخص کامیاب ہوگا جس نے اپنے نفس کو گناہوں سے پاک کیا-
تزکیہ نفس : نفس کو شرک، کفر، نفاق اور ذنوب ومعاصی اور بد خلقی سے پاک کرنے کا نام ہے .
(۲) *زكاة البدن* : (تزکیہ بدن)
یہ تزکیہ رمضان المبارک کے مہینے میں زکات الفطر کی ادائیگی کے ذریعے ہوتا ہے ...
جیسا کہ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ والہ و سلم کی حدیث ہے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں " فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر طهرة للصائم من اللغو والرفث وطعمة للمساكين.... رواه أبو داود ( 1609) وحسنه الألباني رحمه الله.
ترجمہ:رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر کو فرض قرار دیا تاکہ روزے دار کے لیے لغو اور بیہودہ اقوال و افعال سے پاکیزگی ہو جائے اور مسکینوں کو طعام حاصل ہو ۔
(٣) *زكاة الأموال* : مال کی زکات...
جو کہ اسلام کے پانچ ارکان میں سے تیسرا اہم رکن ہے ..
(الشرح الممتع، لابن عثيمين، ٦/ ١٧)
*اسلام میں زکات کا مقام :*
زکات ایک عظیم ترین عبادت ہے اور اس کا مقام و مرتبہ بھی مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر عظیم سے عظیم تر ہے :
*اول* : زکات اسلام کے ارکان میں سے تیسرا رکن ہے چنانچہ وہ اسلام کی بنیادوں میں سے ایک ہے .
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -:"بني الإسلام على خمس: شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمداً رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وصوم رمضان، وحج البيت" (متفق عليه: البخاري، كتاب الإيمان، باب: دعاؤكم إيمانكم، برقم ٨، ومسلم، كتاب الإيمان، باب أركان الإسلام ودعائمه العظام برقم ١٦.)
*دوم* زکات اس نماز کا قرین اور ساتھی ہے جس کا مسلسل تارک کافر اور دائرۂ اسلام سے سے خارج ہے..
چنانچہ اللہ رب العالمین نے قرآن کریم کے اندر تقریباً ستائیس مقامات پر نماز اور زکوٰۃ کو ایک ہی آیت میں ایک ہی ساتھ ذکر کیا ہے اسی طرح صرف تین مقامات ہی ایسے ہیں جہاں زکات کا ذکر نماز کے بغیر آیا ہے... اور قرآن کریم کے اندر بارہ مقامات پر لفظ صدقہ /صدقات مذکور ہوا ہے جو کہ زکات کے معنی میں ہے ... اور یہ چیزیں زکات کی اہمیت و فضیلت اور اس کے مقام و مرتبہ کی غمازی کرتی ہیں .
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
(1){وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآَتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ} البقرة : ٤٣)
ترجمہ: نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور جب اللہ کے حضور جھکنے والے جھکیں تو ان کے ساتھ تم بھی سرِ نیاز جھکا دو-
(2) نیز فرمایا :{وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآَتُوا الزَّكَاةَ} البقرة : ٨٣)
ترجمہ:لوگوں کے ساتھ اچھی بات کرو، اور نماز قائم کرو اور زکاۃ دو،
(3) نیز فرمایا :{وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآَتُوا الزَّكَاةَ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ الله إِنَّ الله بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ} البقرة : ١١٠ )
ترجمہ:ر نماز قائم کرو، اور زکاۃ دو اور جو بھلائی بھی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے، اسے اللہ کے پاس پاؤ گے، اللہ تمہارے کاموں کو خوب دیکھ رہا ہے-
(4) نیز فرمایا :{فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ} التوبة : ٥)
ترجمہ:اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز کے پابند ہوجائیں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو تم ان کی راہیں چھوڑ دو۔
(5) نیز فرمایا :{فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ} التوبة : ١١)
ترجمہ:اگر وہ توبہ کرلیں، اور نماز قائم کریں اور زکاۃ دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں،
*سوم* : سنت محمدیہ وآحادیث نبویہ کے اندر بھی زکات کے مسائل کے بیان کا نہایت ہی باریکی اور انتہائی تفصیل کے ساتھ اہتمام کیا گیا ہے.. یہ چیز بھی زکات کی اہمیت پر دلالت کرتی ہے..
چنانچہ آحادیث نبویہ میں زکات کی اہمیت وفضیلت ، اس کی ادائیگی کا حکم, طریقہ کار, نصاب, شروط, موانع , تارک زکات کے گناہ , مانع زکات کے ساتھ قتال , اموال زکویہ کے اصناف کی تفصیلات اور مستحقین زکوۃ کی تفصیلات کا بالتفصیل ذکر آیا ہے.
*چہارم* : زکات کی اہمیت کے پیش نظر ہی اللہ رب العالمین نے اسے ہم سے پیشتر امتوں پر بھی فرض کیا تھا..
چنانچہ حضرت ابراہیم اسحاق اور یعقوب علیہم السلام کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے :
{وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ وَكَانُوا لَنَا عَابِدِينَ} الأنبياء : ٧٣)
ترجمہ:اور ہم نے انہیں پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے مطابق لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے اور ہم نے ان کے پاس وحی بھیجی تھی کہ وہ اچھے کام کریں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں اور وہ سب ہماری ہی عبادت کرتے تھے۔
اسی طرح ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :"{وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا الله وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآَتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِنْكُمْ وَأَنْتُمْ مُعْرِضُونَ} البقرة : ٨٣)
ترجمہ: اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو گے اور والدین سے، رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں سے اچھا برتاؤ کرو گے، لوگوں سے بھلی باتیں کہو گے، نماز کو قائم کرو گے اور زکوٰۃ دیتے رہو گے۔ پھر تم میں سے ماسوائے چند آدمیوں کے باقی سب اس عہد سے پھر گئے۔ اور (اب تک تم اس عہد سے) اعراض کر رہے ہو-
*پنجم* : اللہ رب العالمین نے بہت سارے مقامات پر زکوۃ کی ادائیگی کرنے والوں کی مدح سرائی کی ہے چنانچہ فرمایا : {وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَبِيًّا*وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا} مريم : ٥٤ - ٥٥)
ترجمہ:اور آپ قرآن میں اسماعیل کا ذکر کیجیے وہ وعدہ کے بڑے سچے تھے، اور رسول و نبی تھے، اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کے نزدیک بڑے پسندیدہ تھے۔
اور فرمایا : {رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ الله وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ} النور :٣٦)
ترجمہ:یسے لوگ جنہیں تجارت اور خریدو فروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی-
وغیرہ وغیرہ بہت سی دوسری آیات و احادیث....
*ششم*: تارکینِ زکات، زکات ادا نہ کرنے والوں کی اللہ رب العالمین نے مذمت بیان فرمائی ہے.. چنانچہ فرمایا ہے : {وَوَيْلٌ لِلْمُشْرِكِينَ*الَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآَخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ} فصلت ٦-٧)
ترجمہ: ان مشرکوں کے لئے (بڑی ہی) خرابی ہے جو زکوٰۃ نہیں دیتے اور آخرت کے بھی منکر ہی رہتے ہیں۔
*ہفتم* : زکات کی اہمیت پر یہ چیز بھی دلالت کرتی ہے کہ جو شخص زکات ادا نہ کرے اس کے ساتھ جہاد وقتال کیا جائے گا..
چنانچہ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا "أمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا: أن لا إله إلا الله وأن محمداً رسول الله، ويقيموا الصلاة، ويؤتوا الزكاة، فإذا فعلوا ذلك عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها، وحسابهم على الله " (متفق عليه: البخاري، كتاب الإيمان، باب {فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآَتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ} برقم ٢٥، [التوبة: ٥]، ومسلم، كتاب الإيمان، باب الأمر بقتال الناس حتى يقولوا: لا إله إلا الله محمد رسول الله، برقم ٢٢ )
ترجمہ:مجھے ( اللہ کی طرف سے ) حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں اس وقت تک کہ وہ اس بات کا اقرار کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز ادا کرنے لگیں اور زکوٰۃ دیں، جس وقت وہ یہ کرنے لگیں گے تو مجھ سے اپنے جان و مال کو محفوظ کر لیں گے، سوائے اسلام کے حق کے۔ ( رہا ان کے دل کا حال تو ) ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔
اسی طرح صحیح بخاری ہی کی روایت ہے خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ قسم کھا کر فرماتے ہیں " والله لو منعوني عناقاً كانوا يؤدونها إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لقاتلتهم على منعها " (صحيح البخاري : ١٤٠٠)
ترجمہ: اللہ کی قسم اگر انہوں نے زکوٰۃ میں چار مہینے کی ( بکری کے ) بچے کو دینے سے بھی انکار کیا جسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تو میں ان سے لڑوں گا۔
*ہشتم* زکات کی اہمیت پر یہ چیز بھی دلالت کرتی ہے کہ زکات کے وجوب کا انکار کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے..
وغیرہا بہت ساری چیزیں ہیں جن کا ذکر وقت طلب ہے اور جو طوالت کا بھی باعث ہے... جبکہ اصول ہے " خير الكلام ما قل ودل "
*زکات کی وجہ سے مال میں دنیاوی برکت کی ایک عجیب و غریب مثال :*
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا:"ایک دفعہ ایک شخص زمین میں ایک صحرائی ٹکڑے پر کھڑاتھا۔ اس نے ایک بادل میں سے آوازسنی:"فلاں کے باغ کو سیراب کرو۔"وہ بادل ایک جانب بنا اور ایک پتھریلی زمین میں اپنا پانی انڈیل دیا۔پانی کے بہاؤ والی ندیوں میں سے ایک ندی نے وہ ساراپانی اپنے اندر لے لیا۔ وہ شخص پانی کے پیچھے پیچھے چل پڑا تو وہاں ایک آدمی اپنے باغ میں کھڑا اپنے کدال سے پانی کا رخ (اپنے باغ کی طرف) پھیررہا ہے۔ اس نے اس سے کہا:اللہ کے بندے ! تمھارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا:فلاں وہی نام جو اس نے بادل میں سے سنا تھا ۔اس (آدمی)نے اس سے کہا: اللہ کے بندے! تم نے مجھ سے میرا نام کیوں پوچھا ہے؟اس نے کہا:میں نے اس بادل میں جس کا یہ پانی ہے (کسی کو) یہ کہتے سنا تھا ۔فلاں کے باغ کو سیراب کرو تمھارا نام لیا تھا ۔تم اس میں کیا کرتے ہو۔"اس نے جواب دیا تم نے یہ بات کہہ دی ہے تو میں(تمھیں بتاد یتا ہوں)اس باغ سے جو کچھ حاصل ہوتا ہےمیں اس پر نظر ڈال کر اس کا ایک تہائی حصہ صدقہ کردیتا ہوں ایک تہائی میں اور میرے گھروالے کھاتے ہیں۔اور ایک تہائی اسی (باغ کی دیکھ بھال ) میں لگا دیتا ہوں۔ صحيح مسلم ، كتاب الزهد ، باب فضل الإنفاق : ٧٣٧٤) .
*ادائیگی زکات کے فوائد اور اس کی حکمتیں :*
(1) ادائیگی زکات سے بندے کا اسلام مکمل ہوتا ہے اور ایمان میں پختگی آتی ہے : کیونکہ زکات اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک ہے لہذا بغیر زکات ادا کئے ہوئے اسلام کی عمارت نامکمل اور ناقص رہتی ہے.. چنانچہ ہر مسلمان کا جو رضائے الٰہی کا طلب گار ہو یہ مقصد زندگی اور مطمح نظر ہونا چاہیے کہ زکات کی ادائیگی کے ذریعے وہ اپنا اسلام مکمل کرے ..
(2) زکات کی ادائیگی جنت میں لے جانے والا عمل ہے :
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ " أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ قَالَ مَا لَهُ مَا لَهُ وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَبٌ مَا لَهُ تَعْبُدُ اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ وَتَصِلُ الرَّحِمَ " متفق علیہ , رواه البخاري في كتاب الزكاة ،باب وجوب الزكاة.)
ترجمہ : ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ آخر یہ کیا چاہتا ہے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو بہت اہم ضرورت ہے۔ ( سنو ) اللہ کی عبادت کرو اور اس کا کوئی شریک نہ ٹھہراؤ۔ نماز قائم کرو۔ زکوٰۃ دو اور صلہ رحمی کرو۔
اسی طرح حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں "سَمِعْت رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ فَقَالَ اتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ وَصَلُّوا خَمْسَكُمْ وَصُومُوا شَهْرَكُمْ وَأَدُّوا زَكَاةَ أَمْوَالِكُمْ وَأَطِيعُوا ذَا أَمْرِكُمْ تَدْخُلُوا جَنَّةَ رَبِّكُمْ " رواه الترمذي (٦١٦) وصححه الألباني رحمه الله .
ترجمہ : میں نے رسول اللہﷺ کو حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ دیتے سنا، آپ نے فرمایا: 'تم اپنے رب اللہ سے ڈرو، پانچ وقت کی صلاۃ پڑھو، ماہ رمضان کے صیام رکھو،اپنے مال کی زکاۃ ادا کرو، اور امیر کی اطاعت کرو، اس سے تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ گے-
(3) زکات کی ادائیگی سے مال دار حضرات اور فقرا ومساکین کے بیچ محبت والفت کے رشتے استوار ہوتے ہیں کیونکہ دلوں کو اللہ تعالیٰ نے اس کیفیت پر پیدا کیا ہے کہ جب اس پر کوئی احسان کرتا ہے تو دل اس کے حق میں محبت کے جذبات سے لبریز ہو جاتا ہے.. اور اس طریقے سے تمام لوگ ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر باہم ایک کنبے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جس میں ایک فرد قبیلے کے دوسرے افراد کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے, ان کے ساتھ اچھائی سے پیش آتا ہے...اور باہم ایک دوسرے کا غمگسار وغم خوار بن جاتا ہے ..
(4) زکات ادا کرنے سے نفس کا تزکیہ ہوتا ہے : اللہ رب العالمین کا فرمان ہے : " {خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا}" التوبة :١٠٣)
(5) زکات و خیرات مال اور اجر و ثواب میں خیر وبرکت اور اضافے کا باعث ہے :
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :{وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ} سبأ : ٣٩)
ترجمہ: اور تم جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اللہ اس کا (پورا پورا) بدلہ دے گا، وہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔
رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "مَا مِنْ يَوْمٍ يُصْبِحُ الْعِبَادُ فِيهِ إِلَّا مَلَكَانِ يَنْزِلَانِ فَيَقُولُ أَحَدُهُمَا اللَّهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا وَيَقُولُ الْآخَرُ اللَّهُمَّ أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا " متفق عليه )
ترجمہ :کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ جب بندے صبح کو اٹھتے ہیں تو دو فرشتے آسمان سے نہ اترتے ہوں۔ ایک فرشتہ تو یہ کہتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدلہ دے۔ اور دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ! ممسک اور بخیل کے مال کو تلف وبرباد کردے۔
(6) ادائگی زکات کے ذریعے نفس کو بخل اور کنجوسی سے بچایا جاتا ہے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے :
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : {وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ} الحشر : ٩)
ترجمہ: جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچا لیا گیا وہی کامیاب اور با مراد ہے-
(7) ادائیگی زکات کے ذریعے اللہ کی اطاعت اور رسول کی اتباع ہوتی ہے اور دونوں بہت ہی عظیم کام ہیں خاص کر اتباع رسول محبت الہی اور مغفرت ذنوب کا ضامن ہے :
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قُلۡ إِن كُنتُمۡ تُحِبُّونَ ٱللَّهَ فَٱتَّبِعُونِی یُحۡبِبۡكُمُ ٱللَّهُ وَیَغۡفِرۡ لَكُمۡ ذُنُوبَكُمۡۚ وَٱللَّهُ غَفُورࣱ رَّحِیمࣱ﴾ [آل عمران ٣١]
ترجمہ: آپ کہہ دیجئے : کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ خود تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے-
(8) ادائیگی زکات, زکات نکالنے والے کے اسلام کی صداقت پر دلالت کرتی ہے :
حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے اللہ کے رسول نے فرمایا " «الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَأُ الْمِيزَانَ، وَسُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَآَنِ - أَوْ تَمْلَأُ - مَا بَيْنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَالصَّلَاةُ نُورٌ، وَالصَّدَقَةُ بُرْهَانٌ وَالصَّبْرُ ضِيَاءٌ، وَالْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ، كُلُّ النَّاسِ يَغْدُو فَبَايِعٌ نَفْسَهُ فَمُعْتِقُهَا أَوْ مُوبِقُهَا» صحيح مسلم ، كتاب الطهارة ، باب فضل الوضوء ، )
ترجمہ : ’’پاکیزگی نصف ایمان ہے ۔ الحمد للہ ترازو کو بھر دیتا ہے ۔ سبحان اللہ اور الحمد للہ آسمانوں سے زمین تک کی وسعت کو بھر دیتے ہیں ۔ نماز نور ہے ۔ صدقہ دلیل ہے ۔ صبر روشنی ہے ۔ قرآن تمہارے حق میں یا تمہارے خلاف حجت ہے ہر انسان دن کا آغاز کرتا ہے تو ( کچھ اعمال کے عوض)اپنا سودا کرتا ہے ، پھر یا تو خود کو آزاد کرنے والا ہوتا ہے یا خود کو تباہ کرنے والا ۔‘‘
(9) زکات ادا کرنے سے شرح صدر , کشادہ خاطری اور اطمینانِ قلب و باطن حاصل ہوتا ہے.. اور یہ چیز مجرب ہے کہ جو شخص دلی خوشی سے اپنے حصے کا کھانا یا کوئی چیز دوسرے کو کھلاتا یا دیتا ہے تو وہ فرحت وانبساط کے حسین احساسات سے ہمکنار ہوتا ہے.
(10) زکات کی ادائیگی سے فقرا کے دلوں میں اغنیاء واصحاب ثروت کے سلسلے میں جو جوش انتقام ہوتا ہے وہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور وہ ان کے بارے میں مثبت سوچ اپنا کر خوش حالی کے ساتھ زندگی گزارتا ہے.... اسی طرح زکات ہی کی بدولت بہت سارے فقرا ومساکین تقدیر کے بارے میں شکوے شکایات کرنے سے بھی بچ جاتا ہے کیونکہ جب ایک انسان بغیر کسی ظاہری سبب کے مالداروں کے پاس زیادہ اور اپنے پاس کم مال دیکھتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے تقدیر کے بارے میں شکوہ کناں ہوتا ہے اور اس کے دل میں طرح طرح کے وساوس اور خیالات جنم لینے لگتے ہیں وہ سوچتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کیوں کم مال دیا اور فلاں شخص کو زیادہ مال عطا کیا..؟ جبکہ اللہ رب العالمین تو عادل ہینلں مگر اسی وقت جب وہ دین اسلام کے نظام زکات کے بارے میں سوچتا ہے تو اس کا غصہ ہلکا ہو جاتا ہے اور جب اسے کسی صاحب دولت وثروت کی جانب سے زکات کی صورت میں اموال مہیا ہو جاتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں ثناگر وسپاس گزار بندہ بن جاتا ہے.. وذلک من فضل اللہ تعالٰی....
(11) صحیح طور پر زکات کی ادائیگی سے مالی جرائم کی شرح میں کمی واقع ہوتی ہے کیونکہ یہ بات تجربے اور مشاہدے میں آئی ہے کہ چوری , ڈاکہ زنی ,تاراجی, قزاقی اور لوٹ مار کا آغاز مالی تنگی اور فقر و فاقہ کی وجہ سے ہوتا ہے جب ایک انسان کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں رہتا تو وہ چار و ناچار چوری اور لوٹ کھسوٹ کا سہارا لیتا ہے اور دھیرے دھیرے یہ چیز اس کی طبعیت میں رچ بس کر اس کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے... لیکن جب تنگ حالی میں اسے زکات کے مال کی صورت میں کھانے پینے کی اشیاء مل جاتی ہیں تو وہ ان تمام جرائم سے باز رہتا ہے اور جو ان میں ملوث ہو وہ بھی کنارہ کر لیتا ہے ...
(12) روز قیامت زکات، زکات ادا کرنے والوں کے لیے سایہ بنے گا : حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :"كلُّ امرئ في ظل صدقته حتى يفصل بين الناس" (أحمد في المسند، : ١٧٣٣٣، وقال محققو المسند: إسناده صحيح، وأخرجه ابن حبان: ٣٣١٠. )
ترجمہ: روز قیامت ہر شخص اپنے صدقہ کے سائے میں رہے گا یہاں تک کہ لوگوں کا فیصلہ ہو جائے-
(13) صدقہ و خیرات سے اللہ رب العالمین کا غضب ختم ہوجاتا ہے :
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اللہ کے رسول نے فرمایا :" إن الصدقة لتطفئ غضب الرب " صححه الألباني رحمه الله في السلسلة الصحيحة (١٩٠٨)
ترجمہ: صدقہ و خیرات اللہ رب العالمین کے غیض و غضب کو ٹھنڈا کر دیتا ہے-
(14) ادائیگی زکات نزول بارش اور مصائب و مشکلات سے نجات کا باعث ہے-
اللہ کے رسول صل اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : ولم يمنعوا زكاة أموالهم إلا مُنعوا القطر من السماء, ولولا البهائم لم يمطروا ... (ابن ماجه، كتاب الفتن، باب العقوبات: ٤٠١٩، والحاكم وصححه ووافقه الذهبي، ٤/ ٥٤٠، وصححه الألباني في صحيح ابن ماجه، ٢/ ٣٧٠.)
ترجمہ : ان کے زکات روکنے کی وجہ سے اللہ رب العالمین نے آسمان سے بارش برسانا بند کر دیا، اگر چوپائے نہ ہوتے تو کبھی بارش نہ ہوتی ...
(15) زکات اموال کی حفاظت کا باعث ہے :
حضرت حسن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : " حصنوا أموالكم بالزكاة " صحيح الترغيب.. ٧٤٤) زکات کے ذریعے اپنے اموال کی حفاظت کرو.. ( أقول عن صحة الحديث في القلب شيء)
(16) ادائیگی زکات گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے :
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :" والصدقة تطفئ الخطيئة كما يطفئ الماء النار " (الترمذي، كتاب الإيمان، باب ما جاء في حرمة الصلاة، برقم ٢٦١٦، وأحمد، ٥/ ٥٣١، ٢٣٦، ٢٣٧، ٢٤٥، وحسنه الألباني في إرواء الغليل، ٢/ ١٣٨.)
ترجمہ: صدقہ و خیرات ویسے ہی گناہوں کو ختم کر دیتا ہے جیسے پانی آگ کو-
(17) ادائیگی زکات سے مال کا شر ختم ختم ہو جاتا ہے :
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :"قال رجل من القوم: يا رسول الله! أرأيت لو أدَّى الرجل زكاة ماله؟ فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "من أدى زكاة ماله فقد ذهب عنه شره " (الطبراني في الأوسط [مجمع البحرين]، برقم ١٣٤٥، قال الهيثمي في مجمع الزوائد، ٣/ ٦٣: ((وإسناده حسن وإن كان في بعض رجاله كلام))، وحسنه الألباني لغيره في صحيح الترغيب والترهيب، ١/ ٤٥٨. )
(18) زکات و صدقات کی ادائیگی نصرت الہی اور حصول رزق کے اسباب میں سے ہے :
حضرت سعد رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :"هل تنصرون وترزقون إلا بضعفائكم؟ " (البخاري, كتاب الجهاد والسير، باب من استعان بالضعفاء والصالحين في الحرب، برقم ٢٨٩٦.)
ترجمہ: تمہاری مدد اور تمہاری روزی محض تمہارے کمزور اور غریب لوگوں کی وجہ سے ہی تم تک پہنچائی جاتی ہے-
(19) زکات ادا کرنے والے اللہ تعالیٰ کی مدح سرائی کا مستحق ہوتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :{الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ} البقرة :٢٧٤)
ترجمہ:جو لوگ دن رات، کھلے اور چھپے اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ انہیں اپنے پروردگار سے اس کا اجر ضرور مل جائے گا۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے-
(20) زکات کی ادائیگی حصول رحمت کا باعث ہے-
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :" {وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآَتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ} النور : ٥٦)
ترجمہ:از کی پابندی کرو زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی فرماں برداری میں لگے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے-
نیز فرمایا :{وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآَيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ} الأعراف :١٥٦)
ترجمہ: میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے سو وہ رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔
(21) زکات میں مال خرچ کرنے کی آزمائش ہے چونکہ ہر شخص کے نزدیک مال ایک محبوب و مرغوب شئی ہے اور انسان اپنی محبوب چیزوں کو خرچ کرنے میں بخالت سے کام لیتا ہے اس لیے جب ایک انسان زکات ادا کر دیتا ہے تو وہ اس آزمائش میں کامیاب ہو جاتا ہے ... حضرت کعب بن عیاض رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں میں نے اللہ کے رسول کو فرماتے ہوئے سنا ہے :" إن لكل أمة فتنة وإن فتنة امتي المال " مسند أحمد ١٧٤٧١ ، وصححه الألباني في صحيح الجامع الصغير)
ترجمہ: بیشک ہر امت میں کوئی نہ کوئی فتنہ ضرور ہوتا ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے-
*زکات کا حکم :*
امام شوکانی نیل الاوطار کتاب الزکاۃ کے اندر فرماتے ہیں کہ " زکات کا وجوب اور اس کی فرضیت ایک بدیہی اور متفقہ امر ہے جس کے لیے دلائل کا ذکر محض تکلف ہے فرضیت زکوۃ کے سلسلے میں علمائے امت کا کوئی اختلاف نہیں ہے البتہ اس کے فروعات میں ضرور اختلاف پایا جاتا ہے "
چنانچہ ہر آزاد مالک نصاب مسلمان پر زکوۃ فرض ہے جس پر قرآن و حدیث اور اجماع امت کے دلائل موجود ہیں :
*اولا : قرآن کی دلیل :*
اللہ رب العالمین کا قول : ( أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ .)
اسی طرح بہت ساری آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے زکات ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ اصولی بات ہے کہ قرائن صارفہ سے خالی امر فرضیت و وجوب کا تقاضا کرتا ہے.
*ثانیا : حدیث کی دلیل :*
حضرت عبد اللہ بن عباس کی متفق علیہ حدیث کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تو ان سے کہا " إنك تأتي قوماً من أهل الكتاب: فادعهم إلى شهادة أن لا إله إلا الله، وأني رسول الله، فإن هم أطاعوا لذلك فأعلمهم أن الله افترض عليهم خمس صلوات في كل يوم وليلة، فإن هم أطاعوا لذلك فأعلمهم أن الله افترض عليهم صدقة تؤخذ من أغنيائهم فتردُّ في فقرائهم، فإن هم أطاعوا لذلك فإياك وكرائم أموالهم، واتق دعوة المظلوم، فإنه ليس بينها وبين الله حجاب "
اس حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ اللہ نے ان پر ایک خاص قسم کا صدقہ یعنی زکات فرض قرار دیا ہے.
*ثالثا : اجماع کی دلیل :* رہی بات اجماع کی تو اسلام کے ابتدائی عہد سے لے کر آج تک تمام زمانوں میں مسلمانوں کا اس بات پر اجماع و اتفاق رہا ہے کہ جب شروط متوفر ہوں اور موانع معدوم ہوں تو ہر آزاد , مالک نصاب مسلمان پر زکوۃ فرض اور واجب ہے حتی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے متفقہ طور پر مانعین زکات سے قتال و جہاد کیا ہے..( المغني لابن قدامة، ٤/ ٥.)
*وجوب زکوۃ کے لیے شریعت کی جانب سے مقرہ شرائط :*
ان میں سے کچھ شرائط صاحب مال سے متعلق ہیں اور کچھ اموال زکویہ سے :
*اولا : وہ شرائط جو صاحب مال سے متعلق ہیں :*
(1) پہلی شرط یہ ہے کہ صاحب مال مسلمان ہو کافر یا مرتد وغیرہ نہ ہو...
دلیل اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے "إنك تأتي قوماً من أهل الكتاب: فادعهم إلى شهادة أن لا إله إلا الله، وأني رسول الله، فإن هم أطاعوا لذلك فأعلمهم أن الله افترض عليهم خمس صلوات في كل يوم وليلة، فإن هم أطاعوا لذلك فأعلمهم أن الله افترض عليهم صدقة تؤخذ من أغنيائهم فترد في فقرائهم " متفق عليه)
وجہ استدلال یہ ہے کہ اولا اللہ کے رسول نے یہ حکم دیا کہ اگر وہ لوگ اسلام قبول کر لے تب انہیں نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دینا.. ثانیا اللہ کے رسول نے " أغنيائهم " میں "هم " ضمیر کے ذریعے صرف مسلمانوں کے ساتھ ادائگی زکات کے وجوب کو خاص کر دیا ہے.
(2) دوسری شرط یہ ہے کہ صاحب مال آزاد و خود مختار ہو غلام یا مکاتب یا مدبر نہ ہو : کیونکہ غلام کا مال مالک ہی کا مال ہے.. جیسا کہ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے :"ومن ابتاع عبداً وله مال فماله للذي باعه إلا أن يشترط المبتاع " کہ اگر غلام کے پاس کچھ مال ہو اور آقا اس کو فروخت کرے تو وہ مال فروخت کرنے والے آقا ہی کا ہوگا ..
*ثانیا : وہ شرائط جو اموال زکویہ سے متعلق ہیں :*
زکات کی فرضیت کے لیے اہل علم نے جن شرائط کو بالاتفاق مد نظر رکھا ہے ان کا بیان حسب ذیل ہے :
(1) مالک کو مال پر ملکیت تامہ حاصل ہو مال مقروض، اموال مسروقہ اور اموال غائبہ اس سے مستثنیٰ ہیں.
(2) مال حلال ذرائع سے کسب شدہ ہو اس میں حرام ذرائع کا دخل نہ ہو :
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : يا أيها الذين آمنوا أنفقوا من طيبات ما كسبتم " البقرة : ٢٦٧)
ترجمہ: ائے ایمان والوں اپنی کمائی ہوئی دولت میں سے کچھ پاکیزہ مالوں کو خرچ کرو-
(3) اموال زکویہ حوائج اصلیہ یعنی زندگی گزارنے کی بنیادی ضروریات سے زائد ہو :
کیونکہ اللہ عزوجل نے فرمایا ہے : ويسألونك ماذا ينفقون قل العفو " البقرة : ٢١٩)
کبار مفسرین مثلا ابن عباس, ابن عمر, مجاہد, عکرمہ, عطا, محمد بن کعب, حسن, سعید بن جبیر, قتادہ, قاسم, سالم, عطا خراسانی, اور ربیع وغیرہم رحمہم اللہ کا کہنا ہے کہ یہاں عفو سے مراد وہ مال ہے جو گھریلو ضروریات سے زائد ہو.... ملاحظہ فرمائیں تفسیر ابن کثیر درج بالا آیت کی تفسیر...
(4) یہ مال فرد واحد کی ملکیت میں ہو جماعت یا کمیٹی یا حکومت کے قبضے میں یا وقف کی شکل میں نہ ہو..
(5) جن اموال کی زکات ادا کرنی مقصود ہو وہ قرض سے فارغ ہو.. اگر کسی شخص کے پاس نصاب تک پہنچا ہوا مال ہو مگر اس میں قرض خواہوں کا حصہ بھی شامل ہو تو اس پر زکوۃ نہیں ہے..
(6) مال ایسا ہو جس میں بڑھنے اور اضافہ ہونے کی صلاحیت ہو اگر مال میں زیادتی اور بڑھوتری کی قابلیت نہ ہو خواہ یہ زیادتی حقیقی ہو یا تقدیری تو اس میں زکات نہیں ہے جیسا کہ غلام وغیرہ
(7) مال مقرہ نصاب تک پہنچتا ہو کیونکہ اموال زکویہ میں جہاں اللہ کے رسول نے زکات کی ادائگی کا حکم دیا ہے وہیں اس کا نصاب بھی بتا دیا ہے..
(8) غیر عشری اموال میں وجوب زکوۃ کے لیے یہ شرط ہے کہ اس پر ایک سال کا عرصہ گزر جائے :
کیونکہ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے : لا زكاة في مال حتى يحول عليه الحول " رواه إبن ماجه في سننه ١٤٤٩ ، وصححه الألباني رحمه الله في الإرواء ٧٨٧)
کسی (بھی غیر عشری) مال پر اس وقت تک زکات واجب نہیں ہوتی ہے جب تک کہ اس پر ایک سال کا عرصہ نہ گزر جائے-
*وہ اموال جو حولان حول کی شرط سے مستسنی ہیں* :
(1) وہ اموال جن میں عشر یا نصف عشر زکات واجب ہوتی ہے وہ غلہ جات پھل اور زمینی پیداوار ہیں.
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :" وآتوا حقه يوم حصاده " الأنعام :١٤١)
کٹائی کے دن ہی اس کا حق یعنی زکات ادا کر دو!
(2) نصاب تک پہنچے ہوئے مین پونجی (راس المال) سے حاصل ہونے والی منفعت میں حولان حول کی شرط نہیں ہے..
چنانچہ اگر کسی کے پاس نصاب تک پہنچا ہوا مال ہو اور وہ اس سے تجارت کرنے لگ جائے جس میں اس کو فائدہ حاصل ہوا ہو تو ایک سال گزر جانے کے بعد اصل پونجی اور منفعت دونوں میں زکات کی ادائگی واجب ہوگی گرچہ منفعت پر ایک سال نہ بھی گزرا ہو ..
لیکن اگر کسی کے پاس نصاب سے کم مال ہو اور وہ اس میں تجارت کرنے لگے اور منفعت حاصل ہو کر مال نصاب تک پہنچ جائے تو اس پر اس وقت زکات واجب ہوگی جب مکمل نصاب تک پہنچے ہوئے مال پر ایک سال گزر جائے نہ کہ جب تجارت کی شروعات سے لیکر ایک سال کا عرصہ گزر جائے..
(3) دوران سال پیدا ہونے والے چرنے والی بکریوں اونٹوں اور گائے کے بچوں پر بھی وجوب زکوۃ کے لیے حولان حول کی شرط نہیں ہے ... بلکہ اگر ان کی مائیں نصاب تک پہنچی ہوئی ہوں تو ماؤں کے ساتھ بچوں کے زکات کی ادائگی بھی واجب ہو گی..
(4) رکاز یعنی پرانے زمانے کا زمین دوز دفینہ وخزانہ ...
کیونکہ اللہ کے رسول نے فرمایا ہے :" وفي الركاز الخمس " متفق عليه ) چنانچہ آپ نے علی الاطلاق بیان فرمایا ہے کہ جب بھی رکاز ملے اس کا پانچواں حصہ ادا کر دیا جائے اس میں حولان حول اور نصاب کی کوئی شرط نہیں ہے..
(5) کان ومعادن: ہر وہ مثمن معدن جو زمین سے نکالا جاتا ہے اور اس سے دوسری چیزیں بنائی جاتی ہیں ..جیسے لوہا, سونا, چاندی , ہیرے, جواہرات, یاقوت وزبرجد , شیشہ, کویلا , سرما, نگینہ وغیرہا.. چنانچہ جب یہ چیزیں ملے تو نصاب کا اعتبار کرتے ہوئے فی الفور ان کی زکات ادا کر دی جائے..
*وہ چیزیں جن کی وجہ سے حولان حول میں انقطاع واقع ہو جاتا ہے یعنی نئے سرے سے سال کا اعتبار کرنا لازم آتا ہے اور گزشتہ ایام وشہور کا شمار واعتبار نہیں ہوتا* :
(1) اگر دوران سال نصاب میں کمی واقع ہو جائے تو نئے سرے سے سال کا شمار و اعتبار کیا جائے گا.
(2) اگر نصاب میں پہنچے ہوئے مال میں سے کچھ اسی مال کے جنس کے علاوہ دوسرے جنس سے بیچ دیا جائے یا بدل دیا جائے تو بھی نئے سرے سے سال کا اعتبار لازم آئے گا. مگر اس شرط سے سامان تجارت مستسنی ہے.. ہاں اگر نصاب تک پہنچے ہوئے مال کو اسی جنس کے مال سے بیچا یا بدلا جائے تو حولان حول میں کوئی اثر نہیں پڑے گا..
اسی طرح اگر مال عروض التجارۃ یعنی سامان تجارت ہو تو اسے بیچنے اور بدلنے سے حولان حول پر کوئی اثر نہیں پڑے گا خواہ مال مبدل منہ اسی جنس کا ہو یا دوسرے جنس کا...
جاری ہے..... قسط اول
( یہ مضمون ایک زمانہ پہلے خطبا حضرات کی گزارش پر تحریر کیا تھا امید ہے کہ قارئین اس سے ضرور مستفید ہوں گے ان شاء اللہ)