شیخ ابو حمدان اشرف فیضی
Member
اصل ضرورتمندوں کو تلاش کریں
ابو حمدان اشرف فیضی، رائیدرگ
-------------------------------------------------------------
خوددار میرے شہر کا فاقوں سے مرگیا
راشن تو بٹ رہا تہا وہ فوٹو سے ڈرگیا
وہ غریب اور مزدور جو ہردن کما کر کھاتے تھے لاک ڈاؤن کے ان ایام میں ان کا گزر بسر بہت مشکل ہو گیا ہے، کھانے پینے کا انتظام، مکان کا کرایہ، بیوی بچوں کا علاج و معالجہ بہت سے ایسے مسائل ہیں جس نے انہیں مضطرب و بےچین کر دیا ہے، راتوں کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں، ایک پل کے لئے سکون نہیں ہے، کریں تو کیا کریں؟
باہر وبا کا خوف ہے گھر میں بلا کی بھوک
مزدوروں کے علاوہ سماج میں بہت سے غریب، مسکین، یتیم، بیوہ اور لاچار و مجبور لوگ ہیں جو حد درجہ قابل رحم اور لائق تعاون ہیں، بلاتفریق مذہب و ملت صرف انسانیت کی بنیاد پر دل کھول کر ہمیں ان کی مدد کرنی چاہئے.
الحمد للہ بہت سے مسلمان انفرادی طور پر اور بہت سی دینی تنظیمیں اور تعلیمی ادارے اس مشکل گھڑی میں انسانیت کی خدمت میں پیش پیش ہیں، اللہ تعالیٰ سب کی کوششوں کو قبول فرمائے آمین
یہ وہ طبقہ ہے جن کی مجبوری اور پریشانی واضح ہے، لوگ حتی المقدور ان کا تعاون کررہے ہیں اور کرنا بھی چاہئے، اس لئے کہ مالداروں کے مال میں غریبوں کا حق ہے، انہیں بخوشی وہ حق ادا کردینا چاہئے، اس کے نتیجے میں جہاں دنیا میں ان کے مال میں خیر و برکت ہوگی آخرت میں وہ اللہ رب العالمین کے پاس اجر عظیم کے مستحق ہوں گے، بصورت دیگر بخیلوں اور حریصوں کے لئے دنیا و آخرت میں سخت وعیدیں ہیں
تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ ان غریبوں اور محتاجوں کے علاوہ متوسط طبقہ بھی اس مہاماری سے متاثر ہوا ہے، ان میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو واقعی ضرورتمند اور پریشان حال ہیں مگر ان کی خودداری اور عزت نفس انہیں لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور زبان کھولنے سے روکتی ہے، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے پڑوس اور محلے میں ایسے لوگوں کو تلاش کریں اور ان کی ضرورتوں کو پورا کریں، ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
﴿لِلۡفُقَرَاۤءِ ٱلَّذِینَ أُحۡصِرُوا۟ فِی سَبِیلِ ٱللَّهِ لَا یَسۡتَطِیعُونَ ضَرۡبࣰا فِی ٱلۡأَرۡضِ یَحۡسَبُهُمُ ٱلۡجَاهِلُ أَغۡنِیَاۤءَ مِنَ ٱلتَّعَفُّفِ تَعۡرِفُهُم بِسِیمَـٰهُمۡ لَا یَسۡـَٔلُونَ ٱلنَّاسَ إِلۡحَافࣰاۗ وَمَا تُنفِقُوا۟ مِنۡ خَیۡرࣲ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِیمٌ﴾ [البقرة ٢٧٣]
ترجمہ: صدقات کے مستحق صرف وہ غربا ہیں جو اللہ کی راہ میں روک دیئے گئے جو ملک میں چل پھر نہیں سکتے، نادان لوگ ان کے بےسوالی کی وجہ سے انہیں مالدار خیال کرتے ہیں، آپ ان کے چہرے دیکھ کر قیافہ سے انہیں پہچان لیں گے، وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے، تم جو کچھ مال خرچ کرو تو اللہ تعالیٰ اس کا جاننے والا ہے.
حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصل مسکین انہیں کو بتایا ہے جو اہل حاجت ہونے کے باوجود اہل حاجت والی ہیئت و حالت اختیار نہیں کرتے، نہ کسی سے سوال ہی کرتے ہیں،
حدیث :
ليسَ المِسْكِينُ الذي يَطُوفُ على النّاسِ تَرُدُّهُ اللُّقْمَةُ واللُّقْمَتانِ، والتَّمْرَةُ والتَّمْرَتانِ، ولَكِنِ المِسْكِينُ الذي لا يَجِدُ غِنًى يُغْنِيهِ، ولا يُفْطَنُ به، فيُتَصَدَّقُ عليه ولا يَقُومُ فَيَسْأَلُ النّاسَ.
( صحيح البخاري ١٤٧٩)
بخاری کی دوسری روایت میں ہے :
إنَّما المِسْكِينُ الذي يَتَعَفَّفُ ( ٤٥٣٩)
"مسکین وہ نہیں ہے جو لوگوں ( کے گھروں) کا چکر لگائے اور ایک ایک دو دو لقمے ایک ایک دو دو کھجوریں اس کو وہاں سے لوٹا دیں لیکن (اصل) مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال نہ ہو جو اسے دوسروں سے بے نیاز کردے، نہ ظاہراً اس کی حالت کا کسی کو اندازہ ہو سکے کہ اسے صدقہ دیا جائے اور نہ وہ خود کھڑا ہو کر لوگوں سے سوال کرے.
*مختلف طریقے سے ہم ان کی مدد کر سکتے ہیں، مثلاً*:
*راشن پیکج کا انتظام کر کے*
*یومیہ گھروں میں استعمال کی جانے والی اشیاء، جیسے : دودھ، ترکاری وغیرہ دے کر*
*بیماروں کا علاج کراکے*
*اگر ہم مالک مکان ہیں تو کرایہ معاف کر کے*
*قرض حسنہ دے کر یا پہلے سے اگر وہ مقروض ہے تو اسے مہلت دے کر یا طاقت ہو تو معاف کر کے*
*منتظمین مساجد و مدارس اپنے خادموں کو وقت پر تنخواہ دے کر*
*اپنے ماتحتوں اور مزدوروں کو اڈوانس دے کر*
*وغیرہ وغیرہ*
جان لیں کہ ان حالات میں صدقات و خیرات کے ذریعے انسانیت کی خدمت عظیم نیکی اور مبارک عمل ہے، یہ خدمت بھی ہے اور عبادت بھی،آخرت کے لئے توشہ بھی، یہی وجہ ہے کہ قریب المرگ انسان موت سے پہلے صدقہ کرکے نیک بننے کی خواہش کرے گا مگر اس وقت اس کی یہ آرزو پوری نہیں ہو سکتی کیونکہ موت کا فرشتہ اس کے سامنے حاضر ہوگا اور وقت مقررہ آجانے کے بعد ایک لمحے کے لئے مؤخر نہیں کیا جاسکتا، ارشاد ربانی ہے :
﴿وَأَنفِقُوا۟ مِن مَّا رَزَقۡنَـٰكُم مِّن قَبۡلِ أَن یَأۡتِیَ أَحَدَكُمُ ٱلۡمَوۡتُ فَیَقُولَ رَبِّ لَوۡلَاۤ أَخَّرۡتَنِیۤ إِلَىٰۤ أَجَلࣲ قَرِیبࣲ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِّنَ ٱلصَّـٰلِحِینَ (١٠) وَلَن یُؤَخِّرَ ٱللَّهُ نَفۡسًا إِذَا جَاۤءَ أَجَلُهَاۚ وَٱللَّهُ خَبِیرُۢ بِمَا تَعۡمَلُونَ (١١)﴾ [المنافقون ١٠-١١]
حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص آیا اور اس نےسے سب سے عظیم صدقہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: وہ صدقہ اجر و ثواب کے اعتبار سے بہت عظیم ہے جو تم حالت صحت میں صدقہ کرو اور اس وقت تمہیں مال کی ضرورت بھی ہو اور تم خرچ کرنے میں ٹال مٹول مت کرو،یہاں تک کہ جب روح حلقوم کو پہنچ جائے تو تم کہو فلاں کو اتنا دیدو، فلاں کو اتنا دیدو، اب تو وہ فلاں کا ہو ہی گیا.
حدیث :
جاءَ رَجُلٌ إلى النبيِّ ﷺ فَقالَ: يا رَسولَ اللَّهِ، أَيُّ الصَّدَقَةِ أَعْظَمُ أَجْرًا؟ قالَ: أَنْ تَصَدَّقَ وأَنْتَ صَحِيحٌ شَحِيحٌ تَخْشى الفَقْرَ، وتَأْمُلُ الغِنى، ولا تُمْهِلُ حتّى إذا بَلَغَتِ الحُلْقُومَ، قُلْتَ لِفُلانٍ كَذا، ولِفُلانٍ كَذا وقدْ كانَ لِفُلانٍ.
(صحيح البخاري ١٤١٩)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے اور ہم پر رحم فرمائے آمین
-------------------------------------------------------------
17/ اپریل 2020 ، جمعہ
ابو حمدان اشرف فیضی، رائیدرگ
-------------------------------------------------------------
خوددار میرے شہر کا فاقوں سے مرگیا
راشن تو بٹ رہا تہا وہ فوٹو سے ڈرگیا
وہ غریب اور مزدور جو ہردن کما کر کھاتے تھے لاک ڈاؤن کے ان ایام میں ان کا گزر بسر بہت مشکل ہو گیا ہے، کھانے پینے کا انتظام، مکان کا کرایہ، بیوی بچوں کا علاج و معالجہ بہت سے ایسے مسائل ہیں جس نے انہیں مضطرب و بےچین کر دیا ہے، راتوں کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں، ایک پل کے لئے سکون نہیں ہے، کریں تو کیا کریں؟
باہر وبا کا خوف ہے گھر میں بلا کی بھوک
مزدوروں کے علاوہ سماج میں بہت سے غریب، مسکین، یتیم، بیوہ اور لاچار و مجبور لوگ ہیں جو حد درجہ قابل رحم اور لائق تعاون ہیں، بلاتفریق مذہب و ملت صرف انسانیت کی بنیاد پر دل کھول کر ہمیں ان کی مدد کرنی چاہئے.
الحمد للہ بہت سے مسلمان انفرادی طور پر اور بہت سی دینی تنظیمیں اور تعلیمی ادارے اس مشکل گھڑی میں انسانیت کی خدمت میں پیش پیش ہیں، اللہ تعالیٰ سب کی کوششوں کو قبول فرمائے آمین
یہ وہ طبقہ ہے جن کی مجبوری اور پریشانی واضح ہے، لوگ حتی المقدور ان کا تعاون کررہے ہیں اور کرنا بھی چاہئے، اس لئے کہ مالداروں کے مال میں غریبوں کا حق ہے، انہیں بخوشی وہ حق ادا کردینا چاہئے، اس کے نتیجے میں جہاں دنیا میں ان کے مال میں خیر و برکت ہوگی آخرت میں وہ اللہ رب العالمین کے پاس اجر عظیم کے مستحق ہوں گے، بصورت دیگر بخیلوں اور حریصوں کے لئے دنیا و آخرت میں سخت وعیدیں ہیں
تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ ان غریبوں اور محتاجوں کے علاوہ متوسط طبقہ بھی اس مہاماری سے متاثر ہوا ہے، ان میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو واقعی ضرورتمند اور پریشان حال ہیں مگر ان کی خودداری اور عزت نفس انہیں لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور زبان کھولنے سے روکتی ہے، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے پڑوس اور محلے میں ایسے لوگوں کو تلاش کریں اور ان کی ضرورتوں کو پورا کریں، ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
﴿لِلۡفُقَرَاۤءِ ٱلَّذِینَ أُحۡصِرُوا۟ فِی سَبِیلِ ٱللَّهِ لَا یَسۡتَطِیعُونَ ضَرۡبࣰا فِی ٱلۡأَرۡضِ یَحۡسَبُهُمُ ٱلۡجَاهِلُ أَغۡنِیَاۤءَ مِنَ ٱلتَّعَفُّفِ تَعۡرِفُهُم بِسِیمَـٰهُمۡ لَا یَسۡـَٔلُونَ ٱلنَّاسَ إِلۡحَافࣰاۗ وَمَا تُنفِقُوا۟ مِنۡ خَیۡرࣲ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِیمٌ﴾ [البقرة ٢٧٣]
ترجمہ: صدقات کے مستحق صرف وہ غربا ہیں جو اللہ کی راہ میں روک دیئے گئے جو ملک میں چل پھر نہیں سکتے، نادان لوگ ان کے بےسوالی کی وجہ سے انہیں مالدار خیال کرتے ہیں، آپ ان کے چہرے دیکھ کر قیافہ سے انہیں پہچان لیں گے، وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے، تم جو کچھ مال خرچ کرو تو اللہ تعالیٰ اس کا جاننے والا ہے.
حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصل مسکین انہیں کو بتایا ہے جو اہل حاجت ہونے کے باوجود اہل حاجت والی ہیئت و حالت اختیار نہیں کرتے، نہ کسی سے سوال ہی کرتے ہیں،
حدیث :
ليسَ المِسْكِينُ الذي يَطُوفُ على النّاسِ تَرُدُّهُ اللُّقْمَةُ واللُّقْمَتانِ، والتَّمْرَةُ والتَّمْرَتانِ، ولَكِنِ المِسْكِينُ الذي لا يَجِدُ غِنًى يُغْنِيهِ، ولا يُفْطَنُ به، فيُتَصَدَّقُ عليه ولا يَقُومُ فَيَسْأَلُ النّاسَ.
( صحيح البخاري ١٤٧٩)
بخاری کی دوسری روایت میں ہے :
إنَّما المِسْكِينُ الذي يَتَعَفَّفُ ( ٤٥٣٩)
"مسکین وہ نہیں ہے جو لوگوں ( کے گھروں) کا چکر لگائے اور ایک ایک دو دو لقمے ایک ایک دو دو کھجوریں اس کو وہاں سے لوٹا دیں لیکن (اصل) مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال نہ ہو جو اسے دوسروں سے بے نیاز کردے، نہ ظاہراً اس کی حالت کا کسی کو اندازہ ہو سکے کہ اسے صدقہ دیا جائے اور نہ وہ خود کھڑا ہو کر لوگوں سے سوال کرے.
*مختلف طریقے سے ہم ان کی مدد کر سکتے ہیں، مثلاً*:
*راشن پیکج کا انتظام کر کے*
*یومیہ گھروں میں استعمال کی جانے والی اشیاء، جیسے : دودھ، ترکاری وغیرہ دے کر*
*بیماروں کا علاج کراکے*
*اگر ہم مالک مکان ہیں تو کرایہ معاف کر کے*
*قرض حسنہ دے کر یا پہلے سے اگر وہ مقروض ہے تو اسے مہلت دے کر یا طاقت ہو تو معاف کر کے*
*منتظمین مساجد و مدارس اپنے خادموں کو وقت پر تنخواہ دے کر*
*اپنے ماتحتوں اور مزدوروں کو اڈوانس دے کر*
*وغیرہ وغیرہ*
جان لیں کہ ان حالات میں صدقات و خیرات کے ذریعے انسانیت کی خدمت عظیم نیکی اور مبارک عمل ہے، یہ خدمت بھی ہے اور عبادت بھی،آخرت کے لئے توشہ بھی، یہی وجہ ہے کہ قریب المرگ انسان موت سے پہلے صدقہ کرکے نیک بننے کی خواہش کرے گا مگر اس وقت اس کی یہ آرزو پوری نہیں ہو سکتی کیونکہ موت کا فرشتہ اس کے سامنے حاضر ہوگا اور وقت مقررہ آجانے کے بعد ایک لمحے کے لئے مؤخر نہیں کیا جاسکتا، ارشاد ربانی ہے :
﴿وَأَنفِقُوا۟ مِن مَّا رَزَقۡنَـٰكُم مِّن قَبۡلِ أَن یَأۡتِیَ أَحَدَكُمُ ٱلۡمَوۡتُ فَیَقُولَ رَبِّ لَوۡلَاۤ أَخَّرۡتَنِیۤ إِلَىٰۤ أَجَلࣲ قَرِیبࣲ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِّنَ ٱلصَّـٰلِحِینَ (١٠) وَلَن یُؤَخِّرَ ٱللَّهُ نَفۡسًا إِذَا جَاۤءَ أَجَلُهَاۚ وَٱللَّهُ خَبِیرُۢ بِمَا تَعۡمَلُونَ (١١)﴾ [المنافقون ١٠-١١]
حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص آیا اور اس نےسے سب سے عظیم صدقہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: وہ صدقہ اجر و ثواب کے اعتبار سے بہت عظیم ہے جو تم حالت صحت میں صدقہ کرو اور اس وقت تمہیں مال کی ضرورت بھی ہو اور تم خرچ کرنے میں ٹال مٹول مت کرو،یہاں تک کہ جب روح حلقوم کو پہنچ جائے تو تم کہو فلاں کو اتنا دیدو، فلاں کو اتنا دیدو، اب تو وہ فلاں کا ہو ہی گیا.
حدیث :
جاءَ رَجُلٌ إلى النبيِّ ﷺ فَقالَ: يا رَسولَ اللَّهِ، أَيُّ الصَّدَقَةِ أَعْظَمُ أَجْرًا؟ قالَ: أَنْ تَصَدَّقَ وأَنْتَ صَحِيحٌ شَحِيحٌ تَخْشى الفَقْرَ، وتَأْمُلُ الغِنى، ولا تُمْهِلُ حتّى إذا بَلَغَتِ الحُلْقُومَ، قُلْتَ لِفُلانٍ كَذا، ولِفُلانٍ كَذا وقدْ كانَ لِفُلانٍ.
(صحيح البخاري ١٤١٩)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے اور ہم پر رحم فرمائے آمین
-------------------------------------------------------------
17/ اپریل 2020 ، جمعہ