حسان عبد الغفار
New member
قارئین کرام : اس وقت دنیا میں تقریباً ہر شخص اپنی حیثیت کے اعتبار سے سونے چاندی اور زیورات کی خرید وفروخت کرتا ہے ۔
ان کے خرید وفروخت کے طریقوں کو ہم چار قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔
- کرنسی اور روپئے و پیسے کے زریعہ سونے اور چاندی یا ان کے زیورات خریدتا ہے ۔
- اپنا استعمال کردہ پرانا سونا اور چاندی یا سونے اور چاندی کے زیورات دے کر نیا سونا چاندی یا سونے چاندی کے زیورات لیتا ہے ۔
- سونے اور چاندی کو آن لائن خریدتا ہے اور ڈلیوری ( delivery) کے وقت کیش میں قیمت ادا کرتا ہے ۔
- سونے اور چاندی یا ان کے زیورات کو قسطوں میں خریدتا ہے ۔ یعنی : قیمت کی ادائیگی قسط وار ادا کرتا ہے ۔
چونکہ سونے اور چاندی کی خرید وفروخت میں عموماً سود داخل ہو جاتا ہے لہذا مناسب معلوم ہوا کہ ان کے لین دین کے صحیح طریقے کی طرف لوگوں کی رہنمائی کر دی جائے تاکہ لوگ لاعلمی اور جہالت کی وجہ سودی لین دین میں مبتلا نہ ہوں ۔
جمہور فقہاء کے نزدیک لین دین میں سود کی دو قسمیں ہیں :
1 - ربا الفضل : یعنی ایک جنس کی دو اشیاء کو کمی بیشی کے ساتھ فروخت کرنا ۔
2 - ربا النسیئۃ : جس میں کمی بیشی تو نہ ہو مگر ایک طرف سے نقد اور دوسری طرف سے ادھار ہو ۔ ( أعلام المؤقعين : 2/135، والمغني : 4/1).
یاد رہے کہ یہاں پر سود صرف ان چھ اجناس میں کمی بیشی یا نقد ادھار کی صورت میں ہے جن کا ذکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث مبارک کے اندر کیا ہے ۔
یعنی : سونا سونے کے ساتھ ۔ چاندی چاندی کے ساتھ ۔ جو جو کے ساتھ ، گیہوں گیہوں کے ساتھ، نمک نمک کے ساتھ، کھجور کھجور کے ساتھ ۔
ان کے علاوہ جو دیگر اجناس ہیں جیسے دال چاول وغیرہ ۔ تو اس سلسلے میں علماء کے درمیان کافی اختلاف ہے کہ آیا ان چیزوں کو مذکورہ چھ اجناس کے ساتھ ملایا جائے گا یا نہیں ؟ ۔
چونکہ یہ بحث آج کے اس موضوع سے خارج ہے لہذا کسی اور موقع پر اس کی تفصیل بیان کی جائے گی ۔ ان شاء اللہ ۔
اب ہم موضوع کی طرف واپس پلٹتے ہیں ۔
پہلی قسم : کرنسی اور روپئے و پیسے کے زریعہ سونے اور چاندی یا ان کے زیورات خریدے ۔
اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں :
1 - سونے چاندی یا ان سے بنے ہوئے زیورات کو نقد روپیہ دے کر خریدے ۔
تو یہ صورت جائز اور درست ہے ۔
2 - سونے چاندی یا ان سے بنے ہوئے زیورات کو ادھار خریدے ۔
مثلا : سونا چاندی یا دونوں سے بنے ہوئے زیورات کو خرید لے اور روپیہ بعد میں ادا کرنے کا وعدہ کرے ۔
یا روپیہ دے دے اور سونے چاندی یا ان سے بنے ہوئے زیورات کو بعد میں لے کر جائے ۔
تو اس کا شمار سود میں ہوگا ۔
اس کی دلیل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے : " لَا تَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَلَا تُشِفُّوا بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ، وَلَا تَبِيعُوا الْوَرِقَ بِالْوَرِقِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَلَا تُشِفُّوا بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ، وَلَا تَبِيعُوا مِنْهَا غَائِبًا بِنَاجِزٍ ".( صحيح البخاري | كِتَابٌ : الْبُيُوعُ. | بَابُ بَيْعِ الْفِضَّةِ بِالْفِضَّةِ : 2177).
" سونا سونے کے بدلے اس وقت تک نہ بیچو جب تک دونوں طرف سے برابر برابر نہ ہو، دونوں طرف سے کسی کمی یا زیادتی کو روا نہ رکھو، اور چاندی کو چاندی کے بدلے میں اس وقت تک نہ بیچو جب تک دونوں طرف سے برابر برابر نہ ہو۔ دونوں طرف سے کسی کمی یا زیادتی کو روا نہ رکھو اور نہ ادھار کو نقد کے بدلے میں بیچو ".
صحیح مسلم میں اتنا اضافہ ہے : " فمَن زادَ أوِ استَزادَ فقد أربَى، الآخِذُ والمُعطي فيهِ سَوَاءٌ ". (صحيح مسلم -الرقم: 1584) .
" جس نے زیادہ دیا یا زیادہ طلب کیا تو وہ سود ہے اور لینے و دینے والے دونوں برابر ہیں ".
چونکہ لین دین میں کرنسی اور روپیہ پیسہ کا حکم وہی ہے جو سونے اور چاندی کا ہے ۔
گرچہ جنس مختلف ہے مگر علت تینوں ( سونے، چاندی اور کرنسی) کا ایک ہے اور " ثمن " یعنی : قیمت ہے ۔
صحیح طریقہ :
اگر سونے چاندی یا ان سے بنے ہوئے زیورات کو روپئے کے بدلے خریدنا یا بیچنا ہو تو نہ ادھار خریدے اور نہ ہی ادھار بیچے بلکہ نقد اور ہاتھوں ہاتھ معاملہ کرے اور اگر کسی بھی طرف سے ادھار ہوا تو اس لین دین کا شمار سودی کاروبار میں ہوگا ۔
___________________________
دوسری قسم :
اپنا استعمال کردہ پرانا سونا اور چاندی یا سونے اور چاندی کے زیورات دے کر نیا سونا چاندی یا سونے چاندی کے زیورات لے ۔
اس کی دو شکلیں ہیں ۔
- پہلی شکل : اپنا استعمال کردہ سونا یا پرانا زیور دے کر نیا سونا یا نیا زیور لے ۔
اس کے لئے دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے ۔
1 - نقد ہو اور کسی بھی طرف سے ادھار نہ ہو یعنی : ایک ہی مجلس میں معاملہ طے ہو جائے ۔
2 - دونوں طرف سے سونا یا سونے کا زیور برابر ہو آدھا گرام بھی کم اور زیادہ نہ ہو ۔
مثلا اگر آپ بیس 20 گرام پرانا سونا یا پرانا زیور دوکاندار کو دے رہے ہیں تو آپ کو بیس ہی گرام سونا یا سونے کا زیور لینا ہے ۔
چاہے ایک طرف عمدہ کوالٹی کا سونا ہو اور دوسری طرف خراب کوالٹی کا سونا ہو ، ہر حالت میں برابر ہونا لازم اور ضروری ہے ۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : " سونے اور چاندی میں تمام قسم کا سونا اور چاندی داخل ہے خواہ عمدہ ہو یا ردی، صحیح ہو یا ٹوٹا ہوا، زیور ہو یا ڈلی اور خالص ہو یا ملاوٹ شدہ اور اس بات پر اجماع بھی ہے ".( شرح مسلم للنووی : 6/14).
جیسا کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : " بلال رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں برنی کھجور ( کھجور کی ایک عمدہ قسم ) لے کر آئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کہاں سے لائے ہو؟ انہوں نے کہا ہمارے پاس خراب کھجور تھی ، اس کی دو صاع اس کی ایک صاع کے بدلے میں دے کر ہم اسے لائے ہیں ۔ تاکہ ہم یہ آپ کو کھلائیں آپ نے فرمایا توبہ توبہ یہ تو سود ہے بالکل سود ۔ ایسا نہ کیا کرو البتہ ( اچھی کھجور ) خریدنے کا ارادہ ہو تو ( خراب ) کھجور بیچ کر ( اس کی قیمت سے ) عمدہ خریدا کرو ". (صحيح البخاري | كِتَابٌ : الْوَكَالَةُ | بَابٌ : إِذَا بَاعَ الْوَكِيلُ شَيْئًا فَاسِدًا فَبَيْعُهُ مَرْدُودٌ : 2312).
اس سے معلوم ہوا کہ ایک ہی جنس میں کمی و بیشی سے لین دین سود میں داخل ہے ۔ اس کی صورت یہ بتلائی گئی کے گھٹیا جنس کو الگ نقد بیچ کر اس کے روپوں سے وہی بڑھیا جنس خرید لی جائے ۔
اور اگر کسی نے لا علمی کی وجہ سے ایسا کر لیا ہے تو جاکر واپس کر دے، کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا : " هَذَا الرِّبَا. فَرُدُّوهُ ".( صحيح مسلم |كِتَابٌ : الْمُسَاقَاةُ | بَابٌ : بَيْعُ الطَّعَامِ مِثْلًا بِمِثْلٍ : 1594).
" یہ سود ہے لہٰذا اس کو واپس لوٹا دو ".
(تفصیل کے لئے دیکھیں شرح النووي على مسلم : 11/22).
لہذا اگر کسی بھی طرف سے کمی یا زیادتی ہوئی تو فورا اس کا شمار سودی لین دین میں ہوگا ۔
اسی طرح اگر آپ نے دوکاندار کو اپنا سونا یا سونے کا زیور دے دیا اور اس دوکاندار نے ایک دن یا دو دن کے بعد نیا سونا یا زیور بنا کر دینے کو کہا تب بھی اس کا شمار سود میں ہوگا ۔
حتی کہ اگر آپ صبح اپنا سونا دے کر دوپہر یا شام کو نیا سونا لے رہے ہیں تب بھی اس کا شمار سودی لین دین میں ہوگا ۔
جیسا کہ دلیل گزر چکی ہے ۔
اگر سندار یا دوکاندار پرانے سونے کے برابر نیا سونا نہیں دے رہا ہے تو آپ واپس لوٹ آئیں ۔
یا پھر دو شکلوں میں سے کوئی ایک شکل اختیار کریں ۔
1 - سندار یا دوکاندار کو اپنا پرانا سونا یا سونے کا زیور دیکر اسی کو صاف کرا لیں یا اسی سونے کو نئے طریقے سے بنوا لیں اور جو اجرت اور مزدوری ہو وہ اسے ادا کر دیں ۔
2 - پرانا سونا یا زیور دوکاندار سے فروخت کر دیں اور پیسہ اپنے قبضے میں لے لیں پھر پیسہ اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد چاہیں تو اسی پیسے سے نیا سونا خرید لیں ۔
بالکل یہی حکم چاندی اور اس کے زیور کا ہے ۔
- دوسری شکل : سونا یا سونے کا زیور دے کر چاندی یا چاندی کا زیور خریدے ۔
تو ایسی صورت میں کمی زیادتی کے ساتھ لین دین کر سکتے ہیں ۔
کیونکہ یہاں جنس بدل جاتا ہے اور جب جنس بدل جائے تفاضل اور کمی و زیادتی جائز اور درست ہے ۔ جیسا کہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: "فإذَا اخْتَلَفَت هذهِ الأصْنَافُ ، فبيعوا كيفَ شئْتُمْ ، إذَا كانَ يدًا بِيَدٍ". (مسلم - الرقم: 1587 )
" کہ جب جنس بدل جائے ( یعنی سونے کی لین چاندی سے ہو یا چاندی کا لین دین سونے سے ہو) تو جیسے چاہو کمی و زیادتی کر کے لین دین کرو جب کہ نقدا ہو ".
البتہ اس کے صحیح ہونے کے لئے ایک شرط کا پایا جانا ضروری ہے اور وہ یہ کہ کسی بھی طرف سے ادھار نہ ۔
بلکہ ایک طرف سونا یا سونے کا زیور دے دوسری طرف سے چاندی یا چاندی کا زیور لے ۔
اگر کسی بھی طرف سے ادھار ہوا تو اس کا شمار سودی لین دین میں ہوگا ۔
____________________________
تیسری قسم :
سونے اور چاندی کو آن لائن خریدے اور ڈلیوری ( delivery) کے وقت کیش میں قیمت ادا کرے ۔
یہ بھی نقد اور ہاتھوں ہاتھ نہ ہونے کی وجہ سے جائز اور درست نہیں ہے بلکہ اس کا بھی شمار سودی لین دین میں ہوگا ۔
جیسا کہ دلیل گزر چکی ہے ۔
___________________________
چوتھی قسم :
سونے اور چاندی یا ان کے زیورات کو قسطوں میں خریدے ۔ یعنی : قیمت کی ادائیگی قسط وار ادا کرے ۔
تو یہ بھی نقد، ہاتھوں ہاتھ اور ایک ہی مجلس میں نہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کا شمار سودی لین دین میں ہوگا ۔
ملاحظہ : اس سلسلے میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے ورنہ معمولی سے لاپرواہی ہمیں سود خوروں میں شامل کر دے گی ۔
ان کے خرید وفروخت کے طریقوں کو ہم چار قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔




چونکہ سونے اور چاندی کی خرید وفروخت میں عموماً سود داخل ہو جاتا ہے لہذا مناسب معلوم ہوا کہ ان کے لین دین کے صحیح طریقے کی طرف لوگوں کی رہنمائی کر دی جائے تاکہ لوگ لاعلمی اور جہالت کی وجہ سودی لین دین میں مبتلا نہ ہوں ۔
جمہور فقہاء کے نزدیک لین دین میں سود کی دو قسمیں ہیں :
1 - ربا الفضل : یعنی ایک جنس کی دو اشیاء کو کمی بیشی کے ساتھ فروخت کرنا ۔
2 - ربا النسیئۃ : جس میں کمی بیشی تو نہ ہو مگر ایک طرف سے نقد اور دوسری طرف سے ادھار ہو ۔ ( أعلام المؤقعين : 2/135، والمغني : 4/1).
یاد رہے کہ یہاں پر سود صرف ان چھ اجناس میں کمی بیشی یا نقد ادھار کی صورت میں ہے جن کا ذکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث مبارک کے اندر کیا ہے ۔
یعنی : سونا سونے کے ساتھ ۔ چاندی چاندی کے ساتھ ۔ جو جو کے ساتھ ، گیہوں گیہوں کے ساتھ، نمک نمک کے ساتھ، کھجور کھجور کے ساتھ ۔
ان کے علاوہ جو دیگر اجناس ہیں جیسے دال چاول وغیرہ ۔ تو اس سلسلے میں علماء کے درمیان کافی اختلاف ہے کہ آیا ان چیزوں کو مذکورہ چھ اجناس کے ساتھ ملایا جائے گا یا نہیں ؟ ۔
چونکہ یہ بحث آج کے اس موضوع سے خارج ہے لہذا کسی اور موقع پر اس کی تفصیل بیان کی جائے گی ۔ ان شاء اللہ ۔
اب ہم موضوع کی طرف واپس پلٹتے ہیں ۔

اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں :
1 - سونے چاندی یا ان سے بنے ہوئے زیورات کو نقد روپیہ دے کر خریدے ۔

2 - سونے چاندی یا ان سے بنے ہوئے زیورات کو ادھار خریدے ۔
مثلا : سونا چاندی یا دونوں سے بنے ہوئے زیورات کو خرید لے اور روپیہ بعد میں ادا کرنے کا وعدہ کرے ۔
یا روپیہ دے دے اور سونے چاندی یا ان سے بنے ہوئے زیورات کو بعد میں لے کر جائے ۔

اس کی دلیل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے : " لَا تَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَلَا تُشِفُّوا بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ، وَلَا تَبِيعُوا الْوَرِقَ بِالْوَرِقِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَلَا تُشِفُّوا بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ، وَلَا تَبِيعُوا مِنْهَا غَائِبًا بِنَاجِزٍ ".( صحيح البخاري | كِتَابٌ : الْبُيُوعُ. | بَابُ بَيْعِ الْفِضَّةِ بِالْفِضَّةِ : 2177).
" سونا سونے کے بدلے اس وقت تک نہ بیچو جب تک دونوں طرف سے برابر برابر نہ ہو، دونوں طرف سے کسی کمی یا زیادتی کو روا نہ رکھو، اور چاندی کو چاندی کے بدلے میں اس وقت تک نہ بیچو جب تک دونوں طرف سے برابر برابر نہ ہو۔ دونوں طرف سے کسی کمی یا زیادتی کو روا نہ رکھو اور نہ ادھار کو نقد کے بدلے میں بیچو ".
صحیح مسلم میں اتنا اضافہ ہے : " فمَن زادَ أوِ استَزادَ فقد أربَى، الآخِذُ والمُعطي فيهِ سَوَاءٌ ". (صحيح مسلم -الرقم: 1584) .
" جس نے زیادہ دیا یا زیادہ طلب کیا تو وہ سود ہے اور لینے و دینے والے دونوں برابر ہیں ".

گرچہ جنس مختلف ہے مگر علت تینوں ( سونے، چاندی اور کرنسی) کا ایک ہے اور " ثمن " یعنی : قیمت ہے ۔
صحیح طریقہ :
اگر سونے چاندی یا ان سے بنے ہوئے زیورات کو روپئے کے بدلے خریدنا یا بیچنا ہو تو نہ ادھار خریدے اور نہ ہی ادھار بیچے بلکہ نقد اور ہاتھوں ہاتھ معاملہ کرے اور اگر کسی بھی طرف سے ادھار ہوا تو اس لین دین کا شمار سودی کاروبار میں ہوگا ۔
___________________________

اپنا استعمال کردہ پرانا سونا اور چاندی یا سونے اور چاندی کے زیورات دے کر نیا سونا چاندی یا سونے چاندی کے زیورات لے ۔
اس کی دو شکلیں ہیں ۔

اس کے لئے دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے ۔
1 - نقد ہو اور کسی بھی طرف سے ادھار نہ ہو یعنی : ایک ہی مجلس میں معاملہ طے ہو جائے ۔
2 - دونوں طرف سے سونا یا سونے کا زیور برابر ہو آدھا گرام بھی کم اور زیادہ نہ ہو ۔
مثلا اگر آپ بیس 20 گرام پرانا سونا یا پرانا زیور دوکاندار کو دے رہے ہیں تو آپ کو بیس ہی گرام سونا یا سونے کا زیور لینا ہے ۔
چاہے ایک طرف عمدہ کوالٹی کا سونا ہو اور دوسری طرف خراب کوالٹی کا سونا ہو ، ہر حالت میں برابر ہونا لازم اور ضروری ہے ۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : " سونے اور چاندی میں تمام قسم کا سونا اور چاندی داخل ہے خواہ عمدہ ہو یا ردی، صحیح ہو یا ٹوٹا ہوا، زیور ہو یا ڈلی اور خالص ہو یا ملاوٹ شدہ اور اس بات پر اجماع بھی ہے ".( شرح مسلم للنووی : 6/14).
جیسا کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : " بلال رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں برنی کھجور ( کھجور کی ایک عمدہ قسم ) لے کر آئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کہاں سے لائے ہو؟ انہوں نے کہا ہمارے پاس خراب کھجور تھی ، اس کی دو صاع اس کی ایک صاع کے بدلے میں دے کر ہم اسے لائے ہیں ۔ تاکہ ہم یہ آپ کو کھلائیں آپ نے فرمایا توبہ توبہ یہ تو سود ہے بالکل سود ۔ ایسا نہ کیا کرو البتہ ( اچھی کھجور ) خریدنے کا ارادہ ہو تو ( خراب ) کھجور بیچ کر ( اس کی قیمت سے ) عمدہ خریدا کرو ". (صحيح البخاري | كِتَابٌ : الْوَكَالَةُ | بَابٌ : إِذَا بَاعَ الْوَكِيلُ شَيْئًا فَاسِدًا فَبَيْعُهُ مَرْدُودٌ : 2312).
اس سے معلوم ہوا کہ ایک ہی جنس میں کمی و بیشی سے لین دین سود میں داخل ہے ۔ اس کی صورت یہ بتلائی گئی کے گھٹیا جنس کو الگ نقد بیچ کر اس کے روپوں سے وہی بڑھیا جنس خرید لی جائے ۔
اور اگر کسی نے لا علمی کی وجہ سے ایسا کر لیا ہے تو جاکر واپس کر دے، کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا : " هَذَا الرِّبَا. فَرُدُّوهُ ".( صحيح مسلم |كِتَابٌ : الْمُسَاقَاةُ | بَابٌ : بَيْعُ الطَّعَامِ مِثْلًا بِمِثْلٍ : 1594).
" یہ سود ہے لہٰذا اس کو واپس لوٹا دو ".
(تفصیل کے لئے دیکھیں شرح النووي على مسلم : 11/22).
لہذا اگر کسی بھی طرف سے کمی یا زیادتی ہوئی تو فورا اس کا شمار سودی لین دین میں ہوگا ۔
اسی طرح اگر آپ نے دوکاندار کو اپنا سونا یا سونے کا زیور دے دیا اور اس دوکاندار نے ایک دن یا دو دن کے بعد نیا سونا یا زیور بنا کر دینے کو کہا تب بھی اس کا شمار سود میں ہوگا ۔
حتی کہ اگر آپ صبح اپنا سونا دے کر دوپہر یا شام کو نیا سونا لے رہے ہیں تب بھی اس کا شمار سودی لین دین میں ہوگا ۔
جیسا کہ دلیل گزر چکی ہے ۔
اگر سندار یا دوکاندار پرانے سونے کے برابر نیا سونا نہیں دے رہا ہے تو آپ واپس لوٹ آئیں ۔
یا پھر دو شکلوں میں سے کوئی ایک شکل اختیار کریں ۔
1 - سندار یا دوکاندار کو اپنا پرانا سونا یا سونے کا زیور دیکر اسی کو صاف کرا لیں یا اسی سونے کو نئے طریقے سے بنوا لیں اور جو اجرت اور مزدوری ہو وہ اسے ادا کر دیں ۔
2 - پرانا سونا یا زیور دوکاندار سے فروخت کر دیں اور پیسہ اپنے قبضے میں لے لیں پھر پیسہ اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد چاہیں تو اسی پیسے سے نیا سونا خرید لیں ۔
بالکل یہی حکم چاندی اور اس کے زیور کا ہے ۔

تو ایسی صورت میں کمی زیادتی کے ساتھ لین دین کر سکتے ہیں ۔
کیونکہ یہاں جنس بدل جاتا ہے اور جب جنس بدل جائے تفاضل اور کمی و زیادتی جائز اور درست ہے ۔ جیسا کہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: "فإذَا اخْتَلَفَت هذهِ الأصْنَافُ ، فبيعوا كيفَ شئْتُمْ ، إذَا كانَ يدًا بِيَدٍ". (مسلم - الرقم: 1587 )
" کہ جب جنس بدل جائے ( یعنی سونے کی لین چاندی سے ہو یا چاندی کا لین دین سونے سے ہو) تو جیسے چاہو کمی و زیادتی کر کے لین دین کرو جب کہ نقدا ہو ".
البتہ اس کے صحیح ہونے کے لئے ایک شرط کا پایا جانا ضروری ہے اور وہ یہ کہ کسی بھی طرف سے ادھار نہ ۔
بلکہ ایک طرف سونا یا سونے کا زیور دے دوسری طرف سے چاندی یا چاندی کا زیور لے ۔
اگر کسی بھی طرف سے ادھار ہوا تو اس کا شمار سودی لین دین میں ہوگا ۔
____________________________

سونے اور چاندی کو آن لائن خریدے اور ڈلیوری ( delivery) کے وقت کیش میں قیمت ادا کرے ۔
یہ بھی نقد اور ہاتھوں ہاتھ نہ ہونے کی وجہ سے جائز اور درست نہیں ہے بلکہ اس کا بھی شمار سودی لین دین میں ہوگا ۔
جیسا کہ دلیل گزر چکی ہے ۔
___________________________

سونے اور چاندی یا ان کے زیورات کو قسطوں میں خریدے ۔ یعنی : قیمت کی ادائیگی قسط وار ادا کرے ۔
تو یہ بھی نقد، ہاتھوں ہاتھ اور ایک ہی مجلس میں نہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کا شمار سودی لین دین میں ہوگا ۔
ملاحظہ : اس سلسلے میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے ورنہ معمولی سے لاپرواہی ہمیں سود خوروں میں شامل کر دے گی ۔